کہنے کو تو ملک میں ایک مکمل سیاسی نظام فعال ہے،ملک میں ایک جمہوری حکومت بھی بتائی جا رہی ہے، آئی ایم ایف نے اس حکومت کے ساتھ اپنے مالی معاملات بھی طے کر لئے ہیں،قرائن یہ بتاتے ہیں کہ اگست کے مہینے میں اسمبلیوں کی معیاد بھی پوری ہو رہی ہے،کچھ بڑے سیاسی لیڈر پاکستان کے بجائے دبئی میں بیٹھ کر مختلف عہدوں اور نشستوں کی بندر بانٹ پر باہم گفت و شنید بھی کر چکے ہیں،دم توڑتی معیشت ایک مرتبہ پھر سانس لینے لگی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ اکثر قلمکار اس وقت سیاست اور معیشت پر بات کرنے سے کترا رہے ہیں،کھلم کھلا سیاسی نظام کے بخیے ادھیڑنے والے، اچانک شعر و شاعری کی باتیں کرنے لگے ہیں،سیاسی نظام پر یقین رکھنے والے علاقائی زبانوں میں ہونے والے علمی و ادبی کام کی تعریف و تحسین میں مصروف ہیں،معیشت کے مختلف پہلوؤں پر بات کرنے والے ملتان کے چونسے آم کے فضائل بیان کر رہے ہیں،امن و امان کی صورتحال پر کڑی نظر رکھنے والے موسمیاتی تبدیلیوں کی بات کر رہے ہیں،نگراں حکومت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والے ساون کی رم جھم پر مضامین باندھ رہے ہیں،باخبر کالم نگار،اور سیاسی اتار چڑھاؤ پر بامعنی مضامین لکھنے والے سینئر تجزیہ نگار،برسلز میں پھرنے والی چمگادڑوں اور چڑیلوں کی آڑ لے رہے ہیں۔سماجی رویوں پر،پر مغز لیکن فکاہی مضامین لکھنے والے ''کاتبوں کی غلطیوں''کو موضوع بنا رہے ہیں۔یہاں تک کہ ایک ایسا موضوع نظر سے گزرا جسے دیکھ کر میں عش عش کر اٹھا وہ تھا ''خاندانی منصوبہ بندی میں عدلیہ کا کردار''جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ اللہ بخشے ثاقب نثار نے پانی کے سامنے بند باندھنے کا بیڑہ اٹھایا تھا جبکہ موجودہ چیف جسٹس آبادی کے سامنے بند باندھنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔یعنی فراہمی انصاف کے علاوہ ہر کام میں ٹانگ اڑانے کا عزم۔قصہ مختصر،میں نے بھی سوچا کہ کیا یہ ضروری ہے کہ اپنے سارے الفاظ سیاسی اکھاڑ پیچ پر ضائع کئےجائیں؟کیا ضروری ہے کہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو موضوع سخن بنایا جائے؟آخر کب تک عوام کی بدحالی کا نوحہ لکھا جائے؟آئی ایم ایف کے 9 ماہی پروگرام کے انجام کا تذکرہ ہی کیوں ہو؟اسمبلیوں کی برخاستگی کے بعد کسی گملے میں نیا پھول کھلے گا یا پرانے چمن سے ہی کام چلایا جائے گا؟کیا ضروری ہے کہ ان موضوعات پر بات ہو؟
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سواکے مصداق ہم بھی غم دوراں کے بجائے غم جاناں کی بات کرتے ہیں۔برستی برسات میں ملتانی آم کے ذکر سے دل بہلاتے ہیں۔ماضی قریب میں جس طرح سیاست دانوں کا سافٹ ویئر اپڈیٹ ہوا ہے اسی طرح قلمکاروں کے سافٹ ویئر کا اپڈیٹ ہونا ایک فطری امر ہے۔اس وقت ملک میں پری مون سون کا آغاز ہو چکا ہے۔ملک کے طول و عرض میں بارشوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہونے جا رہا ہے۔اس خوبصورت موسم میں دل بہلانے کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ ملتانی چونسہ منگوایا جائے اور خوب کھایا جائے۔میرے خیال میں آم دنیا کے چند پسندیدہ اور مرغوب ترین پھلوں میں سے ایک ہے۔اس کا آبائی وطن تو جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا بتایا جاتا ہے لیکن بر صغیر میں بھی اس کی خوب پیداوار ہے اور اسے پاکستان کا قومی پھل کہا جاتا ہے۔پاکستان میں آم کی 300 سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔آم کی برآمد سے پاکستان سالانہ 1.04 ملین ڈالر زر مبادلہ بھی حاصل کرتا ہے۔پاکستان میں سرزمین اولیاء ملتان سے آم کے باغات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔جو اندرون سندھ دور تک جاتا ہے۔جن کی مہک سے پورا موسم گرما گزرگاہیں معطر رہتی ہیں۔آموں میں ایک مشہور قسم انور رٹول ہے۔اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے صوبے اتر پردیش میں انوار الحق نامی شخص نے سب سے پہلے اس قسم کا پودا اگایا تھا اور پھر یہ انہی کے نام سے مشہور ہو گیا۔ہندوستان میں یہ آم انور رتاول کہا جاتا ہے۔لیکن پاکستان میں یہ آم بکثرت کاشت کیا جاتا ہے۔اسکی تیز اور خوبصورت خوشبو اسے دیگر آموں سے ممتاز کرتی ہے۔صوبہ سندھ میں آم کی ایک اور مشہور قسم سندھڑی کے نام سے معروف ہے۔سندھڑی آم کی تاریخ قریب ایک سو سال پرانی ہے۔ 1909 میں سندھ ہارٹیکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے ساؤتھ انڈیا سے قلمی آم کے چار پودے منگوائے تھے۔ان میں سے دو پودے دین محمد جونیجو،(سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کے بزرگ) کو دیے گئے اور دو پودے ایک اور زمیندار صمد کاچھیلو کو دیے گئے۔صدری روایات کے مطابق انہوں نے اپنے گاؤں کی نسبت سے اس آم کا نام سندھڑی تجویز کیا جو زبان زد خاص و عام ہوا۔یہ الگ بات ہے کہ ضلع سانگھڑ میں پیدا ہونے والا سندھڑی آم بازار میں نایاب رہتا ہے اور اسکے نام پر نقلی آم کثرت سے دستیاب ہوتے ہیں۔جس طرح آم کی بیشمار اقسام کی پہچان مشکل ہے اسی طرح اصلی اور نقلی آم میں فرق کرنا بھی کسی آرٹ سے کم نہیں اور یہ آرٹ خال خال لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔اردو ادب میں آم کا تذکرہ ہمیشہ سے موجود رہا لیکن مرزا غالب نے جس طرح آم کی پذیرائی کی وہ کسی اور ادیب یا شاعر نے کم ہی کی ہے۔مرزا غالب غالبا واحد شاعر ہیں جنہوں نے آم کی شان میں ایک مثنوی لکھی جسکا ایک شعر ہے
مجھ سے پوچھو،تمہیں خبر کیا ہے
آم کے آگے نیشکر (گنا)کیا ہے…
الغرض
سیاسی بکھیڑوں کو ایک طرف رکھیں آئی ایم ایف پیکیج کو اس کے حال پر چھوڑیں، نگرا ںسیٹ اپ ’’نگرانوں‘‘کی دانش پر چھوڑیں اور موسم برسات کو آم کے ساتھ یادگار بنائیں۔