• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خود کو عقلِ کُل سمجھنے کی بیماری آپ کے ذہن کو مفلوج کر دیتی ہے۔آپ کی آزادی ختم ہو جاتی ہے کیونکہ آپ انا کے حصار میں یوں جکڑے جاتے ہیں کہ کسی خیرخواہ اور دوست کا مشورہ بھی آپ کو ناگوار گزرنے لگتا ہے۔ ہمارے ارد گرد پھیلی بے سکونی اّنا کی قیدی شخصیات کی مرہونِ منت ہے۔بہت آوازیں دی گئیں، صلاح مشوروں سے بڑھ کر تنبیہ کی گئی، کسی ڈگر پر رکنے اور سوچنے کی درخواست ہوئی، کسی نقطے پر سمجھوتہ کرنے کا مطالبہ ہوا، بہت کچھ نظرانداز کیا جاتا رہا مگر سر پٹ بھاگنے والے نے نہ دوستوں کی دردمندانہ بات سنی نہ خیرخواہوں کے تجزیوں پر کان دھرے نہ سرخ اشارے کی پروا کی۔

وہ سرخ اشارہ توڑ دیا جو تمام تر نظم ونسق کی علامت تھا۔ ہر شے اور رشتے آپس میں ٹکرا کر چکنا چور ہونے لگے۔ زخم کچھ چہروں پر آئے مگر کرچیاں تمام روحوں میں سرایت کر گئیں۔ جنکی چبھن ہمیشہ رہنے والی ہے۔ جنون کی منزل کبھی پرسکون نہیں ہوتی بلکہ جنون کی منزل ہوتی ہی نہیں کیونکہ جنون کی اندھی دوڑ بندگلی میں جا کے اختتام پذیر ہوتی ہے جہاں تباہی لازم ہو جاتی ہے۔ لوگوں کی آنکھوں اور باتوں سے بجلی بن کرگرتی وحشت بے سبب نہیں۔ پون صدی کی کوتاہیوں، مجرمانہ غفلتوں اور استحصال کا نتیجہ ہے۔ ملک معاشی برابری کیلئے حاصل کیا گیا اُس میں باقاعدہ طبقاتی تقسیم کی پرورش کی گئی۔ کمزوروں کو دبایا اور غاصبوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔بھٹو،بینظیر،نواز جیسی جمہوری شخصیات کی بے توقیری اور بار بار جمہوری قدروں کی تذلیل نے عوام اور دفاعی ادارے کے درمیان خاموش ناپسندیدگی کو جنم دیا۔ وقت کے بوئے بیج کی پچاس برس کے حالات و واقعات نے ایسی پرورش کی کہ یہ نہ صرف دلوں میں نفرت بن کر پھیلا بلکہ سوچ کو زہر آلود کر گیا۔خان صاحب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس قطرہ قطرہ زہر کو یکجا کر کےنفرت اور اشتعال کا جواز بنایا۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس نفرت کا زہر آہستہ آہستہ دلوں اور ذہنوں سے تلف کیا جاتا کہ دلوں اور ذہنوں کے زہر جڑی بوٹیوں کی طرح زہریلی دوائیوں اور مارپیٹ سے ختم نہیں کئے جاسکتے۔ یہ بہت گہرے ہوتے ہیں جہاں صرف فکر کے انجکشن کام کرتے ہیں۔ ان کیلئے طویل اور جامع منصوبہ بندی کی جاتی ہے، معاملات کی تفہیم ممکن کی جاتی ہے، رویوں کو بدلا جاتا ہے، شکوے دور کئے جاتے ہیں اور حق تلفی کی نفی کرنے والا نظام اصلاحات متعارف کرایا جاتا ہے۔ فوج کے نیوٹرل ہونے اور سیاستدانوں کے جمہوریت کے خلاف سمجھوتے نہ کرنے سے اس کا آغاز ہو بھی گیا تھا مگر جنہیں بہت جلدی تھی انھوں نے اس قطرہ قطرہ نفرت کو بارود کے گولوں میں تبدیل کر دیا۔جن کی قسمت میں اپنا اور دوسروں کا نقصان ہی ہوتا ہے۔نفرت شر ہے اور شر بارود کی مانند ہے جو اچھے برے میں فرق نہیں کر سکتا صرف تباہ کر سکتا ہے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ ریاستی اداروں نے فساد برپا کرنے والوں کا ہاتھ روکنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ شرپسندوں کیلئے نرم رویہ ریاست کی پسپائی ہوگی کیونکہ یہ جس نہج تک پہنچ چکے ہیں آسانی سے باز نہیں آئیں گے۔ان کی اصلاح اور بہتری کے ساتھ ملکی مفاد کی خاطر انھیں سبق سکھانا ضروری ہو چکا ہے ورنہ دنیا ایک ایسے ملک سے ،جس پر متشدد ہجوم کا قبضہ ہو، جہاں نہ لوگ محفوظ ہوں نہ املاک، کوئی کاروباری مراسم قائم نہیں کرنا چاہے گی۔پہلے بدامنی کے حالات میں دفاعی ادارے کی ضمانت کام کر جاتی تھی اب تو اسے بھی بے وقار کرنے کی کوشش جاری ہے۔کچھ لوگ حکومت اور دفاعی ادارے کو ان لوگوں کے ساتھ نرم رویے کی استدعا کر رہے ہیں جنہوں نے گاڑیوں، املاک کے ساتھ کرنل شیرخان جیسے سپاہیوں کے مجسموں کی بے حرمتی کی، جنگی جہازوں،ایمبولینسوں کو جلایا، جناح ہائوس میں رکھی قائد اعظم کی نشانیاں خاکستر کیں۔ یقیناً انھیں تنبیہ کرکے چھوڑنا مسئلے کا حل نہیں۔ ریاست کو عوام کو جنون کے حوالے کرنے کا اختیار نہیں۔ اہل اختیار کی بے بسی، بزدلی کہلاتی ہے۔ عوام ریاست کو مضبوط اور مستحکم دیکھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں کیونکہ ریاست ان کیلئے سائبان کی مانند ہوتی ہے۔ یہ کوئی چھوٹا حادثہ نہیں ریاست کی رٹ متزلزل ہونے سے ریاستی ضابطے ملیامیٹ ہوئے ہیں۔

یہ بھی ایک المیہ ہے کہ حکمران جماعتوں، جن کے پاس فیصلے کا اختیار ہے، کو بھی احتجاج پر مجبور ہونا پڑا۔ آج نظام انصاف کے حوالے سے صاحبان اقتدار کو شکایت ہے تو اِس کے پیچھے بھی انھی کی کمزور حکمت عملی کا عمل دخل ہے۔ پچھتر سال میں یہی فیصلہ نہ کر سکنے کی سزا ہے کہ دیگر شعبوں کے نظم ونسق کیلئے کڑے امتحان اور ضروری ٹریننگ ضروری خیال کی جاتی ہے تو اس اہم ترین شعبے کو ذاتی پسند سے کیوں جوڑ کر رکھا گیا ہے۔مقابلے کاامتحان دے کر آنے والوں کو میرٹ پر آگے بڑھنے دیں اس سے مثبت تبدیلی آئے گی ۔

خدا را اس ملک کی قدر کیجئے اور اّنا کی انگلی پکڑ کر بند گلی کی طرف سفر ترک کر دیجئے۔

تازہ ترین