ایم اے ہاشمی
حدیثِ قدسی کے مطابق ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ’’میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں، جیسا کہ وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے اور جس وقت وہ مجھ سے دُعا کرتا ہے، تو مَیں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت پسند ہے کہ اُس سے مانگا جائے، ہر چیز کے لیے اُسی سے امید لگائی جائے، بلکہ جو اللہ سے نہیں مانگتا، اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے، اسی لیے وہ اپنے بندوں کو دُعا مانگنے کی ترغیب بھی دلاتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ،’’اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ مجھے پُکارو، مَیں تمہاری دُعائیں قبول کروں گا۔‘‘ (سورئہ غافر،60)۔دُعا کے آداب میں یہ بتایا گیا ہے کہ پہلے الحمد للہ رب العالمین سے ابتدا کرے، یعنی پہلے اللہ کی حمد بیان کرے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے۔ اس کے بعد جو دُعا کرنا چاہے، کرے اور دُعا کےاختتام پر پہلے وصلی اللہ تعالیٰ علی سیّدنا محمد وعلی آلہ واصحابہ اجمعین، پھر والحمد للہ رب العالمین کہے۔ یعنی دُعا کی ابتدا الحمد للہ رب العالمین سے کرے اور ختم والحمد للہ رب العالمین پر کرے۔
اللہ سے دُعا مانگنے کا دین میں بہت بلند مقام ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے کہ، ’’دُعا ہی عبادت ہے۔‘‘ (ترمذی)۔ چوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق دُعا عبادت ہے، لہٰذا دُعا کے لیے اخلاص شرط ہے۔ اسی طرح دُعا کا یہ تقاضا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا واسطہ دے کر اس پاک پروردگار سے مانگا جائے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے،’’اور اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام ہیں، ان ہی کے واسطے سے اللہ کو پُکارو، اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو، جو اللہ کے ناموں سے متعلق الحاد کا شکار ہیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف)۔
دُعا کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ دُعا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی شایانِ شان حمد و ثنا بیان کی جائے۔ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ، ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی، پھر اسی دوران دُعا کرتے ہوئے کہا، ’’یااللہ! مجھے معاف کردے، اور مجھ پر رحم فرما۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’اے نمازی! تم نے جلد بازی سے کام لیا، جب تم نماز میں (تشہّد کے لیے) بیٹھو، تو پہلے اللہ کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کرو، پھر مجھ پر درود پڑھو، اور پھر اللہ سے مانگو۔‘‘
دُعا کے آداب:دُعا کا تقاضا اور ادب یہ ہے کہ دُعا مانگتے وقت بندہ پاک صاف ہوکر اور قبلہ رو دو زانو بیٹھ کر عاجزی کے ساتھ دُعا مانگے۔ اہم چیز کی دُعا سے پہلے کوئی نیک عمل مثلاً صدقہ وغیرہ کرے اور دُعا میں اس کا اس طرح ذکر کرے کہ ’’اے اللہ! میں نے محض تیری رضا کے لیے فلاں نیک عمل کیا ہے، تو اس کی برکت سے میری دُعا قبول فرما۔‘‘ دُعا کی ابتدا وانتہا اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سے کرے۔ دُعا ہمیشہ اخلاص کے ساتھ مانگے، یعنی دل میں یہ یقین ہوکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی ہمارا مقصد و مدعا پورا نہیں کرسکتا۔ دُعا مانگتے وقت دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں تک اٹھانا بھی مستحب ہے۔ ان آداب کی رعایت کے ساتھ دُعا کی جائے، تو قبولیت کی زیادہ اُمید رہتی ہے۔
واضح رہے کہ کھانے، پینے، پہننے اور کمانے میں حرام سے بچنے کابھی قبولیتِ دُعا میں بڑا دخل ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حرام کھانے والے، حرام پہننے والے اور حرام مال پر پرورش پانے والے کی دُعا اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا۔ اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ حرام سے مکمل طور پر احتراز کرے۔ دُعا کرنے والا شخص توحیدِ ربوبیت، الوہیت اور توحیدِ اسماء و صفات میں وحدانیتِ الٰہی کا قائل ہو، اُس کا دل عقیدئہ توحید سے سرشار ہونا چاہیے، کیوں کہ دُعا کی قبولیت کے لیے شرط ہے کہ انسان اپنے ربّ کا مکمل فرماں بردار ہو۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’اور جس وقت میرے بندے آپؐ سے میرے متعلق سوال کریں، تو مَیں قریب ہوں، ہر دُعا کرنے والے کی دُعا قبول کرتا ہوں، جب بھی وہ دُعا کرے، پس وہ میرے احکامات کی تعمیل کریں، اور مجھ پر اعتماد رکھیں، تاکہ وہ رہنمائی پائیں۔‘‘ (سورۃ البقرہ)۔
صدقِ دل سے مانگی ہوئی دُعا قبول ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ بندے کی دُعا قبول کرتا ہے، لہٰذا دُعا کے آداب و شرائط کے ساتھ جو دُعا کی جائے اس کی قبولیت کی پوری امید رکھنا ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ حُسنِ ظن ہے۔