• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بینظیر انکم سپورٹ سے 90 لاکھ غریب خاندانوں کی کفالت ہورہی ہے، شازیہ مری

چیئرپرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) شازیہ مری نے کہا ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اس وقت 90 لاکھ غریب خاندانوں کی مالی کفالت کر رہا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج پہلی قومی سماجی تحفظ کانفرنس کے تیسرے اور آخری روز اپنے خطاب میں کیا۔

یہ کانفرنس بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی جانب سے جرمن ادارہ جی آئی زیڈ کے تعاون سے منعقد کی جا رہی ہے جس میں عالمی بینک و دیگر عالمی اداروں کے نمائندگان، وفاقی و صوبائی حکومتوں کے اعلیٰ افسران اور معاشی ماہرین بھی شریک ہیں۔

شازیہ مری نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ملک کے سب سے بڑے سماجی تحفظ پروگرام ہونے پر فخر ہے، اس کامیابی کیلئے ہم اپنے ترقیاتی شراکتی اداروں کے بے حد شکرگزار ہیں۔

وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ ملک کے تمام مستحق افراد کو سماجی تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ایک ایسا نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس کے تحت سماجی تحفظ کے تمام پروگراموں اور اقدامات کو یکجا کیا جاسکے۔

شازیہ مری نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، ’بینظیر تعلیمی وظائف‘ اور ’بینظیر نشوونما‘ کے ذریعے مستحق گھرانوں کے بچوں کی تعلیم اور صحت میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم دیگر صوبائی و بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر مشترکہ مالی معاونت اور ڈیٹا کے اشتراک سے غریب گھرانوں کی معاشی بہتری کیلئے منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سماجی تحفظ کانفرنس میں ہونے والے ڈائیلاگ کو مستقبل میں بھی جاری رہنا چاہیے۔ انہوں نے بی آئی ایس پی اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین ایک مشاورتی فورم کے قیام کی تجویز پیش کی۔

وفاقی وزیر نے شرکاء کو آگاہ کیا کہ حال ہی میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بلوچستان کی عوام کیلئے تعلیم اور صحت سے متعلق پروگرام کے آغاز کی منظوری دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ہیومن کیپٹل ڈیولپمنٹ میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں سماجی تحفظ اور قدرتی آفات کے باعث پیدا ہونے والے معاشی بحرانوں سے نمٹنے کیلئے بین الاقوامی طریقہ کار اور منصوبہ بندی کو اپنانے کی ضرورت ہے۔

شازیہ مری نے صوبوں سے آئے ماہرین و ذمہ دار افسران کو اپیل کی کہ اس کانفرنس سے استفادہ کرکے صوبائی سطح پر ایسا نظام وضع کریں جس سے ہنگامی حالات میں عوام کو تیزی سے امداد کو یقینی بنایا جاسکے۔

کانفرنس کے تیسرے اور آخری روز عالمی اداروں کے نمائندگان، وفاقی و صوبائی حکومتوں کے اعلیٰ سطح کے افسران و ماہرین نے ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے یا کسی بھی قسم کے ہنگامی حالات کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحرانوں میں متاثرہ لوگوں کی بروقت امداد کیلئے سرکاری اداروں کی استعداد بڑھانے کی تجاویز پیش کیں۔

پہلے سیشن میں یونیسیف کے پاکستان میں ڈپٹی کنٹری ڈائریکٹر انئوثا کابور نے گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب کا ذکر کیا اور ایسی صورتحال میں متاثرہ لوگوں خاص کر بچوں کے تحفظ کیلئے تجاویز دیں۔

اس موقع پر عالمی بینک کے گل نجم جامی، پی ایس پی اے کے علی شہزاد، سیکریٹری بی آئی اسی پی یوسف خان و دیگر نے بھی مختلف تجاویز پیش کیں۔

کانفرنس میں عالمی بینک کے نمائندگان فلپ لیٹے اور مظفر علی، جی آئی زی کی مس جوھانہ، سیکریٹری ویلفیئر سندہ شیریں مصطفیٰ، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈی جی نیشنل ڈائنامک رجسٹری نوید اکبر نے بھی خطاب کیا۔

قومی خبریں سے مزید