پاکستانی سیاست کاریکارڈ سامنے ہے کہ یہاں اصولوں پر اتحاد قائم نہیں ہوئےاور نہ ہی مداخلت سے پاک سیاست کبھی ہدف مقرر ہوئی بلکہ ذاتی، جماعتی اور گروہی مفاد کو قومی مفاد پر مقدم رکھا گیا،گزشتہ روز جمع کئے گئے سیاستدانوں کےکچھ بیانات ٹٹولنے لگاکہ اب ہم مریضوں کےپاس لایعنی مصروفیات کے سوا وقت گزارنے کیلئے اور کوئی چارہ ہی نہیں،جناب قمر زمان کائرہ کی جماعت جب حزب اختلاف میں تھی توان کااُس وقت کا بیان نظر سے گزرا جس میں انہوں نے کہاتھا کہ شہباز شریف شیر شاہ سوری بننے کے چکر میں قواعد و ضوابط سے ہٹ کر معاملات چلا رہے ہیں، گویا 2023 میں بھی انہی شیرشاہ ثانی کی حکومت ہے اگرچہ قیام پاکستان تا امروز تمام حکمرانوں کا مشترکہ اثاثہ بھی شیرشاہ کے چار سال چارماہ کے دور کا عشرِ عشیر نہیں۔ نامورمحقق ممتاز حسن کا کہنا ہے ’’جب 1545ء میں شیر شاہ سوری کا انتقال ہوا تو یہ خبر سن کر اُن کے دشمن شہنشاہ ہمایوں کے منہ سے بے اختیار نکلا، شاہِ شاہان مرگ، بادشاہوں کے بادشاہ انتقال کرگئے۔ وہ جنگجو تو تھے ہی، ادب، تاریخ اور مذہب پر بھی اُن کو دسترس تھی۔شیر شاہ سوری نے ملکی نظم و نسق بہتر بنانے کیلئے سلطنت کو 47اضلاع اور ایک لاکھ سولہ ہزار تحصیلوں میں تقسیم کیا۔ سب سے اہم کام پورے ہندوستان میں سڑکوں کی تعمیر ہے۔ پشاور سے کلکتہ تک سڑک اعظم (جی ٹی روڈ) اُن کا کارنامہ ہے جس کے اطراف میں ایک ہزار سات سو سرائے تعمیر کروائیں۔ راہگیروں کی حفاظت کیلئے ہر ایک کوس (تقریباً ساڑھے تین کلومیٹر) پر ایک فوجی چھائونی ہوتی۔ فنِ تعمیر کا شاہکار قلعہ روہتاس اُن کا کارنامہ ہے۔ 1543ء میں ایک تولے سونے کا سکہ جاری کیا اور اس کا نام روپیہ رکھا۔ آج پاکستان، بھارت اورانڈونیشیا کی کرنسی روپیہ ہے۔ برق رفتار ڈاک کا نظام قائم کیا۔ تجارتی مال پر کسٹم ڈیوٹی حاصل کرنے کا آغاز کیا۔ اسی آمدنی کے بل بوتے پر شیر شاہ نے خزانہ قائم کیا۔ ملک بھر میں زمین کی پیمائش کی مناسبت سے فصلوں پر ٹیکس کی شرح عائد کی، اگر کسی سال فصل اچھی نہ ہوتی یا نقصان ہوتا تو ٹیکس معاف اور سرکاری خزانے سے کسانوں کو معاوضہ دیا جاتا۔ شیر شاہ کے کارناموں کے احاطے کیلئے تو ہزاروں صفحات درکارہیں ، انصاف کے صرف ایک واقعہ کاذکرکرتےہیں ، جو مورخ الفسٹن کے علاوہ شیر شاہ سوری کا عہد نامہ و دیگر کتب میں بھی موجود ہے۔ شیر شاہ کا بیٹا اسلام شاہ المعروف عادل شاہ ہاتھی پر آگرہ کی ایک گلی سے گزر رہا تھا، غیر اختیاری طور پر اُس کی نظر ایک ہندو عورت پر پڑی، جو گھر کے صحن میں نہا رہی تھی۔ لہٰذا یہ سوچ کر کہ مبادہ ہاتھی پر سوار اُس کے پیچھے آنے والے دوسرے لشکری عورت کو دیکھ لیں گے، شہزادے نے خبردار کرنے کیلئے ہاتھ میں موجود پھول یا پان کا ایک بیڑا عورت کی طرف پھینکا۔ اس پر عورت بھاگ کر کمرے میں تو چلی گئی، مگر اسے بے حرمتی گردانتے ہوئے شوہر و برادری کے ہمراہ دربار میں پہنچ گئی۔ خاتون نے جیسے ہی اپنی بات مکمل کی، عادل شاہ نے وضاحت کرنا چاہی لیکن اس دوران شیر شاہ شدتِ غضب سے پکار اُٹھا ”انصاف کا تقاضا ہے کہ عادل شاہ کی بیوی اسی طرح گھر میں برہنہ ہوگی اور متاثرہ عورت کا شوہر ہاتھی پر سوار وہی چیز اس پر پھینکے جو عادل نے اسکی بیوی پر پھینکی تھی‘‘۔ پورا دربار کانپ اُٹھا، امراسفارش کرنے لگے۔ اس کے بعد اُن کا بیٹا اور خود وہ کس طرح جیتے، مگر سفارشیں رد کرتے ہوئے شیر شاہ گویا ہوئے ’’ناموس اس عورت کی بھی ہے‘‘ عورت کا شوہر اور تمام ہندو یہ سن کر شیر شاہ کے قدموں میں گر پڑے اور کہنے لگے، ہمیں انصاف مل گیا ہے، یہ حکم نافذ نہ کیجئے۔مغل چونکہ مقامی نہ تھے لہٰذا مقامی وطن ودین فروشوں کوساتھ ملا کروہ حکومت کرتے رہے،مغلوں کا آزمودہ نسخہ بعد ازاں انگریز نے اپنایا۔پاکستان آغاز ہی سے سول بیورو کریسی اور جاگیرداروں کے نرغے میں ا گیا، آزادی کےصرف دس سال بعد ملک پر مارشل لا مسلط کرتے ہوئے آمرانہ دور کی شروعات کی گئیں۔ اسی طرح وہ مختلف عناصر بھی جو بدیسی مغلوں اور انگریزوں کے کام آتے رہے، وہ نئے انداز سے پاکستان میں جمہوریت کیخلاف آمروں کے کاسہ لیس بنے۔ یوں ملک میں جمہوریت کے نام پر فراڈ اور مختلف دیگر نظاموں کے تجربات ہوتے رہے، نتیجہ غربت، بے روزگاری اور سامراجی، مالیاتی اداروں کی کاسہ لیسی کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔