• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں آج ایک حساس موضوع پر کچھ لکھنے کی جرأت کر رہا ہوں۔ ایسے موضوعوں پر عموماً علماء دین بولا اور لکھا کرتے ہیں اور بدقسمتی سے جس روانی اور سختی سے تقریر کرتے ہیں وہ سننے والوں کے کانوں میں نہیں جاتی بلکہ سر سے گزر جاتی ہے۔ میں اسی وجہ سے کچھ لکھنے کی جسارت کررہا ہوں۔
کلام مجید میں اللہ رب العزت نے لاتعداد مرتبہ ہمیں خبردار کیا ہے کہ اگر ہم اسلام کے اصولوں پر قائم نہیں رہینگے تو ہم ذلیل و خوار ہونگے، ہمیں تباہی، ذلّت کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہماری جگہ دوسرے لوگوں کو حکمرانی دیدی جائے گی۔ آپ ترجمہ کے ساتھ کلام مجید کا مطالعہ کریں تو آپ کو لاتعداد فرمان اِلٰہی نظر آئیں گے کہ گھومو، پھرو اور دیکھو کہ گنہگاروں کا کیا حشر ہوا۔ ان کے نشانات جگہ جگہ موجود ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمراں نہ کلام مجید پڑھتے ہیں اور نعوذ باللہ نہ ان کو خوف خدا ہے۔ سورۃ المائدہ، آیت 105 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا۔ اگر تم خود راہ راست پر ہو (یعنی اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہو)، اللہ کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے پھر وہ تمھیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو‘‘۔ تفہیم القرآن میں مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے کہ انسان کو دوسروں کے عیب تلاش کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اس آیت کا منشا یہ ہر گز نہیں کہ آدمی بس اپنی نجات کی فکر کرے، دوسروں کی اصلاح نہ کرے۔ آپ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی اس غلط فہمی کی تردید کا حوالہ انؓ کے خطبہ میں فرمایا ہوا یہ بیان پیش کیا ہے۔ ’’لوگو! تم اس آیت کو پڑھتے ہواور اس کی غلط تاویل کرتے ہو۔ میں ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جب لوگوں کا یہ حال ہوجائے کہ وہ بُرائی کو دیکھیں اور اُسے بدلنے کی کوشش نہ کریں، ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کاہاتھ نہ پکڑیں تو بعید نہیں کہ اللہ اپنے عذاب میں سَب کو لپیٹ لے۔ خدا کی قسم تم کو لازم ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو ورنہ اللہ تم پر ایسے لوگوں کو مسلط کردے گا جو تم میں سب سے بدتر ہونگے اور وہ تم کو سخت تکلیفیں پہنچائیں گے پھر تمھارے نیک لوگ خدا سے دُعائیں مانگیں گے مگر وہ قبول نہ ہونگی۔‘‘ آپ سے میرا سادہ سا سوال ہے کیا موجودہ حالات اس سے مختلف ہیں؟
فقید المثال مولانا جلال الدین رومیؒ مومن کی دُعا کی قبولیت میں تاخیر (یا نا قبولیت) میں تاخیر کےسبب کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
’’فرشتے جب باری تعالیٰ میں عرض کرتے ہیں کہ وہ مومن بندہ رو رہا ہے تو جب غیروں کو عطا کرتا ہے تو اس مومن کی عطا میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو جواب دیتا ہے کہ یہ تاخیر اس لئے نہیں کہ ہم اسے حقیر سمجھتے ہیں بلکہ یہ تو اس کی ایک مدد ہے۔ اس کا رونا ہمیں پسند ہے اور اس تاخیر میں اس کا اعزاز ہے۔ اس کی حاجت نے اسے ہماری طرف متوجہ کیا ہے اگر اس کی دعا جلد قبول کرلی جائے اور اس کی حاجت رفع ہوگئی تو ہم سے رخصت ہو کر کھیل کود میں لگ جائے گا۔ وہ اب دل سے ہمیں پکار رہا ہے، اس کی آواز یا خدا کہنا ہمیں سب پسند ہے۔ مومنین کی خوبیوں کی وجہ سے یہ دنیا ان کا پنجرہ ہے اور کافروں کی برائیوں کی وجہ سے یہ دنیا ان کیلئے جنت اور باغ ہے جس میں وہ کھلے پھرتے ہیں۔ مومن کی دعا کی قبولیت میں تاخیر کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ساتھ مصروف رکھنا چاہتا ہے۔
میراث والے نے گریہ زاری سے اللہ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ہاتف نے غیب سے آواز دی کہ تجھے خزانہ مصر میں ملے گا اسے خزانے کی جگہ کا پتہ بھی بتا دیا گیا۔ وہ شخص مصر پہنچا تو رات کے وقت آوارہ گردی میں گرفتار کرلیا گیا۔ کوتوال نے اسے مارا لیکن اس کے بعد اس کی مشکل حل ہوگئی۔ اس نے کوتوال سے کہا کہ مجھے نہ مار میں اپنے صحیح حالات بتاتا ہوں، اس نے کہا میں مصری نہیں ہوں اور چوری وغیرہ سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بات سچی تھی اور سچائی سننے والے کے دل میں اطمینان پیدا کردیتی ہے۔ اس کی باتوں سے اس کی اندرونی سوزش کا پتہ چلتا تھا۔ اس کی درد بھری داستان سن کر کوتوال رو پڑا۔ کوتوال نے پردیسی سے کہا کہ تو بے وقوف ہے کہ ایک خواب کے پیچھے بغداد سے یہاں آگیا میں نے کئی بار خواب دیکھا ہے کہ خزانہ بغداد میں ہے ، کوتوال نے اسے خزانے کا پورا پتہ بتا دیا جو کہ اس پردیسی کے کوچے اور گھر کا پتہ تھا۔ اس نے کہا میں نے یہ خواب بار بار دیکھا ہے لیکن میں بغداد نہیں گیا۔ تیری یہ حماقت ہے کہ خواب پر دوڑ پڑا۔ ناقص عقل کے خواب بھی قابل بھروسہ نہیں ہوتے۔
کوتوال کا خواب سن کر اس نے اپنے آپ سے کہا کہ جب خزانہ خود میرے گھر میں ہے تو میں یہاں فقر کی حالت میں کیوں پھر رہا ہوں۔ یہ سب میری غفلت کا نتیجہ ہے۔ اس نے سوچا کہ خزانے کا ملنا کوتوال کی مار پر موقوف تھا ویسے میرے پاس سب کچھ تھا وہ مجھے احمق کیوں سمجھتا ہے۔کوتوال کی بات سننے کے بعد وہ بغداد کی جانب روانہ ہوگیا۔ وہ راستے بھر حیرا ن رہا کہ اللہ نے کہاں کا امیدوار بنایا اور کہاں مقصد پورا فرمایا۔ اس میں کیا حکمت تھی کہ مجھے وطن سے بے وطن کیا اور خزانے کے خلاف رہنمائی کردی جس میں مَیں خوشی سے دوڑ رہا تھا۔ میرا جو قدم مصر کی طرف اٹھتا تھا خزانے سے دور ہو رہا تھا پھر میری اسی گمراہی کو کامیابی کا ذریعہ بنا دیا۔ مصر میں کوتوال کے ہاتھوں پٹا اور وہی کوتوال خزانے کا وسیلہ بن گیا۔چونکہ خزانہ گمان کے خلاف حاصل ہوا تو اس سے انسان کا خدا پر بھروسہ بڑھتا ہے اور اسباب کو مستقل نہیں سمجھتا۔ اللہ بعض اوقات انسان کی گمراہی کو ایمان کا سبب بنا دیتا ہے اور احسان اور عبادت کے نتیجے میں بعض اوقات گمراہ ہوجاتا ہے۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ کوئی عبادت گزار خوف خدا سے خالی نہ رہے اور کوئی بدکار رحمت سے مایوس نہ ہو۔ برائی میں بھلائی کو اس لئے مخفی کیا گیا ہے تاکہ اس کے اسم ’’ذواللطف الخفی‘‘ کا مظہر سامنے آتا رہے۔ عبادت گزار کو بخشنا اللہ کا مخفی لطف نہیں ہے۔ گناہ گار کو مغفرت سے نوازنا لطف خفی ہے۔
فرعون نے جادوگروں کو اس لئے جمع کیا تھا تاکہ موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کو باطل کردیں لیکن یہی مکر الٹا ہوگیا اور حضرت موسیٰ ؑکا گواہ عصا معتبر ثابت ہوا۔ فرعون بنی اسرائیل کے تعاقب میں نکلا لیکن اس کی یہ حرکت بنی اسرائیل کیلئے باعث اطمینان ہوگئی اور وہ دریا کے پانی میں غرق ہوگیا۔ اگر وہ مصر میں رہتا تو بنی اسرائیل ہمیشہ ڈرتے رہتے ، یہ سب اس لئے ہوا کہ جان لیا جائے کہ امن خوف میں پوشیدہ ہے۔ عارف چونکہ ہر قسم کے خطرات سے گزر چکے ہیں لہٰذا وہ بالکل امن میں ہیں وہ دیکھ چکے ہیں کہ بہت سے خوف کے اسباب سے انہیں امن حاصل ہوا۔ جس طرح امن خوف میں مخفی ہوتا ہے اسی طرح خوف بھی امن میں مخفی ہوتا ہے۔
وہ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے گیا اللہ نے اس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مشابہ بنا دیا۔ قوم اسے عیسیٰ علیہ السلام سمجھی اور سولی پر چڑھا دیا وہ کہتا رہا کہ میں عیسیٰ علیہ السلام نہیں ہوں لیکن اس کایقین کون کرتا۔ قوم نے کہا یہ عیسیٰ ہے بہانہ بنا کر ہم سے چھوٹنا چاہتا ہے۔ جو فعل اس نے باعث امن سمجھا اس میں خوف مخفی تھا۔ عالم میں بہت سے واقعات ہوئے ہیں کہ انسان ان کو مفید سمجھتا ہے اور وہ مضر ہوتے ہیں۔ اس شخص نے بغداد آکر کوتوال کے خواب کے مطابق گھر کھودا تو اسے خزانہ مل گیا۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا کہ اس پر واضح ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات مضر باتوں میں نفع پوشیدہ کردیتا ہے۔‘‘
مولانا جلال الدین رومیؒ کی یہ حکایت یا مثنوی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تشریح ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بعض اوقات جس چیز کو ہم اچھی سمجھتے ہیں وہ درحقیقت ہمارے لئے بُری ہوتی ہے اور جس چیز کو ہم ظاہراً بُرا سمجھتے ہیں درحقیقت وہ ہمارے لئے بہتر ہوتی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں ہماری دُعائوں کی ناقبولیت اور ہمارے اوپر بدترین لوگوں کا تسلط ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے جس کی تشریح ہمارے پیارے رسولؐ نے سورۃ المائدہ کی آیت 105کی فرمائی ہے جس کا تذکرہ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے ایک خطبہ میں فرمایا ہے۔
تازہ ترین