دنیا میں بڑے بڑے اداکار گزرے ہیں، مگر باپ سے بڑا اداکار کوئی نہیں ہوتا۔ وہ ماں سے بڑھ کر محبّت تو کرتا ہے، مگر کبھی ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ بیٹی کی ایک مسکراہٹ اُسے کئی زندگیاں عطا کرتی ہے، تو ایک آنسو بےموت مار دیتا ہے۔ باپ ایک گہرے سمندر کی طرح ہوتا ہے، جس کو دیکھ کر کوئی قیاس نہیں کر سکتا کہ اُس کی گہرائی میں کتنے طوفان بپا ہیں۔ میرے بابا کے اندر بھی کئی کائناتیں، صدیاں اور زمانے بستے تھے۔
کبھی مجھےلگتا، ربّ نے انہیں حقیقت آشنا کرکے اُن کی قوتِ گویائی سلب کر لی ہے، تو کبھی محسوس ہوتا کہ باپ ملہار کی طرح ہوتے ہیں، اِسی لیے تو اُن کی یاد کا ابر ہر لمحہ جل تھل کیے رکھتا ہے۔ مجھے اسکول، کالج، یونی وَرسٹی چھوڑنا، لانا بابا نے اپنے ذمّے لیا ہوا تھا۔ ہمارا گھر یونی وَرسٹی کی حدود میں تھا، اس لیے پیدل ہی لے کر جاتے، آتے۔ کبھی کبھی میں کہتی ’’بابا! گاڑی پہ چلتے ہیں۔‘‘ تو مُسکرا کر جواب دیتے’’بیٹا! اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو پیدا ہی پیدل چلنے کے لیے کیا ہے، ورنہ اُس کی دوکے بجائے چار ٹانگیں ہوتیں۔‘‘
وہ ہمیشہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کہتے تھے، کوئی اللہ جی کہتا، تومنع کرتے ہوئے کہتے کہ ’’خالق کا اپنا ایک پروٹوکول ہے، ’’جی‘‘ تو آپ دنیا کے رشتوں کے ساتھ بھی لگاتے ہیں۔‘‘ ہم راستے میں ڈھیروں باتیں کرتے جاتے۔ اُنہیں اپنے کتابوں سے بَھرے کمرے سے بھی بےحد محبّت تھی۔ اکثر کہتے ’’اصل زندگی وہی ہے، جو کتابوں میں گزرے۔ مطالعے سے علم وسیع ہوتا ہے۔‘‘
بابا کے لیے چائے بنانا میرے ذمّے تھا۔ مَیں جب بھی چائے لے کر اُن کے کمرے میں جاتی، تو وہ مُسکراتے ہوئے دُعا ضرور دیتے ۔ دادی کی رحلت کے بعد اُن کی چائے ٹھنڈی ہونے لگی تھی۔ مَیں کئی کئی بار اُن کی چائے گرم کرکے لاتی اور وہ پھر خیالوں میں کھو جاتے۔ مَیں نے ایک بار کہا ’’بابا! آپ کی چائے رکھے رکھے ٹھنڈی ہوجاتی ہے، پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔‘‘ تو مُسکرا کر بولے ’’گرم چائے وہی پیتے ہیں، جو کسی کو یاد نہیں کرتے، جو بچھڑ جانے والوں کو بھول جاتے ہیں۔‘‘مجھے یاد ہے دادی کی وفات پر خاندان کا ہر شخص غم سے نڈھال، رو رہا تھا، مگر نہ جانے کیوں بابا لکل خاموش تھے۔
اُن کی سُرخ آنکھیں ویران تھیں، مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ بابا تو دادی سے بےحد محبت کرتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ جیتے تھے۔پھر یہ چُپ، یہ خامشی کیسی…؟؟پھر دوسرے روز، رات کو بھائی نے بابا سے پوچھ ہی لیا ’’بابا! آپ دادی سے اس قدر پیار کرتے تھے، وہ بھی آپ کو دیکھے بغیر نہیں رہتی تھیں، اُن کے انتقال پر ہر شخص رو رہاتھا،غم سے نڈھال تھا، ہم سب اب تک افسردہ ہیں، مگر آپ کیوں خاموش ہیں؟‘‘ توبابا نے اپنی ویران، سُرخ آنکھوں سے ہماری طرف دیکھا اور بولے ’’مَیں نہیں جانتا کہ مَیں ماں کی خدمت کا حق ادا کر سکا یا نہیں، مگر مَیں نے اپنے ماں، باپ کو ایک دُکھ نہیں دیا اور وہ یہ کہ مَیں اُن کی زندگی میں مَرا نہیں۔ بیٹا اِن سب لوگوں نے صرف دو دن رونا ہے، لیکن مَیں نے تو ساری حیاتی رونا ہے، میرے بچّو! ماں، باپ کے بغیر زندگی، ریل گاڑی میں رات کو تنہا بیٹھے اُس نابینا مسافر کی طرح ہوجاتی ہے، جسے اپنی منزل کا علم نہ ہو۔‘‘ پھر اتنا روئے، جیسے ساون کی جَھڑی لگ گئی ہو اور یہ جَھڑی وقفے وقفے سے اب تک جاری ہے۔
مجھے یاد ہے، جس صبح میری رخصتی تھی، وہ رات سرد رویوں کی طرح سخت خنک تھی، لگتا تھا، سارے چراغ بجھ گئے ہیں، طاق میں شام جل رہی تھی۔ بابا ساری رات مجھ سے باتیں کرتے رہے۔ اُن کی آواز میں جیسے بھیگتے جنگل کی سرگوشی تھی۔ مجھے لگا، جیسے ہجر کی لاکھوں بانسریاں اُن کے سینے میں گریہ کر رہی ہیں، اُن کے لہجے میں دھیرے دھیرے اُترتی ہوئی سُرمئی کہر زدہ شاموں کی سی اُداسی محسوس کرکے ایسا لگتا تھا، جیسے بابا ابھی رو دیں گے۔ اُس دن مجھے لگا، جیسے بابا غم ناک پرندوں سے بَھرا ایک برگد ہیں۔ کہنے لگے، ’’بیٹا! خوابوں کے محل صرف کہانیوں ہی میں اچھے لگتے ہیں،حقیقت میں نہیں۔
نفرت کا لفظ اپنی زندگی کی لغت سے نکال دو۔ محبّت اُس دِل آویز مسکراہٹ کا نام ہے، جہاں سے زندگی شروع ہوتی ہے۔ کچھ لوگ آپ کے ساتھ تو ہوتے ہیں، مگر ہم راہ نہیں، اب سے مَیں بھی تمہارے ساتھ ہوں گا، مگر پاس نہیں۔ ہمیشہ سب کو ساتھ لے کر چلنا۔ ‘‘ پھر کچھ دیر خاموش رہےاور دھیرے سے مُسکراتے ہوئے کہنے لگے،’’سچّے رشتے اور تعلق تصویر میں موجود نہ بھی ہوں، تو رنگوں میں موجود ہوتے ہیں۔‘‘ مَیں بابا کی مسکراہٹ دیکھ کر ماضی کی دُھند میں کھو گئی۔
مجھے یاد آیا ایک دِن کسی بات پر وہ مجھ سے ناراض ہوگئے تھے، تو اُس دن انہوں نے میرے ہاتھ کی چائے بھی نہیں پی تھی۔ مَیں دادی کے پاس گئی، تو وہ بولیں’’ بیٹا! باپ زندگی سے تو خفا ہو سکتا ہے، بیٹیوں سے نہیں۔ صبح مَیں تمہارے ساتھ جا کر اُس کو ڈانٹوں گی۔‘‘ مَیں ساری رات جاگتی اور روتی رہی، فجر کی اذان سے کچھ پہلے بابا کے کمرے میں گئی، تو وہ بیٹھے رو رہے تھے۔ مَیں بھی اُن سے لپٹ کر سِسک سِسک کر روئی اور کہا ’’بابا! آپ مجھے معاف کر دیں، ورنہ ہم دونوں عُمر بَھر سو نہیں پائیں گے۔‘‘اور وہ مجھے چُپ کرواتے ہوئے بولے ’’مَیں اپنی بیٹی پہ قربان۔‘‘ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے، جب گرمیوں کی دوپہر بابا دوسری طرف رُخ کرکے کتاب پڑھ رہے تھے، تو مَیں نے چُپکے سے جا کر اُن کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئےتھے۔
وہ مُسکرا کر بولے ’’بھلا مَیں اپنی زندگی کو نہیں پہچانوں گا، حالاں کہ زندگی کے شور نے ہم سے کسی اپنے کی آہٹ اور سرگوشی کا احساس حُسن چھین لیا ہے۔‘‘ اکثر نماز کے لیے کھڑے ہوتے کہتے ’’لمبے سجدے سے محتاجی سے نجات اور رات کے سجدوں سے ربّ ملتا ہے۔جس کے پاس جو ہوتا ہے ناں، وہ، وہی تقسیم کرتا ہے، اس لیے لوگوں کے بُرے رویّوں اور سلوک کا کبھی شکوہ نہ کرنا کہ ہر کسی کے پاس محبت، خلوص، پیار، اپنائیت، ظرف اور دریا دِلی کے گوہر نہیں ہوتے۔ ‘‘میری رخصتی پر بابا بہت روئے تھے۔ باپ سے بیٹی کی جدائی شاید موت کی پہلی قسط ہوتی ہے۔ روتے روتے بولے ’’مَیں تمہیں اچھی تربیت اور دُعا کے پھول دے رہا ہوں۔ دُعا واحد چیز ہے، جس کا کوئی زمانہ نہیں ہوتا۔ یہ ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں کے لیے ہے، کیوں کہ جس سے دُعا کی جاتی ہے، وہ لافانی ہے، ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔‘‘
میری شادی ایک بڑے گھرمیں ہوئی، جہاں سب کچھ تھا۔ میرے شوہر کا رویّہ بھی اچھا تھا، مگر صرف ایک کمی تھی کہ ہمیں(بہوؤں کو) وہ عزّت و توجّہ نہیں ملتی تھی، جو گھر کی بیٹیوں کو ملتی۔میری ایک نند شادی شدہ تھی، جو اُسی شہر میں رہتی تھی۔ ساس کا بس نہیں چلتا تھا کہ بیٹی ہر پَل ان کی آنکھوں کے سامنے رہے، جب کہ بہوؤں کے میکے جانے پر خاصی روک ٹوک کرتیں۔ مَیں جب گھر جاتی، تو بابا پوچھتے ’’تم خوش تو ہو ناں؟‘‘اور مَیں مُسکرا کر کہتی ’’بابا! بہت خوش ہوں، سب لوگ بہت اچھے ہیں اور مجھ سمیت سب بہوئوں کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘ مَیں اُن سے بات کرتے، آنکھیں چُراتی رہتی، مگر وہ مسلسل میری آنکھوں میں میں دیکھتے رہتے، جیسے کچھ کھوجنا چاہتے ہوں۔
بابا اب ضعیف ہو گئے تھے اور مجھے ایک دُکھ یہ بھی تھا کہ میری ساس مجھے اُن سے ملنے ، میکے نہیں جانے دیتی تھیں۔ بڑے دِنوں بعد جب مَیں ایک دِن بابا سے ملنے گئی، تو بولے ’’بیٹا! کیا وہ لوگ تمہاری عزّت کرتے ہیں، کیوں کہ دوسرے سفر کا رزق صرف عزّت ہے۔‘‘ مَیں نے کہا ’’بابا! آپ کیوں وہم کرتے ہیں، کیوں پریشان ہوتے ہیں، مَیں خوش ہوں، وہاں عزت سے رہتی ہوں۔ میرے سُسرال والے بہت اچھے ہیں۔‘‘ میرا جواب سُن کر بابا نے میری طرف دیکھا اور خاموش ہو گئے، جیسے انہیں یقین نہ آیا ہو۔
میری شادی کو چار سال ہوگئے تھے۔ میرا ایک بیٹا تھا، جو اپنے نانا کی جان تھا۔ مگر اپنی ساس کی وجہ سے مَیں زیادہ دن میکے میں نہیں گزار پاتی تھی۔ ایک دن جب مَیں بازار سے واپس آئی، تو ملازمہ نے بتایا کہ ’’بھابھی! آپ کے ابّو آئے تھے، کچھ دیر بیگم صاحبہ سے باتیں کیں اور پھر کچھ کھائے پیے بغیر ہی چلے گئے۔‘‘یہ سُن کر مَیں پریشان ہو گئی کہ بابا بنا بتائے اور وہ بھی دوپہر میں تو ہرگز نہیں آتے، پھر اتنی جلدی واپس بھی چلے گئے اور مجھے بتایا بھی نہیں۔ ابھی مَیں انہیں فون کرنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ ساس میرے کمرے میں داخل ہوئیں اور مجھ سے لپٹ کر رونے لگیں ۔ ’’مجھے معاف کر دو، تم میری بہو نہیں، بیٹی ہو۔ تم اِس گھر کی بیٹی ہو۔‘‘ مَیں نے کہا ،امّی! کیا ہوگیا، آپ رو کیوں رہی ہیں اور بابا کیوں آئے تھے، انہوں نے آپ سے کیا کہا؟‘‘ ’’تمہارے بابا پوچھنے لگے کہ ’’میری بیٹی کیسی ہے؟‘‘ جس پر مَیں نے کہا ’’اچھی ہے، آپ کو تو فخر ہونا چاہیے کہ وہ اتنے امیر اور بڑے گھرانے میں بیاہی گئی،بڑے گھر کی بہو ہے۔‘‘
جس پر انہوں نے کہا ’’میری بہن!باپ اور بیٹی کی دو زندگیاں ہوتی ہیں ۔بیٹی جب گھر سے رخصت ہوتی ہے، تو باپ اور بیٹی دونوں ہی ایک موت مرتے ہیں۔بیٹی کی دوسری زندگی، جو رخصتی کے بعد شروع ہوتی ہے، اُس کا رزق صرف عزّت ہوتی ہے۔ وہ اچھا لباس اور زیور بھی اسی لیے پہنتی ہے تاکہ دوسروں کو دکھا سکے کہ سُسرال میں اس کی عزّت ہے۔ عورت کی آکسیجن ہی عزت ہے اور باپ کی دوسری زندگی کا رزق اور آکسیجن اُس کی بیٹی کی خوشی۔ اگر کسی بیٹی کو یہ معلوم ہو جائے کہ اُس کا باپ اُس سے کس قدر محبت کرتا ہے، تو وہ باپ کی زندگی میں اپنا گھر بسانے کا کبھی سوچے بھی نہیں۔
میری بیٹی کی زبان میرے سامنے جھوٹ بول سکتی ہے، مگر اُس کی آنکھیں نہیں۔ بیٹیوں کے ماں، باپ درختوں کی طرح ہوتے ہیں ،جن کے بخت میں اپنی ہی چھائوں نہیں ہوتی، حالاں کہ ہر بیٹی کے لاشعور میں سرسبز کہساروں سے بھی اونچا جھولا جھولنے کی تمنّا دَبی ہوتی ہے۔‘‘ یہ سُن کر روتے روتے میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ ’’اور کیا کہامیرے بابا نے؟‘‘ میری ساس پہلے اپنے پھر میرے آنسو پونچھتے ہوئے بولیں ’’جب دروازے سے باہر نکلنے لگے، تو بولے، میری بہن! یاد رکھنا، بڑے گھروہ نہیں ہوتے، جہاں مال و دولت کی ریل پیل ہو، بڑے گھروہ ہوتے ہیں، جہاں بہوؤں کو بیٹیوں کی طرح رکھا جائے۔ ‘‘
بذریعہ ڈاک موصول ہونے والی ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’متفرق/کچھ توجّہ ادھر بھی‘‘
٭صائمہ، صائم اور ماہِ صیام، گوہر خالد، گلشنِ اقبال، کراچی٭روزہ: حضرت آدمؑ سے اسلام تک،عید اور عید کارڈ، حضرت علیؓ غیر مسلموں کی نظر میں، امیرِ ملّت پیر سیّد جماعت علی شاہ، بابر سلیم خان، لال کُرتی، لاہور٭حُکم رانوں اور پاکستان کی اقتصادی حالت، سرکاری ٹرانس پورٹ، صغیر علی صدّیقی، کراچی٭اندازِ بیاں گرچہ شوخ نہیں ہے، ڈاکٹر ایم شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی ٭روزے کی فضیلت و اہمیت، ارشد مبین احمد، کراچی ٭وصیت نامہ، ایم اے ہاشمی آف گلگت، سولجر بازار، کراچی٭حسرتِ زیست، عائشہ اکبر، کوٹری ٭عالمی یومِ خواتین، رضیہ بانو، مقام نہیں لکھا ٭ہمارے رسم و رواج، مجاہد خان، کراچی ٭نسلِ نو، نرجس مختار، خیرپور میرس، سندھ٭آسانیاں تقسیم کریں، محمّد علی سحر، محمود آباد، کراچی ٭چیئرمین آئل اور گیس، شری مُرلی چند، گوپی چند گھوکلیہ، شکار پور، سندھ٭انسانی معاشرتی معیار میں ہماری درجہ بندی اتنی کم کیوں، ڈاکٹر ظفر فاروقی، کراچی۔