• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض اوقات کوئی ایک شعر دل و دماغ کو اپنے سحر میں جکڑ کر شاداں و فرحاں کر دیتا ہے، وجود ہواؤں میں اُڑنے لگتا ہے،روح عجب مستی وسرشاری میں نہال ہوئی جاتی ہے، ایسے شعر پر، یہ بھی میرے دل کی آواز، والا کلیہ صادر نہیں ہوتا، یہ کوئی اور معاملہ ہوتا ہے جیسے اچانک کوئی راز منکشف ہو جائے، میرے نزدیک شاعری جیسے لطیف وسیلہ اظہار کا پہلا تاثر جمالیاتی حظ ہے ،جس شاعری کو پیامبری کی سند عطا کی جاتی ہے وہ جمالیاتی کمالات سے بھرے احساسات کی ترجمان ہوتی ہےروکھے سوکھے ثقیل لفظ اور سطحی نعرے اس اعلیٰ صنف کو بالکل راس نہیں آتے۔

خاک تو کب سے مہکنے کی گھڑی کو ترسے

اب یہ بادل کی رضا ہے کہ وہ کب آبرسے

اویس ملک کے اس شعر نے کئی دن وجود پر دھمال کی سی کیفیت طاری کئے رکھی۔ چاہت کے دھنک رنگ، جذبوں اور احساسات میں سرایت کر گئے، بڑی دیر بعد کوئی ایک شعر رستہ روک کر کھڑا ہو گیا اور اپنے اندر امکانات اور تصورات کی دنیا سے روشناس کرتا رہا۔ اردو شاعری میں اویس ملک کے تخیل نے پہلی بار اتنے خوبصورت اور منفرد انداز میں خاک اور بادل کے درمیان جذب وکشش کی کہانی بُنی، شعر کا ہر لفظ نگینے کی طرح جَڑا ہوا ہے اور بھرپور معانی کا اظہار کر رہا ہے۔

کائنات کی تمام رنگا رنگی خاک کے مہکنے سے عبارت ہے، بے جان خشک مٹی سر پر سبز چادر اوڑھ کر سہاگن ہونے کی تمنائی ہوتی ہے، رنگوں اور زندگی کو جنم دینے کیلئے اسے بادل کی مہربانی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اپنے بادل کی توجہ کو ترستی ہے،وہ مدت سے اس لمحے کی منتظر ہے جب وصل رُت اس پر چھائے گی اور بادل کرم کی طرح اس کے وجود پر برسے گا، اس کے دل میں آرزوئیں جنم لیں گے، زندگی کی علامتیں اس پر نچھاور ہوں گی، پھول اور سبزہ رنگ دکھائے گا، ہر طرف زندگی کے نئے چہرے پھوٹیں گے، تشنگی اور تنہائی ختم ہو جائے گی ، کِھلنا دھڑکنے کے مماثل ہے،کِھلنےکے بعد مہکنے کا مرحلہ ہے، کِھلنا نئے جیون میں ڈھلنا اور زندگی کے نئے رنگوں کو جنم دینا ہے، کائنات میں ہرقسم کی تخلیق دو کے اتصال سے ممکن ہوتی ہے، مٹی جتنی بھی طاقتور ہو، اسے مہکنے کیلئے بادل کی نظر کرم کی ضرورت ہوتی ہے، بادل بے نیاز محبوب ہے جو اپنی دھن میں مگن ہے، وہ مٹی کی پیاس اور طلب سے بخوبی واقف ہے مگر وہ بے پرواہے،اپنی مرضی کا مالک ہے، اس کی رضا ہو گی تو یہ خود ہی آکر جل تھل کر دے گا۔ اویس ملک کی بیشتر شاعری پرتوں میں لپٹی ہے، جو وسیع مفہوم کی عکاس ہے، سب سے پہلے اس کے نام، ترا حکم تھا کہ سفر کروں،پر غور کریں تو بہت کچھ نام سے ہی واضح ہو جاتا ہے، جس شعر سے یہ نام اخذ کیا گیا ہے وہ شعر ملاحظہ کریں

تری رہ گزر سے لگاؤ تھا، ترے آستاں پہ پڑاؤ تھا

ترا حکم تھا کہ سفر کروں سو میں چل پڑا ترے شہر سے

اس کی پوری فضا عشق کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے عشق جو قلندرانہ اور صوفیانہ مرتبہ ہے، عشق حاکم ہے اور اس کا حکم سر آنکھوں پر رکھا جاتا ہے، خارجی دباؤ کے تحت کوئی کام کرنے پر مجبور کیا جانا حکم کی بجاآوری نہیں مجبوری ہوتی ہے، حکم تو صرف محبوب اور مرشد کا مانا جاتا ہے،جو صرف ظاہری وجود کے ظاہری عمل تک محدود نہیں ہوتا بلکہ دل کے دربار سے صادر ہونے والا کلمہ ایمان کی طرح وجود پر یوں نافذ ہو جاتا ہے کہ روح اس کی تعمیل میں سرشاری سے جھوم جھوم جاتی ہے۔ کہیں کوئی زور زبردستی نہیں ہوتی۔ ظاہری قول و قرار کی بجائے باطنی رازونیاز پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ محبت کا وائرلیس سسٹم سماعتوں کی بجائے دھڑکنوں کو وسیلہ کرتا ہے۔

محمد اویس ملک عشق حقیقی کا مسافر ہے جہاں پہلا مرحلہ مرشد کے سامنے مکمل طور پر سرنڈر کرنا اور اس کے حکم کی تعمیل کرنا ہے ،مرشد معشوق ہے جو اپنی محبت کی گہرائی دیکھنے کیلئے مزیدپسندیدہ چیزوں اور خواہشوں کی قربانی طلب کرتا ہے، عاشق کی سب سے بڑی تمنا محبوب کا دیدار ہے اسلئے وہ اُسکی رہگزر اور آستاں کے آس پاس رہنا چاہتا ہے ،مگر اندر کے حال سے واقف مرشد اُسے دور سفر پر جانے کا حکم نامہ صادر کرتا ہے تو فنا فی المحبوب کے رتبے پر فائز مرید فورا ًچل پڑتا ہے،سفر اپنے اندر وسیع جہان رکھتا ہے، یہ حرکت، نشوونما اورترقی کا استعارہ ہے، نئی دنیاؤں کو دریافت کرنے کا نام ہے ، ظاہر کے اشاروں سے باطن کی گتھیاں سلجھانے کا ذریعہ ہے،اویس کی پوٹلی میں ظاہر اور باطن کے دونوں سفر رکھے ہیں ،ایسے بہت سے لفظ ہیں جو اصل حقیقت کی جھلک دکھاتے ہیں ۔ اویس ملک کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں!

نہ یہ جبروقدر کے مسئلوں کا عذاب جھیل

نہ ہی آگہی کا وبال پال، دھمال ڈال

تُو جواب چاہتا ہے تو شاملِ رقص ہو

یوں قلندروں سے نہ کر سوال دھمال ڈال

تازہ ترین