میں نے گزشتہ دنوں اپنے کالم میں بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے کے معاہدے کو منسوخ کرنے پر ورلڈ بینک کی بین الاقوامی عدالت ICSID کی طرف سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا 6 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کئے جانے کا ذکر کیا تھا جس کو اعلیٰ سطح پر صدر مملکت کے ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ نے حکومت پاکستان کے مصالحتی معاہدے کو گزشتہ سال دسمبر میں قانونی حیثیت دی کیونکہ 15 دسمبر 2022 تک فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں پاکستان پر 9 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جاسکتا تھا۔ اب حال ہی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کو وزارت تجارت اور خارجہ نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مارچ 2024 تک مکمل نہ ہونے کی صورت میں معاہدے کے مطابق ایران، پاکستان پر 18ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کرسکتا ہے۔ ایران نے اس منصوبے میں اپنے حصے اور علاقے میں گیس پائپ لائن بچھادی ہے جبکہ پاکستان امریکہ کی ایران پر اقتصادی پابندیوں کے باعث منصوبہ مکمل نہیں کرسکا ۔ یاد رہے کہ پاکستان نے 13 جون 2010 کو ایران سے 25 سال کیلئے GSPA معاہدے پر دستخط کئے تھے جس کے مطابق دسمبر 2014تک ایرانی سرحد سے نوابشاہ تک گیس پائپ لائن بچھانا تھی ۔ ایران نے 2011میں اپنی جنوبی گیس فیلڈ سے گیس سپلائی کیلئے 960 کلومیٹر گیس پائپ لائن بچھا دی ہے اور صرف 300 کلومیٹر پائپ لائن پاکستان کی سرحد تک پہنچانا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے 781کلومیٹر گیس پائپ لائن جس سے پاکستان کو یومیہ 750 ملین کیوبک فٹ گیس ملنی تھی، اقتصادی پابندیوں کے باعث مکمل نہ کی جاسکی۔ معاہدے کی رو سے منصوبہ مکمل نہ ہونے کی صورت میں جنوری 2015 سے پاکستان کو یومیہ ایک ملین ڈالر جرمانہ ادا کرنا تھا جو اب تک 18 ارب ڈالر بنتے ہیں۔پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں تاخیر پر ایران نے پاکستان کو ثالثی عدالت جانے کا نوٹس بھیجا تھا تاہم پاکستانی حکام سے مذاکرات کے بعد یہ نوٹس واپس لے لیا گیا تھا اور ستمبر 2019میں پاکستان نے نیشنل ایرانی گیس کمپنی کے ساتھ ایک نظرثانی معاہدے کے تحت اس بات پر اتفاق کیا کہ 2024تک کوئی بھی ملک جرمانے کے حصول کیلئے ایک دوسرے کو عالمی عدالت لے کر نہیں جائے گا جس کی مدت آئندہ سال مارچ میں ختم ہورہی ہے۔
قارئین! اس وقت پاکستان کو یومیہ 400mmcfd گیس کی کمی کا سامنا ہے اور ملک کے گیس کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان 1990 سے گیس پائپ لائن کے ذریعے قدرتی گیس حاصل کرنے کے مختلف منصوبوں پر کام کررہا تھا جس میں پاکستان، ترکمانستان TAPI، پاک ایران گیس پائپ لائن اور پاکستان قطر زیر سمندر پائپ لائن کے منصوبے شامل تھے لیکن بدقسمتی سے اب تک ان میں سے کوئی بھی منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا جس کی وجہ سے پاکستان اب قطر اور دیگر ذرائع سے مائع گیس (LNG) امپورٹ کررہا ہے جو قومی خزانے پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے ۔ ایران اقتصادی پابندیوں کے باوجود 80ارب ڈالر کی اشیا دیگر ممالک کو ایکسپورٹ کررہا ہے ۔ بھارت اور چین ایران سے سستا تیل خرید رہے ہیں، خود پاکستان، ایران سے 104 میگاواٹ بجلی خرید رہا ہے جبکہ حال ہی میں پاکستان نے گوادر کیلئے 100 میگاواٹ اضافی بجلی کا معاہدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایرانی ڈیزل اور پیٹرول پورے ملک میں کھلے عام فروخت ہورہا ہے جو ایرانی کرنسی میں خریدا جاتا ہےاگر حکومت ایرانی ڈیزل اور پیٹرول سرکاری طور پر امپورٹ کرے تو حکومت کو اربوں روپے کا ٹیکس وصول ہوگا۔ بھارت، ایران سے بارٹر معاہدے کے تحت تجارت کررہا ہے لیکن پاکستان بارٹر تجارتی معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے ان ممالک سے تجارت نہیں کرسکتا۔ مجھے خوشی ہے کہ حال ہی میں حکومت پاکستان نے ایران، روس اور افغانستان کے ساتھ ڈالر کے بجائے بارٹر تجارت کی اجازت دی ہے اب ایران اور پاکستان’’ مال کے بدلے مال ‘‘کے تحت تجارت کرسکیں گے۔
پاکستان اور ایران میں تجارت کا سب سے بڑا مسئلہ دونوں ممالک میں بینکنگ چینل کانہ ہونا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ نے اس سلسلے میں وزارت خارجہ کو ہدایات دی ہیں کہ پاکستان جرمانے سے بچنے کیلئے امریکی سفیر سے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر پابندی پر نظرثانی کرنے کی درخواست کرے کیونکہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا معاہدہ امریکہ کی ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے سے پہلے ہوا تھا۔ بھارت بھی ایران کے ساتھ SAGE منصوبے کے تحت بحیرہ عرب کے راستے 31 ارب ڈالر کے گیس منصوبے پر بات کررہا ہے جس میں ایران کی چاہ بہار گیس فیلڈ سے بھارت کے شہر گجرات تک گیس پائپ لائن کی تنصیب شامل ہے ۔خطے میں تیزی سے رونما ہوتی تبدیلیاں، چین کے اہم کردار سے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بحالی ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔