اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت اسد عمر کی جوڈیشل کمپلیکس میں توڑ پھوڑ کے کیس میں درخواستِ ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
دورانِ سماعت پراسیکیوٹر عدنان علی اے ٹی سی جج راجہ جواد عباس کی عدالت میں پیش ہوئے۔
اے ٹی سی جج نے افسر سے سوال کیا کہ کیا اسد عمر کے خلاف 109 کے تحت مقدمہ درج ہے؟
تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ 109 کے تحت نہیں، اسد عمر مقدمے میں نامزد ہیں۔
اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے اسد عمر کے خلاف کیس میں کچھ دیر کے لیے وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اے ٹی سی کے جج نے ریمارکس دیےکہ یہ ہ وہی دن ہے جس دن جج ظفر اقبال کی عدالت اے ٹی سی میں لگائی گئی تھی، مجھے رات کو 1 بجے پیغام آیا کہ میری عدالت میں صبح جج ظفر اقبال کی عدالت لگے گی۔
پراسیکیوٹر عدنان علی نے کہا کہ اسدعمر ناصرف کارکنان کو لائے بلکہ انہوں نے جلاؤ گھیراؤ بھی کروایا۔
اےٹی سی کے جج نے کہا کہ اسد عمر کا کیس اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے جہاں دہشت گرد خالی ہاتھ آیا ہے۔
پراسیکیوٹر عدنان علی نے جواب دیا کہ عدلیہ سمیت دیگر اداروں میں عدم استحکام پیدا کرنے کی مہم چلائی گئی، پی ٹی آئی کارکنان نے جوڈیشل کمپلیکس کے باہر گاڑیاں جلائیں۔
وکیل صفائی نے جوابی دلائل میں کہا کہ پی ڈی ایم سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کرتی ہے اور ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہوتا۔
اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے اسد عمر کی درخواستِ ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل سنایا جائے گا۔