• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رویے مثبت اور سوچ تعمیری ہوجائے تو قوم کے نوجوان تفکرات کی بھاری گٹھڑی اٹھائے خدشات کے اندھے رستوں میں بھٹکتے ہیں نہ بے عملی ان کی آنکھوں کے دریچوں میں فروزاں سپنوں کو بجھا کر ناامیدی کے اندھیروں کی راہ ہموار کر پاتی ہے۔تدبیر اور محنت ہرناممکن کے حصول کا کوئی رستہ تلاش کر لیتی ہے۔ تدبیر کی چابی ہنر کی صورت عطا ہو جائے تو محنت سے وسائل کے ہر بند صندوق تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت تعلیم یافتہ افراد میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے، جن کے پاس ایم اے کی کئی ڈگریاں ہیں مگر ہنر کے حوالے سے زیرو ہیں۔کسی بھی ملک اور سرکار کیلئے اوسط درجے کی ذہانت اور مخصوص مضامین میں اسناد حاصل کر لینے والے سب لوگوں کو سرکاری نوکری مہیا کرنا ممکن نہیں۔ دنیا بھر میںہنر سکھانے والے ادارے متحرک ہیں بلکہ بعض ممالک میں طالبعلمی کے دور سے بچوں کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں کسی نہ کسی ہنر کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کے بہت منصوبے اور پالیسیاں سامنے آئیں لیکن ہنر اور فنون سکھانے کے حوالے سے ہم سے ضرور کوتاہی ہوتی رہی۔ ورنہ ہمارے لوگ تخلیقی صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہیں اور محنت سے بھی کترانے والے نہیں۔

اس کوتاہی کے سبب بے روزگار نوجوانوں کا واحد خواب کسی دوردیس میں نوکری رہ جاتا ہے جس کیلئے وہ کڑی مشکلات برداشت کرتے ہیں۔ کبھی ان کی کشتیاں سمندر میں بہہ جاتی ہیں اور کبھی وہ کنٹینر میں دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں۔ جو پہنچتے ہیں ان میں سے بیشتر کو ایسی نوکریاں کرناپڑتی ہیں جو اپنے ملک میں وہ کبھی سرانجام دینے کو تیار نہ ہوں۔ یہ لوگ پاکستان کی تقدیر سنوار سکتے ہیں۔اگر ہم دنیا کی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے اپنے ملک میں موجود وسائل کو بروئے کار لائیں۔پچھلے دنوں احمد شہباز خاور کی دعوت پر ٹیوٹا(TEVTA) جانے کا اتفاق ہوا، وہاں لکڑی سے بنے فرنیچر، مٹی کےبرتنوں کے حوالے سے کام دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ پلمبر سے لے کر ہر قسم کے مکینک کو جدید تربیت دی جارہی ہے۔ دنیاگلوبل ویلیج بن چکی ہے لیکن ہم آج بھی دنیا سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش نہیں کررہے ۔ہمارے پڑوسی ملکوں بھارت اور بنگلہ دیش کی معیشت کا استحکام ان کے بیرون ملک مقیم شہریوں کا مرہون منت ہے جو ہر سال اربوں ڈالر کا زرمبادلہ اپنے ملک میں بھیجتے ہیں۔ عرب ملکو ں کے علاوہ امریکہ و یورپ کے سفر کے دوران وہاں مقیم پاکستانیوں سے بات ہوتی ہے تو وہ بڑے دکھ سے بتاتے ہیں کہ ہماری سی وی میں رٹا لگا کے حاصل کردہ اسناد کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔ہمارے تعلیمی معیار کے باعث ہماری ڈگریاں بھی اتنی قدرو منزلت کی حامل نہیں ہوتیں۔اس لئے، ریسٹورنٹ، ٹیکسی ڈرائیور اور مجبوری میں سخت مزدوری کرتے ہوئے نیشنلٹی کے چکر میں ایسے الجھتے ہیں کہ پھر وہیں کے ہو کے رہ جاتے ہیں۔ہندوستان میںہر سال لاکھوں لوگوں کو مختلف ہنر سکھا کر اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ قانونی طریقہ سے اپلائی کر کے بیرون ملک جاسکیں اور اچھی کمائی کر سکیں۔زیادہ تر بھارتی ، سری لنکن یا بنگلہ دیشی ٹیکنکل انجینئر،مکینک یا آٹی ایکسپرٹ ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں ہر کہیں نہ صرف کھلے دل سے قبول کیا جارہا ہے بلکہ ان کی آمدنی بھی ہم پاکستانیوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ایک بات اور کہ زیادہ تر پاکستانی غیر قانونی یا خفیہ طور پر ملک سے باہر جاتے ہیں تو ہنڈی کےذریعے پیسے بھیجنا شروع کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ عادی ہوجاتے ہیں جبکہ ہنڈی کے ذریعے بجھوائی گئی رقوم ملکی معیشت کو کوئی سہارا نہیں دیتیں۔

ٹیوٹا کے تحت مختلف شہروں میں ایسے ادارے موجود ہیں جو نوجوانوں کو میٹرک کے بعد سے ٹیکنکل شعبوں میں مہارتیں فراہم کر رہے ہیں۔ احمد شہزاد خاور جیسے افراد کسی ادارے کیلئے نعمت کی مانند ہوتے ہیں جو صرف لگے بندھے کام تک محدود اور مطمئن نہیں رہتے بلکہ ادارے کو ممکنات کی حد تک ترقی کی جانب لے جانے کو مقصد بناتے ہیں۔صوبے میں نوجوانوں کی صلاحیتیوں کو بہتر طور استعمال کرنے کیلئے اپنے ادارے کےا سٹاف کو ذہنی طور پر فعال کرنے پر یوں کمربستہ ہیں کہ اگلے چند سال میں ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا جاسکے۔

لوگوں میں یہ شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ روایتی اور دکھاوے کی ڈگریاں حاصل کرنے کی بجائے تکنیکی تعلیم حاصل کرنا زیادہ سودمند ہے۔ اگر نصاب میں تمام ہائر سیکنڈری اسکولوں میں چند ہفتوں پر مشتمل ٹیوٹا کورس لازمی قرار دیئے جائیں تو ملازمت کے انتظار میں مایوس اور ضائع ہونے والی صلاحیتیں ملک کی تقدیرجگا سکتی ہیں۔

تازہ ترین