• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دل میں کسی درد کی اچانک انگڑائی نے وطن عزیز میں ایک طوفان برپا کردیا۔ اس طوفان میں نہ تو درختوں کی تیزہوا تھی نہ بادلوں کی گھن گرج تھی نہ آسمان پربجلی کڑک رہی تھی بلکہ ہر طرف افواہوں کا گردوغبار پھیلا ہوا تھا۔ اس گردو غبار میں کسی نے کہا کہ مشرف کو آئین سے غداری کے مقدمے سے بچانے کے لئے امریکہ اور سعودی عرب حرکت میں آچکے او ر جلد ہی وہ ائیر ایمبولینس میں بیرون ملک روانہ کردئیے جائیں گے۔ کسی نے کہا کہ راولپنڈی میں کور کمانڈرز کانفرنس میں سابق آرمی چیف کی بے توقیری پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا اور فوج بہت جلد اپنے سابق سربراہ کو آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی راولپنڈی سے نکال کر بیرون ملک بھیج دیگی۔ جب حکومت نے ان تمام افواہوں کی تردید کردی اور واضح کیا کہ مشرف کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف عدالت کو کرنا ہے تو پھر متحدہ قومی موومنٹ کے قا ئد الطاف حسین میدان میں آئے اور انہوں نے مشرف کا دفاع کرتے کرتے اردو بولنے والے مہاجروں کے لئے الگ صوبے سے آگے بڑھ کر الگ ملک کا شوشہ چھوڑ دیا۔ عجیب ستم ظریفی ہے’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگانے والے پرویز مشرف کے ساتھیوں نے’’سب سے پہلے مہاجر‘‘ کے نعرے پر پاکستان توڑنے کی دھمکی دے ڈالی۔ اس دھمکی نے سب سے زیادہ تکلیف ان اردو بولنے والے مہاجروں کو پہنچائی جن کے بزرگوں نے پاکستان کے قیام کے لئے بیش بہا قربانیاں دیں۔ آج ایک سابق فوجی ڈکٹیٹر کو غداری کے مقدمے سے بچانے کے لئے ان بزرگوں کی قربانیوں کی قیمت وصول کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ ویسے تو متحدہ قومی موومنٹ نے الطاف حسین کے بیان کی وضاحتیں پیش کرنا شروع کردی ہیں لیکن ہمیں ان کے حالیہ بیان نے2006ء میں ا ن کی نئی دہلی میں ایک تقریریاد دلادی ہے۔2006ء میں انہوں نے نئی دہلی میں ایک سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے متحدہ ہندوستان کی تقسیم کو انسانی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ قرار دیدیا تھا۔ یہ خطاب دراصل قائد اعظم ؒ کی جدوجہد اور قیام پاکستان کے لئے دی جانے والی قربانیوں سے صاف انکار تھا لیکن قائد اعظم ؒ کے پاکستان میں قائد اعظم ؒ کی نام لیوا مسلم لیگ(قائد اعظم ؒ) کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی کیونکہ ا س مسلم لیگ کا خالق پرویز مشرف تھا جو صدر پاکستان بھی تھا اور باوردی آرمی چیف بھی تھا۔ مت بھولئے کہ اسی 2006ء میں بزرگ بلوچ سیاستدان اکبر بگٹی کے گھر پر بمباری کرکے انہیں پہاڑوں میں دھکیلا گیا اور پھر ایک غار سے ان کی مسخ شدہ لاش برآمد کرکے کہا گیاکہ انہوں نے خود کو بم دھماکے سے اڑالیا۔ اکبر بگٹی نے بلوچوں کے لئے علیحدہ ملک کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے تو صرف اپنے علاقے میں ملازمت کرنے والی ایک غیر بلوچ ڈاکٹر شازیہ کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔ انصاف کے مطالبے پر اکبر بگٹی کو شہید کردیا گیا اور الطاف حسین کی جماعت مشرف دور میں حکومت کے مزلے لوٹتی رہی۔ اکبر بگٹی شہید ہوجائے تو یہ پاکستان کی خدمت کہلاتی ہے۔ مشرف پر آئین سے غداری کا مقدمہ بن جائے تو یہ پنجابی ایسٹیبلشمنٹ کی سازش بن جاتی ہے۔
مشرف کے دل میں درد کو طوفان بنانے والے عناصر کچھ مضبوط اعصاب کو کمزور کرنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن افواہوں کا گردو غبار زمینی حقائق کو تبدیل نہیں کرسکا۔ اب گردوغبار چھٹ رہا ہے اور کچھ سازشوں کے خدوخال واضح ہورہے ہیں۔ ان سازشوں کا مقصد صرف ا یک سابق آرمی چیف کو مقدس گائے بنا کر قانون کی پکڑ سے آزاد کرانا نہیں بلکہ ایک حاضر سروس آرمی چیف کو متنازعہ بنانا بھی ہے۔ مشرف نے اپنے دل میں درد کی ا نگڑائی سے قبل یہ دعویٰ کردیا تھا کہ ان کے خلاف بغاوت کے مقدمے پر فوج ناراض ہے۔ اس بیان کا مقصد فوج اور دیگر ریاستی اداروں کے درمیان غلط فہمیوں کو پیدا کرنا تھا۔ اس بیان کے باوجود انہیں عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا گیا تو وہ ہاسپٹل پہنچ گئے۔ اب وہ ملٹری ہاسپٹل سے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں تاکہ وہاں ان کا علاج ہوسکے۔ دوسرے الفاظ میں اے ایف آئی سی راولپنڈی کے ڈاکٹر ان کے دل میں معمولی درد کا علاج کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا سمجھا جارہا ہے۔ حکومت کے وزراء کہہ رہے ہیں کہ مشرف کے مستقبل کا فیصلہ عدالت کریگی۔ فرض کریں عدالت سے کہا جاتا ہے کہ ملزم پرویز مشرف کے دل کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں اور انہیں باہر بھیجا جائے اور عدالت انہیں باہر جانے کی اجازت دے دیتی ہے ،پھر کیا ہوگا؟ پھر صرف عدلیہ کے بارے میں سوالات نہیں اٹھیں گے، پھر اس ملک کے افتادگان خاک کو صرف ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی یاد نہیں آئے گی، پھر اس ملک کے جمہوریت پسندوں کو نواز شریف کی ہتھکڑی اور یوسف رضا گیلانی کی نااہلی یاد نہیں آئے گی بلکہ پھر نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے با رے میں بھی کئی غلط فہمیاں پیدا ہونگی۔ ابھی تک کم از کم دو ٹی وی اینکرز اور ایک کالم نگار صاحب یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ موجودہ حکومت نے جنرل راحیل شریف سے یہ وعدہ کیا تھا کہ مشرف کو کوئی سزا نہیں ہوگی لیکن عدالت میں مشرف کی طلبی جنرل راحیل شریف کے ساتھ کئے گئے وعدے سے انحراف ہے۔ حکومت کے اعلیٰ سطحی ذرائع اس قسم کے کسی بھی وعدے کی حقیقت سے ا نکار کررہے ہیں، لہٰذا اس نام نہاد وعدے کا بلا جواز ذکر صرف اور صرف جنرل راحیل شریف کو متنازعہ بنانے کی گھنائونی کوشش ہے۔ اس سارے معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ مشرف کی عدالت میں طلبی پر سابق آرمی چیف کی بے توقیری کا واویلا بھی کیا جارہا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ عدالتوں نے پہلی دفعہ کسی سابق جرنیل کو طلب نہیں کیا۔ ماضی میں سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی بھی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے اور انہوں نے عدالت جاتے ہوئے ہاسپٹل کا راستہ نہیں پکڑا۔ دوسری بات یہ کہ پرویز مشرف صرف ایک سابق آرمی چیف نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ جب تک وہ صرف سابق آرمی چیف تھے تو فوج نے انہیں پارلیمنٹ کی طرف سے مواخذے سے بچالیا اور گارڈ آف آنر دے کر پاکستان سے رخصت کردیا۔ وہ ایک سیاسی جماعت بنا کر پاکستان واپس آگئے۔ واپسی پر وہ کچھ مقدمات کا سامنا کررہے ہیں اگر کو ئی حاضر سروس فوجی افسر ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کو بچانے کی خفیہ یا ظاہری کوشش کررہا ہے تو وہ اپنے آئینی حلف کو بھول رہا ہے۔ مشرف کا ٹرائل تو سابق ا ٓرمی چیف کی بے توقیری قرار دیا جارہا ہے لیکن الطاف حسین کی طرف سے جنرل اشفاق پرویز کیانی کے خلاف بیان کیا ہے؟ کیا یہ سابق آرمی چیف کی بے توقیری نہیں؟ مشرف کے ٹرائل کو فوج کی بے توقیری اور فوج کے خلاف سازش قرار دینے والے دراصل پاکستان کے آئین کی بے توقیری کررہے ہیں۔ یہ آئین سب کے لئے برابر ہے۔ ایک فرد واحد کو بچانے کے لئے فوج کو بحیثیت ادارہ سیاست میں گھسیٹنا ملک دشمنی ہے۔ یہ کہنا کہ آج بھی اصل طاقت فوج کے پاس ہے اور منتخب حکومت صرف نام کی حکومت ہے ایک طرف فوجی قیادت کے خلاف چارج شیٹ ہے تو دوسری طرف اعتراف شکست بھی ہے۔ مجھے آج بھی یقین ہے کہ فوجی افسران اور جوانوں کی اکثریت آئین پاکستان کا احترام کرتی ہے اور مشرف کو ملک سے فرار کروا کر پاکستان کے آئین کو مذاق نہیں بنائے گی۔ خدانخواستہ یہ آئین مذاق بن گیا تو پھر ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ پرویز مشرف کے دل کا درد دور کرے اور ان کے دل میں پاکستان کا درد بھی پیدا کرے، اگر مشرف بے گناہ ہیں تو پھر خوف کس بات کا؟ انہیں بہادری کے ساتھ عدالت میں پیش ہو کر مقدمے کا سامنا کرنا چاہئے اور خود کو بچانے کے لئے فوج اور نئے آرمی چیف کو سیاست میں نہیں گھسیٹنا چاہئے۔
تازہ ترین