السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
سیٹ کی عزت
تم نے میرے خط کو ’’کاغذ کے نام پرایک چیتھڑا سا‘‘ قرار دیا۔ حالاں کہ مَیں ہمیشہ اے فور سائز کاغذ پرٹائپ شدہ خط بھیجتی ہوں۔ چوں کہ میری اُردو ہینڈ رائٹنگ خراب ہے تو اسی وجہ سے مَیں موبائل فون سے ٹائپ کیے ہوئے خط کا پرنٹ نکال کر بھیجتی ہوں۔ اور موبائل فون سے ٹائپنگ میں حاشیہ، سطر چھوڑنا ممکن نہیں ہوتا، تو وہ بےشک نہیں چھوڑپاتی۔ بہرحال، تمھارا، میرے خط کو چیتھڑا سا قرار دینا مجھے بہت بُرا لگا۔
مَیں تمھیں ایک بات بتائوں، یہ جوآج لوگ تمھاری اتنی عزت کرتےہیں، تمھارے اہانت آمیز الفاظ بھی برداشت کرلیتے ہیں، تواُس کی وجہ تم نہیں، تمھاری سیٹ ہے۔ اور جب تم اِس کُرسی پر نہیں ہوگی، تو شاید یہ لوگ بات کرنا بھی پسند نہ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ تم اپنی غلطی کبھی تسلیم نہیں کرو گی، لیکن مَیں نے بہرحال اپنا احتجاج ریکارڈ کروا دیا ہے۔ 25 فروری کو ایکسپو میں ہونے والے عالمی مشاعرے کی اختر سعیدی نے جس خُوب صُورتی سے منظر کشی کی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مَیں خود بھی اپنے شوہر کے ساتھ اُس مشاعرے میں موجود تھی۔
رؤف ظفر نے گوانتاناموبے جیل سے متعلق جو مضمون لکھا، پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ تو یہ ہے، امریکا بہادر کا اصل بھیانک چہرہ۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا ’’سفرنامۂ دہلی‘‘ تو ایک عُمدہ ناول کی شکل اختیارکرگیا ہے۔ تاریخِ مدینہ منوّرہ پر محمود میاں نجمی کی عرق ریزی تو کمال ہے۔ بلاشبہ تاریخِ مکّہ و مدینہ پر یہ تحقیقی مضامین ایک منفرد مقام رکھتے ہیں اورجب کتابی شکل میں شایع ہوں گے، تو یقیناً تاریخ کے طلبہ کے لیے ایک بہترین تحفہ ثابت ہوں گے۔ (شاہدہ تبسّم، کراچی)
ج:بے حد شکریہ۔ آپ کے احتجاج کے ساتھ آپ کے زرّیں خیالات سے بھی آگہی حاصل ہوگئی۔ گرچہ آپ نے بڑے یقین سے دعویٰ کیا کہ ’’تم اپنی غلطی تسلیم نہیں کرو گی‘‘ لیکن یہاں آپ کے پورے خط کی اشاعت ہی اِس بات کا ثبوت ہے کہ گرچہ ہماری نیّت قطعاً غلط نہیں تھی، لیکن پھر بھی اگر آپ کو محض ایک لفظ کے استعمال پر(اور لفظ بھی کوئی ایسا بُرا نہیں، نہ تو اس کے معنی ہی کچھ غلط ہیں کہ حقیقتاً آپ کا وہ خط کٹے پھٹے سے ایک کاغذ کے ٹکڑے پرکسی لِیر، پھرّے ہی کے موافق تھا اور آج خط ضرور اے فور سائز پر بھیجا گیا ہے، اُس روز ایسا نہیں تھا) اس قدرتضحیک کا احساس ہوا ہے، تو ہم تہہ دل سے معذرت خواہ ہیں۔ مگریہ بھی خیال رہےکہ اگرغیرارادی طور پر استعمال ہونے والامحض ایک لفظ دل آزاری کا باعث بن سکتا ہے، توپوری تقریر یا فتوے کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہوں گے۔
خواتین کا یوم، مرد کی تحریر؟
نرجس جی! کیسی ہو، اُمید ہے، خیریت سے ہوگی۔ 8 مارچ، کہنے کو خواتین کا عالمی دن ہے، مگر اِس کی ابتدا امریکا سے ہوئی اور یہ کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور یہود و نصاریٰ کی گود میں پروان چڑھا، جب کہ درحقیقت مادر پدرآزادی کی خواہش مند خواتین کےاس مطالبے نے یورپ کے خاندانی نظام کی دھجّیاں بکھیر کے رکھ دیں اور اب ہمارے مُلک میں بھی پچھلے چند سال سے کچھ مغرب زدہ خواتین اسلامی عقائد کو پامال کرتے ہوئے اپنے گلے میں ’’آزادی‘‘ کے نام کا طوق ڈالنے کو بے قرار ہیں۔ میرے خیال میں تو اگر اِس دن کو لازماً منانا ہی ہے، تو یا تو خُود کوئی تحریر لکھا کرو یا ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی سے لکھوایا کرو۔
خواتین کے یوم سے متعلق کسی مرد کی تحریر عجیب ہی معلوم ہوتی ہے۔ ہاں، شفق رفیع نےڈاکٹرزینت سلیمان کا ایک بہت خُوب صُورت اورمفیدانٹرویو لیا۔ منور مرزا کے امریکی صدر کے خفیہ دورے سے متعلق تجزیے نے کچھ خاص متاثر نہیں کیا۔ راؤ محمّد شاہد کا مضمون بےحد معلوماتی تھا۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کے ’’سفرنامۂ دہلی‘‘ کی تو کیا بات ہے، خُوب سےخُوب تر ہی ہوتا چلاگیا۔ مدینہ منوّرہ سلسلے کی تیرہویں قسط بھی مستند کتب اوراحادیث کے حوالہ جات سےمزیّن ایک تاریخی دستاویز ثابت ہوئی، جس کا ہر ہر لفظ عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے سرشار معلوم ہوتا ہے، تو جملوں کی چاشنی، واقعات کے تسلسل کا بہتا دریا قاری کو اپنے ساتھ ساتھ بہائے لیے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہاری اوربزرگوارکی کاوشیں قبول فرمائے۔ پیارا گھر، ڈائجسٹ اور ناقابلِ فراموش کی تحریریں تو سیدھی دل میں اُتریں اور ہاں، ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر تمہاری تحریر ہمیشہ کی طرح بہت ہی خُوب صُورت تھی۔ (ریحانہ ممتاز، کراچی)
ج:ہمارے خیال میں تو ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ سے متعلق کسی مردکالکھنا ہرگز کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں، بلکہ مرد کی تحریر میں تو چوں کہ غیر جانب داری کا عُنصر بھی موجود ہوتا ہے، تو وہ کہیں زیادہ مستند اور پُراثر ثابت ہوتی ہے۔
عرفان کو عمیر، عمیر کو عرفان؟
اُمید ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھ کام کرنے والی ٹیم خیریت سے ہوگی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منورراجپوت نے’’عالمی یومِ خواتین‘‘پر مضمون تحریر کیا اور اُس میں وہ خواتین کے غم میں گُھلتے نظر آئے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں شفق رفیع نے ڈاکٹر زینت سلیمان سے مفید بات چیت کی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کے مضمون کی 13ویں قسط پڑھی، بہترین تحریر تھی، ایمان مزید پختہ ہوا۔
’’عالمی افق‘‘ پر منور مرزا چھائے نظر آئے، تو ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں راؤ محمّد شاہد اقبال نے چیٹ جی پی ٹی سے متعلق مضمون کی ابتدا ہی میں عرفان کو کہیں عمیر بنا دیا، تو کہیں عمیر کو عرفان کر دیا۔ ایک تواتنی مشکل تحریر،اُس پراِس قدر گنجلک۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ریطہ طارق نےاچھا مضمون تحریر کیا، جب کہ ڈائجسٹ میں نظیر فاطمہ نے بھی ’’ماریہ کی بھابی‘‘ کے عنوان سے ایک بہترین افسانہ ہماری نذر کیا۔ ڈاکٹراحمد حسن رانجھا، دہلی کا قطب مینار دِکھا رہے تھے اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ’’دوست ہوتا نہیں، ہر ہاتھ ملانے والا‘‘ پڑھ کر بہترین سبق حاصل ہوا۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر 3، کراچی)
ج:جی، آپ نے بالکل درست نشان دہی کی۔ ایک بہترین مضمون کے انٹرو میں اِس طرح کی غلطی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اور اِس ضمن میں لکھاری سے زیادہ، سب ایڈیٹر قصوروار ہے، سو، سخت تنبیہ کر دی گئی ہے۔
دِل کی ہر بات لکھ دی
شفق رفیع نے تو کمال کردیا، اتنی شان دار تحریر ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رقم کی، گویا ہمارے دل کی ہر بات لکھ دی، خصوصاً سائرہ بانو کے جوابات نے دل خُوش کردیا۔ سرِورق کی فوٹو گرافی اور آپ کی تحریر نے جریدے کو چار چاند لگا دیئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا آئی ایم ایف کے ساتھ موجود تھے، ہمیشہ کی طرح عُمدہ تجزیہ یش کیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کی مدینہ منورہ کے ماضی و حال سے متعلق ہفتہ وار تحریر کا تو کوئی مول ہی نہیں۔
ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا ’’دہلی نامہ‘‘ بھی میگزین کی جان ہے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں محمّد اکبر اور محمّد مشتاق احمد سیال کی کہانیاں لاجواب تھیں، تو ’’متفرق‘‘ میں اسرار ایوبی نے باٹا کی کہانی بھی اچھے انداز سے بیان کی اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں خطوط پڑھ کر تو گویا سب ہی خطوط نگاروں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج:دل کی ہر بات کہاں لکھی جا سکتی ہے۔ کچھ باتیں یقیناً ابھی بھی رہ گئی ہوں گی۔
مَردوں کی برابری سے بھی آگے
6 مارچ کا شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق سے ’’اتنے بہت سے رنگ… اے عورت ! اتنے بہت سے رنگ!!‘‘پڑھتے ہوئے آگے بڑھے۔ ’’اشاعت ِخصوصی‘‘ میں منور راجپوت ’’عالمی یومِ خواتین’’ پر، ’’اب صرف برابری کافی نہیں‘‘ کے عنوان سے عورت کے اہم معاشرتی مسائل پر مبنی شان دار نگارش لائے۔ واقعی آج کی عرت، مَردوں کی برابری سے بھی آگے نکل گئی ہے اور یہ حقیقت فراخ دلی سے قبول کرنی چاہئے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں شفق رفیع آغا خان ہیلتھ سروس، افریقا کی سی ای او، ڈاکٹرزینت سلیمان سے نرسز کی خدمات و اہمیت سے متعلق بات چیت کررہی تھیں۔ اُن کی گفتگو سے نہ صرف نرسنگ کے پیشے کی اہمیت سے آگاہی ہوئی، نرسز سے متعلق کئی غلط فہمیاں بھی دُور ہوگئیں۔
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی ’’مدینہ منورہ: عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک‘‘ کی تیرہویں قسط لائے، بخدا تحریر پڑھ کر بہت لُطف آ رہا ہے۔ امریکی صدر کے دورۂ یوکرین کا احوال بذریعہ ’’عالمی افق‘‘ منور مرزا نے بیان کیا اور خُوب کیا۔ اور یہ کس قدر خُوشی کی بات ہے کہ ’’سینٹراسپریڈ‘‘ میں مسلسل آپ کا رائٹ اَپ پڑھنے کو مل رہا ہے۔ واقعی، وجودِ زن سے ہے، تصویرِ کائنات میں رنگ۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں راؤ محمّد شاہد اقبال چیٹ جی پی ٹی کی افادیت و اہمیت بیان کر رہے تھے۔ محوِ حیرت ہوں، دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ریطہ طارق نے اچھی تحریرلکھی۔
ٹماٹر سے چہرے کو تروتازہ و شاداب رکھنے کی ترکیب بھی خُوب تھی، جب کہ شمائلہ کامران ’’پارٹی اسنیکس‘‘ سے سہیلیوں کی تواضع کر رہی تھیں۔ نظیر فاطمہ ’’ماریہ کی بھابی‘‘ کے عنوان سے اچھا افسانہ لائیں۔ جب کہ ’’میری نظم‘‘ ممتا کے جذبات کی بہترین مثال تھی۔ ’’دہلی نامہ‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا، بزرگانِ دین کے مزارات کا رُوح پرور احوال بیان کر رہے تھے، تو نئی کتابوں پر اختر سعیدی کا تبصرہ حسبِ روایت بے مثال تھا۔ جب کہ ہمارے باغ و بہار صفحے پر جاوید اقبال ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کے حق دار ٹھہرے اور یقیناً درست ہی ٹھہرے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)
ج:بیش تر تحریروں کی پسندیدگی کا شکریہ، مگربطورِخاص ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پرمسلسل ہماری تحریر پڑھ کراِس قدرخوش ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ جوں ہی ہمیں کوئی متبادل میسّر آئے گا، ہم اس ذمّےداری سے سبک دوش ہونے میں لمحہ بھر نہیں لگائیں گے۔
نظرِ کرم کی منتظر
’’باب الاسلام‘‘ کی مناسبت سے عظیم سپہ سالار، فاتحِ سندھ محمد بن قاسمؒ سے متعلق ایک تحریر حاضرِ خدمت ہے۔ جب کہ کچھ مزید تحریریں بھی آپ کی نظرِ کرم کی منتظر ہیں۔ (بابر سلیم خان، لاہور)
ج: آپ کی ہر لائقِ اشاعت تحریر، آپ کے بنا کہے بھی شائع کردی جاتی ہے۔ فی الوقت ہمارے پاس جو مضامین موجود ہیں، غالباً قابل اشاعت نہیں۔ بہرحال، آپ کوحتمی طور پر ناقابلِ اشاعت کی فہرست کے ذریعےہی بتایا جائے گا۔
فی امان اللہ
اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کی ٹیم کو بمع اہل و عیال خُوش رکھے اور زندگی میں آسانیاں عطا فرمائے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سنڈےمیگزین کا سب سے مقبول اور انتہائی ذوق و شوق سے پڑھا جانے والا صفحہ ہے۔ اس میں شائع ہونے والے سلسلے وار مضامین میں اسلامی تاریخ کےاُن ایمان افروز ابتدائی حالات و واقعات کا بڑی صراحت سے ذکر کیا جاتا ہے، جن سےبالعموم ہماری اکثریت لاعلم ہےاور محمود میاں نجمی اُنہیں نہایت عرق ریزی سے مجتمع کر کے پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی عُمر میں برکت عطا فرمائے۔19 ؍ مارچ کے ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں فیفا ورلڈ کپ قطر کی سیکیوریٹی کے بھاری معاوضے کی وصولی کے باوجود، اُس کی عدم موجودگی پر ننّھی سی، شفق رفیع نے سوال اُٹھا کربڑی سی جرأت کا اظہار کیا ہے، حالاں کہ ایسے سوالات کرتے تو بڑے بڑے دانش وَروں کے پَر جلتے ہیں۔ 29؍ جنوری کے شمارے میں معروف کالم نگار، ادیب اور شاعر عرفان صدیقی کی شخصیت پر ڈاکٹر فہمیدہ تبسّم کا لکھاہوا مضمون، گویا اُردو ادب کا ایک شاہ کارتھا۔
ایسی نایاب تحاریراب شاذونادر ہی نظر سے گزرتی ہیں۔ چندماہ قبل فاروق اقدس نے پاکستانی سیاست میں خواتین کے ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ پر ایک سلسلے وار مضمون لکھا تھا۔ بات پُرانی ہوگئی، ’’رات گئی، بات گئی‘‘ کے مصداق اس پر تبصرے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، مگر اُس کے آفٹر شاکس تبصرے کے محرّک بنے اور مجھ پر یہ روح فرسا حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ موصوف نے جس شخصیت پر بھی طبع آزمائی کی، اُس پر قلم کی ’’برکات‘‘ کا نزول شروع ہوگیا اور وہ کسی نہ کسی ابتلا کا ضرور شکار ہوا۔ مثلاً جن خواتین سیاست دانوں پر مضمون لکھا گیا، آج وہ اپنی شان و شوکت، تمام تر حکومتی اعزازات، تعیشّات اور سہولتوں سےمحروم ہوکراپنے چاپلوس خوشامدیوں کے ہجرو فراق میں دل گرفتہ، گُم نامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہی ہیں۔
پھر اُنہوں نے لال حویلی پر قلم اُٹھایا، تو اُسے تالے لگ گئے۔ کچھ ذکرِ خیر اُس کے ’’مکینِ دل نشین‘‘ کا فرمایا، تو سیاست کے اُس آثارِ قدیمہ کو بھی ہتھکڑی لگ گئی۔ اب فاروق اقدس کو چاہیے کہ وہ ’’متاثرین نند اور ساس زدگان‘‘ مظلوم بچیوں سے ہم دردی اور یک جہتی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے لیے چار حروف ساس و نند پر بھی لکھ بھیجیں، تاکہ اُن کے مقدّس قلم کے فیوض و برکات کی بدولت ’’پیاراگھر‘‘ سے ساس، نند ’’آئوٹ‘‘ اور بہو، بھاوج ’’اِن‘‘ قرار پائیں۔ ڈاکٹر احمدحسن رانجھا آج کل ہمیں دہلی کی سیر کے ساتھ ساتھ اُس کی تاریخ سےبھی رُوشناس کروارہے ہیں۔ درگاہوں، مزاروں، اُن سےملحقہ بازاروں کےاحوال، وہاں کی روایات کے تذکرے، مغلیہ حُکم رانوں کے جاہ و جلال کے قصّے اور بعض شہزادوں کی بدنصیبی و بے بسی کے واقعات قارئین کو اپنے سحرمیں جکڑے ہوئے ہیں۔
اِس سفرنامے میں میری غیر معمولی دل چسپی کی وجہ، اُس شہر سے میرے آبائواجداد کاتعلق ہے۔ ڈاکٹرصاحب تاریخی عمارات، لال قلعے اور دہلی کےکوچہ و بازار کا ذکر کرتے ہیں، تو مَیں چشمِ تصوّر سے اپنے بزرگوں کےعہدِ رفتہ کا نظارہ کرنے لگتا ہوں۔ میرے جکّڑ دادا دہلی میں اُس وقت آباد ہوئے، جب بہادر شاہ ظفر منہ میں چسنی اور گلے میں بب لگائے ’’پنگھوڑے‘‘ (جھولے) میں قلقاریاں مارتے تھے۔ پھر میرے کھڑدادا، سڑ دادا، پڑ دادا اور محترم دادا اپنے اپنےزمانے میں بالترتیب گلشن آرا، روشن آرا، عالم آرا اور جہاں آرا سے رشتۂ ٔ ازدواج میں منسلک ہوگئے اور باقی بچیں تو صرف ’’شمیم آرا‘‘، مگر صد افسوس کہ میرے لڑکپن ہی میں وہ فلم انڈسٹری کو پیاری ہوگئیں اور جب میں سنِ بلوغت کو پہنچاتو وہ اللہ کو پیاری ہوگئیں، وگرنہ آج میری بھی کوئی ’’آراء‘‘ ہوتیں اور بٹیا! آپ اپنے دیرینہ وعدے اور اعلان کا بھرم رکھتے ہوئے میری ’’آراء‘‘ کو بہت مقدّم، بےحد اہم جانتے ہوئے اس کا بھرپوراحترام کرتیں اور اُسی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہتیں۔ (محمّد جاوید، اقبال ٹائون، راول پنڈی)
ج:آپ کی ’’آراء‘‘ کو اب اِس سے زیادہ کیااہمیت و فوقیت دی جائے کہ مسلسل نمایاں ترین مقام پر شایع کیے جا رہے ہیں۔
* میرا مضمون ’’جگر کا سرطان‘‘ انتہائی شان دار طریقے سے شایع کرنے کا بے حد شکریہ۔ اللہ تعالیٰ ادارے کو بہت ترقّی و کام یابی نصیب فرمائے۔ (ڈاکٹر محمّد عارف شیخ، حیدرآباد)
* سنڈے میگزین میں نوجوانوں کے لیے ایک علیحدہ صفحےکی بہت شدّت سے کمی محسوس ہوتی ہے۔ آپ سے بصد احترام گزارش ہے کہ میگزین میں ایک صفحہ نوجوانوں کے لیے بھی ضرور مختص کیا جائے۔ (سیّد بلال حقانی، کراچی)
ج:ہمیں تو ایسی کوئی کمی بہت شدّت سے تو کیا، سرسری سی بھی محسوس نہیں ہوتی کہ ہمارے بیش تر مضامین/ سلسلے، نوجوانوں ہی کے لیے مختص ہیں اور یُوں بھی جب ایک پورا صفحہ (براڈ شیٹ) ہفتہ وار نوجوانوں کے لیے باقاعدگی سے شایع ہو رہا ہے، تو پھر سنڈے میگزین میں کوئی صفحہ مخصوص کرنے کی کوئی تُک ہی نہیں بنتی۔
* مَیں نے ایک تحریر بعنوان ’’سُوکھی روٹی‘‘ بھیجی تھی، اگر شایع ہوگئی ہے، تو لِنک بھیج دیں۔ (منیبہ مختار اعوان)
ج: ماشاء اللہ… آپ لوگوں کے فرمایشی پروگرام کے تو کیا ہی کہنے۔ اوّل تو ابھی تحریر دیکھی بھی نہیں گئی کہ اشاعت یا عدم اشاعت کا فیصلہ ہو۔ دوم، شایع ہو بھی گئی، تو اس کے لیے باقاعدہ آپ کے گھر جا کر اطلاع نہیں دی جائے گی۔ آپ کو خُود ہی جریدے کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنا ہوگا اور سوم، ہمارے یہاں سے لِنک بھیجنے کی سروس بھی قطعاً مہیا نہیں کی جاتی کہ بہت محدود اسٹاف کے ساتھ دیگر بے شمار ضروری امور نمٹانے کو موجود ہیں۔
* سنڈے میگزین ایک عرصے سےزیرِ مطالعہ ہے۔ عید کا شمارہ بہت پسند آیا، مگر ایک شکوہ ہے کہ آپ نے میری شِیر خُرمے کی ترکیب تبدیل کردی۔ پھر، مَیں نے اپنی بہنوں کے لیے جو شعری پیغام بھیجا، اُسے بھی بدل دیا گیا۔ (ثناء توفیق خان، ماڈل کالونی، کراچی)
ج: تمہاری بھیجی گئی شِیرخُرمے کی ترکیب سے تو اللہ جانے کیا ہی شِیرخُرما بنتا۔ جس قدر تبدیلی کی ضرورت تھی، اُسی قدر کی گئی اور جو اشعار بہنوں کے لیے بھیجے، وہ بھی سو فی صد بے وزن تھے۔ شاعر صاحب نے اُٹھا کے پھینک دیئے تھے۔ اب یا تو ہم شایع ہی نہ کرتے یا پھر اُسی مفہوم میں کچھ اور شایع کر دیتے۔ سو، ہم نے دوسری صُورت پر عمل کیا، تو اب خُود ہی بتاؤ، کیا بُرا کیا۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk