• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس دفعہ تو دلی کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ کہرا تھا کہ جہازوں کو زمین سے اوپر ہی نہیں آنے دیتا تھا، دھوپ تھی کہ بدن چرا رہی تھی، لوگ تھے کہ ٹوپیوں اور کوٹوں میں ملبوس تھے۔ خواتین نے کشمیری پھرن پہنے ہوئے تھے اور دونوں مشاعرے تھے کہ لوگ سن سن کر تھک ہی نہیں رہے تھے مگر اس دفعہ سننے والوں کا اور شہر کا مزاج بدلا ہوا تھا۔ وہ مجھے بار بار کہہ رہے تھے۔ ملالہ والی نظم وہ فرمائش کررہے تھے۔ نیلسن منڈیلا والی نظم، فرحت احساس جیسے سنجیدہ شاعر بھی بہت داد لے رہا تھا۔ سبب یہ تھا کہ دلی کو تو عام آدمی پارٹی نے اپنے قابو میں کیا ہوا تھا۔ اس کو مختصراً ’’آپ‘‘ کا نام دے دیا گیا تھا۔ یہ وہی پارٹی ہے جس نے نیا نیا جنم لیا ہے۔ جس نے اپنا انتخابی نشان جھاڑو رکھا تھا۔ دلی کی 27نشستیں ان عام آدمیوں نے، 30 بی جے پی اور 8نشستیں کانگریس نے جیتی تھیں۔ پہلے تو سارے سیاست دان اس پر حیران کہ سارے غریب غرباء کی پارٹی جس نے جنم بھی چند ماہ پہلے لیا تھا۔ جو دفتروں میں کام کرنے والے کلرکوں اور بےکار نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ جن کے پاس دھیلہ بھی نہ تھا۔ اس نے دلّی کی27نشستیں کیسے جیت لیں اب قضیہ تھا کہ دلّی کی راج دہانی کون سنبھالے گا۔ عام آدمی پارٹی والے بی جے پی سے ملاقات کرنے کو بھی تیار نہ تھے۔ رہا مسئلہ کانگریس کا تو وہ اپنی شکست کے زخم چاٹ رہے تھے۔ بڑی مایوسی کے عالم میں سپریم کورٹ سے لالو پرشاد کی ضمانت کرائی گئی مگر وہ الیکشن لڑ ہی نہیں سکتے تھے۔ چار و ناچار کانگریس نے عام آدمی پارٹی سے صلح کی اور اب وہاں ’’آپ‘‘ اور کانگریس نے مل کر دلّی کی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔وہاں سے سارے صحافی پریس کلب میں بیٹھے یہ کہہ رہے تھے کہ یہ نہ ہو جو حال پاکستان میں عمران خان کی پارٹی کا ہوا ہے۔ وہ لوگ بتارہے تھے کہ عمران خان ہندوستان میں جب پریس سے باتیں کررہے تھے تب بھی ان کا نقطہ نظر واضح نہیں تھا۔ بہرحال اس وقت تک لڑکیوں اور خواتین کیلئے عمران خان کا چارم باقی ہے اور وہ سب بھی اس پریس کانفرنس میں آئی تھیں۔دوسرا بڑا موضوع جو زیر بحث تھا وہ ہماری دوست دیویانی کا تھا۔ وہ اپنی میڈ کو جو تنخواہ دیتی تھی۔ وہ امریکی قوانین کے تحت قانون کے مطابق نہیں تھا۔ کسی بات پر بحث ہوئی اور دیویانی اپنی میڈ کو نکالنا چاہتی تھی۔ وہ میڈ کورٹ میں چلی گئی اور دیویانی کیخلاف نہ صرف بیان دیا بلکہ امریکہ میں پناہ کی درخواست بھی دائر کی۔ دیکھئے وہاں کی پولیس کی پھرتیاں کہ دیویانی جو اپنے بچوں کیلئے سامان خریدنے مارکیٹ گئی تھی۔ اس کو وہیں مارکیٹ میں نہ صرف گرفتار کیا بلکہ ہتھکڑی بھی لگائی۔ ہندوستان کی حکومت کو طیش آیا تو انہوں نے سفارت خانے اور افسران کے گھروں پہ لگائی گئی ساری سیکورٹی فوراً ہٹالی۔ امریکیوں نے کہا کہ چونکہ دیویانی نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، اس لئے باقاعدہ مقدمہ چلے گا۔ ابھی یہ رسہ کشی جاری تھی کہ میں نے ذرا کھلا آسمان دیکھا تو پاکستان لوٹنے کی سوچی۔ مگر ہماری ایئر لائن ہمارے ارادوں کے مطابق چلنے لگے تو وہ پی آئی اے کیوں رہے۔ پورے چھ گھنٹے بعد وہ جہاز دلّی پہنچا اور یہی حال جاتی دفعہ ہوا تھا۔ پورے آٹھ گھنٹے بعد جہاز چلا۔ وجہ صرف دھند ہی نہیں تھی ہمارا اپنا ڈسپلن بھی تو ہے۔ جو جہاز اسلام آباد آنا یا لاہور جانا تھا، اس کو کویت بھیج دیا گیا۔بعد میں ان مسافروں کا خیال آیا جو بھوکے پیاسے، اپنے سفر کیلئے بے چین تھے۔ میں گزشتہ 3 ہفتوں سے سفر میں ہوں اور جہاز کے وقت پر نہ چلنے کے تحت مجبوری یہ ہے کہ ہمارے ملک میں قومی ایئر لائن کا مقابلہ کرنے والی کوئی اور مضبوط ایئر لائن نہیں ہے۔ ادھر دوسری طرف جگہ جگہ پوسٹر لگے ہوئے تھے کہ ہم پی آئی اے کو پرائیویٹائز نہیں ہونے دیں گے۔ کیوں نہ یہ کیا جائے کہ ورکرز کو بھی 25 فی صد حصہ داری دے دی جائے اور پی آئی اے کو ضرور نجی تحویل میں دیا جائے کہ مقابلہ تو ہو۔ سمجھ سکیں ملازم کہ کئی دن کے رکھے ہوئے سینڈوچ مسافروں کو نہیں کھلانے ہیں۔ بہرحال یہ قضیہ کسی صورت اختتام کو پہنچے کہ اب تو ترکش ایئر لائن سے مانگے ہوئے جہاز بھی کام نہیں دے رہے ہیں۔لڑکیوں کے ریپ کے قصے اور ان سے نکلنے والے عذاب دلّی میں اتنے بڑھے ہیں کہ علی جاوید کے بھائی نے ایسے ہی تہمات سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کرلی۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سارے روشن خیال جمع ہو کر اس ماحول کیخلاف احتجاج کررہے تھے کہ بی جے پی ابھی حکومت میں آئی نہیں مگر سوشل میڈیا پر ان کا اس قدر قبضہ ہے کہ لوگوں کے گھروں کا سکون برباد ہو رہا ہے۔ مدھو کشور، جو ہماری دوست ہے وہ آج کل بی جے پی کا مائوتھ پیس بنی ہوئی ہے۔یقین نہیں آتا مگر یہ سچ ہے کہ پورا معاشرہ لڑکیوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کیخلاف بہت سرگرم ہے۔ ان میں کمشنر انکم ٹیکس محترمہ نینا کمار، ادب تہذیب کو فروغ دینے کیلئے رنجیت چوہان جیسے نوجوانوں کو خالص ادبی فنکشن کرانے، نظم کا مشاعرہ، کوی سمیلن اور نوجوان لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے سارے اقدامات میں وہ نہ صرف خود بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ کہیں قوالی کروا رہی ہیں، کہیں مصوری کی نمائش کیلئے اہتمام کر رہی ہیں۔ ان کے میاں پولیس کمشنر ہیں۔ پاکستانی ادیبوں کی پولیس رپورٹنگ میں بہت معاونت کرتے ہیں۔اس دفعہ میں اپنے دوستوں سے ملنے کیلئے وقت نکال ہی نہیں سکتی۔ حالانکہ مجھے معلوم تھا کہ ٹیگور کانفرنس ہورہی ہے۔ محمد حسن احمد حسن کی قوالی کمانی آڈیٹوریم میں ہورہی ہے۔ ایک تو غضب کا موسم اور دوسرے گڑ گائوں میں ٹنڈے کے کباب نے ایسا کھینچا کہ کہیں اور جانے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔
تازہ ترین