سپریم کورٹ آف پاکستان نے تمام صوبوں سے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے اقدامات کی رپورٹس طلب کرتے ہوئے تعلیم سے محروم بچوں کے اعداد و شمار بھی طلب کر لیے۔
انسانی اسمگلنگ کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یونان میں ہونے والا کشتی حادثہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، سادہ لوح غریب شہریوں کو بیرون ملک ملازمت کا جھانسہ دیا جاتا ہے، شہری انسانی اسمگلرز کے دھوکے میں آکر لاکھوں روپے ادا کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ملک میں خواتین اور بچوں کی بھی انسانی اسمگلنگ ہو رہی ہے، کیا حکومت کے پاس بچوں کی اسمگلنگ کے اعداد و شمار ہیں؟
ڈی جی وزارت انسانی حقوق نے بتایا کہ بدقسمتی سے درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے بنائے گئے 2018 کے قانون میں ابہام ہے، بنیادی مسئلہ قوانین پر عملدرآمد کے لیے اسپیشلسٹ فورس نہ ہونا بھی ہے، انسانی اسمگلنگ روکنے کا کام بھی پولیس کے ذمے تھا۔
سپریم کورٹ نے صوبائی حکومتوں کو بھی انسانی اسمگلنگ روکنے کے لیے کردار ادا کرنے کا کہا۔
عدالت نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے طیبہ تشدد کیس بھی سنا تھا، کم سن گھریلو ملازمہ طیبہ آج نویں جماعت کی ہونہار طالبہ ہے، طیبہ کو اس کے گھر والے چھوڑ چکے تھے، وہ ایس او ایس ویلیج میں رہتی ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کو صرف تحفظ دینا مقصد نہیں بلکہ انہیں مضبوط بھی بنانا ہے، ہمیں معاشرے کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے، ہمارا دینی فریضہ ہے کہ معاشرے کے پسے طبقات کا تحفظ کریں۔
انہوں نے کہا کہ ماں کا کردار ادا کرنا صرف حکومت کا کام نہیں ہے، حکومت کو بچوں اور خواتین سمیت انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کی پالیسی بنانا ہو گی، بچوں کو محنت مزدوری کرنے کے بجائے اسکولوں میں ہونا چاہیے، انسانی اسمگلنگ کے روک تھام، پالیسیز بنانے اور ان پر عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی۔