• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بارش پورے زور شور سے برس کر تھم چُکی تھی اور خنکی کا احساس ہونے لگا تھا۔ کافی دیر پگڈنڈی پر چلتے چلتے اُسے لگا، جیسے وقت رُک گیا ہے یا شاید وہ خود کہیں بہت پیچھے رہ گیاہے۔وہ آخری موڑ تھا، جس کے مُڑتے ہی وہ دل کش اور سحر انگیز منظر اُس کے سامنے آگیا، پہاڑوں میں گِھری خُوب صُورت وادی آج بھی اُسی طرح سحر انگیز تھی۔دریا ،وادی کے کنارے پورے زور و شور سے بہہ رہا تھا، دوسری جانب پُرسکون گھنا جنگل تھا، جس کی ہیبت آج بھی اُسی طرح برقرار تھی، جیسے تیس برس پہلےتھی۔ آج وہ اُسی گھر کے سامنے کھڑا تھا، جہاں اس نے آنکھ کھولی تھی۔ گائوں کے دوسرے گھروں کی طرح لکڑی اور ٹِین کی چھت سے بنا یہ گھر کبھی اس کے لیے دنیا میں سب سے محفوظ آشیانہ تھا۔ 

وہ اندر داخل ہوا،تو دیکھا کہ ٹِین کی چَھت تیز بارش اور طوفان کے باعث اُڑ چکی ہے، لکڑی بوسیدہ اور گلی ہوئی نظر آئی،مکڑی کے جالے اور پرندوں کے گھونسلے پتا دے رہے تھے کہ برسوں سے اس گھر کی چوکھٹ کسی نے پار نہیں کی۔ماں جی اور ابّا جی کے بعد اس گھر کے پنچھی بھی یہ آشیانہ چھوڑ گئے تھے۔ماں جی اور ابّا جی نےساری عُمریہ آشیانہ جوڑے رکھا،اسےزمانے کے سرد و گرم سے بچا رکھا تھا۔ اُسے یاد آیا، جاتے ہوئے ماسٹر جی نے اُس سے کہا تھا کہ ’’یادوں کے دیے جلتے رہنے چاہئیں،یہ دیے بُجھ جائیں،تو رشتوں کی ڈوریں بھی ٹوٹنے لگتی ہیں۔ زندگی تو گزر ہی جاتی ہے، لیکن زندگی کی اصل رونق اور خوشیاں اپنی مٹّی،اپنے پیاروں کے ساتھ ہیں۔‘‘ مگر اُس وقت وہ زندگی گزارنا نہیں، جینا چاہتا تھا۔

آج، نگر نگر گُھوم کروہ ایک بار پھراُسی مقام پر کھڑا تھا،جہاں سے یہ سفر شروع ہوا تھا۔چیڑ کے درختوں میں گِھرا ہوا یہ گھر،پہاڑ، بَل کھاتا دریا، جنگل، پگڈنڈی،یہ راستے اور یہاں کے لوگ۔ کسی زمانے میں اسے یہ جگہ، چیزیں، لوگ اپنی منزل کے رستے کی رکاوٹ لگتے تھے، وہ سمجھتا تھا،زندگی جینے کے لیے اُسے ان رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑے گا۔ ماسٹر جی نے ایک بار کہا تھا ’’خُوش نما راستوں کو منزل سمجھنے والے لوگ نہ منزل پاتے ہیں اور نہ قرار۔ اور، جو منزل پالیتے ہیں، ان کی کوشش،سعی اور جدّوجہد بالکل اُسی طرح ختم ہو جاتی ہے، جیسے بچّے کو اس کا مَن چاہا کھلونے مل جائے، تو تھوڑی ہی دیر میں وہ اس سے بےزار ہوجاتا، اس کی وقعت ختم ہوجاتی ہے۔

ہاں، منزل بڑی ہو، تو اُسے پانے کی لگن، اُمید کے دیے روشن رکھتی ہے۔‘‘ ان تیس برسوں میں کیا نہیں تھا، جو وہ حاصل نہیں کر سکا تھا، سب کچھ اُس کی دست رَس میں تھا،جس چیز کی چاہ کی ،اُسے پا لیا، لیکن منزل ملنے کے قرار سے وہ آج بھی محروم تھا۔ کچھ راہیں بڑی پُرکشش ہوتی ہیں،مسافر ان خُوش نما راہوں ہی میں گُم ہو جاتے ہیں،راہیں تو ختم نہیں ہوتیں، پر زندگی ختم ہو جاتی ہے۔کبھی کبھی اسے محسوس ہوتا تھا کہ وہ مکڑی کے جال میں پھنسے اس کیڑے کی طرح ہے، جو دنیا کے خوش نما جال میں پھنس گیا ہے۔

ان برسوں میں یادوں کے دیے بھی بجھ گئے تھے۔یہ سحر انگیز وادی،گھر، دریا، ہرا بَھرا جنگل، غرض سب ہی اُس کی یادوں سے مِٹ چُکے تھے۔پہلے ابّا جی اور پھر ماں کے انتقال کی خبر بھی اس کی یادوں کے چراغ روشن نہ کر سکی تھی۔ اب صبح وشام اس کے لیے دُعائیں کرنے والے ہاتھ رہے تھے،نہ یاروں ، دوستوں کی سنگت اور نہ ہی ماسٹر جی کی شفقت۔زندگی جینے کا خواب تو خواب ہی رہا، وہ تو ٹھیک سے زندگی بسر بھی نہیں کر پایا تھا۔ لیکن …اپنے گھر، اپنے گاؤں لوٹ کر یادوں کے دیے آج برسوں بعد پھر سے روشن ہوگئے تھے، مگر افسوس کہ اب ان یادوں سے وابستہ لوگ دوسری دنیا میں جا چُکے تھے۔

شاید تقدیر کا یہی فیصلہ تھا، جیسے سمندر کنارے رہنے والے بھی پیاسے رہ جاتے ہیں، ویسے ہی یادوں کے دیے روشن ہو کر بھی اس کے دل کے اندھیروں کو روشن کرنے سے قاصر تھے۔دریا اُسی روانی سے بہہ رہا تھا،گھر کے عقب میں واقع گھنا جنگل آج بھی کئی کہانیاں اپنے اندر سمیٹے وہاں موجودتھا، سیب، ناشپاتی اور خوبانی کے درخت آج بھی پھل دار تھے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ’’جو زندگی مَیں گزار آیا ہوں، اس کا ایک لمحہ بھی ایسا نہیں، جو میری زندگی کا حاصل ہو، جسے یاد کرکے لبوں پہ مسکراہٹ، آنکھوں میں چمک آجائے۔‘‘

پگڈنڈی پر چلتے ہوئے واپسی کا سفر جیسے برسوں پر محیط تھا، ایک بے جان لاشے کی طرح خود کو گھسیٹتے ہوئے وہ سڑک تک پہنچا۔ گاڑی میں بیٹھنے سے قبل ایک بار اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا، تو اندھیرا ہو چُکا تھا، علاقے کے سب ہی گھروں میں چراغ روشن ہو چُکے تھے، لیکن جو اندھیرا اُس کے اندر گھر کر چُکا تھا، وہ اب کسی چراغ سے روشن نہیں ہو سکتا تھا۔