پوری دُنیا پر حکومت کرنے والے چار بادشاہ : مؤرّخین لکھتے ہیں کہ پوری دُنیا پر سلطنت و حکومت کرنے والے چار بادشاہ گزرے ہیں، جن میں دو مومن اور دو کافر تھے۔ مومن، حضرت سلیمان علیہ السلام اور ذُوالقرنین، جب کہ کافر، نمرود اور بخت نصر تھے۔ ذوالقرنین وہی بادشاہ ہیں، جن سے یہودی علماء نے قریش کے لوگوں کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا امتحان لینے کے لیے سوال کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہی فرمائی تھی۔ چناں چہ سورۂ کہف کی آیات 83 سے 98 تک میں اللہ تعالیٰ نے ذُوالقرنین کا واقعہ بیان فرمایا۔
نیک اور عادل بادشاہ : ذُوالقرنین ایک نیک اور عادل بادشاہ تھے، جنھوں نے مشرق سے مغرب تک تمام ممالک فتح کرکے وہاں عدل و انصاف پر مبنی حکومت قائم کی۔ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں بے شمار وسائل اور ہر طرح کے ساز و سامان اور قوت سے نوازا تھا۔ انھوں نے دُنیا فتح کرنے کے لیے سہ اطراف سفر کیے۔ مغرب میں ایران سے بحیرۂ روم تک، مشرق میں بلوچستان سے مکران اور شمال میں کوہستانی سلسلوں تک۔ ایک سفر کے دوران اس نیک دل بادشاہ نے لوگوں کی شکایت پر دو پہاڑوں کے درمیانی دَرّوں کو ایک بُلند و بالا موٹی آہنی دیوار کے ذریعے بند کردیا، جس سے اس علاقے کے لوگ بدہیئت و بدشکل یاجوج و ماجوج کے تاخت و تاراج سے محفوظ ہوگئے۔
ذُوالقرنین سے متعلق تفصیلات: ذُوالقرنین کون تھے، کس زمانے میں تھے، نبی تھے یا ولی؟ ان تمام باتوں کی تفصیل نہ قرآنِ مجید میں موجود ہے اور نہ ہی احادیثِ مبارکہؐ میں۔ اس حوالے سے دنیاوی کتب میں جو تفصیلات موجود ہیں، وہ سب تاریخی روایات کا مجموعہ ہیں۔ اسی لیے اُن میں مختلف اقوال و آراء ہیں، جو ایک کہانی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں اور اُن کی صحت سے متعلق وثوق سے کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔تاہم،اس مضمون میں قارئین کی آگہی کے لیے ذوالقرنین کے حوالے سے معروف علمائے کرام کی مستند تفاسیر میں بیان کیے گئے واقعات پیش کیے جارہے ہیں۔
ذُوالقرنین کے معنیٰ: لفظ ’’قرن‘‘ کے مختلف معنی ہیں۔ سینگ، گیسو، سُورج کی شُعاع اور زمانۂ دراز وغیرہ، جب کہ ذُوالقرنین کے لفظی معنی دو سینگوں والا کے ہیں۔ اس نام کی اصل وجوہ کیا تھیں، اس حوالے سے مختلف آراء ہیں۔ کیا اُن کے سر پر دو سینگ تھے؟ یا انھوں نے مغرب و مشرق فتح کرکے اور دُنیا کے دونوں کناروں پر پہنچ کر سُورج کے قرن یعنی اس کی شُعاعوں کا مشاہدہ کیا، اس لیے اُنھیں ذوالقرنین کہا گیا؟ بعض نے لکھا کہ ان کے گیسو دراز تھے اوروہ اُنھیں دو چوٹیوں میں باندھ لیتے تھے۔ بعض کے نزدیک ان کے سر پر دونوں جانب چوٹ کے نشان تھے۔ اور کچھ نے لکھا کہ وہ جو تاج سر پر پہنتے تھے، اس پر دو سینگ بنے ہوئے تھے۔ (واللہ اعلم)۔
شہزادے کی صحرا میں روپوشی: قدیم روایات میں ذُوالقرنین کے بارے میں ایسی معلومات بھی ملتی ہیں کہ ابتدائی عمر میں وہ ایک چھوٹی سی مملکت کے شہزادے تھے۔ جب اُن کے اپنے مُلک میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوگئے، جس کی بِنا پر کچھ لوگ اُن کی جان کے دَرپے ہوگئے، تو وہ کسی نہ کسی طرح وہاں سے بچ نکلنے میں کام یاب ہوگئے اور کچھ عرصہ صحرا میں رُوپوش رہے۔ رُوپوشی کے اُس دَور میں اُن کے پاس کسی نبی کی تعلیمات پہنچیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ زرتشت ہی اللہ کے نبی ہوں اور اُن ہی کی تعلیمات سے انھوں نے استفادہ کیا ہو۔ بہرحال، قرآنِ کریم نے ذُوالقرنین کا جو کردار پیش کیا ہے، وہ ایک نیک اور صالح بندئہ مومن کا ہے۔ (بیان القرآن،383/4)۔
سکندرِاعظم کون تھا؟: دُنیا میں ذُوالقرنین نام کےکئی لوگ مشہور ہوئے اور ہر زمانے کے ذُوالقرنین کا لقب ’’سکندر‘‘ تھا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے تقریباً تین سو سال پہلے ایک بادشاہ سکندرِاعظم کے نام سے مشہور تھا، جسے یونانی، رُومی اور مقدونی وغیرہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اُس بادشاہ کا وزیر اور اُستاد، ارسطو تھا۔ سکندرِاعظم بیس سال کی عُمر میں مقدونیا کا بادشاہ بنا۔ 23سال کی عُمر میں مقدونیا سے نکلا اور پورے یونان کو فتح کرتا ہوا ترکیہ میں داخل ہوگیا۔ پھر ایران میں دارا کو شکست دے کر شام پہنچا، وہاں سے یروشلم اور بابل کو روندتا ہوا مصر جا پہنچا۔ اس کے بعد اُس نے سونے کی چڑیا، ہندوستان کا رُخ کیا اور پورس سے جنگ کی۔ اپنے خُوب صورت اور وفادار گھوڑے کی یاد میں پھالیہ شہر آباد کیا۔
واپسی پر مکران ہوتا ہوا اپنے وطن مقدونیا کی جانب روانہ ہوا، لیکن راستے میں اُسے ملک الموت نے آدبوچا۔ یوں 323قبلِ مسیح میں وہ صرف 33سال کی عُمر پاکر بختِ نصر کے محل میں انتقال کرگیا۔ سکندرِاعظم نے دس برس گھوڑے کی پیٹھ پر گزارے اور 17لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا۔ سکندر کے نام سے دُنیا میں معروف ہونے والا آخری شخص یہی تھا۔ کیوں کہ اُسی کی شجاعت اور بہادری کے قصّے پوری دُنیا میں مشہور تھے۔ چناں چہ بعض مفسّرین نے اسے بھی ذُوالقرنین کہنا شروع کردیا، جب کہ یہ شخص آتش پرست اور مشرک تھا۔ تاہم، قرآنِ مجید میں جس ذُوالقرنین کا ذکر ہے، اُن کے مومن اور صالح ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔
کیا سکندر، ذُوالقرنین تھا؟: علّامہ ابنِ کثیرؒ نے ابنِ عساکرؒ کے حوالے سے البدایہ والنہایہ میں سکندرِاعظم کا پورا شجرۂ نسب لکھ ڈالا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ’’یہی وہ سکندر ہے، جو یونانی، مصری، مقدونی کے ناموں سے معروف ہے۔ روم کی تاریخ اس کے نام سے چلتی ہے۔ اس نے اپنے نام پر ’’اسکندریہ‘‘ شہر آباد کیا۔ اسی نے دارا کو قتل کیا اور ملک فارس فتح کیا، لیکن یہ شخص مشرک تھا اور ذُوالقرنین کی پیدائش سے دو ہزار سال بعد پیدا ہوا، چناں چہ اس شخص کو ذُوالقرنین قرار دینا سراسر غلطی ہے۔‘‘ (البدایہ والنہایہ،106)۔ بیسویں صدی کے آغاز تک اکثر مفسّرین ذُوالقرنین سے ناواقف تھے۔ چناں چہ تیرہ سو سال تک عام طور پر سکندراعظم ہی کو ذُوالقرنین سمجھا جاتا رہا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآنِ کریم میں ذُوالقرنین کی فتوحات کا ذکر جس انداز میں ہوا ہے، یہ انداز سکندرِاعظم کی فتوحات سے ملتا جلتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ذُوالقرنین کی سیرت کا وہ نقشہ، جو قرآن ِ مجید نے پیش کیا ہے، اس کی سکندراعظم کی سیرت کے ساتھ قطعی کوئی مناسبت نہیں ہے۔ (بیان القرآن، 381/4)۔ علّامہ ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں جن بزرگ شخصیت کا تذکرہ ہے، وہ سکندر رُومی، یونانی و مقدونی سے دو ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے زمانے میں بادشاہ تھے اور حضرت خضر علیہ السلام اُن کے وزیر تھے۔
وہ سلف صالحین کے حوالے سے یہ روایت بھی تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں ذُوالقرنین پا پیادہ ادائی حج کے لیے مکّہ مکرمہ پہنچے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اُن کے آنے کا علم ہوا، تو انھوں نے مکّہ مکرّمہ سے باہر آکر ذُوالقرنین کا استقبال کیا اور اُنھیں دُعائیں دینے کے ساتھ کچھ وصیتیں اور نصیحتیں بھی فرمائیں۔ (البدایہ والنہایہ،108)۔ علّامہ ابنِ کثیر،ؒ تفسیر ابنِ کثیر میں بحوالہ ازرقی تحریر فرماتے ہیں کہ اس موقعے پر ذُوالقرنین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کعبے کا طواف بھی کیا اور قربانی بھی دی۔ (معارف القرآن، 631/5)۔
ایران میں ذُوالقرنین کا مجسّمہ اور مقبرہ: مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی مشہور تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘ میں اس موضوع پر دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ قدیم ایران کا بادشاہ، کنجورس یا سائرس ہی ذُوالقرنین تھا۔ مولانا ابوالکلام کی تحقیق کی اہم بنیاد وہ معلومات ہیں، جو شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے دَور میں ایک کُھدائی کے دوران دست یاب ہوئی تھیں، جن میں اُس عظیم بادشاہ کا ایک مجسّمہ اور مقبرہ بھی دریافت ہوا تھا۔ اس کُھدائی سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر شاہِ ایران، رضا شاہ پہلوی نے اس کی ڈھائی ہزار سالہ برسی منانے کا خصوصی اہتمام بھی کیا تھا۔ دریافت شُدہ مجسّمے کے سر پر جو تاج تھا، اس میں دو سینگ موجود تھے۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہی ایرانی بادشاہ کنجورس یا سائرس تھا، جو تاریخ میں ذُوالقرنین کے لقب سے مشہور ہوا۔ (بیان القرآن،382)۔
نبی دانیال علیہ السلام اور ذُوالقرنین: مولانا حفظ الرحمٰن ؒ نے اپنی کتاب ’’قصص القرآن‘‘ میں ذُوالقرنین سے متعلق بڑی تفصیل سے بحث کی ہے، جس کا خلاصہ یُوں ہے کہ ذُوالقرنین مذکور فی القرآن، فارس کا وہ بادشاہ ہے، جسے یہودی خورس، یونانی سائرس، فارسی گورش اور عرب کیخسرو کہتے ہیں۔ جس کا زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بہت بعد انبیائے بنی اسرائیل میں دانیال علیہ السلام سے بتایا جاتا ہے، جو سکندرِ مقدونی قاتلِ دارا کے زمانے کے قریب قریب ہوجاتا ہے، مگر مولانا موصوف نے بھی ابنِ کثیرؒ کی طرح اس کا شدّت سے انکار کیا ہے کہ ذُوالقرنین وہ سکندرِ مقدونی، جس کا وزیر ارسطو تھا، نہیں ہوسکتا، کیوں کہ وہ مشرک اور آتش پرست تھا، جب کہ ذُوالقرنین مومن اور صالح تھا۔ (معارف القرآن،632)۔
کیا ذُوالقرنین عرب بادشاہ تھے؟: شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’مجموعی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذُوالقرنین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معاصر تھے اور اُن کی دُعا کی برکت سے حق تعالیٰ نے خارق عادت سامان و وسائل عطا فرمائے تھے، جن کے ذریعے اُنھیں مشرق و مغرب کے سفر اور محیرالعقول فتوحات پر قدرت حاصل ہوئی۔ حضرت خضر علیہ السلام اُن کے وزیر تھے۔ شاید اسی لیے قرآنِ کریم نے حضرت خضرؑ کے قصّے کے ساتھ اُن کا قصّہ بیان فرمایا۔
قدیم شعرائے عرب نے اپنے اشعار میں ذُوالقرنین کا نام بڑی عزت سے لیا ہے اور اُن کے عرب ہونے پر فخر کرتے رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذُوالقرنین عہدِ تاریخی سے پہلے کے کوئی جلیل القدر عرب بادشاہ تھے۔ حال ہی میں یورپ کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے قدیم سامی عربوں کی متعدد عظیم الشّان سلطنتوں کا سُراغ لگایا ہے، جن کا تاریخی کتب میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ مثلاً بادشاہ ’’حمورابی‘‘ جو اغلباً حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد میں ہوااور اسے دُنیا کا سب سے پہلا مقنّن کہا گیا، اس کے بنائے گئے قوانین، مینارۂ بابل پر کندہ ملے ہیں۔ ذُوالقرنین بھی ان ہی میں سے کوئی بادشاہ ہوں گے۔ (تفسیرِ عثمانی، 404)۔
پوری مہذّب دُنیا اُن کی تابع فرمان تھی: سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ذوالقرنین جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے، کون تھا؟ قدیم زمانے میں بالعموم مفسّرین کا میلان سکندر کی طرف تھا، لیکن قرآنِ مجید میں اس کی جو صفات و خصوصیات بیان کی گئی ہیں، وہ مشکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں۔ جدید زمانے میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسّرین کا میلان زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس (خسرو یا سائرس) کی طرف ہے اور یہ نسبتاً زیادہ قرین قیاس ہے، مگر بہرحال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔‘‘
سیّد مودودیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ’’ قرآنِ مجید جس طرح ذُوالقرنین کا ذکر کرتا ہے۔ اس سے ہمیں چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں۔ (1) ان کا لقب ذُوالقرنین۔ (2) بڑا فرماں روا اور فاتح۔ (3) ایسا فرماں روا، جس نے یاجوج ماجوج کے حملوں سے اپنی مملکت کو بچانے کے لیے پہاڑی دَرّے پر مستحکم دیوار بنائی۔(4) خدا پرست اور عادل فرماں روا۔‘‘ سیّد ابولاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں کہ’’ نزولِ قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین ِعالم گزرے ہیں، ان میں سے خورس ہی میں ’’ذُوالقرنین‘‘ کی علامات پائی جاتی ہیں۔ تاریخی بیان کے لیے صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ خورس ایک ایرانی فرماں روا تھا، جس کا عروج549قبلِ مسیح کے قریب زمانے میں شروع ہوا۔
اس نے چند سال کے عرصے میں الجبال اور ایشیائے کوچک کی سلطنتوں کو مسخّر کرنے کے بعد539قبلِ مسیح میں بابل کو بھی فتح کرلیا، جس کے بعد پھر کوئی طاقت اُس کے راستے میں مزاحم نہیں رہی۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اور موجودہ ترکستان سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک اور دُوسری طرف تھریس اور مقدونیا تک وسیع ہوگیا اور شمال میں اس کی سلطنت قفقاز (کاکیشیا) اور خوارزم تک پھیل گئی۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذّب دُنیا اُس کی تابع فرمان تھی۔‘‘ سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں کہ’’ تعیّن کے ساتھ اسے ذُوالقرنین قرار دینے کے لیے ابھی مزید شہادتوں کی ضرورت ہے۔ تاہم، کوئی دُوسرا فاتح، قرآن کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں، جتنا خورس ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن،44)۔ (جاری ہے)