مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بندگی کے لیے اس دنیا میں بھیجا ہے، تاکہ اپنے شکر گزار اور ناشکرے بندوں کا امتحان لے سکے۔ اُس نے انسان کی رہنمائی کے لیے پیغمبر بھیجے اور اُن کے ساتھ معجزات بھی اُتارے۔ جیسا کہ قرآن کو جبرائیلِ امین علیہ السلام کے ذریعے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر معجزے کی صورت نازل فرمایا گیا اور اس قرآن کی بے شمار صفات ہیں، جن میں سے ایک شفا بھی ہے۔ اللہ تعالی نے خود قرآنِ مجید کو شفا قرار دیا ہے۔ ترجمہ:’’یہ قرآن، جو ہم نازل کررہے ہیں، مومنوں کے لیے تو سراسر شفا ہے اور رحمت ہے اور ظالموں کے لیے اس میں نقصان ہی ہے۔‘‘ (سورئہ بنی اسرائیل17،آیت نمبر82)۔ قرآنِ مجید کی دیگرسورتوں کی طرح سورئہ بقرہ کا پڑھنا بھی باعثِ برکت وثواب ہے۔ رسول اکرمﷺ کافرمان ہے کہ ’’سورئہ بقرہ پڑھا کرو، کیوں کہ اس کا پڑھنا برکت ہے اور اس کا چھوڑنا حسرت اور بدنصیبی ہے۔ اور اہلِ باطل اس پر قابو نہیں پاسکتے۔‘‘
2012ء میں جب ہمارا تین سالہ لختِ جگر، نورِ نظر پیارا بیٹا، عون محمد قریشی کچھ خوف ناک علامات اور تکالیف کے ساتھ اسپتال میں ایڈمٹ ہوا، تو لامحالہ یہ ہمارے لیے دُکھ و اندوہ کی انتہائی سخت گھڑی تھی، مگراللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمّت و استقامت بخشی اور مَیں نے بحیثیت ماں علاج معالجے کے ساتھ سورئہ بقرہ کی تلاوت کو اپنا معمول بنالیا تو اُس رحیم و کریم نے ہم پر اپنا خاص کرم کیا اور میرے جگر کے ٹکڑے کو شفائے کاملہ عطا فرماکر ہمیں عُمر بھر کی اذیّت سے نجات دلادی۔ آج، مَیں سورئہ بقرہ کی کرامت کے حوالے سے یہ آپ بیتی، عوام النّاس کی آگہی و رہنمائی کے لیے پیش کررہی ہوں۔
یہ 2012ء کے اوائل کی بات ہے، جب میں اپنے تین سالہ بیٹے، عون محمد قریشی کے علاج کی غرض سے اسلام آباد کے ایک نجی اسپتال میں مقیم ہوئی۔ اسپتال کے جس کمرے میں ہمارا قیام تھا، وہ7X10کا ایک چھوٹا سا کمرا تھا اور اس کے اندر ہی باتھ روم تھا۔ اس کا فرنٹ 7فٹ کی مکمل گلاس وال تھی، جس کے ایک طرف گلاس ڈور اور دوسری طرف بیڈ کے بالکل سامنے ایک گیارہ انچ کی گول ونڈو تھی۔ ونڈو کے ساتھ ہی ایک اسٹینڈ تھا، جس پر پانچ چھے ڈرپس ہر وقت لٹکی رہتی تھیں اور ڈرپ کے پائپس اس گیارہ انچ کی گول ونڈو سے گزرتے ہوئے بیڈ پر لیٹے میرے بیٹے کے سینے میں مسلسل لگے رہتے تھے۔
بیڈ کے دوسری طرف ایک صوفہ کم بیڈ رکھا تھا، جس پر بیٹھ کر مَیں سورئہ بقرہ کی تلاوت کیا کرتی تھی۔ کمرے کے دوسری طرف ایک بڑی سی کھڑکی تھی، جو اسپتال کے لان میں کھلتی تھی۔ کھڑکی سے اسلام آباد کی فیصل مسجد کے خُوب صُورت مینار صاف نظر آتے تھے۔ باہر کا نظارہ جس قدر خُوب صُورت تھا، اندر کا ماحول اُتنا ہی مایوس کُن تھا، لیکن میرے چہرے پر بالکل مایوسی نہیں تھی، مجھے اپنے اللہ سے پوری اُمید تھی، اس لیے بہادری سے حالات کا مقابلہ کررہی تھی اور بڑے صبر سے اپنے تین سال کے بچّے کو سنبھال رہی تھی۔ میری اُمیدوں کا مرکز، میرا لختِ جگر پچھلے ایک ماہ سے یہاں داخل تھا۔
رمضان کا آخری عشرہ چل رہا تھا۔ عید کی وجہ سے تقریباً تمام ڈاکٹرز کو چھٹّی دی جاچکی تھی۔ تاہم، ایمرجینسی ڈیوٹی کے لیے چند ڈاکٹرز اور نرسز اسپتال میں موجود تھے۔ میرے بیٹے کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھا گیا تھا، جہاں سوائے ایمرجینسی کے کوئی داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک روز صبح میں نےاس کی بائیں آنکھ کے نیچے گہرا نیل دیکھا، تو پریشان ہوگئی، نرس کو بلا کر دکھایا، تو اس نے تشویش سے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’یہ کہیں گر تو نہیں گیا تھا۔‘‘ میں نے نفی میں جواب دیا، تو اس نے اُسی وقت سینئر ڈاکٹر کو فون کیا اور اس ڈاکٹر کی فون پر دی گئی ہدایات کے مطابق ادویہ اور انجیکشنز دیں، لیکن آنکھ کے گرد نیل مزید گہرا ہوتا چلا گیا، حتیٰ کہ اس قدر سوجن ہوگئی کہ میرا بچّہ آنکھ کھولنے سے بھی معذور ہوگیا۔
اگلے روز ڈاکٹرز کی ہدایت کے مطابق بیٹے کو سی ٹی اسکین کے لیے لے کرگئی، اسے پلاسٹک کا ایک خاص کوٹ پہنادیا گیا تھا۔ جب میں بیٹے کو گود میں لیے سی ٹی اسکین کے کمرے کے اندر جانے لگی، تو دروازے پر موجود نرس نے روک کر کہا ’’آپ اندر نہیں آسکتیں، صرف بچّہ اندر آئے گا، آپ کا آنا ٹھیک نہیں۔‘‘ چاروناچار میں بچّے کو اس کی گود میں دینے لگی، تو بیٹے نے مجھے سختی سے پکڑلیا اور رونے لگا، مجبوراً مجھے بھی اندر جانا پڑا۔ سی ٹی اسکین کے بعد کمرے سے بچّے کو لے کر نکلی، تو عملے کے ایک شخص نے ترس کھانے والے لہجے میں پوچھا، ’’آپ کا ایک ہی بیٹا ہے؟‘‘ شاید اس نے سی ٹی اسکین کی ابتدائی رپورٹ مشین میں دیکھ لی تھی۔ ’’جی ہاں…‘‘ میں نے اپنے بیٹے کو سینے سے لگاکر اس کے پلاسٹک سے کور کیے گئے منہ کو چومتے ہوئے دُکھی لہجے میں جواب دیا۔
اگلے دن ڈاکٹرز کی پوری ٹیم آئی اور رپورٹ پر ڈسکس کرنے لگی۔ میرے پوچھنے پر انھوں نے محض اتنا بتایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں، لیکن اُن کے چہرے اور آنکھیں اُن کے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ کچھ دیر تک وہ بچّے کا معائنہ کرتے رہے، رپورٹ سے متعلق باتیں کرتے رہے، اُن کے انداز سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ رپورٹ سے مطمئن نہیں، کچھ دیر تک تو مَیں ان کی طرف متوجّہ رہی، لیکن پھر ایک عزم کے ساتھ قرآنِ مجید اٹھایا اور روزانہ کی طرح سورئہ بقرہ کی تلاوت شروع کردی۔ میرے ربّ نے مجھے اتنے بڑے امتحان کو صبر و تحمّل سے برداشت کرنے کی قوت عطا کردی تھی۔
حوصلہ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے، اس کا اندازہ بھی مجھے پہلی بار ہوا تھا اور یہ شاید سورئہ بقرہ کی تلاوت کی برکت تھی کہ مَیں اتنی بڑی تکلیف کا حوصلے اور ہمّت سے سامنا کرپارہی تھی۔ اللہ سے ڈھیروں دعائیں کرنے کے بعد میں ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ نہ جانے رپورٹ میں کیا آیا ہے کہ اُسی وقت ایک جونیئر لیڈی ڈاکٹر کمرے میں آئی۔ میں نے اُس سے رپورٹ سے متعلق پوچھا، تو اس نے بڑی صفائی سے جھوٹ بول دیا، ’’مجھے نہیں معلوم، آپ صبح ڈاکٹر صدف سے پوچھ لیجیے گا اور پھر مجھے بھی بتادیجیے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر چلی گئی۔ نہ جانے رپورٹ میں ایسا کیا تھا کہ ہر ڈاکٹر کی پریشانی واضح طور پر دیکھی جاسکتی تھی۔
دوسرے روز سے بیٹے کو دی جانے والی ادویہ میں ایک نئی دوا کا اضافہ کردیاگیا۔ میری دعائوں میں پہلے سے زیادہ شدّت آچکی تھی۔ بیٹے کی دیکھ بھال کے علاوہ جو بھی وقت بچتا، سورئہ بقرہ کی تلاوت، نمازیں پڑھنے اور دعائیں مانگنے میں گزرتا۔ ایک ہفتہ دوا لینے کے بعد بیٹے کی آنکھ کافی بہتر ہوچکی تھی۔ پھر اگلے ہفتے بعد دوبارہ سی ٹی اسکین کروایا گیا۔ رپورٹ دیکھ کر تمام ڈاکٹرز مطمئن نظر آرہے تھے، لیکن مجھ سے اب بھی کسی نے کوئی بات نہیں کی تھی۔
شام کو وہی ڈاکٹر، جن سے میں نے ایک ہفتہ پہلے اپنے بیٹے کی رپورٹ کے بارے میں پوچھا تھا، کمرے میں آئیں، تو مسکرا کرمیری طرف دیکھنے لگیں۔’’آپ کو دوماہ ہوگئے یہاں آئے ہوئے، مَیں نے جب بھی آپ کو دیکھا، آپ قرآن مجید پڑھ رہی ہوتی ہیں۔‘‘، ’’جی میں روزانہ سورئہ بقرہ کی تلاوت کرتی ہوں۔‘‘ مَیں نے جواب دیا۔ ’’یہ بہت اچھی بات ہے، اللہ کے کلام میں واقعی بے پناہ برکت اور فوائد ہیں، آپ کو پتا ہے، آپ کی اسی تلاوت کی وجہ سے بچّے کی سی ٹی اسکین کی پہلی والی رپورٹ غلط ثابت ہوگئی ہے اور آپ نے اب جو سی ٹی اسکین کروایا ہے، معلوم ہے، اس میں کیا آیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر کے سوال پر میں نے نفی میں گردن ہلاتے ہوئے کہا، ’’نہیں.....مجھے کسی نے کچھ نہیں بتایا۔‘‘ پھرڈاکٹر نے مجھے تفصیلاً بتایا کہ ’’پچھلی رپورٹ کے مطابق آپ کے بیٹے کو کینسر تشخیص ہوا تھا، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ موجودہ رپورٹ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے اوریہ یقیناً آپ کی دعائوں اور سورئہ بقرہ کی کرامت ہے۔‘‘
ڈاکٹر نے پھر مزید کہا کہ ’’مَیں نے زندگی میں پہلی بار سی ٹی اسکین کی رپورٹ اس طرح غلط ثابت ہوتے دیکھی ہے، اور اب سمجھ آیا کہ یہ یقیناً سورئہ بقرہ کی تلاوت کی برکت سے ہوا۔ آپ اس سورت کی تلاوت جاری رکھیے، اللہ تعالیٰ آئندہ بھی اپنا کرم فرمائے گا۔‘‘ ڈاکٹر تو یہ کہہ کرچلی گئیں، مگر میرا پورا چہرہ آنسوئوں سے تر ہوگیا، مَیں یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں سجدے میں گرکر بچّوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگی، میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اپنے ربّ کا شُکر کیسے ادا کروں، میرے پاس الفاظ نہیں تھے، لیکن میرے آنسو چیخ چیخ کر اپنے ربّ کا شُکر ادا کررہے تھے، ’’یامیرے مولا! تُو کتنا رحیم ہے، اے میرے پروردگار! تیرا جتنا بھی شُکر ادا کروں، کم ہے۔ اے میرے مالک! اے پوری کائنات کے مولا! بے شک تُو کبھی کسی پر اس کی ہمّت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘ میری آنکھوں سے آنسو تواتر سے گررہے تھے اور میں سجدہ ریز ہوکر گڑگڑا رہی تھی، اپنے ربّ کا شُکر ادا کررہی تھی، جو کبھی کسی کوتنہا نہیں چھوڑتا… ’’ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد مانگو، بے شک، اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔‘‘
آج ماشاء اللہ میرا بیٹا عون محمد قریشی چودہ برس کا ہوگیا ہے، وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر سرگرمیوں میں بھرپور حصّہ لیتا ہے اور اسکیچز بھی بہت اچھے بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ہمیشہ صحت و تن درستی کی دولت سے مالا مال رکھے۔ (سیّدہ عائشہ مونس رضوی،لاہور)