• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ماں‘‘ بظاہر ایک سہہ حرفی، چھوٹا سا لفظ ہے، لیکن اِس ایک عام سے لفظ سے کیا کیا خاص مشروط نہیں۔ ایک ماں ہی تو ہے، جس کی بدولت دُنیا اِس قدر خُوش نما اور رہنے کے قابل جگہ لگتی ہے۔ وہی تو ہے، جو اولاد کے مُسکراتے چہرے میں پوشیدہ فکرات، بےقراری بھانپ لیتی ہے، جس کے ہونے سے گھر، گھر، جس کی برکت سے باورچی خانہ پُررونق اور دسترخوان بَھرا بَھرا لگتا ہےاور وہی تو ہے، جس کی ایک آواز پر مضطرب دل سُکون پاتا، تو دن بَھرکی تھکان چُھومنتر ہوجاتی ہے۔ کہتے ہیں،’’چھوٹے بچّوں کو ماؤں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے‘‘، لیکن ہم نہیں مانتے کہ ماں کی ضرورت تو عُمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ جیسے جیسے ہم پر دنیا کا مکرو فریب آشکار ہوتا جاتا ہے، دل ماں سے مزید قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ 

عموماً ایک عورت کو مرد کی نسبت کم زور سمجھا جاتا ہےکہ اللہ نے اُس کا سانچا ہی کچھ ایسا بنایا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب وہی عورت ماں بنتی ہے، تو پھربڑی سے بڑی مشکل کا سامنا کرنے سے نہیں گھبراتی۔ تب ہی تو ایک عورت ضرور عام یا خاص ہوسکتی ہے، لیکن ایک ماں ہمیشہ خاص ہی ہوتی ہے، جو کبھی اولاد کے لیےمعالج، اُستانی، اداکارہ، گلوکارہ، حجام، درزن، باورچن، دھوبن، موچی اور ماسی بن جاتی ہے، تو کبھی اپنے بچّوں کی تعلیم و تربیت، بہتر مستقبل کے لیے کمانے نکل کھڑی ہوتی ہےاور کبھی اولاد ہی کی خاطر اپنا بکھرا وجود سمیٹ کر پھر سے جینا شروع کردیتی ہے۔ آج دنیا بَھر میں ’’مائوں کا عالمی یوم‘‘ منایا جا رہا ہے، تو اِسی مناسبت سے ہم نے معاشرے کی اُن چند ماؤں (ورکنگ مدرز) سے بات چیت کی ہے، جنہیں عام طور پر لاپروا خیال کیا جاتا ہے، اچھی مائیں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ تو آیئے، کچھ ملازمت پیشہ ماؤں کے خیالات جانتے، پیرنٹنگ اسٹائل اور مسائل کا جائزہ لیتے ہیں۔

…٭٭……٭٭……٭٭……٭٭……

حبیبہ سلطانہ
حبیبہ سلطانہ

چار بچّوں کی والدہ حبیبہ سلطانہ ایک سرکاری اسکول سے بطور سیکنڈری اسکول ٹیچر سبک دوش ہوئیں اور ریٹائرمنٹ سے قبل ایک پرائمری اسکول میں بطور پرنسپل بھی فرائض سرانجام دیتی رہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ویسے تو الحمد للہ ،میرے چار بچّے(ایک بیٹا، تین بیٹیاں ) ہیں، لیکن سب سے چھوٹی بیٹی (ایرج)، میری امّی کے انتقال کے بعد پیدا ہوئی۔ میرا گھر اور اسکول امّی کے گھر سے بہت قریب تھے، تو ملازمت پر جانے کے بعد تین بڑے بچّوں کو میری امّی ہی سنبھالتی تھیں۔

یہاں مَیں یہ بھی بتانا چاہتی ہوں کہ مَیں نے کبھی اپنا گھر ، بچّے ماسیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑے۔ اس زمانے میں میری سیکنڈ شفٹ ہوا کرتی تھی، تو اسکول جانے سے پہلے مَیں گھر کا تمام کام کر کے جاتی تھی۔ لیکن پھرجب میری والدہ کا انتقال ہوا،تو لگا، جیسے دنیا اندھیر ہوگئی ہےکہ امّی نے تو جیسے میری ہر ذمّے داری ، ہر بوجھ اُٹھایا ہوا تھا۔ بعدازاں چھوٹی بیٹی کی پیدائش ہوئی، توسچ کہوں تو اصل امتحان تب شروع ہوا کہ میری سب سے بڑی معاون اور قابلِ بھروسا ہستی اس دنیا سے جا چُکی تھی۔ گوکہ میرے سُسرال والے بھی بہت اچھے تھے، لیکن گھر دُور ہونے کے سبب روزانہ وہاں جانا ممکن نہیں تھا۔ 

خیر، اس دوران تین بڑے بچّے اسکول جانے لگے اور میرے پیچھے ایرج کو سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا، تو مَیں نے اپنی پرنسپل کی اجازت سے اُسے اپنے ساتھ اسکول لے جانا شروع کردیا، پھر جب ایرج ذرا سمجھ دار ہوگئی، تو اسے گھر پر چھوڑ کر جانے لگی ۔ بہت سی ملازمت پیشہ خواتین یہ شکایت کرتی ہیں کہ لوگ، بالخصوص سسرال والے اُن کے بچّے نہیں سنبھالتے، تو مَیں اس بات سے متفق نہیں، کیوں کہ ہم ملازمت اپنے اور اپنی فیملی کے لیے کرتے ہیں، توکسی اور پر اپنی ذّے داریوں کا اضافی بوجھ کیوں ڈالیں، کوئی دوسرا، (چاہے وہ ہماری ماں،ساس ہی کیوں نہ ہوں) ہمارے بچّے سنبھالنے کے پابند نہیں اور اگر کوئی بخوشی ایسا کر رہا ہے، تو اس کا احسان ماننا چاہیے۔

مَیں جب ملازمت کرتی تھی، تو فجر میں اُٹھتی، نماز، قر آن پڑھنے کے بعد کچن اور صحن کی صفائی کرتی(یہ میری والدہ کی نصیحت تھی، جس پر آج تک ہم عمل پیرا ہیں)۔پھر ناشتا ، بچّوں کا لنچ تیار کرتی، اس دوران میرے شوہر، بچّوں کے تیار ہونے میں مدد کرتے اور مَیں ساتھ ہی دوپہر کے کھانے کی تیاری بھی کرکے ساڑھے سات بجے اسکول چلی جاتی ، جہاں سےساڑھے بارہ بجے واپسی ہوتی۔ گھر آتے ہی چادر اتار کر باقی گھر کی صفائی ستھرائی میں لگ جاتی، ڈھائی بجے تک بچّے واپس آتے، اُنہیں کھانا کھلاتی، اُن سےاسکول کی رُوداد سنتی اور پھر خود بھی لیٹتی اور اُنہیں بھی سلادیتی۔ شام پانچ بجے بچّے گلی میں کھیلنے جاتے، تو مَیں بھی وہیں بیٹھ جاتی تاکہ بچّے میری نظروں کے سامنے ہی رہیں۔مغرب ہوتے ہی بچّے گھر آجاتے ، ہوم ورک وغیرہ کرتے اور ٹھیک نو بجے ہم سب سوجاتے تھے۔ 

ہم کبھی رشتے داریاں نبھانے میں پیچھے رہے اور نہ ہی بچّوں کی تعلیم و تربیت پر سمجھوتا کیا۔ یاد رکھیں، جب ہم اپنی ذمّے داریاں دوسروں پر ڈالتے ہیں، تب ہی لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع ملتا ہے، تو ہم نے کبھی کسی کو یہ موقع ہی نہیں دیا۔ یقین کریں کہ 40،42 سال کی سروس میں، مَیں نےایک مرتبہ بھی (سوائے حج پر جانےکے) سالانہ چھٹیاں نہیں لیں۔ جہاں تک بات ہے، ہمارے اور آج کل کےزمانے کی، تو آج کی مائیں ذرا جلدی جھنجھلا جاتی ہیں، مانا کہ آج کا دَور زیادہ تیز اور افراتفری کا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی فرسٹریشن بچّوں پر نکالی جائے۔‘‘

ڈاکٹر ماورا شاہد
ڈاکٹر ماورا شاہد

ڈاکٹر ماورا شاہد سوا تین سال کی ایک بچّی کی ماں ہیں اور پیڈیاٹریشن (چائلڈ اسپیشلسٹ) بن رہی ہیں۔ اپنے معمولات کے حوالے سے بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’مَیں عبّاسی شہید اسپتال سے ریزیڈینسی (چار سالہ تربیت) مکمل کر رہی ہوں۔ یہاں میرے اوقاتِ کار صبح نو سے دو بجے تک کی ہیں، نیز، کالز بھی کرنی ہوتی ہیں(یعنی صبح نو بجے اسپتال جاؤ تو اگلے دن راؤنڈ کرواکے دوبجے تک واپسی ہوگی، جو قریباً 32 یا 38 گھنٹے بن جاتے ہیں)۔ ابتدائی دو برس میں ہر چوتھے دن ایک کال ہوتی ہے۔ یہ تو بات ہوئی میری ملازمت کی، لیکن ساتھ ہی مَیں ایک بیوی، بہو اور ماں بھی ہوں اور یہ مشکل تب دو چند ہو جاتی ہے، جب ساس بیمار اور آپ گھر کی اکیلی خاتون ہوں۔

جب میری بیٹی ، منسا پیدا ہوئی، تو اس وقت کورونا عروج پر اور لاک ڈاؤن سخت تھا، مگر میٹرنٹی چھٹیوں کے مکمل ہوتے ہی مجھے دو ماہ، بیس دن کی بیٹی کو چھوڑ کر ڈیوٹی جوائن کرنی پڑی اور ظاہر ہے، وہ بہت کٹھن وقت تھا۔لوگوں نے باتیں بھی بنائیں کہ اتنی سی بچّی کو چھوڑ کر جا رہی ہے،لیکن میرے شوہر نے میرا بھرپور ساتھ دیا، وہ ورک فرام ہوم پر تھےاور ساتھ ہی بچّی کو بھی بخوشی سنبھالتے۔ 

یہاں مَیں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گی کہ ڈاکٹر بننے میں صرف ایک انسان کی محنت نہیں ہوتی، اس سے وابستہ ہر رشتے، خاص طور پر والدین اور پھر شوہر کی بھرپور محنت اور تعاون بھی شامل ہوتا ہے۔ جیسے میری کال ہوتی ہے، تو میرے بابا کھانا دینے اسپتال آتے ہیں تاکہ مجھ سے مل سکیں، مجھے دیکھ سکیں۔ میرا گھر ایف بی ایریا اور میکہ نارتھ کراچی میں ہے، تو مَیں ڈیوٹی پر جانے سے پہلے بیٹی کو مما کے پاس چھوڑنے جاتی ہوں، اسی طرح شام کی بھی یہی روٹین ہوتی ہے، پھر گھر پہنچ کر گھرکے کام کرنے ہوتے ہیں، تو ورکنگ مدرز ، بالخصوص ڈاکٹر مدرز کے معمولات بے انتہا سخت ہیں اور وہ یقیناً عام ماؤں کی نسبت کچھ بہتر مائیں ہی ہیں۔ ‘‘

سائرہ نیازی
سائرہ نیازی

دو بچّوں(ایک بیٹا، ایک بیٹی)کی والدہ ،سائرہ نیازی کلینیکل سائیکالوجسٹ ہیں، انہوں نے رودادِ زندگی کچھ یوں سُنائی کہ ’’میری بیٹی پانچ سال کی، جب کہ بیٹا چھوٹا ہے۔ جب پہلی مرتبہ بیٹی کو چھوڑ کر ملازمت پر جا رہی تھی، تو وہ احساسات الفاظ میں بیان ہی نہیں کر سکتی کہ بہت ہی مشکل وقت تھا۔

بہرحال ،یہ تسلّی ضرورتھی کہ بچّی کسی غیر کے ہاتھوں میں نہیں، اپنی نانی کے پاس ہے۔ ویسے تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ’’ اس عمر میں بچّوں کو اپنی ماں کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ اوّل تو ماں کی ضرورت کسی خاص عُمر میں نہیں، ہر عُمر میں ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ماں چاہےملازمت پیشہ ہویا گھریلو،بچّوں کواس کے کوالٹی ٹائم کی ضرورت ہوتی ہے،تو اس ضمن میں میری تو یہی کوشش ہوتی ہے کہ ملازمت سے آنے کے بعد زیادہ سے زیا دہ وقت اپنے بچّوں کے ساتھ ہی گزاروں۔ بیٹا تو ابھی چھوٹا ہے، لیکن بیٹی اسکول جاتی ہے، تو اس کا ہوم ورک کروانا، اسکول کی ساری کہانیاں سننا میرا روز کا معمول ہے۔ ‘‘

وردہ خان
وردہ خان

وردہ خان ایک بیٹی کی ماں اور پولیس کے انسدادِ دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ میں سب انسپکٹرہیں۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ویسے تو ماں چاہے گھریلو ہو یا ملازمت پیشہ، اُس کی ممتا، فکرات اور پریشانیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں، لیکن ملازمت پیشہ ماؤں کی ذمّے داریاں، مشکلات اس حوالے سے زیادہ ہیں کہ اُنہیں دفتر میں بھی سو فی صد کارکردگی دکھانی ہوتی ہے اور گھر پر بھی۔ 

جہاں تک بات ہے، معاشرے کی، تو میرا خیال ہے کہ لوگوں کا کام صرف اور صرف باتیں بنانا ہے، اس لیے مَیں کبھی اِن باتوں پر توجّہ نہیں دیتی کہ اولاد کی فکر ایک ماں سے زیادہ کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ مَیں خُود سے سو فی صد مطمئن ہوں کہ مَیں وہی کر رہی ہوں، جو میری نباء (بیٹی) کے لیے بہتر ہے۔ ہاں، مجھے ایک بات کا شدّت سے احساس ہوتا ہے کہ میری سخت ڈیوٹی کے سبب نباء کو بہت سی جگہوں پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے، مگر میری بیٹی بہت سمجھ دار ہے۔ وہ مجھ سے اکثر کہتی ہے کہ ’’ماما! مجھے پتا ہے، آپ کی ڈیوٹی سخت ہے، ورنہ آپ مجھے کبھی اکیلا نہ چھوڑیں۔‘‘

ڈاکٹر سندس علی
ڈاکٹر سندس علی

دو بیٹیوں کی ماں، ڈاکٹر سندس علی پیشے کے اعتبار سے انجینئر اور محقق ہیں اور این ای ڈی یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے ٹیلی کمیو نی کیشن انجینئرنگ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی بات کا آغاز کچھ اس طرح کیا کہ ’’مجھے اپنی فیلڈ، اپنے پروفیشن سے عشق ہے، تو جب آپ کا کام آپ کا جنون ہوتو اسے جاری رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی راہ نکل ہی آتی ہے، لیکن اولاد ایک ایسی نعمت ہے، جو عورت کے سوچنے کا زاویہ ہی بدل کر رکھ دیتی ہے، تو جب میٹرنٹی لیوز کے بعد آفس جانے کا وقت آیا تو دل میں بہت سے خدشات نے گھر کرنا شروع کردیا کہ دو ماہ کی بچّی کو چھوڑ کر کیسے جاؤں گی، لیکن مَیں کہیں نہ کہیں یہ بھی جانتی تھی کہ کیریئر ہمیشہ ہی سے میری ترجیحات میں شامل رہا ہے، پھر میرے شوہر اور سُسرال بھی بہت زیادہ سپورٹیو ہے، تو ان کے تعاون سے جاب پر واپس گئی۔ حالاں کہ شروع شروع میں ہر دو، تین گھنٹے بعد اچانک سے ایک ہڑک سی اُٹھتی تھی، لیکن پھرآہستہ آہستہ سب مینیج ہوگیا۔ الحمدُللہ ،میری بڑی بیٹی آج آٹھ سال کی ہو چُکی ہے، لیکن ایک بات، میرے اندر کہیں ایک شرمندگی کی کیفیت یا ’’مدر گِلٹ‘‘ بہرحال موجود ہے۔

اسی لیے مَیں نے اپنے لیے ایک اصول بنالیا ہے کہ ملازمت کے بعد میرا تمام وقت صرف بچّوں کے لیے مختص ہوگا۔ اسی وجہ سےمَیں کوکنگ بھی خود نہیں کرتی، مگر بچّوں کوٹیوشن کے لیے نہیں بھیجتی، خود پڑھاتی ہوں ،تا کہ انہیں یہ احساس نہ ہو کہ ان کی ماں نوکری کرتی ہے، اس لیے وقت نہیں دے پاتی۔ ہر کسی کا پیرنٹنگ اسٹائل مختلف ہوتا ہے اور ہمارا (میرا اور شوہرکا) یہ فیصلہ ہے کہ بچّے اگر ٹی وی بھی دیکھیں تو ہم ان کے ساتھ ہوں، یعنی وہ ایک فیملی ٹائم ہو، پھر شام میں بچّوں کو پارک بھی لے کر جاتے ہیں اور ان کی دن بَھر کی رُوداد بھی پوری توجّہ سے سُنتے ہیں۔‘‘

بینش صدّیقہ
بینش صدّیقہ

دو بیٹیوں کی ماں بینش صدّیقہ صحافی ہیں اور ایک طویل عرصے سے ریڈیو، نیوز چینلز سے وابستگی کے ساتھ پی ایچ ڈی بھی کر رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے تجربات اس طرح شیئر کیے کہ ’’میری بڑی بیٹی، فاطمہ میری طاقت ہے۔ مَیں تو شادی کے بعد ملازمت کو خیر باد کہہ چُکی تھی لیکن اس کے علاج کی خاطر ملازمت کی اور ادھوری تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ مجھے ڈاکٹر زتک نے کہا کہ آپ اس بچّی پر محنت مت کریں، بس اللہ کے سپرد کردیں، لیکن ایک ماں کیسے ہار مان سکتی تھی، سو مَیں ڈٹی رہی۔ 

لوگوں کی باتیں سُنیں کہ ’’یہ بچّی اس کے گناہوں کی سزا ہے‘‘ لیکن مَیں نے سب اَن سُنی کرکے تمام تر توجّہ اپنی بچّی پر مرکوز کیے رکھی، وہ بچّی، جس کی چار سال کی عُمر میں 12برین سرجریز ہوئیں۔ اور جس وقت میری ساری سیونگز ختم ہو چُکی تھیں، اپنا وجود ایک زندہ لاش محسوس ہونے لگا تھا، اُس وقت اسپتال کے ویٹنگ ایریا میں بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ اب نہ صرف ملازمت کروں گی بلکہ ایم فِل کا تھیسز مکمل کرکے پی ایچ ڈی بھی کروں گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔

اسپتال میں داخل اپنی چھوٹی سی فاطمہ کو سُلا کر مقالہ لکھتی۔ فاطمہ پیدائش کے وقت بالکل نارمل تھی، لیکن چند ماہ بعد گردن توڑ بخار کا شکار ہوگئی ، جس سے اس کے سر میں پانی بھرجاتا ہے۔ خیر، فاطمہ کی بیماری نے ہر ایک کا چہرہ میرے سامنے کھول کر رکھ دیا، وہ بہت مشکل دَور تھا، لیکن میرے گھر والے میری طاقت بنے۔ مَیں اکثر سوچتی ہوں کہ ایسی مشکلات بہت کم لوگوں پر آتی ہیں، لیکن ایسے پیارے اہلِ خانہ بھی کم ہی لوگوں کے نصیب میں آتے ہیں۔ یقین کریں کہ مَیں فاطمہ کی بیماری میں مسلسل ایک مہینہ اسپتال سے دفتر اور دفتر سے اسپتال آتی جاتی تھی، میرے شوہر بھی بہت خیال کرنے والے ہیں، لیکن ماں کی مشقتیں تو ماں ہی سمجھ سکتی ہےاور اب تو فاطمہ کی چھوٹی بہن، عائشہ بھی دنیا میں آچُکی ہے، تو ممتا کے ساتھ ساتھ میری ذمّے داریاں بھی مزید بڑھ گئی ہیں۔ ‘‘

فاطمہ سعد
فاطمہ سعد

تین بچّوں(دو بیٹیوں، ایک بیٹے)کی والدہ فاطمہ سعد ملیر یونی ورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ پبلک ہیلتھ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، انہیں ملازمت کرتے ہوئے قریباً 17،18 سال ہو چُکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’میرا بیٹا(آیان) گیارہ سال، بڑی بیٹی(انعمتا) سات سال اور چھوٹی بیٹی (الہایا)چار سال کی ہے۔ جب آیان کی پیدائش کے بعد پہلی مرتبہ آفس جانے لگی، تو بہت ہی عجیب سے جذبات و احساسات سے گزر ی کہ ایک تو بچّہ مدر فیڈ پہ تھا، پھر اُس وقت بہت ہی چھوٹا تھا، تو اسے چھوڑ کر جانے کی شرمندگی بھی ہوتی، ایسا لگتا جیسے کوئی جرم کر رہی ہوں۔ آیان کو اس کی پھپھو اور دادا، دادی سنبھالتے تھے، تو وہ مجھ سے زیادہ اُن کے قریب ہوگیا،تو اس بات سے بھی مَیں بہت پریشان ہوگئی تھی، لیکن وقت گزرتا گیا اور پھر سب نارمل ہوگیا۔

جہاں تک بات ہے کہ آفس جانے کے بعد بچّے کا خیال آتا تھا یا نہیں، تو اس وقت میرا کام لیبارٹری میں ہوتا تھا، جہاں ایک بار داخل ہوجائیں تو پھر کسی اور چیز کا خیال ہی نہیں رہتا اور سچّی بات ہے کہ کام کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ سارا دھیان صرف اور صرف کام ہی پر مرکوز رکھنا پڑتا ہے۔ پھر جب انعمتا پیدا ہوئی تو مَیں اُسے خوشی خوشی ’’اللہ حافظ ‘‘ کہہ کر جاتی تھی کہ اسے بھی شروع ہی سے عادت تھی کہ ماما کو جاب پر جانا ہے۔

ویسے تو میرے دونوں بچّے پڑھائی میں بہت اچھے ہیں ، لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ورکنگ مدرز کو ایک مشین سمجھا جاتا، انہیں ہر بات پر جج کیا جاتا ہے۔ جیسے جب آیا ن ساڑھے تین سال کا ہواتو مَیں نے اسے کوچنگ بھیجنا شروع کردیا تھا ، جس کی دو وجوہ تھیں، ایک تو یہ کہ مَیں جوائنٹ فیملی میں رہتی ہوں تو بچّوں کی رُوٹین سیٹ کرنا چاہتی تھی، دوسرا یہ کہ اچھے اسکول میں داخلے کے لیے بھی تیار کرنا تھا۔ خیر، تو جب سب کو پتا چلا تو کچھ لوگوں نے کہا ’’کیا فائدہ اس قدر تعلیم یافتہ ہونے کا، جب نرسری کے بچّے کو نہ پڑھا سکو ‘‘لیکن جب آیان کا داخلہ بی وی ایس اور انعمتا کا ماما پارسی اسکول میں ہوا، تو سب کے منہ بند ہو گئے ۔ ‘‘

گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول،ایس ٹی 10، اورنگی ٹاؤن میں درس و تدریس سے وابستہ تین بچّوں کی ماں ،فرزانہ خان نیازی کا کہنا ہے کہ ’’میرے دو بچّے اسکول جاتے ہیں، جب کہ چھوٹا بیٹا میری امّی کے پاس رہتا ہے۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ ماؤں کی ذمّے داریاں، ان کے فرائض اورمشقت کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے، لیکن جب ماں ملازمت پیشہ ہو اور بچّے بھی چھوٹے ہوں، تواس مشقّت میں دُگنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ 

مَیں روزانہ صبح پانچ سے چھے بجے کے درمیان اُٹھتی اور رات کو سب سے آخر میں سوتی ہوں۔ صبح اُٹھ کر سب سے پہلے ناشتا ، پھر بچّوں کا لنچ تیار، پیک کرتی ہوں،بچّوں کو اُٹھاتی، انہیں اسکول کے لیے تیار کرتی ہوں ساتھ ہی سب سے چھوٹے والے بیٹے کو بھی نہلا دُھلا کر صاف ستھرا کرتی ہوں تاکہ میرے پیچھے امّی کو کوئی پریشانی نہ ہو۔پھر میرے شوہر ہم ماں ،بچّوں کو اسکول ڈراپ کرتے ہوئے کام پر چلے جاتے ہیں۔ میری واپسی قریباً پونے دو بجے ہوتی ہے، تو گھر پہنچتے ہی کچن میں جاتی ہوں تاکہ بچّوں کے آنے سے پہلے کھانا تیار ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک عورت بلکہ ماں بڑی مضبوط ہوتی ہے، وہ ملازمت کے ساتھ گھربار بھی بہت اچھی طرح سنبھالتی ہے، لیکن لوگوں کے رویّے، ان کی باتیں اسے تھکا دیتے ہیں۔

جیسے ، میری کوشش ہوتی ہے کہ صبح جانے سے پہلے گھر کا زیادہ سے زیادہ کام نمٹا لوں،اکثر کپڑے بھی دھوکر چلی جاتی ہوں تاکہ آنے کے بعد زیادہ سے زیادہ وقت بچّوں کے ساتھ گزار سکوں،تو کبھی اچانک مہمان آجائیںتو فوراً ’’مشورہ‘‘ دے دیتے ہیں کہ ’’گھر سمٹا ہوا ہونا چاہیے، کپڑے ابھی تک کیوں رسّی پر پڑے ہیں…‘‘ جانے ہم دوسروں سے متعلق رائے قائم کرنے میں اتنی جلدی کیوں کرتے ہیں، ’’ورکنگ مدر‘‘ کے کاندھوں پر دُگنی ذمّےداری ہوتی ہے، وہ ملازمت سے واپس آتے ہی گھر سمیٹنے نہیں لگے گی بلکہ ترجیح اُس کے بچّے ہوں گے، پھر مَیں اپنے بچّوں کو پڑھاتی بھی خود ہی ہوں، تو ظاہر ہے، اُس میں بھی وقت لگتا ہے، تو میرے خیال میں تو لوگ اگر اپنے کام سے کام رکھیں، تو سب کی زندگیاں آسان ہوجائیں۔‘‘

قراۃ العین مظفر تین بچّوں کی ماں اور لیاقت نیشنل اسپتال کے فارمیسی سروسز ڈیپارٹمنٹ کی سپر وائزر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ ملازمت پیشہ ماؤں کی سب سے بڑی مجبوری ’’ٹائم باؤنڈ‘‘ ہونا ہے، یعنی ہم کسی دعوت ، شادی بیاہ میں جائیں یا گھومنے پھرنے، ایک مخصوص وقت سے زیادہ نہیں رُک سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈیوٹی پر بھی جانا ہوتا ہے اور بچّوں کو بھی اسکول وغیرہ کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے۔ ہماری زندگی گھڑی کی رفتار کے ساتھ چلتی ہے۔ جب میرے دونوں بڑے بچّے چھوٹے تھےاور کبھی بیمار ہو جاتے تو سُننا پڑتا کہ ’’ماں گھر پر نہیں رہتی، اس لیے بیمار ہوگئے‘‘ جب کہ بیماری کا ماں کے گھر پر رہنے یا نہ رہنے سے کوئی تعلق نہیں ۔ 

پھر ایک بات یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ ٹھیک ہے ، بچّوں کی تعلیم و تربیت میں ماں کی ذمّے داری اور کردار انتہائی اہم بلکہ ناگزیر ہے، لیکن یہ صرف ماں ہی کی نہیں، باپ کی بھی ذمّے داری ہے۔ جب ایک بیوی اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لیے ملازمت کر سکتی ہے، تو شوہرگھرکے کاموں میں اس کا ہاتھ کیوں نہیں بٹاسکتا۔ الحمدُ للہ! میرے شوہر اور میکے والےبہت سپورٹیو ہیں اوراسی لیے مَیں گھرداری اور آفس کی تمام ذمّے داریاں احسن طریقے سے نبھا پاتی ہوں۔ ‘‘

سنڈے میگزین سے مزید