سیمیں ایک پڑھی لکھی، سادہ مزاج لڑکی تھی ، جس کی شادی کوابھی سال بھر ہی ہوا تھا۔ پھرشادی کے فوراً بعد ہی شوہر کے ساتھ آسٹریلیا چلی گئی اورآج کل چُھٹیوں میں پاکستان آئی ہوئی تھی، مگر یہ چھٹیاں کچھ بےکلی میں گزر رہی تھیں۔دراصل وہ گھر کے ماحول میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کر پا رہی تھی۔ساس اور نندوں کے ساتھ پہلی بار زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا تھا اور وہ اُن کی ترجیحات دیکھ کر سخت نالاں تھی۔ سارا سارا دن فون پر گاسپس، آئے دن شاپنگ مالز کے چکّر ،بےوجہ آن لائن شاپنگ اور کھانے آرڈر کیے جاتےاور ساتھ ہی ’’ہائے بوریت ہو رہی ہے…‘‘ کا راگ الاپا جاتارہتا۔
’’بڑے دن ہوگئے کوئی فیملی فنکشن نہیں ہوا، نئی جیولری اور کپڑے الماریوں میں پڑے پڑے سڑ رہے ہیں ۔قسم سے بڑا مزہ آتا ہے، شریکوں کو جلانے میں۔‘‘بڑی نند عائزہ نے کسمساتے سے کہا، تو چھوٹی فائزہ نے بھی بھرپور تائید کی۔ ’’قسم سے واقعی بڑی بوریت ہو رہی ہے،چلو شاپنگ مال چلتے ہیں۔کچھ کھا پی لیں گے اور لان کی نئی ورائٹی بھی دیکھ لیں گے۔‘‘عائزہ نے کہا۔ ’’ہاں یہ ٹھیک ہے،چلو فٹافٹ تیار ہو جاؤ، مَیں بھی ابھی آئی۔‘‘ فائزہ نے چُٹکی بجاتے ہوئے کہا۔’’بھابھی! آپ بھی چلیں ناں ہمارے ساتھ ۔‘‘ فائزہ کو ایک دم سیمیں کا خیال آیا ۔’’نہیں، آپ لوگ جائیں، ویسے بھی صارم آنے والے ہوں گے، تو میرا گھر پہ ہونا ضروری ہے۔‘‘
سیمیں نے بہانہ بنادیا۔ان دونوں نے بھی اصرار نہیں کیا اور تیار ہونے چلی گئیں۔ حالاں کہ پردیس میں صارم کی اچھی خاصی جاب تھی،مگر پاکستان معقول رقم بھیجنے کے چکّر میں وہ لوگ بہت کم بچت کر پاتے تھے۔اس لیے سیمیں بھی وہاں چند ماہ سے ایک ڈے کیئر سینٹر میں جاب کر رہی تھی کہ ویسے بھی مغربی معاشروں میں دونوں میاں بیوی کا جاب کیے بغیر گزارہ بہت مشکل ہوتا ہے۔ سیمیں نے بی ایس کیا ہوا تھا، اس کا ارادہ تھا کہ چھٹیوں سے واپس جاکر اپنی تعلیمی قابلیت بڑھانے کے لیے کچھ کورسز وغیرہ کر لے گی تاکہ بہتر جاب مل سکے۔
مگر یہاں، پاکستان میں تو اُلٹی ہی گنگا بہہ رہی تھی، جس پر وہ گُنگ تھی۔ساس بھی خاصی لاپروا سی تھیں،اسراف پر کسی کو روکتی ٹوکتی نہ تھیں ۔ہاں، دونوں بیٹیوں کی شادیوں کے لیے ضرور فکر مند رہتی تھیںکہ اس منہگائی میں جہیز کی تیاری کیسے ہوگی۔ سُسر بھی مَن موجی قسم کے تھے، اُن کی اسپیئر پارٹس کی دُکان تھی، جس سے معقول آمدنی تو ہوجاتی ، لیکن ساس کے پھوہڑ پن اور فضول خرچی کی عادت کی وجہ سے بچت ہی نہیں ہو پاتی تھی۔
اُس روز موسم بڑا خوش گوار تھا۔صارم نے سیمیں سے کہا’’آج اپنے ہاتھوں سے پکوڑے تو بنا کر کھلا دو۔پاکستان آکر ذرا پاکستانی شوہر والا احساس بھی تو ہونا چاہیے۔‘‘’’جی جی…سڈنی میں تو جیسے گھر کے سارے کام جناب ہی کرتے ہیں۔‘‘ سیمیں نے مُسکراتے ہوئے کہا۔’’بھئی،جس قدر ہو سکتا ہے،مدد کرواتا رہتا ہوں، اب میری جاب ہی اتنی ٹف ہے کہ کیا کروں ۔‘‘صارم نے جواب دیا۔ ’’ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ، مگر شاید یہاں کسی کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ آپ کس قدر محنت و مشقّت سے پیسا کماتے ہیں…‘‘نہ چاہتے ہوئے بھی سیمیں کے ہونٹوں پہ شکوہ آ ہی گیا۔
وہ کچن میں ابھی بیسن گھول ہی رہی تھی کہ ساس کے زور زور سے رونے کی آواز سُن کر ان کے کمرے کی طرف بھاگی۔’’ہائے،میرا ماں جایا یوں اچانک چلا گیا۔ایک ہی تو نشانی رہ گئی تھی میرے ماں باپ کی۔ کل تک تو بھلا چنگا سی، فیر اچانک کی ہوگیا…فون پر کتنی دیر بات کی ہم بہن بھائی نے،یقین نہیں آرہا۔ہائےربّا…‘‘صارم اور سیمیں دونوں انہیں سنبھالنے میں لگ گئےاور ساتھ ہی اپنے ابّا کو بھی دکان پر فون ملا دیا کہ فوراً گھر آجائیں۔ اتنے میں نندیں بھی کمرے میں آگئیں۔ سیمیں بھی چادر اوڑھ کر لاؤنج میں آگئی، جہاں اس کا شوہر اور سُسر جانے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔
صارم نے سیمیں کو دیکھا تو فوراً بولا ’’یار،امّی لوگوں سے کہو جلدی کریں، تاخیر سے جانا مناسب نہیں۔اس وقت ماموں کی فیملی کو ہماری ضرورت ہے۔‘‘ شوہر کی بات سُن کر سیمیں اُلٹے قدموں پلٹ گئی اور عجلت میں چلتی ہوئی ساس کے کمرے کے دروازے تک پہنچی، تو یہ سُن کر ٹھٹک کر رُک گئی کہ ساس اپنی بیٹیوں کو ہدایات دے رہی تھیں ’’جلدی، جلدی کپڑے بدل لو، نئے ہی پہننا، بس رنگ ذرا ہلکے ہوں اور یہ مصنوعی جیولری اُتار کے سونے کی بالیاں، بریسلٹ،لاکٹ وغیرہ پہن لو۔ اور ہاں، جلدی میرے گولڈ کے کڑے بھی الماری سے نکال کر دو ۔ یہی تو موقع ہے، سب کودکھانے کا، آج وہاں سارا شریکا اکٹھا ہوگا، توہم کوئی کنگلوں کی طرح تھوڑی جائیں گے۔‘‘