• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’قصص‘‘ جمع ہے قصّے کی۔ اور ’’قصص القرآن‘‘ کا مطلب ہے، وہ قصّے، جو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے۔ یعنی پہلی امّتوں کے احوال، انبیائے سابقین، حادثاتِ اقوام کا ذکر، قوموں، قبیلوں، شہروں، بستیوں کے احوال و واقعات۔ قرآنِ کریم میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں، اُنھیں دو اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اوّل، جو ماضی سے متعلق ہیں اور دوم، جو مستقبل کے حوالے سے متعلق ہیں۔ ماضی کے واقعات میں اللہ تعالیٰ نے کُل 27انبیاء علیہم السلام کے واقعات بیان فرمائے ہیں۔ ان کے علاوہ بعض نیک، فرماں بردار یا نافرمان افراد واقوام کے قصص و واقعات بھی مختلف جگہوں پر بیان فرمائے گئے ہیں۔ 

ان قصّوں کو بیان کرنے سے قرآنِ کریم کا مقصود تاریخ نگاری نہیں، بلکہ وہ ان قصّوں کو یاد دلاکر ایک طرف تو تذکیر وموعظت کا سامان مہیّا فرماتا ہے اور مسلمانوں کو انبیائے کرام ؑ کی دعوت سے سبق لینے پر مجبور کرتا ہے، تو دوسری طرف یہ واضح کردینا چاہتا ہے کہ سابقہ قوموں اور امّتوں کے یہ بصیرت افروز سچّے واقعات اُس ذاتِ گرامی کی زبان پر جاری ہورہے ہیں، جو سو فی صد بالکل اُمّی ہیں اور انھوں نے آج تک کسی کے پاس رہ کر اس قسم کا کوئی عِلم حاصل نہیں کیا، اس لیے یقیناً اُنھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے باخبر کیا جاتا ہے اور وہ، جو کلام تلاوت فرماتے ہیں، وہ کوئی انسانی کلام نہیں، خدائی کلام ہے۔ 

پھر ان قصّوں میں علم وحکمت کے بے شمار خزانے پوشیدہ ہیں۔ ان سے متعلق اِک اِک آیت انسانی زندگی کے اَن گنت مسائل کے حوالے سے درست اور بہترین رہنمائی عطا کرتی ہے۔ جب کہ دوسری قسم کے واقعات میں قیامت کی نشانیاں، قیامت کے احوال، حشر ونشر کے مناظر، دوزخ کی ہول ناکیاں اور جنّت کی دل فریبیاں بیان کی گئی ہیں۔

جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی دل چسپی و آگہی کے لیے ’’مکّہ مکّرمہ:ماضی و حال کے آئینے میں‘‘ اور ’’مدینۂ منوّرہ.....عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک‘‘ جیسے خُوب صُورت سلسلوں کی اشاعت کے بعد، ’’قصص القرآن‘‘ کے عنوان سے یہ نیا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ اور آج اس سلسلے کے مضمون ’’اصحابِ کہف‘‘ کی پہلی قسط پیشِ خدمت ہے۔

………٭٭……٭٭……٭٭……٭٭………

کوہِ صفا سے بُلند ہوتی صدائے حق: غارِ حرا سے طُلوع ہوتی خورشیدِ اسلام کی تاب ناک شُعائیں ابھی پورے طور پر ضو فشاں بھی نہ ہوئی تھیں کہ ایک صبح کوہِ صفا کی چوٹی سے فضا میں بُلند ہوتی صدائے حق کی گونج نے مکّہ کے دَر و دیوار پر لرزہ طاری کردیا۔ یُوں تو ’’دارِارقم‘‘ کی آغوش میں پروان چڑھنے والی اس تحریک کی سُن گن اہلِ قریش کو بہت پہلے سے تھی، لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بنو ہاشم کے سرپرست، قریش کے سردار، خانۂ کعبہ کے سب سے بڑے متولّی، جناب عبدالمطلب کے پوتے، ابوطالب کے بھتیجے محمدؐ بن عبداللہ یوں ببانگِ دہل اپنے آبائو اَجداد کے دین کے مقابلے میں ایک اللہ کی پرستش کی دعوتِ عام دیں گے۔ تمام اہلِ مکّہ کی موجودگی میں جبلِ صفا سے ہونے والے اس اعلانِ حق سے جہاں یہود و نصاریٰ حیران ہوئے، وہاں دُوسری طرف اس اعلان نے اہلِ قریش کو شدید غصّے اور سخت تشویش میں مبتلا کردیا۔

انہیں یہ خدشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں دینِ اسلام کی یہ بادِ صبا اُن کی شان و شوکت، دولت و شہرت، عزت و احترام، مذہبی مناصب، قبائلی سرداری، سیاسی و معاشرتی چوہدراہٹ اور اقتصادی و کاروباری ساکھ سمیت سب کچھ بہا نہ لے جائے کہ ان کی پُرتعیش طرزِ زندگی، شاہانہ ٹھاٹھ باٹ، کرّو فر اور جاہ و جلال کا سارا دارومدار کعبے میں نصب پتھر کے اُن360بُتوں کے نذرانوں اور چڑھاووں کے مرہونِ منّت تھا۔ قریش کو کسی طور یہ گوارا نہ تھا کہ رسومِ قبیحہ سے ترکیب پائے فاسقانہ تہذیب کے قدیم آہنی قفس کو اپنے ہاتھوں سے توڑ کر آبائو اَجداد کے دین سے بغاوت کریں اور دعوتِ محمدیؐ کو قبول کرکے اپنی مادر پدر آزادی کو پابۂ زنجیر کردیں۔ چناں چہ وہ جذباتی ہیجان کے ساتھ غیظ و غضب کے عالم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت و مزاحمت پر کمربستہ ہوگئے۔ طنز و تمسخر، استہزا و تحقیر، سازش و شرارت کے ایک طوفانِ بدتمیزی کا آغاز کردیا گیا، ظلم و تشدّد کی بھٹّی کو دہکا دیا گیا اور اس شیطانی کام پر بیش تر اوباش نوجوان مامور کیے گئے۔

علمائے یہود کے تین سوال: قریش کے لیے سب سے مشکل ترین بات یہ تھی کہ ان کے مدِّمقابل ایک ایسی عظیم پاکیزہ شخصیت تھی، جس کی زندگی کے چالیس سالوں کا گزرا ہوا ہر ہر لمحہ کُھلی کتاب کے صفحات کی طرح ان کے سامنے تھا۔ جس کے اَوصافِ حمیدہ، اخلاق و خصائل، عادات و اَطوار، صفات و جمال کے اعلیٰ و اَرفع ہونے کے معترف وہ خود تھے۔ جن کو صادق و امین، دانا و حکیم، طاہر و مطہر، عادل و منصف کے القابات سے وہ خود پُکاریں۔ 

جن کا چہرۂ اَنور چودھویں کے چاند کی طرح روشن و منوّر۔ جب بات کریں تو پُھول جھڑیں۔ اہلِ قریش جن کی محبّت سے سرشارتھے، وہ اب مخالفت کریں، تو کیوں کر؟ جھوٹا کہیں تو کیسے؟ قریش کے سنجیدہ اور باشعور افراد عجیب شش و پنج میں مبتلا تھے۔ کافی سوچ بچار کے بعد انھوں نے مدینے کے یہودی علماء سے مشورے کا فیصلہ کیا اور اپنے دو افراد نصر بن حارثہ اور عقبہ بن ابی معیط کو ان کے پاس مدینہ روانہ کیا۔

یہودی علماء نے انھیں مشورہ دیا کہ ’’تم لوگ ان سے تین سوالات کرو۔ اگر انھوں نے ان سوالوں کا صحیح جواب دے دیا، تو سمجھ لو کہ وہ اللہ کے نبی و رسول ہیں اور اگر نہ دے سکے، تو سمجھ لینا کہ وہ رسول نہیں۔ ان سے پہلا سوال یہ کرو کہ وہ نوجوان کون تھے، جو زمانۂ قدیم میں اپنے شہر سے نکل گئے تھے؟ ان کا کیا واقعہ ہے؟ دُوسرا یہ کہ ان سے اس شخص کا حال دریافت کرو، جس نے دُنیا کی مشرق و مغرب اور تمام زمین کا سفر کیا، تیسرا سوال ان سے رُوح کے متعلق کرو کہ وہ کیا چیز ہے؟‘‘ یہ دونوں سردار مدینہ منوّرہ سے خوشی خوشی واپس آئے اور اہلِ قریش کو علمائے یہود کی تجاویز سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اب اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہیں یا نہیں؟‘‘قریشِ مکّہ کا وفد یہ سوالات لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ نے سوالات سُن کر فرمایا کہ’’مَیں اس کا جواب کل دوں گا۔‘‘ (معارف القران، 547/5)۔

سورۂ کہف کی شانِ نزول:یہ سورئہ مبارکہ مشرکینِ مکّہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی۔ جبرائیلِ امین ؑ تینوں سوالات کے مفصّل جوابات کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوئے۔ تفہیم القرآن کے مولّف، سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ تیسرے سوال کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’یہ سوال دراصل قصّہ خضر سے متعلق تھا، نہ کہ رُوح سے متعلق۔ 

یہ تینوں قصّے عیسائیوں اور یہودیوں کی تاریخ سے متعلق تھے۔ حجاز میں ان کا کوئی چرچا نہ تھا۔ اس لیے اہلِ کتاب نے امتحان کی غرض سے ان کا انتخاب کیا تھا، تاکہ یہ بات کھل جائے کہ واقعی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی غیبی ذریعۂ علم ہے یا نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے صرف یہ نہیں کہ اپنے نبی کی زبان سے ان کے سوالات کا پورا جواب دیا، بلکہ ان کے اپنے پوچھے ہوئے تینوں قصّوں کو پوری طرح اس صورتِ حال پر چسپاں بھی کردیا، جو اس وقت مکّہ میں کفر و اِسلام کے درمیان درپیش تھی۔‘‘ (تفہیم القرآن، جلد 3 صفحہ 7)۔

سورۂ کہف کی خصوصیات و فضائل: حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ ’’جو شخص جمعے کے دن سورۂ کہف پڑھ لے، وہ آٹھ روز تک ہر فتنے سے محفوظ رہے گا اور اگر دَجّال نکل آئے، تو وہ اس فتنے سے بھی محفوظ رہے گا۔‘‘ حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ ’’جس شخص نے سورۂ کہف کی پہلی دس آیات اور آخری دس آیات یادکرلیں، وہ دَجّال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔‘‘ مسندِ احمد میں حضرت سہل بن معاذؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص سورۂ کہف کی پہلی اور آخری آیات پڑھ لے، اس کے لیے اس کے قدم سے سر تک ایک نُور ہو جاتا ہے اور جو پوری سورت پڑھ لے، اس کے لیے زمین سے آسمان تک نُور ہو جاتا ہے۔ جمعے کے دِن سورۂ کہف کی تلاوت سے ایک جمعے سے دُوسرے جمعے تک کے سب گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘ روح المعانی میں حضرت انسؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’سورۂ کہف پوری کی پوری ایک وقت میں نازل ہوئی اور ستّر ہزار فرشتے اس کے ساتھ آئے، جس سے اس کی عظمتِ شان ظاہر ہوتی ہے۔‘‘ (معارف القرآن، 546/5)۔

کہف و رقیم معنی و مطلب: سورۂ کہف کی آیت 9میں اللہ تعالیٰ نے ’’اصحابِ کہف‘‘ اور ’’الرقیم‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے، چناں چہ انہیں ’’اصحابِ کہف‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور ’’اصحاب الرقیم‘‘ بھی۔ عربی زبان میں کہف و سبع غار کو کہتے ہیں، جب کہ الرقیم کے معنیٰ میں اختلاف ہے۔ بعض صحابہ و تابعین سے منقول ہے کہ ’’یہ اس بستی کا نام ہے، جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا اور وہ ایلہ یعنی عقبہ اور فلسطین کے درمیان واقع تھی۔ اور بعض قدیم مفسّرین کہتے ہیں کہ ’’اس سے مراد وہ کتبہ ہے، جو اس غار پر اصحابِ کہف کی یادگار کے طور پر لگایا گیا تھا۔‘‘ 

مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘ میں پہلے معنیٰ کو ترجیح دی ہے، لیکن صاحبِ تفہیم کے نزدیک صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ رقیم سے مراد کتبہ ہے۔ (تفہیم القرآن 11/3)۔ ضحاک، سدی اور ابنِ جبیرؒ بہ روایت حضرت ابنِ عباسؓ اس کے معنیٰ ایک لکھی ہوئی تختی کے قرار دیتے ہیں، جس پر بادشاہِ وقت نے اصحابِ کہف کا نام کندہ کرکے غار کے دروازے پر لگا دیا تھا۔ قتادہ، عطیہ، عوفی، مجاہد کا قول یہ ہے کہ رقیم اس پہاڑ کے نیچے کی وادی کا نام ہے، جس میں اصحابِ کہف کا غار تھا۔ بعض نے خود اس پہاڑ کو رقیم کہا ہے۔ حضرت عکرمہؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت ابنِ عباسؓ سے سُنا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ رقیم کسی لکھی ہوئی تختی کا نام ہے یا کسی بستی کا۔‘‘ (معارف القرآن، 550/5)۔

اصحابِ کہف کا واقعہ کہاں پیش آیا؟: جس شہر میں اصحابِ کہف کا واقعہ پیش آیا، عام مفسّرین نے اس شہر کا نام اِفسوس یا اِفسِس (EPHESUS) قرار دیا ہے۔ یہ ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل پر رُومیوں کا سب سے بڑا شہر اور مشہور بندرگاہ تھی، جس کے کھنڈرات آج موجودہ ترکیہ کے شہر اَزمیر (سمرنا) سے 20سے25میل دُور جنوب میں پائے جاتے ہیں۔ (تفہیم القرآن، 12/3)۔حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ نے ’’بیان القرآن‘‘ میں تفسیرِ حقانی کے حوالے سے اصحابِ کہف کی جگہ اور مقام کی تاریخی تحقیق یہ نقل کی ہے کہ جس ظالم بادشاہ کے خوف سے اصحابِ کہف نے غار میں پناہ لی تھی، اس کا زمانہ250عیسوی تھا۔ 

پھر لگ بھگ تین سو سال تک یہ لوگ سوتے رہے، اس طرح مجموعہ 550 عیسوی ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت 570عیسوی میں ہوئی، اس لیے اصحابِ کہف کے بے دار ہونے کا واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ سے بیس سال پہلے پیش آیا۔ تفسیرِ حقانی میں بھی ان کا مقام شہر اِفسوس یا طرسوس کو قرار دیا ہے، جو ایشیائے کوچک میں تھا۔ اب اس کے کھنڈرات موجود ہیں۔(معارف القرآن 558/5)۔امام ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں اللہ نے اصحابِ کہف کے ان حالات کی خبر دی، جن کا ذکر قرآن میں ہے، تاکہ ہم انھیں سمجھیں اور ان کے بارے میں تدبّر کریں، اور اس کی خبر نہیں دی کہ یہ کہف کس زمین اور کس شہر میں ہے، کیوں کہ اس میں ہمارا کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی شرعی مقصد اس سے متعلق ہے۔‘‘ (ابنِ کثیر،75)۔

قِصّۂ اصحابِ کہف: یہ 250 عیسوی کی بات ہے کہ جب شہر اِفسوس پر ایک ظالم و جابر بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ جس کا نام ’’دقیانوس‘‘ تھا۔ بادشاہ کے حکم کےمطابق ہر سال شہر سے باہر ایک مذہبی میلہ منعقد کیا جاتا تھا، جس میں دیگر خرافات کے ساتھ پوجا پاٹ ہوتی اور جانوروں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی تھی۔ بادشاہ سب کو بُت پرستی پر مجبور کرتا تھا۔ جو پس و پیش سے کام لیتا، اُسے قتل کردیا جاتا۔ اُس سال میلے میں چند مسیحی نوجوان بھی شامل ہوئے، جو اپنی قوم کے نمائندے تھے۔ اُن نوجوانوں نے میلے کے دوران قوم کو پتھر کے بُتوں کے آگے سجدہ کرتے اور ان کے لیے خون کے نذرانے پیش کرتے دیکھا، تو انھیں قوم کی ان احمقانہ حرکتوں پر بڑا افسوس ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے میلے کے ہزاروں لوگوں میں سے چند کے دِل میں پوجا پاٹ سے شدید نفرت کے جذبات پیدا فرما دیئے۔ 

چناں چہ پہلے ایک نوجوان میلے سے باہر نکل کر دُور ایک درخت کی گھنی چھائوں میں جاکر بیٹھ گیا۔ ابھی کچھ ہی دیرگزری تھی کہ ایک اور نوجوان بھی درخت کے سائے میں آبیٹھا۔ اس طرح تھوڑی دیر میں وہاں سات نوجوان جمع ہوگئے۔ یہ سب ایک دُوسرے کے لیے اَجنبی تھے۔ یہ ساتوں نوجوان، قوم کے جاہلانہ طرزِ عبادت سے بے زار تھےاور قریب قریب بیٹھے ایک دُوسرے کے بارے میں یہ سوچ رہے تھے کہ اگر ان میں سے کسی کو بھی میرے باغیانہ خیالات کا علم ہوگیا اور اس نے بادشاہ سے مخبری کردی، تو بادشاہ مجھے قتل کروادے گا۔ اس شش و پنج میں کافی دیر گزر گئی۔ خاموشی طویل ہوتی چلی گئی۔ بالآخر ان میں سے ایک کو اللہ نے ہمّت عطا فرمائی اور وہ بول پڑا۔ ’’بھائیو! میری قوم جن پتھر کے بُتوں کی پوجا کر رہی ہے، یہ سب باطل ہے، کفر ہے۔ یہ بے جان بُت ہمارے خُدا نہیں ہو سکتے۔ 

ہمارا خُدا تو صرف ایک ہے، جس کا کوئی شریک و ثانی نہیں۔،، اس نوجوان کے یہ الفاظ تو گویا باقی نوجوانوں کے دِل کی آواز تھی۔ یُوں چند منٹوں ہی میں یہ لوگ ایک دُوسرے کے دوست اور رفیق بن گئے۔ پھر انھوں نے قوم سے بغاوت کرکے ایک اللہ کی پیروی کے لیے اپنی ایک خفیہ عبادت گاہ قائم کرلی، لیکن ان کی یہ عبادت گاہ زیادہ عرصے تک چُھپی نہ رہ سکی اوراس کی خبر سینہ بہ سینہ گردش کرتی ہوئی بادشاہ کے کانوں تک جا پہنچی۔ بادشاہ نے ان سب کو دربار میں طلب کر لیا۔ یہ نوجوان دربار میں حاضر ہوئے، تو بادشاہ نے ان سے ان کے عقیدے کے بارے میں سوالات کیے۔ اللہ نے ان کے دِل سے ڈر و خوف ختم کردیا تھا۔ 

چناں چہ انھوں نے بلاخوف و خطر نہ صرف اپنا عقیدہ بیان کیا، بلکہ بادشاہ کو بھی دعوت دے ڈالی۔ بادشاہ اور اہلِ دربار ان نوجوانوں کی بے باکی اور دلیری پر حیران رہ گئے، کیوں کہ یہ نوجوان امیر و کبیر خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ چناں چہ بادشاہ نے انھیں چند دنوں کی مہلت دیتے ہوئے حکم سُنایا کہ اگر ان چند دنوں میں تم لوگ راہِ راست پر نہ آئے، تو تم سب کو قتل کردیا جائے گا۔ دقیانوس بادشاہ کی سفّاکی مشہور تھی۔ نوجوانوں کو اس بات کا یقین تھا کہ چند دن بعد انہیں بے دردی سے قتل کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان مومن بندوں کی مدد فرمائی اور اس چند روزہ مہلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ نوجوان شہر سے دُور ایک غار میں رُوپوش ہوگئے۔ (معارف القرآن، 560/5)۔ (جاری ہے)