اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں صحافی ایاز امیر کی بہو سارہ انعام کے قتل کے کیس میں مقتولہ کے چچا اکرام الرحیم کا بیان قلم بند کر لیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ سارہ انعام کو شاہ نواز امیر نے اپنے والدین کے ساتھ مل کر پھنسایا۔
پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے مقصود علی کا بیان بھی قلم بند کیا۔
گواہ ایف آئی اے کے افسر مقصود علی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جائے وقوع سے 7 موبائل فونز برآمد کیے گئے، ملزم شاہ نواز امیر کے 2 موبائل فونز سے ڈیٹا حاصل کیا گیا، موبائل فون سے ملزم اور مقتولہ کی بات چیت، تصاویر اور وائس میسیجز حاصل کیے، ملزم شاہ نواز کی والد سے گفتگو کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے، ملزم شاہ نواز سے ایک لیپ ٹاپ بھی قبضے میں لیا گیا، ڈیجیٹل فرانزک انٹیلیجنس رپورٹ یو ایس بی کے ذریعے پولیس کے حوالے کی۔
پراسیکیوٹر راناحسن عباس نے مقتولہ کے چچا اکرام الرحیم کا بیان عدالت کے روبرو قلم بند کرا دیا جس میں کہا گیا ہے کہ ستمبر میں مجھے معلوم ہوا کہ سارہ انعام اپنے شوہر شاہ نواز امیر سے ملنے پاکستان آئیں، میرے بھائی کے دوست ظفر قریشی نے سارہ انعام کے پاکستان آنے کی خبر مجھے دی، سارہ انعام ابو ظبی سے اسلام آباد آئیں لیکن شاہ نواز امیر نے انہیں قتل کر دیا۔
’’ملزم کے والدین نے سارہ کے والدین سے نکاح کیلئے مشاورت نہیں کی‘‘
مقتولہ کے چچا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ قتل کی خبر ملنے پر میں پولی کلینک اسپتال گیا جہاں سارہ انعام کی لاش کی نشاندہی کی، سارہ انعام کے جسم پر متعدد زخموں کے نشانات موجود تھے، سارہ انعام کو شاہ نواز امیر نے اپنے والدین کے ساتھ مل کر پھنسایا، شاہ نواز امیر اپنے والدین کے ہمراہ سارہ انعام کو نکاح کرنے کے لیے چکوال لے کر گیا، ملزم کے والدین نے سارہ انعام کے والدین سے نکاح کے حوالے سے مشاورت نہیں کی۔
’’ملزم شاہ نواز امیر سارہ سے قبل 2 بیویوں کو طلاق دے چکا ہے‘‘
مقتولہ سارہ انعام کے چچا اکرام الرحیم نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ملزم شاہ نواز امیر سارہ سے قبل 2 بیویوں کو طلاق دے چکا ہے، شاہ نواز امیر نے اپنے والدین کے ہمراہ سارہ انعام کو راستے سے ہٹانے کے لیے اس کا قتل کیا۔
سیشن جج نے آئندہ سماعت پر گواہان پر جرح کے لیے ملزم کے وکیلِ کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کر دی اور سارہ انعام قتل کیس کی سماعت 14 جون تک ملتوی کر دی ۔