جب عمران خان کی حکومت بن گئی یا بنوائی گئی اسوقت سابق صدرپاکستان آصف علی زرداری نے عمران خان ،انکے رفقا اور عمران خان کی ڈور ہلانے والے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئیں چارٹر آف اکانومی پہ بات کرتے ہیں، مگر عمران خان کی پالیسی میں شاید اس ملک کو خراب معاشی صورتحال سےدو چار کرنابھی شامل تھا،ایسا کرنےکا ٹاسک غالباً بین الاقومی آقا ئوں کی طرف سےان کو ملا تھا ۔ 2018 ءسے پہلے تو پاکستان میں کوئی ڈیفالٹ کا ذکر نہ تھا پھر ایسا کیا ہو گیا کہ آصف علی زرداری بار بار معاشی چارٹر کی بات کرتے نظر آتے ہیں ؟حقیقت یہ ہے کہ آصف علی زرداری کو اندازہ ہے کہ پاکستان کا دشمن ہمارے دفاعی نظام کو کمزور نہیں کرسکتالیکن اگر ہمارا دشمن ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے تو وہ معیشت کو کمزور کر کے ہی پہنچا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی حکومت میں زرداری بار بار معیشت کے چارٹر کی بات کرتے رہے، کیوں کہ انھیں علم تھا کہ عمران خان کو معیشت تباہ کرنے کیلئے لایا گیا ہے اور پھر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اسٹیٹ بینک پر ریاست کا کنٹرول بھی عمران خان کی حکومت کے دوران ختم ہوا۔ حال ہی میں پنجاب کے تاجروں سے بات کرتے ہوئے آصف علی زرداری پوری طرح مطمئن نظر آئے کہ اگر انھیں موقع دیا گیا تو وہ پاکستان کو معاشی مسائل سے نکال سکتےہیں ۔اگر زرداری کی سابقہ حکومت کا موازنہ کیا جائے تو اس بات پر قوی یقین ہوجاتا ہے کہ آصف علی زرداری اور ان کی جماعت کے پاس پاکستان کے معاشی مسائل حل کرنے کی حکمت عملی موجود ہے کیوں کہ 2008ءمیں پی پی نے وفاق میں اپنی حکومت بنائی تو ملک میں جس طرح کے حالات تھے ان سے نہیں لگتا تھا کہ ملک بہتری کی طرف جائے گا، کیونکہ بم دھماکوں اور دہشتگردی نے معیشت کا بیڑا غرق کردیا تھا، صنعتکار یکے بعد دیگر ملک سے اپنا سرمایہ باہر لے جارہے تھے کیوں کہ صنعتکاروں کو ایک طرف بجلی اور گیس کےبحران کا سامنا تھا تو دوسری طرف بھتہ خوری سے ان کا منافع نقصان میں تبدیل ہوچکا تھا ، جبکہ دوسری طرف گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی عروج پر پہنچ چکی تھی، پھر 2010ءکے سیلاب اور 2011ءکی بارشوں نے جو تباہی مچائی وہ بھی ہمارے سامنے ہے، جبکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں لاکھوں مہاجرین خیبر پختونخوا کے اضلاع سے دوسرے اضلاع میں چلے گئے، جن پر ریاست نے اربوں روپے خرچ کیے اور انھیں واپس اپنے آبائی علاقوں میں امن قائم کرکے بسایا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت اور آصف علی زرداری کا سب سے بڑا کارنامہ 1973ءکے آئین کو اصلی شکل میں بحال کروانے کیساتھ ساتھ 13سال بعد قومی مالیاتی ایوارڈ کی صوبوں میں تقسیم ہے، بلوچستان کی محرومیاں دور کرنے کیلئے ’’آغاز حقوق ِبلوچستان‘‘ پروگرام بھی شروع کیاگیا۔ سابق صدر زرداری کی ہدایت پر 80قومی اداروں کے 5لاکھ مزدوروں میں 100 ارب کے 12فیصد شیئرز مفت تقسیم کئےگئے، ملک میں پہلی بار بی آئی ایس پی کے نام سے سماجی تحفظ کا ادارہ قائم کیا گیا، 70لاکھ گھرانوں کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے نقد مالی امداد دی گئی، وسیلہ حق کے ذریعے تین لاکھ گھرانوں کو 3لاکھ تک کے بلاسود قرضے دیئے گئے، ملک گندم کی پیداوار میں خود کفیل ہونے کے ساتھ گندم دیگر ممالک کو برآمد کر کے اربوں ڈالر کازر مبادلہ کمانے کے قابل ہوگیا جبکہ اس سے پہلے ہم گندم باہر سے منگوا کر اپنی ضرورت پوری کرتے تھے، پی پی کی حکومت رخصت ہونے کے بعد ایک بار پھر ہم گندم باہر سے منگوانے پر مجبور ہوگئے۔ دوسری طرف آصف علی زرداری کے احکامات پر اس وقت کی پی پی پی حکومت نے کپاس کی قیمت طے کرنے کیلئےفری مارکیٹ نظام متعارف کروایا جس سے کپاس کی پیداوار اور ٹیکسٹائل برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ۔ پھر اچانک 2018ءمیں عمران خان کو مسلط کیا گیا اور بقول شبر زیدی ملک عمران خان کے پہلے سال میں ہی ڈیفالٹ ہونے کے قریب پہنچ گیا، لاکھوں لوگ نوکریوں سے فارغ کردیئے گئے۔ آج آصف علی زرداری اگر معیشت کے چارٹر کی بات کررہے ہیں اور پنجاب کے صنعتکار ان کو اپنے مسائل سے آگاہ کررہے ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ زرداری کے پاس ان کے مسائل کا حل ہے۔ پیپلز پارٹی سے گزارش ہے کہ آصف علی زرداری کے معاشی چارٹر پر ملک بھر میں مباحثوں کا اہتمام کیا جائے تاکہ نئی نسل کو زرداری کی دور اندیشی اور معاشی پالیسیوں کا ادراک ہو اور ہم سب مل کر کسی ایک معاشی ایجنڈے پر کام شروع کریں۔