• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

اپنے گھر کی آگ

نرجس جی، کیسی ہو؟ آج خط کی ابتدا، ایک خط سے۔ ریحانہ ممتاز لکھتی ہیں کہ ’’تم صفحے کی ابتدا ’’السّلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ‘‘ سے اور اختتام ’’فی امان اللہ‘‘ پر کرتی ہو۔‘‘ تو قسم سے مَیں نے تو آج تک یہ بات نوٹ ہی نہیں کی تھی، چلو بھئی، ریحانہ ممتاز کا شکریہ کہ اِن دُعائیہ کلمات کی نشان دہی کروا دی۔ ویسے ماڈلز کے کپڑوں سے چہرے کے میک اَپ تک ہر چیز کو گہری نظروں سےدیکھنے والوں کو بھی کبھی یہ کلمات نظر نہ آئے۔ تم نےافغانستان سےمتعلق جس رائےکا اظہار کیا، اُس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ہماری فورسز، کے پی کے میں جو کچھ کررہی ہیں، اُس کا ری ایکشن تو ہونا ہے، یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے روس اور امریکا کو ذلّت آمیز شکست دی، تو اب اِن سےجنگ کرنا ہرگز دانش مندی نہیں۔ 

منور مرزا امریکی صدر کے دورہ یوکرین کی بات کر رہے تھے، تو انکل منور! کبھی اپنے گھر کی آگ اور جنگ پر بھی روشنی ڈال لیا کریں۔ مُلک کو فتنہ خان، جسٹس منیر کی کرپٹ رُوح اور یہ بھان متی کے حُکم راں ٹولے کی نااہلیوں نے تباہی کے کنارے پہنچا دیا ہے، بلاول بھٹو کے تو مُلک میں قدم ہی نہیں ٹک رہے۔ اور یہ ’’یومِ خواتین‘‘ پر مضمون لکھوانے کے لیے تم کو کوئی خاتون نہیں ملی؟ تم خُود اتنا زبردست لکھتی ہو، لیکن ایک مرد سے مضمون لکھوا کر تم نے یہ ثابت کردیا کہ عورت کی ہر چیز پر آج بھی مرد ہی قابض ہے۔ رائو محمّد شاہد ہر مرتبہ کوئی نیاآئیڈیا ہی متعارف کرواتے ہیں، بہت شکریہ۔

اختر سعیدی کے تبصرے بہت مدلّل اور منصفانہ ہوتےہیں، دوسرےتبصرہ نگاروں کے لیےسبق ہے، ڈاکٹراحمدحسن رانجھا کے سفرنامے کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے، پورے دہلی کی سیر کروا رہے ہیں۔ تاریخِ مدینہ منوّرہ اپنی تمام تر رعنائیوں اور معلومات کےبیش بہا خزانوں کے ساتھ رواں دواں ہے، ایک قسط میں بارہ سے پندرہ کتب کے حوالہ جات کے ساتھ نجمی صاحب جس طرح تاریخ بیان کررہے ہیں، طلبہ کے لیےتو گویا مستند اور اَن مول واقعات کا ایک ذخیرہ تیار ہوگیا ہے، اللہ تعالیٰ محمود میاں صاحب کو نظرِ بد سے بچائے، عمرِ دراز عطا فرمائے۔ (آمین) اچھا جی، کوئی بات بُری لگی ہو، تو نظرانداز کردینا۔ (شاہدہ تبسم، ڈی ایچ اے، کراچی)

ج: انکل منور اپنے گھر کی آگ پر روشنی تو کیا، پانی ڈال ڈال تھک گئے ہیں، مگر اس ’’نقّار خانے‘‘ بلکہ ’’جنجال پورے‘‘ میں کوئی سُنتا ہی کہاں ہے۔ سب کی اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ ہے۔ اور ’’یومِ خواتین‘‘ پر ایک مرد سے مضمون لکھوانا تو قابلِ ستائش ہے، نہ کہ قابلِ گرفت کہ یہ اپنی ساری لبرل آنٹیز کو تو سب شکوے شکایات ہی مَردوں سے ہیں۔ اب اگر ایسے میں ایک مرد آواز سے آواز ملا رہا ہے، ہم نوا ہے، تو اُس کا تو شُکر گزار ہونا چاہیے۔

شیشہ دکھانا مقصود ہے

چند اغلاط کی نشان دہی کا ارادہ ہے، مثلاً آپ نے مبارک علی ثاقب کا اتنا لمبا چوڑا خط شائع کیا لیکن جواب ندارد۔ پھر آپ نے ایک جواب میں لکھا ’’عوام خُود بھی اپنے سگے نہیں، وہی اِن نالائق اور نااہل سیاست دانوں کو مسند پرب ٹھاتے ہیں۔‘‘ تو لیڈرز کی شان میں اِس گستاخی کا حق آپ کو کس نے دیا؟ عمران خان خُود ہی واک اوور دے گئے، یہ اُن کی نالائقی ہے، تو اب موجودہ حکومت کیا کرے؟ شبینہ گُل انصاری نےآپ کےلیےبہت سےالقابات لکھے، جواباً آپ نے اُسےچاپلوسی کا نام دے دیا، حالاں کہ میرے خیال میں تو آپ کافی خوشامد پسند ہیں۔ 

شاہدہ تبسم لکھتی ہیں، ’’مَیں میگزین پر بھوکی بلی کی طرح جھپٹی‘‘ اور آپ نے یہ جُملہ مِن و عن چھاپ دیا۔ گلزار ہجری کےاسلم قریشی کو آپ نےجواب دیا کہ ’’ادھار، نقد کی کوئی کہانی نہیں‘‘ مریم طلعت کےخط کےجواب میں آپ نے عقل کا دامن تھامنے کی دُعا دی۔ ہم نےصبر کا دامن تو سُنا تھا، یہ عقل کا دامن کیا چیز ہے، سخت حیرت ہے، آپ کی قابلیت پر۔ جب آپ حاتم طائی بنتی ہیں، تو شری مُرلی اور نواب زادہ ملک کے خطوط بھی شامل کردیتی ہیں، وگرنہ مبارک علی ثاقب کے خط کا جواب بھی گول کرجاتی ہیں۔ اور آپ کو مَردوں سے کیا الرجی ہے۔ خُود ہی لکھ رکھا ہےکہ’’جو جی میں آئے، لکھ بھیجیں‘‘ اور پھر عموماً مَردوں کو اس قدر رعونت و نخوت بَھرے جوابات، تو کیا یہ آپ کا دوغلا پن نہیں؟ مجھے پتا ہے، میرا یہ خط آپ دریابُردکردیں گی، مگرمجھے تو بس شیشہ دکھانا مقصود ہے۔ (نیرا گون اعوان، محمود کوٹ، مظفّر گڑھ)

ج:آپ مرد ہیں یا خاتون…کم از کم نام سےتو ہمیں اندازہ نہیں ہو رہا۔ ہاں، البتہ یہ ضرور پتا چل گیا کہ مبارک علی ثاقب آپ کےپھوپھی زاد ہیں، وگرنہ اُن کوخط کاجواب نہ دینےپرآپ کے اِس قدر جلنے بُھننے کی کوئی تُک سمجھ نہیں آتی۔ جب کہ اس صفحےکا تو شروع سے فارمیٹ ہی یہ ہے کہ جس خط میں کوئی جواب طلب بات نہ ہو، اُس کا جواب نہیں دیا جاتا۔ پھر شبینہ گُل، شاہدہ تبسم، اسلم قریشی کو دیئےگئےجوابات پر آپ کو درحقیقت اعتراض کیا ہے، ہمارے پلّے تو ککھ نہیں پڑا۔ پتا نہیں، یہ آپ نے ہمیں شیشہ دکھانے کی کوشش کی ہے یا آئینے میں خُود اپنا اصل چہرہ دیکھا ہے۔ اور عقل کا دامن وہ چیز ہوتی ہے،جسے تھامنے کی اِس وقت آپ کو بھی اشد ضرورت ہے۔ رہی بات خط دریا بُرد کرنے کی، تو مُنّے میاں/مُنّی بی بی! وہ کیا ہےکہ جو ہاتھی پالتےہیں، وہ دروازہ اونچارکھتےہیں، اب اِس اتنی بےمقصد سی چٹھی کو ڈبونے کے لیے ہم کہاں دریائوں کا رُخ کرتےپھریں، تو سوچا چھاپ ہی دیتے ہیں۔ اگر تو یہ آپ کا اصل نام ہے، توچلیں، ہمیں تو بہت لوگ بہت اچھی طرح جانتے ہیں، آپ کو بھی دو چار لائیکس مل ہی جائیں گے۔

قارئین کے ایڈریسز، فون نمبرز

سنڈے میگزین، پاکستان کے متعدّد رسائل میں ایک اچھا، منفرد اور معیاری رسالہ ہے۔ اور اِس کے اِس معیار کی برقراری کے لیے آپ اور آپ کی پوری ٹیم دادِ تحسین کی مستحق ہے کہ آپ ہی لوگوں کی اَن تھک محنت اور کاوشوں کی بدولت یہ رسالہ ہر ہفتے اتوار کی صبح ہم قارئین تک پہنچ پاتا ہے اور پھر اِس میں جو مضامین شائع ہوتے ہیں، اُن کو دیکھ اور پڑھ کر نہ صرف بےحد خوشی ہوتی ہے، بلکہ ہماری معلومات میں بھی گراں قدر اضافہ ہوتا ہے، جب کہ آپ کے خطوط کا صفحہ تو گویا اس جریدے کی جان ہے۔ اگر آپ سے ہوسکے تو آپ قارئین کے ایڈریسز اور فون نمبرز بھی شائع کر دیا کریں۔ (شری مُرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور، سندھ)

ج: سوری …یہ ہم سے تو کیا، کسی سے بھی نہ ہو پائے گا، کیوں کہ یہ فرمائش ہے ہی بہت فضول اور بے تُکی۔ بھلا عام قارئین کے فون نمبرز اور گھروں کے ایڈریسز شایع کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ ہمارے یہاں تو اِس ضمن میں اتنی احتیاط برتی جاتی ہے کہ اگر کسی مسوّدے پر کسی لکھاری نے اپنا ذاتی نمبر لکھ رکھا ہو، تو مسوّدہ کمپوزنگ سیکشن میں بھیجنے سے پہلے نمبر قلم زَد کردیا جاتا ہے۔

بیماری کو سیریس نہیں لیا؟؟

اُمید ہے کہ آپ اور آپ کی ٹیم خیریت سے ہوگی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے سلسلے ’’مدینہ منوّرہ: دور ِ قدیم سے دورِ جدید تک…‘‘ کی دسویں اور گیارہویں اقساط پڑھیں۔ محمود میاں نجمی بہترین معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کی گرفت خاصی مضبوط نظر آتی ہے، اُنھوں نے اپنے تجزیے میں سو فی صد درست فرمایا کہ ’’عوام سُدھریں گے، تو مُلک بھی سُدھر جائے گا‘‘۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال بتارہے تھے کہ جدید ترین سہولتوں کے حامل ممالک بھی بریک ڈائونز سے محفوظ نہیں۔ نیز، اگلے شمارے میں انہوں نے سماجی انصاف کے عالمی یوم کے حوالے سے بھی ایک شان دار مضمون تحریر کیا۔ ارشد عزیز ملک، کے پی کے میں بڑھتی دہشت گردی کی وجوہ بیان کررہے تھے۔ 

ڈاکٹر سمیحہ راحیل اور سیما ناز نے ترکیہ، شام کے قیامت خیز زلزلے سے متعلق بہترین معلوماتی نگارشات تحریر کیں۔ ’’ا نٹرویو‘‘ میں محمّد ارسلان فیاض، جبار بلوچ سے کوئٹہ شہر سے متعلق مفید بات چیت کرتے دکھائی دئیے۔ حمّاد غزنوی سے کی جانے والی فکر انگیز’’ گفتگو‘‘ کا بھی جواب نہ تھا۔ ’’جہان دیگر‘‘ میں ’’دہلی نامہ‘‘ پڑھ رہے ہیں بلکہ پڑھ کیا رہے ہیں، ساتھ ساتھ گھوم پِھر رہے ہیں۔ ’’متفرق‘‘ میں افشاں مراد کی جذباتی تحریر نےتو رُلا ہی دیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک نےمِرگی کو قابل علاج بتایا، کافی معلومات افزا تحریر تھی۔ جب کہ ڈاکٹر ایم عارف سکندری نے معدے کو صحت مند رکھنے پر زور دیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں کنول بہزاد کی ’’روٹی‘‘ کمال نگارش تھی۔ 

ڈاکٹر قمر عباس کی نظم بھی بہت خُوب تھی۔ اگلے شمارے میں ’’ناقابل فراموش‘‘ کے دونوں واقعات پسند آئے۔ اور ہاں،12 فروری کو شایع ہونے والے میرے خط میں آپ نے میری بیماری کو کچھ زیادہ سیریس نہیں لیا، حالاں کہ میری حالت تو کچھ ایسی تھی کہ ’’دوست ہیں اپنے بھائی بھلکّڑ، باتیں اُن کی ساری گڑبڑ… راہ چلیں، تو راستہ بُھولیں، بس میں جائیں، تو بستہ بُھولیں… ٹوپی ہے تو جوتا غائب، جوتا ہے تو موزہ غائب… پیالی میں ہے چمچہ اُلٹا، پھیر رہے ہیں کنگھا الٹا… لوٹ پڑیں گے چلتے چلتے، چونک اُٹھیں گے بیٹھے بیٹھے… سودا دے کر دام نہ دیں گے، دام دئیے تو چیز نہ لیں گے۔‘‘ بہرحال، اب میں ٹھیک ہوں۔ خادم ملک کا خط بھی پڑھنے کو ملا، بہت اچھا لگا۔ بھئی، وہ اصل نواب زادے ہیں۔ آپ اُن کی عزت کیا کریں۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3، کراچی)

ج: ہمیں تو لگتا ہے، آپ نے خُود بھی اپنی بیماری کو سیریس نہیں لیا۔ اور شاید اِسی لیے ابھی تک مکمل طور پر صحت یاب بھی معلوم نہیں ہو رہے۔ اب ممکن ہے، اِس خط کی اشاعت سے کچھ افاقہ ہوجائے۔ خادم ملک کا کوئی خط دست یاب ہوتا، تو ہم ضرور لگا دیتے کہ عموماً اُن کے خطوط بھی آپ کی صحت پر خاصے خُوش گوار اثرات مرتب کرتے ہیں۔

مسلسل گرفت میں لے رکھا ہے

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے ذریعے محمود میاں نجمی جس طرح مدینہ منوّرہ کے ماضی و حال سے آگاہ کر رہے ہیں، انتہائی محنت طلب اور معلومات افزا کاوش ہے، پڑھ کر دل بہت خُوش ہوتا ہے۔ ’’عالمی افق‘‘ میں منور مرزا موجود تھے اور امریکی صدر کے خفیہ دورۂ یوکرین کی بابت آگاہ کررہے تھے۔ سرِورق کی ماڈل بھی اچھی تلاش کی آپ نے اور تحریر کی خُوب صُورتی و عُمدگی کے تو کیا ہی کہنے۔ ’’پیارا گھر‘‘ کابھی جواب نہ تھا۔ 

آج تو ماربل کیک بھی کھانے کو مل گیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’ماریہ کی بھابھی‘‘ ایک بہت ہی پیاری تحریر تھی۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ’’دہلی نامہ‘‘ نے مسلسل اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا بہت ہی اچھے انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ’’ناقابل فراموش‘‘ کے واقعات بھی پُراثر، سبق آموز تھے۔ اور ہاں، یہ اپنے محمّد سلیم راجا کہاں ہیں؟ اس بار تو خطوط سےمتعلق اُن کی سالانہ رپورٹ بھی پڑھنے کو نہیں ملی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: اللہ ہی بہتر جانے کہ موصوف کہاں غائب ہوگئے۔ اب تو ہمیں بھی خاصی تشویش ہو رہی ہے۔ خط کے ساتھ کبھی کوئی اتا پتا بھی تحریر نہیں کیا کہ بندہ کوئی معلومات ہی کروا لیتا۔ اور جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے، ہم نے اُنہیں کبھی کوئی سخت سُست جواب بھی نہیں دیا کہ مبادا دل دُکھ گیا ہو۔

                 فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

12؍ مارچ کا شمارہ موصول ہوا۔ سرورق پر کوئی دلہن پیا گھر جانے کو تیار بیٹھی تھی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی ’’مدینہ منورہ: دور ِ قدیم سے دورِ جدید تک‘‘ کی 14ویں قسط لائے۔ نبی کریمؐ نے فتحِ مکہ کے دن جانی دشمنوں کو عام معافی دے کر تمام دشمنوں کے دل جیت لیے، فلک نے اس سے قبل عفو و درگزر کا ایسا نظارہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں پروفیسر سرور حسین خان نسل نو کی عُمدہ تعلیم و تربیت کے لیے والدین اور اساتذہ کے کردار کی اہمیت سے آگاہ کر رہے تھے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں رئوف ظفر امریکی بدنامِ زمانہ جیل گوانتاناموبے میں انسانیت سوز مظالم کی رُوداد سناتے نظر آئے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمارے حکم ران اقتدار میں آنے سے پہلے تو عافیہ صدیقی کی رہائی کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، مگر حکومت ملنے کے بعد انہیں کیوں کچھ یاد نہیں رہتا۔ 

المیہ تو یہ ہے کہ صدر اوباما اپنے آخری وقت میں عافیہ صدیقی کو رہا کرنے پر آمادہ تھے، صرف پاکستان کی طرف سے ایک درخواست کی ضرورت تھی، مگر حیف ہمارے حُکم رانوں پر کہ اُن سے اتنا بھی نہ ہو سکا۔ عوام کے خیر خواہی کے یہ دعوے دار بھارت ہی سے کچھ سبق سیکھ لیں، جو اپنے دہشت گرد جاسوس، کلبھوشن کا کیس عالمی عدالت تک میں لے گیا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں اختر سعیدی ساکنانِ شہرِ قائد کے 28ویں عظیم الشاں عالمی مشاعرے کی روداد بیان کر رہے تھے اور لگی لپٹی کے بغیر بتا دیا کہ نظامت کا معیار زیادہ اچھا نہ تھا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال نے مطالعے کو ہر مرض، ہر مسئلے کا حل بتایا۔ 

بلاشبہ، مطالعہ ذہن کو جِلا بخشتا ہے اور ذہنی توانائی جسم کو بھی توانا رکھتی ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں فراق گور کھپوری کی نظم کا مطالعہ کر کے آگے بڑھ گئے۔ ایک بات پوچھنی تھی، کیا دلہنوں کا بھی کوئی عالمی یوم منایا جاتا ہے؟ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے غربت و افلاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر قانونی و غیر قانونی طریقوں سے دوسرے ممالک کی طرف قسمت آزمائی کے لیے جانے اور راہ ہی میں زندگی کی بازی ہار جانے والوں کا نوحہ بیان کیا۔منور راجپوت فارموساٹیکل انڈسٹریز کے معروف نام، غلام ہاشم نورانی سے بات چیت کر رہے تھے، جس سے کئی چشم کُشا انکشافات بھی سامنے آئے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا ’’دہلی نامہ‘‘ کی تازہ قسط میں مشہور قطب مینار کا آنکھوں دیکھا احوال لائے۔ ’’قربانی‘‘ شہلا خضر کی ایک اچھی کوشش تھی۔ 

ڈاکٹر طاہر مسعود نے ’’سیدھی لکیر سے پہلے …‘‘ کے عنوان سے زندگی کی ابتدا، نشیب و فراز، خواہشات، تمنائوں اور زندگی کے اختتام کو بڑے فلسفیانہ انداز میں بیان کیا۔ جب کہ نور جہاں خالد آئیڈیل کی تلاش میں سرگراں نظر آئیں۔ ’’ناقابل فراموش‘‘ کی دونوں آپ بیتیاں متاثر کُن تھیں۔ ایک سے احتیاط کا دامن تھامنے اور دوسری سے مظلوم کی آہ سے بچنے کی نصیحت حاصل کی۔ منور راجپوت نے نئی کتابوں پراچھےانداز سے تبصرہ کیا ۔ اور آب آ پہنچے ہیں، اپنے باغ و بہار صفحے پر، جس کے چوکھٹے میں ہمارے چٹھی ہی بہار دکھا رہی تھی۔ آپ نے بجا فرمایا کہ غربت و افلاس زدہ قوموں کے یہ لچھن نہیں ہوتے کہ غیر مُلکی کافی شاپ پر اس طرح لمبی قطاریں لگائیں وہ کیا ہے کہ قرض کی مے پیتے ہیں تو اپنی فاقہ مستی تو رنگ لائے گی۔ (شہزادہ بشیر محمد نقش بندی، میر پور خاص)

ج:اچھا خاصا تبصرہ کرتے کرتے آپ کوئی ایک آدھ بات ایسی ضرور کر جاتے ہیں کہ ’’تلووں سے لگی، سر سے جا نکلی‘‘ والی کیفیت ہو جاتی ہے۔ اب بھلا آپ کا دلہنوں کے عالمی یوم سے کیا لینا دینا۔ نہ آپ حصّہ لینے کے اہل، نہ اس شعبے سے آپ کا کوئی دور پرے کا تعلق، تو آپ کو بھلا یہ جان کر کیا کرنا ہے کہ کوئی عالمی یوم منایا جاتا ہے یا نہیں۔ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے، آپ نے کسی خط میں اپنی جو عُمر درج کی تھی، اُس حساب سے تو اب آپ کو دولھوں کے عالمی یوم سے بھی کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔

گوشہ برقی خطوط

* میرے پہلے ہی افسانے کو میگزین میں جگہ دینے کا بہت بہت شکریہ۔ (نظیر فاطمہ، لاہور)

ج: آپ کی پہلی ہی تحریر کی بُنت بہت شان دار تھی۔ اور وہ جو ہم اکثر کہتے ہیں ناں کہ کسی اچھی تحریر کو کسی بھی سفارش کی ہرگز کوئی حاجت، ضرورت نہیں ہوتی، تو وہ کچھ اِن جیسی ہی تحریروں سے متعلق کہتے ہیں۔

* ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا ’’دہلی نامہ‘‘ والا رُوپ تو پچھلے ہر رُوپ سے خُوب صُورت ہے۔ لگتا ہے، آپ نے اب اُن کی اصل صلاحیتوں کو بھانپا ہے۔ اُن سے آئندہ بھی کوئی سفرنامہ ہی تحریر کروایئے گا۔ (زوار حسن، منڈی بہاؤالدین)

ج: آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں، جیسے ہم نے رانجھا صاحب کو دہلی، بھارت کا یہ دورہ خُود ارینج کروا کے دیا ہے۔ بھائی! رانجھا صاحب نے اپنی اس صلاحیت کو خُود ہی بھانپا ہے اور خُود ہی اپنے خرچے پر اِسے نکھارا، سنوارا ہے۔ ہم نے اُنہیں صرف ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ انہوں نے ہم سے سفرنامے کی اشاعت کی درخواست کی۔ ہم نے پڑھ کر میرٹ پر پورا پایا، تو اوکے کردیا، دیٹس اِٹ۔

* براہِ مہربانی مجھے ’’نئی کتابیں‘‘ سے متعلق اس سوال کا جواب عنایت کیا جائے کہ یہ کتابیں آسانی سے کہاں سے مل سکتی ہیں؟ (عابد مصطفیٰ)

ج: آپ اگر ہم سے پوچھتے کہ ’’مشکل سے کہاں سے ملتی ہیں؟‘‘ تو ہم ضرور بتا دیتے کہ یہ بھوٹان، نیپال، سری لنکا، ملائیشیا، بیلجئم، ڈنمارک اور انٹارکٹیکا سے بمشمل ملیں گی۔ آپ آسانی کا پوچھ رہے ہیں، تو آسانی سے سوائے متعلقہ ناشرین / ایڈریسز کے کہاں سے مل سکتی ہیں۔

* مَیں آپ سے پہلے بھی کئی بار درخواست کر چُکی ہوں کہ ’’کہی ان کہی‘‘ کا سلسلہ ریگولر کردیں۔ مگر آپ کے کان پر جُوں ہی نہیں رینگتی۔ (نام نہیں لکھا)

ج: نام لکھنے کی تو زحمت گوارہ کر لیتیں۔ الحمد للہ، ہمارا سر بالکل صاف سُتھرا ہے، اس لیے کان پر جُوں بھی نہیں رینگتی۔ اور اِن فن کاروں کے نخرے دن بہ دن بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اور پھر سوشل میڈیا نے بھی اُن کے دماغ آسمان تک پہنچا دیئے ہیں۔ اب اُنہیں بات کرنے کا بھی معاوضہ چاہیے۔ آپ اُن کو معاوضے کی ادائی کا وعدہ کریں، ہم ہر ہفتے ایک چھوڑ، دو دو صفحات تیار نہ کریں، تو کہیے گا۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk