• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت: منور راجپوت

آصف غیاض کا شمار پاکستان کے صفِ اوّل کے مصوّروں میں ہوتا ہے، اُن کے فن پاروں کی کام یاب نمائشیں نہ صرف اندرونِ مُلک، بلکہ امریکا، کینیڈا اور برطانیہ میں بھی ہو چُکی ہیں، جب کہ وہ ایک موسیقار کے طور پر بھی اپنی شناخت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں فنِ مصوّری اور اُن کی سرگزشتِ حیات کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت ہوئی، جس کا احوال جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔

س: آپ مصوّری کی طرف کیسے آئے، کیا خاندان کا کوئی اور فرد بھی اِس فن سے وابستہ تھا؟

ج: میرے بڑے بھائی(مرحوم) کو مصوّری سے خاصا شغف تھا، وہ اکثر ملازمت سے واپس آکر گھر میں مختلف قسم کے اسکیچز بناتے رہتے، تو مَیں اُنھیں بہت دل چسپی سے دیکھتا، اُس وقت میری عُمر سات، آٹھ برس ہوگی۔ یوں مجھے بھی مصوّری سے لگاؤ ہوگیا اور بس آڑی ترچھی لکیریں کھینچتے کھینچتے مصوّر بن گیا۔

س: کیا کسی ماہرِ فن کی باقاعدہ شاگردی بھی اختیار کی؟

ج: جی ہاں، بھائی کو دیکھ کر دِل کیا کہ کسی ایسے شخص تک رسائی ہوجائے، جو مجھے اِس فن کی باریکیوں سے آگاہ کرسکے اور پھر قدرت یوں مہربان ہوئی کہ معروف مصوّر، اقبال مہدی کی خدمت میں پہنچ گیا، اُنھیں اپنا کام دِکھایا، تو بہت خوش ہوئے اور صرف دو ہی ماہ میں مجھے اپنے باقی شاگردوں پر فوقیت دینے لگے۔ میرے جنون اور جستجو کو سراہتے ہوئے کہتے’’ غیاض! دیکھنا، تم ایک روز شہرت کی بلندیوں پر پہنچو گے‘‘ اور اللہ نے استاد کی زبان مبارک کی۔

مَیں نویں کا امتحان دے رہا تھا،جب اقبال مہدی کے پاس پہنچا۔ انٹر تک تعلیم اور مصوّری ساتھ ساتھ چلتی رہی، پھر پڑھائی کی طرف رجحان کم ہوتا گیا اور مکمل طور پر مصوّری میں گم ہوگیا۔ مجھے ایسا لگا کہ یہی میری منزل ہے۔ تقریباً 8، 10سال اُن کی خدمت میں رہا۔ اُن کا گھرانا، ایک ادبی گھرانا تھا، جہاں اکثر و بیش تر ادبی محافل ہوا کرتیں،جن سے مَیں نے بہت کچھ سیکھا اور بلاشبہ، اُن کا اسٹوڈیو بھی ایک ادبی انسٹی ٹیوٹ تھا۔مَیں نے دنیاوی اور دینی تعلیم اُنہی سے سیکھی۔

مَیں مصوّری کرتے ہوئے گنگناتا بھی رہتا، تو مہدی صاحب میری حوصلہ افزائی کرتے اور موسیقی سیکھنے کی ترغیب دیتے۔وہ دن میں دو، چار بار مجھے آواز دے کر بُلاتے اور مختلف گانے سُنانے کی فرمائش کرتے۔پھر اُنھوں نے ہی مجھے نام وَر موسیقار، نثار بزمی کے پاس بھیجا، جن سے مَیں نے بہت استفادہ کیا۔دراصل، مَیں بہت چھوٹی عُمر ہی سے گانے سُنا کرتا اور گنگناتا رہتا۔اب مختلف محافل، شادی بیاہ کی تقریبات میں گاتا بھی ہوں۔ مہدی صاحب صحت کی خرابی کے سبب 1994ء میں کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوئے، تو اُن کا اسٹوڈیو بند ہوگیا، جس کے بعد مجھ سمیت اُن کے تمام شاگردوں نے اپنے اپنے نام سے کام شروع کردیا، جب کہ اِس سے قبل ہمارا کام استاد ہی کے نام سے سامنے آتا تھا کہ وہ اُنہی کی بدولت تھا۔

نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی: محمّد اسرائیل انصاری)
نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی: محمّد اسرائیل انصاری) 

س: پہلی پینٹنگ کب اور کتنے میں فروخت ہوئی اور اُس وقت کیا احساسات تھے؟

ج: یہ 1994ء کی بات ہے، جب مہدی صاحب کے پاس کام سیکھ رہا تھا اور اپنے طور پر بھی کچھ بناتا رہتا تھا، پھر اُن دنوں آرٹس کاؤنسل بھی آنا جانا رہتا، تو مَیں نے وہاں بُک شاپ پر اپنی ایک پینٹنگ رکھوا دی، جو سات ہزار روپے میں فروخت ہوئی۔ جب وہ رقم جیب میں ڈال کر آرٹس کاؤنسل سے باہر نکلا، تو خود کو ہوا میں اُڑتا محسوس کر رہا تھا۔

ایسے میں ایک تتلی کو اُڑتا دیکھ کر میری زبان سے بے ساختہ نکلا ’’ارے او تتلی! تیرے جیسے میرے رنگ ہوں… مَیں بھی تجھ سا اُڑنا چاہوں‘‘،پھر کافی دیر یہ بول ترنّم سے گاتا رہا، جب کہ آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیر رہے تھے۔ بعدازاں، اِن بولوں پر پوری نظم کہی کہ شاعری سے بھی کچھ لگاؤ ہے۔

س: آپ کے فن پاروں کی اب تک کتنی نمائشیں ہوچُکی ہیں؟

ج: پاکستان کی کئی آرٹ گیلریز سمیت امریکا، کینیڈا اور برطانیہ میں میرے فن پاروں کی سولو اور گروپس کے ساتھ نمائشیں ہو چُکی ہیں۔ ابتدائی دنوں میں لاہور کے الحمرا میں میری ایک نمائش بے حد کام یاب ہوئی کہ پورا شو ہی بِک گیا تھا۔ اس کے بعد میری پینٹنگز کی قدر وقیمت میں اضافہ ہوا۔منتظمین نے بھی بہت عزّت سے نوازا، جہاز کا ٹکٹ دیا،یوں زندگی میں پہلی بار جہاز میں بیٹھا۔ شام کو گھر والوں کو فون کیا، تو خوشی سے رو پڑا کہ میرے فن نے مجھے اتنی عزّت سے نوازا۔ میرا فیس بُک اور انسٹا گرام وغیرہ کے ذریعے کچھ لوگوں سے رابطہ تھا،جنہوں نے برمنگھم میں میری پینٹنگز کی نمائش کا اہتمام کیا،جس کے بعد بیرونِ مُلک بھی سلسلہ چل پڑا۔

س: آپ کی زیادہ تر پینٹنگز میں فنِ تعمیر یا کلچر، جب کہ بعض میں انتظار کی کیفیت نمایاں ہے، تو ایسا کیوں ہے؟

ج: دراصل مَیں اپنے فن کے ذریعے اپنی تہذیب و تمدّن کو نمایاں کرتا ہوں، روایتی غراروں، ساڑیوں، چُوڑی دار پاجاموں اور کھسّوں کا استعمال مجھے پسند ہے۔اور جہاں تک انتظار کی بات ہے، تو اس کا بھی ایک پس منظر ہے کہ مَیں بچپن میں جسے پسند کرتا تھا، اُسے حاصل نہ کرسکا۔

س: کیا واقعی رنگوں کی بھی زبان ہوتی ہے؟

ج: جی بالکل، رنگ بولتے ہیں۔جیسے سیاہ سے اداسی اور نیلے یا سُرخ سے خوشی کا اظہار ہوتا ہے، تاہم، مَیں زیادہ تر خوشی کے رنگ استعمال کرتا ہوں۔میری پینٹنگز میں اداسی تو ضرور ہے، لیکن رنگ خوشی ہی کے ہیں، میرے اندر جو اداسی ہے، مَیں وہ لوگوں کو خوشی کے رنگوں سے دِکھانا چاہتا ہوں۔

س: مصوّر تو بہت ہیں اور سب ہی اپنے اپنے فن میں طاق بھی، تو آپ کی انفرادیت کیا ہے؟

ج: میری انفرادیت یہ ہے کہ میرے کام میں اقبال مہدی کی جھلک نظر آتی ہے، البتہ کچھ تجربات مَیں نے خود بھی کیے۔جیسے مہدی صاحب بیک گراؤنڈ کم ہی بناتے تھے اور جو بناتے، وہ سادہ ہوتے، جب کہ مَیں بیک گراؤنڈ پر بہت کام کرتا ہوں، تو اِس طرح میری ایک الگ پہچان بھی بنی ہے۔

س: پینٹنگز کی کن اقسام میں کام کرتے ہیں اور کیا کبھی وال پینٹنگ بھی کی ہے؟

ج: آئل پینٹنگ، لینڈ اسکیپ، اسکیچز سب ہی اقسام میں کام کرتا ہوں، تاہم میرے بنائے گئے اسکیچز کی مانگ زیادہ ہے۔وال پینٹنگ بھی بہت کی، مگر اس کے لیے کلائنٹس کے گھر یا دیگر مقامات پر جانا پڑتا ہے، جو مجھے کچھ خاص پسند نہیں۔

س: عمومی طور پر لوگوں کا رویّہ کیسا ہوتا ہے؟

ج: نمائشوں میں تو ہماری کسی دولھے کی طرح پزیرائی کی جاتی ہے۔ویسے مجھے جو بھی عزّت ملی، وہ استاد ہی کی بدولت ہے،لہٰذا مَیں جہاں بھی جاتا ہوں، پہلے اپنے استاد ہی کا نام لیتا ہوں۔ویسے آج بھی مصوّری کے قدر دان اور کلائنٹس موجود ہیں۔

س: جدید کیمروں نے فنِ مصوّری کو کتنا متاثر کیا ہے؟

ج: جدید ڈیجیٹل کیمروں کی وجہ سے مصوّری کا شعبہ متاثر تو ہوا ہے، لیکن ہاتھ سے بنی اشیاء کی قدر و قیمت الگ ہی ہے۔آج بھی اگر آپ کیمرے سے کوئی تصویر کھینچ کر آرٹ گیلری میں لگائیں، تو اُسے کوئی نہیں خریدے گا۔

س: کیا مصوّری کو ذریعۂ معاش بنایا جاسکتا ہے؟

ج: لگن، جستجو اور مہارت ہو، تو یہ روزی روٹی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔میری پہلی پینٹنگ سات ہزار روپے میں فروخت ہوئی اور اب میری آرٹ گیلری پرائس ساڑھے تین لاکھ روپے ہے اور لوگ یہ قیمت خوشی خوشی ادا کرتے ہیں۔مَیں ایک ماہ میں دو اسکیچ بنا سکتا ہوں اور میرے پاس اِتنا کام ہوتا ہے کہ دو، دو ماہ کے بعد کا وقت دینا پڑتا ہے، جب کہ لوگ پیشگی رقم ادا کرتے ہیں۔دیکھیں، ابتدا میں پریشانی تو ہوتی ہے، مگر جب نام بنتا ہے، تو خریدار بھی مل جاتے ہیں۔ جب مَیں نے پینٹنگ کا آغاز کیا، تو بہت مشکل حالات دیکھے، اپنی تخلیقات کو اِدھر اُدھر لے کر پِھرتا رہتا، مگر کوئی توجّہ نہیں دیتا تھا۔

س: اِن دنوں عمومی طور پر مصوّر کن مسائل سے دوچار ہیں؟

ج: دراصل بڑے بڑے آرٹ ڈیلر یا کلکٹر اب پینٹنگز نہیں خرید رہے، کیوں کہ وہ معاشی حالات سے خوف زدہ ہیں اور نمائشیں منعقد کروانے والے بھی کچھ زیادہ دِل چسپی نہیں لے رہے۔

س: کیا یہ فن نئی نسل کو بھی منتقل کر رہے ہیں؟

ج: جی، میرے کئی شاگرد ہیں، جنھیں ساٹھ، ستّر ہزار روپے تن خواہ بھی دیتا ہوں اور وہ میرے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے اور ماشاء اللہ اُس میں ایک بہترین مصوّر بننے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔ اُس نے بہت سی پینٹنگز بنائی بھی ہیں۔ مجھے تدریس کی بھی آفر ہوئی، مگر وقت ہی نہیں ملتا۔

س: مستقبل کے کیا منصوبے کیا ہیں؟

ج: میری خواہش ہے کہ اپنی ایک آرٹ گیلری ہو اور مَیں ایک میوزک اسٹوڈیو بھی بنانا چاہتا ہوں۔