• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مالی اور مالیاتی پالیسیاں ایک دوسرے سے متصادم ہیں، مقررین

کراچی(اسٹاف رپورٹر) مالیاور مالیاتی پالیسیاں ایک دوسرے سے متصادم ہیں جس کے وفاقی بجٹ 24-2023 میں حکومت کی طرف سے پیش کردہ میکرو اکنامک اور مالیاتی اہداف کے حصول پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ بجٹ میں وسائل کو متحرک کرنے کی ایک کمزور حکمت عملی کی تصویر کشی کی گئی ہے جہاں وفاقی حکومت کی خالص آمدنی کی وصولیاں سود کی ادائیگیوں کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ یہ بات ماہرین نے جامعہ کراچی میں اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر (AERC) اور سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر (SPDC) کے مشترکہ طور پر منعقدہ سیمینار میں کہی۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر تحسین اقبال نے کہا کہ توسیعی بجٹ کے اعلان کے بعد، اسٹیٹ بنک پاکستان نے پالیسی کی شرح کو 21% کی بلند سطح پر برقرار رکھتے ہوئے ایک سخت مانیٹری پالیسی موقف کا اعلان کیا۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عامر صدیقی نے کہا کہ بجٹ میں متعارف کرائے گئے اقدامات ہائبرڈ امپورٹ سبسٹی ٹیوشن انڈسٹریلائزیشن کی حکمت عملی کی عکاسی کرتے ہیں جو کہ 1955-68 کے دوران اختیار کی گئی تھی۔ پرنسپل اکنامسٹ ایس پی ڈی سی محمد صابر نے مالیاتی منظر نامہ پیش کیا۔ سابق چیف اکانومسٹ ڈاکٹر پرویز طاہرنے کہا کہ حکومت پاکستان، نے حکومت کی ضرورت پر زور دیا کہ وہ مالیاتی اشاریوں کو مطلوبہ حدود میں رکھنے کے لیے اخراجات کی طرف توجہ دے۔قبل ازیں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی نے خصوصی خطاب کیا اور جب کہ اے آر آر سی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نورین مجاہد نے شرکاء کو خوش آمدید کہا۔