عجیب بات ہے کہ کینیڈا کے انتخابات کا سب سے اہم ایشو ٹرمپ کی جانب سے عاید کردہ ٹیرف رہا، حالاں کہ منہگائی اور اُس سے جنم لینے والے مسائل نے وہاں کے عوام کو شدید پریشان کر رکھا ہے، خاص طور پر مکانات کی قیمت اور اُن کے کرائے تو مِڈل کلاس کے کھاتے پیتے گھرانوں کی پہنچ سے بھی باہر ہوتے جارہے ہیں۔
واضح رہے، اس قبل از وقت الیکشن کا انعقاد سابق وزیرِ اعظم، جسٹن ٹروڈو کے استعفے کے بعد ہوا۔ ٹروڈو کا دَورِ حکومت9سال پر محیط رہا۔ اُنہوں نے تین مرتبہ انتخابات جیتے اور وزیرِ اعظم بنے، لیکن صدر ٹرمپ کے عاید کردہ ٹیرفس نے اُنہیں ایسا گھیرا کہ استعفا دینے پر مجبور ہوگئے۔ انتخابی میدان میں تین امیدوار تھے، جن کا تعلق مُلک کی تین بڑی جماعتوں سے تھا۔60سالہ مارک کارنی نے حُکم ران لبرل پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصّہ لیا۔
یاد رہے، ٹروڈو کے استعفے کے بعد پارٹی نے اُنہیں عبوری وزیرِ اعظم بھی منتخب کیا تھا۔ کارنی پیشے کے لحاظ سے بینکر ہیں اور بینک آف انگلینڈ اور بینک آف کینیڈا کی سربراہی کرچُکے ہیں۔ وہ اپنی مالیاتی اور معاشی مہارت کی وجہ سے بھی مشہور ہیں، اِسی لیے پارٹی نے چیلنجنگ حالات میں اُنھیں اپنا اُمیدوار نام زَد کیا۔کارنی نے ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی پر انتہائی سخت مؤقف اپنایا اور جوابی ٹیرف کا بھی اعلان کیا، تاہم بعدازاں صدر ٹرمپ نے کینیڈا پر عاید ٹیرف 90روز کے لیے معطّل کردیا۔
لبرل پارٹی کا مقابلہ کنزر ویٹو پارٹی نے کیا، جس کے لیڈر پیئر پولیور ہیں۔45 سالہ پولیور گزشتہ بیس سال سے کینیڈا کی سیاست میں متحرّک ہیں اور جارحانہ سیاست کی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ سابقہ وزیرِ اعظم کی پالیسیز کے زبردست نقّاد ہیں۔ کینیڈا کی گرتی معیشت اُن کا موضوع رہا، اِسی لیے مشکل حالات سے گزرتے عوام میں بہت مقبول ہیں، لیکن صدر ٹرمپ کے عاید کردہ ٹیرف کے بعد صُورتِ حال میں بڑی تبدیلی آئی اور کارنی کے سخت مؤقف نے اُنہیں پولیور کے برابر لاکھڑا کیا۔
کینیڈا،برّ ِاعظم شمالی امریکا کا ایک اہم مُلک ہے، جس کی آبادی چار کروڑ سے زاید اور دارالحکومت اٹاوا ہے۔ یہ تین سمندروں اٹلانٹک، پیسیفک اور آرکٹک سے گھرا ہوا ہے،اِسی لیے اس کی کوسٹ لائن دنیا میں سب سے طویل ہے۔رقبے کے لحاظ سے یہ دنیا کا دوسرا بڑا مُلک ہے۔ اس کی زمینی سرحد امریکا سے ملتی ہے اور کینیڈا، امریکا سرحد، دنیا کی سب سے لمبی سرحد ہے۔ شاید اِسی لیے ٹرمپ نے صدارت سنبھالتے ہی کہا تھا کہ’’کینیڈا ہمارا53 واں صوبہ بن سکتا ہے۔‘‘ تاہم اِس آفر کو کینیڈا کے رہنماؤں اور عوام نے سختی سے مسترد کردیا۔
کینیڈا ایک زمانے میں برطانیہ کی کالونی رہا اور پھر1981 ء میں یہ ایک ایکٹ کے تحت مکمل طور پر خود مختار ہوگیا، تاہم اس نے برطانوی روایات برقرار رکھیں، اِسی لیے کینیڈا میں پارلیمانی جمہوریت ہے، جو ویسٹ منسٹر کی آئینی بادشاہت کے تحت چلتی ہے، گورنر جنرل، جو برطانیہ کے بادشاہ کا نمائندہ ہوتا ہے، انتخابات کے بعد منتخب ہونے والے وزیرِ اعظم کو باقاعدہ نام زد کرتا ہے۔ویسے ہاؤس آف کامنز کے243ارکان ہیں اور جو جماعت انتخابات میں اکثریت حاصل کرتی ہے، اُسی کا امیدوار وزیرِ اعظم بنتا ہے۔
کینیڈا کی ایک مشکل یہ ہے کہ اس کا رقبہ بہت زیادہ اور آبادی بہت کم ہے، اِسی لیے وہاں تارکینِ وطن کی تعداد بہت زیادہ ہے، جو مختلف ممالک سے آتے ہیں۔ اس کے باوجود آبادی کا ارتکاز شہروں میں ہے، جن میں مونٹریال، ٹورنٹو اور وینکو ور قابلِ ذکر ہیں۔تارکینِ وطن کی اِتنی بڑی تعداد کی وجہ سے یہ دنیا کے سب سے اہم ملٹی کلچرل ممالک میں شامل ہے۔
پاکستان سے بھی شہریوں کی ایک بڑی تعداد کینیڈا منتقل ہوئی اور وہاں کے معاملات میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ کینیڈا معاشی طور پر ایک مضبوط معیشت ہے اور اس کا شمار درمیانے درجے کی طاقتوں میں ہوتا ہے۔ یہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، جس میں سمندری اور زمینی، دونوں طرح کے وسائل شامل ہیں۔ اپنی اِنہی خوبیوں کی وجہ سے یہ دنیا بھر کے تارکینِ وطن کی ایک اہم منزل ہے، جب کہ عالمی لحاظ سے یہ مغربی اتحاد کے بنیادی ارکان میں شامل ہے۔
کینیڈا کے حالیہ انتخابات قبل از وقت ہوئے، کیوں کہ وزیرِ اعظم، ٹروڈو اپنی پارٹی کی حمایت اور عوامی مقبولیت کھو چُکے تھے۔ جسٹن ٹروڈو کے والد بھی کینیڈا کے وزیرِ اعظم رہ چُکے ہیں، جنہوں نے70ء اور80ء کی دہائی میں کینیڈا کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ جسٹن ٹروڈو2015 ء میں وزیرِ اعظم منتخب ہوئے، جب اُن کی لبرل پارٹی نے ریکارڈ کام یابی حاصل کی۔
ٹروڈو نے کینیڈا کے لیے ترقّی اور آگے بڑھنے کا منشور دیا، جسے لوگوں بہت پسند کیا، اِسی لیے وہ تین مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔اُنھوں نے کینیڈا میں بہت سی کام یاب اصلاحات کیں، خاص طور پر خواتین کے لیے برابری کے حقوق اور سیاست میں حصّہ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
معاشی طور پر ان کے پالیسیز کام یاب تھیں اور مجموعی طور پر دورِ حکومت بھی اچھا ہی رہا، لیکن کورونا نے اُن کی محنت پر کاری ضرب لگائی۔ جب عالمی وبا کے بعد معیشت ذرا سی سنبھلنے لگی، تو منہگائی نے آ دبوچا۔اشیائے خور و نوش نے لوگوں کے گھریلو بجٹ پر بہت منفی اثرات مرتّب کیے، جب کہ مکانات کے کرائے اور قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے لوگ دو، دو ملازمتیں کرنے پر مجبور ہوئے۔ اِس معاشی دباؤ کے تحت ٹروڈو نے تارکینِ وطن کی آمد پر پابندیوں کا سلسلہ شروع کیا۔یہ اِتنے بڑے رقبے پر محیط ایسے مُلک کے لیے، جس کی آبادی کم ہو، مزید مسائل کا سبب بن گئی۔
خاص طور پر سروس سیکٹر بہت دباؤ میں آگیا اور معاشی ترقّی کی رفتار برقرار رکھنا حکومت کے لیے مشکل تر ہوتا گیا۔یہ ٹروڈو کی مقبولیت پر کورونا کے بعد پہلا وار تھا۔پھر اُن کی حکومت اور اُن کی شخصیت مختلف اسکینڈلز کی زد میں بھی آنے لگی۔ آئے دن کوئی نئی منفی خبر اُن کے لیے مشکلات میں اضافے کا باعث بنتی اور اُن کی مقبولیت کو دھچکے پر دھچکے لگتے گئے۔
ابھی یہ سارے معاملات چل ہی رہے تھے کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوگئے۔وہ اپنی الیکشن مہم کے دَوران بار بار اعلان کرتے رہے کہ’’آتے ہی کینیڈا، میکسیکو اور چین پر ٹیرفس لگائیں گے۔‘‘اور پھر اُنہوں نے اقتدار میں آتے ہی اِس اعلان پر عمل بھی کر ڈالا۔کینیڈا کی درآمدات پر25 فی صد ٹیکس ٹروڈو حکومت کے لیے وہ بوجھ بن گیا، جسے سہارنا، اُس کے لیے بہت مشکل ہوگیا۔
ادھر عوام نے، جو پہلے ہی منہگائی سے تنگ تھے، ٹیرف الزام بھی ٹروڈو پر لگا دیا کہ اُن کی حکومت نے ٹیرف کے مقابلے کے لیے مناسب اور بروقت اقدامات نہیں کیے۔اِس ضمن میں ٹروڈو کی رائے تھی کہ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کی بجائے بات چیت سے کوئی راہ نکالی جائے، جب کہ ان کے مخالفین موقعے سے فائدہ اُٹھا کر انھیں ناکام ثابت کرتے رہے۔ اِن حالات میں خود اُن کی پارٹی میں دراڑیں پڑنے لگیں اور اُن کی وزیرِ خزانہ نے استعفا دے دیا۔
اُنھوں نے اپنے خط میں ٹروڈو حکومت پر بہت سے الزامات بھی عاید کیے۔جب ٹروڈو پہلی بار منتخب ہوئے، تو اُن کی عوامی مقبولیت63 فی صد تھی اور جب اُنہوں نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفا دیا، تو یہ مقبولیت گر کر28 فی صد سے نیچے آچُکی تھی۔جاتے ہوئے اُنہوں نے تسلیم کیا کہ عوام میں تقسیم اِتنی زیادہ ہے کہ اب کسی دوسرے کو موقع دینا ہی مناسب راہ ہوگی۔ اُن کے جانے پر لبرل پارٹی نے، جس کی پارلیمان میں اکثریت تھی، کارنی کو عبوری وزیرِ اعظم نام زَد کیا۔اِس طرح ٹروڈو خاندان کا سیاسی سفر، جو اُن کے والد نے1970 ء کی دہائی میں شروع کیا تھا، اپنے اختتام کو پہنچا۔
ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کینیڈا کے انتخابات میں چھائی رہی، جب کہ منہگائی اور دوسرے عوامی مسائل پسِ پُشت چلے گئے۔ ظاہر ہے، اِس کی وجہ امریکا اور کینیڈا کے درمیان طویل سرحد ہے۔ جو کینیڈا گیا، اُس کے لیے امریکا ایک طرح سے دوسرا وطن بن گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان بس نام ہی کی سرحد ہے۔
کینیڈا کی ورک فورس کی ایک بڑی تعداد امریکا میں ملازمت کرتی تھی، جہاں اُسے تقریباً وہی رعایتیں حاصل تھیں، جو امریکیوں کو ملتی ہیں۔ شاید اس لیے بھی ٹرمپ باربار اِس امر کا ذکر کرتے رہے کہ وہ کینیڈا کو باقاعدہ طور پر امریکا کا حصّہ بنانا چاہتے ہیں۔قابلِ غور امر یہ ہے کہ امریکا اور کینیڈا میں تجارت کی نوعیت کیا ہے اور ٹرمپ کیوں اس پر ٹیرف عاید کرنے پر مُصر ہیں۔
دونوں ممالک کا تجارتی حجم762 ارب ڈالرز ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو گاڑیاں، مشینریز اور انرجی سپلائی کرتے ہیں۔2024 ء میں کینیڈا نے امریکا کو418 بلین ڈالرز کا مال برآمد کیا، جب کہ امریکا نے کینیڈا349 ارب ڈالرز کا مال بھیجا۔اس طرح امریکا کو62بلین ڈالرز کا خسارہ ہوا۔
یہ سلسلہ ایک عرصے سے اِسی طرح جاری ہے اور امریکا ہمیشہ کینیڈا سے تجارت میں خسارے ہی میں رہا۔ٹرمپ نے اپنے پہلے دَور میں بھی کینیڈا پر ٹیرف عاید کرنے کی دھمکی دی تھی، لیکن پھر بات چیت کے ذریعے معاملہ حل ہوگیا۔ ٹرمپ کو یہ بات کسی طور قبول نہیں کہ ان کے سرحد پار کا مُلک، جو ہر لحاظ سے چھوٹا ہے، اس سے برآمدات کی بازی جیتے۔ اِسی لیے تمام تر مماثلتوں کے باوجود اُنہوں نے کینیڈا پر ٹیرفس عاید کیے۔
غالباً ٹروڈو نے ٹرمپ کی ٹیرف دھمکی کو سنجیدگی سے نہیں لیا، گو وہ بعد میں ٹرمپ سے ملنے بھی گئے، لیکن اُس وقت تک اُن کا چل چلاؤ شروع ہوچُکا تھا۔دونوں ممالک کے تجارتی حجم سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ممالک کی معیشت میں یہ کس قدر سنجیدہ صُورتِ حال ہے۔یہ یاد رہے کہ امریکی معیشت کینیڈا سے دس گُنا بڑی ہے اور کینیڈا جیسے چھوٹی آبادی والے مُلک کے لیے اِتنی بڑی برآمدی مارکیٹ کسی معاشی تباہی سے کم نہیں۔
اِسی لیے صدر ٹرمپ نے کینیڈا پر سب سے پہلے ٹیرفس لگائے۔اب انتخابات میں چھوٹی، بڑی جماعتوں کے لیے یہی بڑا مسئلہ بنا رہا۔شروع میں کارنی نے سخت مؤقف اپناتے ہوئے امریکی ٹیرف کے جواب میں ٹیرفس لگائے، لیکن پھر نوّے دنوں کی رعایت ملنے پر وہ بھی پیچھے ہٹ گئے۔ کارنی اور پلیور نے اپنے جلسوں میں بڑی گرما گرم تقاریر کیں اور لوگوں کو یقین دِلایا کہ وہ امریکا سے ٹیرف کے معاملے میں پیچھے ہٹنے والے نہیں، لیکن دونوں بڑی جماعتیں اور اُن کے رہنما اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ اِتنا آسان نہیں اور نہ ہی یہ انتخابی سیاست سے حل ہونے والا ہے۔کارنی، جو عبوری وزیرِ اعظم رہے اور معاشی ماہر بھی ہیں، اِس طرح کے معاملات سے پوری طرح واقف ہیں۔
اِسی لیے اپنے آخری انتخابی جلسوں میں اُنہوں نے اپنا لہجہ دھیما کر لیا اور اِسی بات پر زور دیتے رہے کہ دونوں مغربی ممالک ہیں اور ہم سائے بھی، اِس لیے مالیاتی مسائل کا ایسا حل نکالنا ہوگا، جو دونوں کے فائدے میں ہو۔ کینیڈا کے عوام بھی اِسے بخوبی سمجھتے ہیں اور وہ بھی امریکا سے کوئی دشمنی مول لینے کو تیار نہیں۔ادھر ٹرمپ نے بھی اپنا ہاتھ ہلکا کر لیا ہے اور کہا ہے کہ وہ کینیڈا کی سالمیت کا احترام کرتے ہیں۔
یہ انتخابات کینیڈا کے لیے بہت اہمیت اختیار کر گئے کہ اِن کا اُس کی معیشت سے گہرا تعلق ہے۔ صدر ٹرمپ کی دوسری ٹرم ابھی شروع ہوئی ہے، جب کہ کینیڈا کے نئے وزیرِ اعظم بھی ابھی منصب نہیں سنبھالا۔ شمالی امریکا کے نقشے پر نظر ڈالی جائے، تو یہ دونوں بڑے ممالک آپس میں جڑواں بھائی لگتے ہیں۔
امریکا ایک سُپر پاور ہے اور اس امر میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ ان دونوں ممالک میں جن اشیاء کی تجارت ہوتی ہے، اُن میں امریکا ورلڈ لیڈر ہے۔ پھر اس وقت ٹرمپ جیسا تاجر صدر ہے، جسے سوائے امریکا کے منافعے کے کچھ نظر نہیں آتا۔ اِسی لیے کینیڈا کے لیے اہم لیڈر وہی ثابت ہوگا ، جو ٹرمپ سے معاملات طے کرنے میں کام یاب ہوگا۔