بات چیت: شفق رفیع
’’ہم اس مُلک کی پہلی نسل ہیں، اس لیے خو د کو منوانا، اپنی قابلیت ثابت کرناضرور ی تھا ، یہ ثابت کرنا تھاکہ ہم کسی سے کم نہیں، لیکن ذرا آج کی عورت، بچیوں کو تودیکھیں، جو اپنے اپنے شعبوں میں آگے بڑھنے، نام کمانے کے لیے کس قدر محنت و مشقّت کررہی ہیں۔ حالاں کہ انہیں تو اس قدر محنت کرنے کی ضرورت بھی نہیں کہ ان سے پچھلی نسل کی خواتین ثابت کر چُکی ہیں کہ پاکستانی خواتین کسی سے کم نہیں، پھر بھی آج کی نسل محنت سے جی نہیں چراتی، اس میں آگے بڑھنے کی لگن ہے۔
جب مَیں نے کہا کہ ’’پاکستان کاؤنسل آف آرکیٹیکٹس‘‘ بننی چاہیے، تو مجھے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، اخبارات میں میرے خلاف اشتہارات چَھپے، جب ہیریٹیج کے حوالے سے قانون کی بات کی، تو کئی لوگ ناراض ہوگئے، ہیریٹیج فنڈز کے زیاں پر آواز اُٹھائی، تب بھی خُوب واویلاہوا، یہاں تک کہ مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں، لیکن مَیں کسی سے ڈرنے والی نہیں۔ میرا ماننا ہے کہ جب آپ کسی کام کا ارادہ کرلیں، تو اس کی تکمیل کے لیے ڈَٹ جانا چاہیے۔ کئی لوگ میری سادگی پر حیران ہوتے ہیں کہ مَیں کوئی جیولری، برانڈڈ کپڑے وغیرہ کیوں نہیں پہنتی ، تو بھئی، ہم ایک غریب مُلک کے باسی ہیں، اپنی یہ شان و شوکت کسے دکھائیں، اُن غریبوں کو، جودو وقت کی روٹی کے لیے کولھو کے بیل بنے ہوئے ہیں۔‘‘
یہ خیالات ہیں، پاکستان کی پہچان، آن بان شان ،وطنِ عزیز کی پہلی خاتون آرکیٹیکٹ، یاسمین لاری کے، جن کے لیےحال ہی میں حکومتِ برطانیہ کی جانب سےآرکیٹیکچرنگ کے معتبر ترین ایوارڈ ’’His Majesty the King's Royal Gold Medal‘‘کا اعلان کیا گیا ہے۔ یاد رہے، اس ایوارڈ کی منظوری خود بادشاہ یاملکۂ وقت دیتے ہیں۔
بلاشبہ، یاسمین لاری کا شمار مُلک کے معروف ترین آرکیٹیکٹس میں ہوتا ہے، جنہوں نے کئی خُوب صُورت بلڈنگز ڈیزائن کیں، لیکن اب ماحول دوست، سستے گھر اور’’ پاکستان چولھا‘‘جیسے منصوبے ان کی پہچان ہیں۔ ہم نے گزشتہ دنوں ان سے ایک ملاقات کی، جس میں ان کی ذاتی زندگی سے پروفیشنل زندگی تک اور کنکریٹ، اسٹیل کی دیدہ زیب بلڈنگزسے بانس کے گھر بنانے تک کے سفر سے متعلق تفصیلی بات چیت ہوئی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔
س: خاندان ، ابتدائی تعلیم وتربیت سے متعلق کچھ بتائیں، کتنے بہن بھائی ہیں اور کیا کیا کرتے ہیں ؟
ج: ویسے تو ہم اردو اسپیکنگ ہیں اور آباؤ اجداد کا تعلق یوپی سے تھا، لیکن ہمارا زیادہ تر وقت پنجاب میں گزرا، کیوں کہ میرے والد ظفرالاحسن انڈین سول سروس(آئی سی ایس) میں تھے۔ یاد رہے، یہ وہ زمانہ تھا، جب انگریز ہندوستان پر قابض تھا اور انڈینز، خاص طور پر مسلمان تو سول سروسز کا امتحان بمشکل ہی دیتے اور کام یاب ہو پاتے تھے، ایسے میں ہمارے والد نے مقابلہ جاتی امتحان پاس کیا ، تو انگریزوں نے ہمیشہ ہی اُن کی پوسٹنگ پنجاب رکھی۔
میرے شوہر(سہیل ظہیر لاری)نے ، جو معروف تاریخ دان اور محقّق تھے، جب اس حوالے سے برطانوی کتب خانے جاکر تحقیق کی، تو معلوم ہوا کہ میرے والد نے انگریز سرکار کو ایک خط لکھا تھاکہ ’’میرا تبادلہ، میرے ہی علاقے میں کر دیں‘‘ جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ ’’نہیں، آپ کو دوسرے علاقے میں پوسٹ کیا جائے گا کہ کسی بھی فرد کو اُس کے اپنے علاقے میں پوسٹ نہیں کیا جاتا۔‘‘اس طرح ابّا ساری زندگی پنجاب کے مختلف علاقوں ہی میں تعینات رہے۔ پھر اُس زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ اگر کوئی افسر پوسٹنگ والے علاقے کی زبان وغیرہ سیکھ لیتا، تو اسے اسٹائپنڈکی مد میں کچھ اضافی رقم بھی دی جاتی،تو یوں ابّا نے پنجابی سیکھ لی اور ایسی سیکھی کہ لب و لہجہ بھی بالکل ویسا ہی ہوگیا۔
تقسیمِ ہند سے پہلے وہ جن علاقوں میں تعینات رہے،اُن سب کی تعداد اور نام تو مجھے نہیں معلوم البتہ ، کچھ علاقوں جیسےپٹھان کوٹ ، جہلم، سیال کوٹ اور ڈیرہ غازی خا ن(جہاں میری پیدائش ہوئی) وغیرہ سے متعلق علم ہے۔بعد ازاں، قیامِ پاکستان کے بعد ہمارا خاندان لاہور آگیا، جہاں ابّا کو ڈی سی تعینات کیا گیا ، اس طرح وہ لاہور کے پہلے ڈی سی بنے اور انہوں نے ہی 14 اگست 1947ء کو ڈی سی آفس پر پہلا پاکستانی جھنڈا لہرایا۔ جہاں تک بات ہے، ہم بہن بھائیوں کی، تو ہم چار بہن بھائی (ایک بھائی، تین بہنیں) ہیں۔ سب سے بڑے بھائی تھے، جن کا انتقال ہو چُکا ہے، پھر میرا نمبر ہے اور مجھ سے چھوٹی دو بہنیں ہیں۔
منجھلی بہن کینیڈا میں رہائش پذیر ہے، جب کہ سب سے چھوٹی بہن نسرین جلیل کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ اس کا شمار مُلک کے معروف سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ اب اگر ابتدائی تعلیم و تربیت کی بات کریں، تو بڑی دل چسپ بات ہے کہ انگریز اپنے بچّوں میں سے لڑکوں کو ایچی سن کالج اور لڑکیوں کو کوئن میریز میں بھیجتے تھے، لہٰذا ہمارے ابّا نے بھی بھائی کو ایچی سن اور مجھے کوئن میریز میں داخل کروادیا۔ یہاں یہ بتاتی چلوں کہ اس سے قبل ہم لوگ گھر ہی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ جس علاقے میںابّا کی پوسٹنگ تھی، وہاں اسکولز وغیرہ نہیں تھے، اس لیے گھر پر ماسٹر صاحب پڑھانے آتے تھے۔
خیر،اللہ جانے امّی کے کہنے پر یا کسی اورسبب کوئن میریز میں داخلے کے تین، چار برس بعد مجھے وہاں سے نکلوا کر ’’ادبستانِ صوفیا ‘‘ میں داخل کروادیا گیا، جہاں مَیں نے عربی بھی سیکھی اور فارسی بھی۔ اور میرا خیال ہے، یہاں میرا داخلہ اس حوالے سے بہت اہم اور اچھا رہا کہ ایک طرف مَیں نے پوری طرح سے انگریزی ماحول، انگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کی، تو دوسری جانب انتہائی روایتی اسکول میں بھی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔
ویسے ہمارے گھر کا ماحول بھی ایسا ہی تھا کہ والد تعلیم حاصل کرنے کے لیے آکسفورڈ گئے، پھر انگریزوں کے ساتھ کام کرتے کرتے انگریز وں جیسے ہی ہوگئے، جب کہ والدہ غرارہ پہننے والی انتہائی طرح دار، روایتی سی خاتون تھیں، جن میں مشرقیت کُوٹ کُوٹ کر بَھری ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ گھر میں میلاد وغیرہ کی محافل بھی ہوتی تھیں اور رکھ رکھاؤ کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ۔ اس طرح مَیں نے دو ثقافتوں کے امتزاج میں تربیت پائی اور میرے خیال میں میرے لیے یہ بہت اچھا بھی رہا۔
س: بچپن کہاں اور کیسے گزرا، کوئی یاد، جو ہم سے شیئر کرنا چاہیں؟
ج: ہم تمام بہن بھائیوں کا بچپن کا ایک بڑا حصّہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں گزرا۔ مَیں سنجیدہ سی ، پڑھائی میں اوّل آنے والے بچّوں میں سے تھی۔ اور جہاں تک بات ہے، بچپن کی کسی یاد کی، تو سچ کہوں تو ہمارا تعلق اپر کلاس سے تھا، وسیع و عریض گھر میں رہتے، جہاں نوکر چاکرہر وقت آگے پیچھے ہوتے۔ کون سی آسائش تھی، جو ہمیں حاصل نہیں تھی۔ لیکن ہم زیادہ کسی سے ملتے جُلتے تھے ، نہ ہی بہت دوست بنا سکتے تھے۔
بس، ایک الگ ہی دنیا تھی ہماری۔دراصل،اُس زمانے میں سوِل سرونٹس خود کو بالکل الگ تھلگ ، سب سے دُور رکھتے تھے ، جیسے میرے تایا جج تھے، تو وہ بھی زیادہ لوگوں سے نہیں ملتے تھے۔ اُس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ کہیں کام میں کوئی مداخلت نہ کرے، کوئی تعلق، کوئی دوستی کام کے آڑے نہ آجائے، کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہوجائے۔اور دوسری وجہ اپنے رتبے و مقام کا زعم تھا، جو میرے خیال میں ہر گز اچھی بات نہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی ہم جیسے لوگوں کا اس طرح کا طرزِ عمل یقیناً عجیب سی بات تھی۔
س: بچپن میں کیا بننا چاہتی تھیں، آرکیٹیکٹ بننے کا خیال کب آیا؟
ج: میرے والد پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز(پی آئی اے)کے پہلے چیف ایگزیکٹیو بھی تھے، تو اُس زمانے میں آفیشلز کو فری ایئرٹکٹس ملتے تھے، جو ہمیں بھی ملے، تو ہم سب چھٹیاں گزارنے برطانیہ چلے گئے۔ میرے بھائی کو ڈرامے میں بہت دل چسپی تھی اور مجھے آرکیٹیکچر میں۔ اور تعمیرات میںیہ دل چسپی والد ہی کی وجہ سے پیدا ہوئی کہ وہ اُن چند لوگوں میں سے تھے، جنہوں نے پاکستان کو بنانے میں(بعد از تقسیمِ ہند) بہت محنت کی۔ نیا لاہور، گلبرگ، ثمن آبادوغیرہ اُن ہی کی کاوش کا نتیجہ ہیں۔ پھر ابّا کو تھل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا سربراہ بنا دیا گیا۔
تھل ایک صحرا تھا، جہاں انہوں نے قریباً پانچ شہر بسائے اور ہم ہر جگہ اُن کے ساتھ جاتے تھے(مَیں نے بچپن میں گاڑی کا اتنا سفر کیا ہے کہ اب مجھے گاڑی کے سفر ہی سے چِڑ ہوگئی ہے)۔میرےابّا کا کہنا تھا کہ ہمارا وطن ایک نوزائیدہ مملکت ہے، جہاں ماہرِ تعمیرات نہیں ہیں، تو یہاں کیسے ترقّی ہوگی، تو اُن کی یہی باتیں کہیں نہ کہیں میرے ذہن میں گھر کرگئی تھیں، تو جب ہم لندن گئے تو مَیں نے آرکیٹیکچر اسکول میں داخلے کی کوشش کی، جس میں ناکام رہی۔ اُن لوگوں کا کہنا تھا کہ ’’ابھی تو آپ صرف 15 برس کی ہیں، تو پہلے جا کر آرٹس سیکھیں، او ، اے لیولز کریں، اس کے بعد داخلہ لینے کا سوچیے گا۔‘‘
اس طرح وہاں مَیں نے دو سال بہت محنت کی، دن میں ارٹس کی تعلیم لیتی تھی اور شام کی کلاسز میں او لیولزکے کچھ مضامین پڑھنے شروع کیے۔ خیر، بالآخر مَیں نے آکسفورڈ اسکول آف آرکیٹیکچر سے گریجویشن کیا۔ یہاں ایک بات ضرور بتانا چاہوں گی کہ اُس زمانے میں لڑکیوں کے لیے کچھ زیادہ کیریئر آپشنز موجود نہیں تھے، توجب ابّا کو اس حوالے سے آگاہ کیا، تو انہوں نےبھی حوصلہ افزائی کی۔ دَرحقیقت ابّا کی سب سے اچھی بات ہی یہی تھی کہ وہ ہمیں کسی کام سے روکتے نہیں تھے۔ جیسے نسرین کوپائلٹ بننے کا شوق تھا، تو جب انہوں نے ابّا سے اس خواہش کا اظہار کیا، تو انہوں نے خُوب سراہا اور یوں وہ کمرشل پائلٹ بنی۔
س: جس زمانے میں آپ نے تعمیرات کی تعلیم حاصل کی، اُس دَور میں تو خواتین کا باہر نکلنا، ملازمت کرنا کافی معیوب سمجھا جاتا تھا، پھر آپ نے تو انتخاب ہی مَردوں کے لیے مخصوص سمجھے جانے والے شعبے کاکیا، تو یہ تجربہ کیسا رہا؟
ج: مانا کہ وہ دَور آج کی طرح جدید ٹیکنالوجی سے لیس نہیں تھا،خواتین کا ملازمت کرنا بھی کچھ خاص پسند نہیں کیا جاتا تھا، لیکن اس کے باوجود وہ کسی حد تک ایک آزاد خیال دَور تھا، اُس وقت بھی خواتین کی بڑی تعدادطب اور درس و تدریس کے شعبوں سے وابستہ تھیں ۔ اور صرف ہمارا دَور ہی نہیں، ہم سے پچھلی نسل بھی قدرے ماڈرن اور تعلیم یافتہ تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح، بیگم اکرام اللہ، بیگم رعنا لیاقت وغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جو روایات کی پاس دار تو تھیں، لیکن وقت پڑنے پر کام کرنے گھروں سے باہر بھی نکلیں اور عوام کی قیادت بھی کی۔
پھر جنگِ آزادی میں خواتین نے کیسےبڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور مَردوں کی ڈھال بنیں، تو میرے خیال میں تو ہمارا دَور کم از کم ہمارے لیےبہت اچھا تھا،لوگ عزّت کرنے والے تھے، ہمیں ہر طرح کی سہولتیں میسر تھیں، جو شاید آج کی بچیوں کوبھی نہیں۔ہاں، کچھ مشکلات تو آتی ہیں اور وہ ہمیں بھی پیش آئیں۔ جیسے شروع شروع میں لوگ ’’خاتون آرکیٹیکٹ ‘‘ پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ جیسے فنانس اینڈ ٹریڈ سینٹر(ایف ٹی سی ) کی تعمیر کے دوران ایسی سیڑھی لگائی ، جسے دیکھ کر لگتا تھا کہ اس پر چڑھیں گے تو گر جائیں گے، اس طرح لوگ میرا امتحان لیتے تھے کہ مَیں بطورخاتون بنا ڈر،خوف کام کر سکتی ہوں یا نہیں اور بہرحال،آپ کوآگے بڑھنے،ترقّی کرنے اور اپنا آپ منوانےکے لیے ہر طرح کا امتحان پاس کرنا پڑتا ہے، جو مَیں نے بخوبی کیا۔
س: ایک سوِل سرونٹ کی بیٹی سے پاکستان کی پہلی خاتون آرکیٹیکٹ بننے تک کے سفر میں کس کس کا بَھر پور تعاون حاصل رہا؟
ج: اس حوالے سے مَیں خود کو خوش قسمت ترین تصوّر کرتی ہوں کہ مجھے زندگی کے ہر ہر قدم پر پہلے والدین، پھر شوہر، سُسرال اور پھر بچّوں کا بَھرپور تعاون حاصل رہا۔ دراصل جب ایک عورت گھر سے باہر نکلتی ہے، تو جو چیز اُس کی اصل ڈھال بنتی ہے، وہ گھر والوں کی سپورٹ ہے۔ اگر عورت کو پتا ہو کہ میرے ابّا، بھائی ، شوہر ہمیشہ میری رہنمائی اورمجھ پر اعتماد کریں گے، تو وہ ہر طرح کی مشکلات سے باآسانی نبردآزما ہوکر غیر معمولی کامیابیاں حاصل کر سکتی ہے۔
س: کیریئر کا آغاز کب اور کہاں سے کیا، پہلی تن خواہ کتنی تھی اور کہاں خرچ کی؟
ج: مَیں نے 1964ء میں اپنا ایک چھوٹا سا دفتر کھولا تھا اور میرا پہلا پراجیکٹ ، بھائی کا گھر تھااور بھائی سے پیسے کون لیتا ہے، تو مَیں نے بھی نہیں لیے تھے، البتہ وہ گھر ڈیزائن کرنے کے بعدخود اعتمادی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا، پھر غالباً 1969ء میں پاک بحریہ کے لیے ایک پراجیکٹ کیا۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ ایڈمرل احسن سے میری ملاقات کسی تقریب میں ہوئی، تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’’ہم ملٹی اسٹوری فلیٹس بنانا چاہ رہے ہیں۔‘‘
جس پر مَیں نےکہا کہ ’’آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں، اس سے بہتر توہے کہ ایسی عمارت بنائیں، جس میں چھت ہواوروہ ماحول دوست بھی ہو۔‘‘تو انہوں نے کہا ’’کم بجٹ میں ایسا ہو سکتا ہے، تو کر کے دکھاؤ‘‘ مَیں نے بھی اسے بطور چیلنج قبول کیا، تو کارساز میں جو گھر بنے ہوئے ہیں، وہ میرا پہلا بڑا پراجیکٹ تھا، حالاں کہ اس وقت مَیں کم عُمر اور کیریئر کے ابتدائی دنوں میں تھی، لیکن نیول آفیسرز نے مجھ پر بھر پور اعتماد کیا اور مکمل سپورٹ بھی کیا۔ پھر جب بھٹو صاحب کی حکومت آئی، تو اس میں میرے والد کی سیٹ اَپ کی گئی، ہماری انڈسٹریز کو قومی املاک میں شامل (نیشنلائز)کر لیا گیااور یہ امر ہمارے پورے خاندان کے لیے پریشان کن تھا۔
خیر،چند دن بعد میرے پاس بھٹو صاحب کے سیکریٹری کی کال آئی اور انہوں نے کہا کہ ’’آپ کا تعلق پاک بحریہ سے ہے؟ ‘‘مَیں نے کہا کہ ’’مَیں نے نیول سوسائٹی ضرور بنائی ہے، لیکن مَیں سویلین ہوں‘‘تو انہوں نے کہا ’’صدر صاحب (ذوالفقار علی بھٹو)آپ سے ملنا چاہتے ہیں، مَری آجائیں۔‘‘ جب یہ بات مَیں نے گھر میں بتائی تو ابّا سمیت پورے خاندان نے جانے اور ملنے سے منع کیا، لیکن ایوانِ صدر سے بلاوا آیا تھا، منع کیسے کرتی۔ بہرحال، مَیں چلی گئی، گوکہ جانے سے قبل کئی خدشات کا شکار تھی کہ سب ہی نے مجھ سے کہا تھا کہ بھٹو صاحب بہت سخت مزاج ہیں، تمہیں طویل انتظار کروائیں گے وغیرہ وغیرہ، لیکن یقین کریں کہ مَیں نے انہیں اس کے بالکل برعکس پایا۔
جب وہاں پہنچی تو وہ دروازے پر میرے استقبال کے لیے کھڑے تھے، مجھے انتہائی عزّت و تکریم سے بٹھایا، پھر بیگم بھٹو آگئیں،دونوں میاں بیوی نے مجھے پاکستان کی پہلی خاتون آرکیٹیکٹ ہونے پر خُوب داد ِ تحسین دی۔کئی پراجیکٹس آفر کیے ، تو میں بھی بہت خوشی خوشی گھر لوٹی کہ کیریئر کی ابتدا ہی میں اتنا کچھ مل رہا تھا، لیکن گھر والوں نے اس حکومت کے لیے کام کرنے سے سختی سے منع کردیا۔
البتہ ان تمام پراجیکٹس میں ایک کام نوڈیرو (بھٹو صاحب کا گاؤں)ڈیزائن کرنے کا بھی تھا، جس کے لیے میرے ابّا نے کہا کہ صرف یہ کام کردو اور وہ بھی بلا معاوضہ، لیکن بد قسمتی سے وہ پراجیکٹ شروع ہی نہ ہو سکا۔اس کے بعد بھی مجھے حکومت کی طرف سےکئی پراجیکٹس، پوسٹس آفر ہوئیں، جو مَیں شکریے کے ساتھ منع کردیں۔ ہاں، ایک پراجیکٹ پر(انگوری باغ، لاہور) سوشل ہاؤسنگ اسکیم، جو مزدور طبقے کے لیےتھا ،ضرورکام کیا، جس کے آرکیٹیکچر کی آج بھی تعریفیں کی جاتی ہیں۔ پھر جنرل ضیاءالحق کا دَور آگیا، اُس میں بھی کام کیا،مٹی کی بیرکس بنائیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ فورسز کا رویّہ مجھ سے ہمیشہ بہت اچھا رہا۔
س: جنرل ضیاء کے دَور میں تو خواتین پر خاصی پابندیاں تھیں، تو انہوں نے ایک ماڈرن خاتون آرکیٹیکٹ سے کیسے کام کروالیا؟
ج: دیکھیں، وہ ذاتی طور پر نرم مزاج اور انتہائی خوش اخلاق انسان تھے۔مشاہدہ کریں، تو پتا چلے گا کہ آرمی آفیسرز سخت مزاج تو ہوتے ہیں، لیکن خواتین کی بےحد عزّت کرتے ہیں۔ مَیں پہلی خاتون آرکیٹیکٹ ہوں ، جسے آرمی کی طرف سے کوئی پراجیکٹ (آمرڈ کور میس، نوشہرہ)دیا گیااور مجھے معلوم بھی نہیں تھا کہ جنرل ضیاء الحق بھی اسی کور سے ہیں۔ لیکن کام کے دوران میرا اس قدر خیال رکھا گیاکہ انسپیکشن کے لیے جاتی، تو آرمی کی ایک گاڑی میری گاڑی کے ساتھ رہتی کہ کہیں بیابان میں پیٹرول نہ ختم ہوجائے، گاڑی خراب نہ ہوجائے وغیرہ وغیرہ۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جنرل ضیاء کادَور خواتین کے لیےہرگز اچھا نہیں رہا، اُن کی پالیسیز ، قوانین سے بالخصوص خواتین کے حقوق مجروح ہوئے۔
س: بلند و بالا عمارات کی تعمیر سے بانس سے بنے گھر بنانے تک کے سفر سے متعلق کچھ مختصر احوال ہمارے ساتھ بھی شیئر کریں؟
ج: مَیں نے تو 2000ء میں کام سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی کہ میرے شوہر بھی اپنی کمپنی فروخت کرکے تحقیق کا کام کر رہے تھے، کتابیں لکھ رہے تھے، تو مَیں نے سوچا کہ جب یہ تمام فکرات سے پرے، پُرسکون زندگی گزار رہےہیں، تو مَیں کیوں ان جھمیلوں میں پڑی رہوں۔ لیکن پھر یونیسکو سے آفر آئی کہ مَیں ہیریٹج سائٹس پر بطور ایڈوائزر کام کروں۔
اس کے بعد2005ء کا زلزلہ آگیا، تو امدادی کاموں کے لیے وہاں چلی گئی، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس وقت تک مَیں اپنا دفتر بھی بند کر چُکی تھی، میرے پاس کام کرنے والے لوگ بھی نہیں تھے، ایک تنظیم ’’ہیریٹیج فاؤنڈیشن‘‘ 1980ء میں قائم تو کی تھی، لیکن کبھی کسی سے فنڈز نہیں مانگے تھے، تو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ زلزلہ زدگان کی مدد کیسے کروں، لیکن آپ یقین کریں کہ اس وقت پاکستان اور دنیا بَھر سےاتنے لوگ ،خاص طور پر نوجوان میری مدد کو آئے کہ کیا بتاؤں، تو بس اُسی وقت سے سماجی کارکن بھی بن گئی اور ماحول دوست ماہرِ تعمیرات بھی۔
ایک مرتبہ آسٹریا کے شہر ویانا میں میرے کام کی نمایش ہوئی، جسے دیکھنے کے لیے آسٹریا کی خاتونِ اوّل بھی آئیں اور انہوں نے میرے کام کو بہت سراہا۔ اس موقعے پر پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی سے مجھ سے کہاکہ ’’ہاں، ٹھیک ہے کہ آپ نے بہت کام کیاہے، لیکن مَیں دیکھ رہی ہوں کہ آپ نے صرف پاکستان ہی میں کام کیا،بین الاقوامی سطح پر تو آپ کا کوئی کام نظر نہیں آتا، تو کیا کبھی موقع نہیں ملا یا کیا وجہ ہے؟‘‘ جس پر مَیں نے جواب دیا کہ ’’مجھے کام کرنے کے مواقع تو ملے، امریکا سے بھی پڑھانے کی آفر تھی اور مشرقِ وسطیٰ میں بھی کام کے مواقع میّسر آئے، لیکن سچ کہوں تو مجھے باہر کام کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ مجھے صرف اپنے ہی مُلک میں کام کرنے کا شوق تھا، جو مَیں نے کیا اور اب بھی کر رہی ہوں۔جب مجھے میرے مُلک میں نام، عزّت، شہرت سب کچھ مل گیا ہے، توان چیزوں کی تلاش میں بیرونِ ممالک کیوں جاؤں؟‘‘
س: کراچی کنکریٹ کا جنگل بن چُکا ہے، اسلام آباد میں بھی بلند و بالا عمارات کی تعمیر کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے، پھر مُلک کے لگ بھگ تمام بڑے شہروں میں بلڈنگ کوڈز کی خلاف ورزیاں عام ہیں، تو اس ضمن میں آپ کا موقف کیا ہے؟
ج: یہ باتیں میرے اور آپ کے نہیں، حکم رانوں کے سمجھنے کی ہیں۔ جو حکم ران آتا ہے، وہ ترقّی کے نام پربلند و بالا عمارات، فلائی اوورز، انڈر پاسز بنانے کی بات کرتا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دنیا کی چالیس فی صد ماحولیاتی آلودگی تعمیرات میں استعمال ہونے والی کنکریٹ اور اسٹیل کے سبب ہے۔ ملٹی اسٹوری بلڈنگز تو ہرگز نہیں بننی چاہئیں۔ اس لیے مَیں سب سے کہتی ہوں کہ اللہ کا واسطہ تعمیرات میں اسٹیل اور کنکریٹ کا استعمال ترک کر دیں۔ بلند عمارات بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ماضی میں بھی تو تعمیرات ہوتی تھیں اور کس قدر خوب صُورت شہر ہوتے تھے، پرانے لاہور، روہڑی، ملتان، پشاور کے وہ علاقے جہاں پرانی تعمیرات اب بھی ہیں، جائیں اور دیکھیں کہ جب وہ اب تک سلامت ہیں، تو ہم کیوں انہی کی طرز پر تعمیرات نہیں کر سکتے۔
اس طرز کی تعمیرات کو ’’میڈیم ڈینسٹی اینڈ لو رائز‘‘( ایسی عمارات جو مضبوط ہوں، لیکن بلند نہیں۔)کہا جاتا ہےاور یہ آئیڈیل تعمیرات ہیں۔ آپ انہیں بطور ماڈل استعمال کریں۔ مَیں آپ کو سچ بتاؤں کہ2005ء کے زلزلے کے بعد عالمی مالیاتی بینک نے جوامدادی رقم دی اور جس سے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں چار لاکھ گھر بنائے گئے، تو اُن میں زیادہ تر کنکریٹ اور اسٹیل کا استعمال کیا گیا، نتیجتاً پانچ سال بعد ہی قریبی گلیشیئرز پگھل گئے۔ گوکہ وہ پہلے ہی پگھل رہے تھے، لیکن گھروں میں استعمال ہونے والے اسٹیل کے سبب جلدی اور زیادہ تیزی سے پگھلے، جو بہت حد تک 2010ء کے سیلاب کا باعث بنے۔
س: شہرِ قائد کسی زمانے میں روشنیوں کا شہر تھا، اب اپنی گندگی ، آلودگی اور گنجانیت کے سبب جانا جاتا ہے، تو کیا اس شہر کی بحالیٔ حُسن کی کوئی صُورت ممکن ہے؟
ج: بس ایک ہی طریقہ ہے کہ شہر میں اونر شِپ پروان چڑھائی جائے، اس شہر کا ہر باسی اسے اپنا سمجھے۔ ہم نے ڈینسو ہال پر جو راہ گزر بنائی ہے، وہ دیکھیں، وہاں کیسی ہریالی ، زیر زمین کنویں ہیں، کچرے کا نام و نشان تک نہیں۔ دکان دار تک اس جگہ کا خیال کرتے ہیں، مرمّت کروانی ہو، تو اپنے پیسوں سے کروادیتے ہیں۔
اس حوالے سے جو بھی رہنمائی چاہیے، مَیں فراہم کرنے کو تیار ہوں، پر کوئی آگے تو آئے۔ ہمیں پانی نالوں میں نہیں، زمین میں جذب کرنا ہے، اس سے خود بخود سبزہ ہوگا، ڈینسو ہال پر ، جو پودے میں نے لگائے تھے، وہ اب خُوب پَھل پُھول رہے ہیں اور وہ بھی بارشوں کےپانی سے۔ مَیں تو سستے طریقوں سے کام کرتی ہوں اور وہ کار آمد بھی ہیں، کیوں کہ ہمارا مُلک منہگے طریقے افورڈ ہی نہیں کر سکتا، تو اگر ہم واقعی شہر کے لیے کچھ کرنے میں سنجیدہ ہیں، تو یہ سب کام بھر پور منصوبہ بندی کے تحت کرنے ہوں گے۔
س: آپ کا پنا پسندیدہ ترین پراجیکٹ کون سا ہے؟
ج: عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کا جواب ’’فنانس ٹریڈ سینٹر(ایف ٹی سی)‘‘ہوگا، جو ساڑھے سات لاکھ اسکوائر فٹ اراضی پر قائم، انتہائی دیدہ زیب عمارت ہے، جس میں منہگے شیشے، کنکریٹ استعمال ہوا ہے۔ وہ سب لوگوں کو پسند ہےاور مجھے بھی۔ مگر مَیں نے تہیّہ کرلیا ہے کہ اب مَیں ایسی کوئی عمارت ڈیزائن نہیں کروں گی۔
شاید وہاں ڈھائی ہزار افراد کام کرتے ہیں اور آٹھ ، دس ہزارافراد روزانہ اس کے سامنے سے گزرتے بھی ہیں،جب کہ دوسری طرف میرا’’پاکستان چولھا‘‘ پراجیکٹ ہے۔ وہ چولھا، جودیہی خواتین اپنے ہاتھوں سے بناتی ہیں، جو ماحولیاتی آلوودگی کم کرنےکا باعث بنتا ہے، جس میں لکڑیوں کے بجائے گائے کا گوبر ، لکڑی کا برادہ یا زرعی فضلہ بطور ایندھن استعمال ہوتا ہےاوراس منصوبے سے روزانہ قریباً نو لاکھ افراد استفادہ کر رہے ہیں، تو خودفیصلہ کرلیں کہ کون سا منصوبہ میرا پسندیدہ ترین ہوا۔
س: حال ہی میں آپ کے لیے ’’His Majesty the King's Royal Gold Medal‘‘ایوارڈ کا اعلان کیا گیا ہے، تو اس حوالے سے کچھ بتائیں، یہ ایوارڈ کن لوگوں کو اور کن خدمات کے صلے میں دیا جاتا ہے؟
ج: سچ کہوں تو مجھے اس ایوارڈ کے لیے منتخب کرنا خاصی غیر معمولی بات ہے ۔ یہ ایوارڈ 1848ء سے دیا جا رہا ہےاور مجھ سے پہلے تک جن لوگوں کو دیا گیا ہے، وہ بین الاقوامی سطح پر ایک مقام رکھتے ہیں، جنہیں تعمیرات کے شعبے میں آئیڈیلائز کیا جاتا ہے۔ تو جب ’’رائل انسٹی ٹیوٹ آف برٹش آرکیٹیکٹس ‘‘ کے صدر کا میرے پاس فون آیا کہ ’’ہم اس سال یہ ایوارڈ آپ کو دے رہے ہیں‘‘ تو مَیں نےحیرانی سے کہا ’’ مجھے یہ ایوارڈ کیسے دیا جا رہا ہے کہ یہ توعالی شان عمارات ڈیزائن کرنے والے آرکیٹیکٹس کو دیا جاتا ہے، جب کہ مَیں نے تو ایسا کچھ نہیں کیا۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ آرکیٹیکچرکی دنیا کے بڑے نام آپ سے ناراض ہو جائیں۔‘‘تو انہوں نے کہا کہ ’’دراصل ہم پہلے ایوارڈ کا اعلان نہیں کر سکےتھے، پھر ملکہ کا انتقال ہوگیا، اس کے بعد بادشاہ چارلس نے اقتدار سنبھالاتو پھر ان کی مرضی پوچھی گئی اور اب آپ کو بتا رہے ہیں۔‘‘مجھے دراصل یہ ایوارڈ بانس سے غریبوں کے لیےگھر بنانےپر دیا جا رہا ہے کہ ایک تو یہ پراجیکٹ بجٹ فرینڈلی ہےاور پھرماحول دوست بھی ہے۔
س: ذاتی زندگی کے حوالے سے بھی کچھ بتائیں، شادی کب اور کس کی پسند سے کی، اپنی یا والدین کی؟
ج: شادی تو لند ن میں دورانِ تعلیم ہی ہو گئی تھی اور گھروالوں کی پسند سے ہوئی۔ میرے میاں، میرےفرسٹ کزن تھےاور وہ اُن دنوں برطانیہ کے شہر، آکسفورڈ میں تھے، جب کہ مَیں تعلیم کی غرض سے لند ن میں تھی۔ بعد ازاں، شادی کے بعد آکسفورڈ منتقل ہوگئی اور آکسفورڈ اسکول آف آرکیٹیکچر سے ڈگری مکمل کی۔ میرے تین بچّے(دو بیٹے، ایک بیٹی)ہیں، تینوں امریکا میں مقیم ہیں۔ ویسے تو میرے شوہر بزنس مین تھے، لیکن ان کا شمار پاکستان کے معروف تاریخ دانوں میں بھی ہوتا تھا۔ وہ 2020ء میں کووِڈ کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوگئے۔
س: نئے آنے والے آرکیٹیکٹس کو کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟
ج: سیمنٹ، کنکریٹ، اسٹیل کا استعمال کم سے کم کریں اور ذہن میں یہ بات رکھ کر کام کریں کہ ہم ایک غریب مُلک میں رہتے ہیں، پھر ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی سامنا ہے، تو ایسے پراجیکٹ ڈیزائن کریں، جوغریب کی جیب پر بھاری بھی نہ ہوں اور آندھی، طوفان، سیلابوں کا سامنا بھی کر سکیں ۔
س: آپ پاکستان کا مستقبل کیسا دیکھتی ہیں؟
ج: پاکستان کا مستقبل اِن شاء اللہ تعالیٰ بہت روشن ہے، اگر ہم کسی غیبی امداد کا انتظار کرنے کے بجائے، خود آگے بڑھ کر اور مل جُل کر کام کریں۔