• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی دہائیوں کی غلط طرز حکمرانی کے باعث آج پاکستان کے وجود کو سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس انتہائی مسابقتی دنیا میں زندہ رہنے کیلئے ، اعلیٰ معیار کی تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اورجدت طرازی میں سرمایہ کاری کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کیونکہ اب قدرتی وسائل کے بجائے علم ، سائنس و ٹیکنالوجی سماجی و اقتصادی ترقی کا کلیدی محرک بن گئے ہیں۔ یہ وسیع النظری اور مقصد ہماری ماضی کی قیادت کی توجہ سے زیادہ ترمحروم رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات تقریباً 32ارب ڈالر پر سالوں سے منجمد ہیں جبکہ چھوٹے سے سنگاپور کی برآمدات 400ارب ڈالر سے زیادہ ہیں جہاں تقریباً کوئی قدرتی وسائل نہیں اور جس کی آبادی کراچی کی چوتھائی آبادی کے برابر ہے ۔ پچھلے مضامین میں نے چین اور سنگاپور کی اختیار کی گئی پالیسیوں کو بیان کیا تھا جن کی وجہ سے وہ غربت سے نکلے اور طاقتور قوم کے طور پر ابھرے۔ یہاں میں کوریا پر بات کروں گا اور بیان کروں گا کہ پچھلی کئی دہائیوں میں یہ قوم کس طرح تبدیل ہوئی۔کوریا کی تبدیلی کی بنیادیں جنرل پارک چنگہی نے رکھی جنہوں نے 1961ء سے لیکر 1979ءمیں اپنے قتل تک جنوبی کوریا کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ایک اعلیٰ تعلیمیافتہ اور ہنر مند افرادی قوت کی تشکیل کیساتھ، ایک متحرک کاروباری ثقافت، اور تیز رفتار اور پائیدار سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے جدت طرازی اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر توجہ مرکوز کی۔ جنرل پارک کی حکومت نے ابتدائی طور پر تسلیم کیا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری ملک کی طویل مدتی اقتصادی کامیابی کیلئے ضروری ہے۔ نتیجے کے طور پر، کوریانے تحقیق اور ترقی کو فروغ دینے کیلئے کئی ادارے بنائے، جیسا کہ’’ کوریا جدید ادارہ برائے سائنس و ٹیکنالوجی‘‘ اور ’’برقیاتی و مواصلاتی تحقیقی ادارہ ‘‘

ایک اہم عنصر جس نے جنوبی کوریا کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا وہ حکومت کی اطلاقی تحقیق پر توجہ تھی جس کا مقصد نئی ٹیکنالوجیوں اور کثیر آمدنی، تجارتی مصنوعات کی ترقی تھا۔ خاص توجہ کے شعبے برقیات ، جہاز سازی، موٹر گاڑیوں کی تیاری اور مواصلات تھے ۔تیز رفتار اقتصادی ترقی کا باعث بننے والا ایک اور اہم عنصر نجی صنعت کے ساتھ شراکت پر حکومت کا زور تھا۔ حکومت نے تسلیم کیا کہ نجی صنعت کو تجارتی طور پر قابل عمل مصنوعات میں تبدیل کرنے کیلئے ضروری وسائل اور مہارت موجود ہونا ضروری ہے، اور اس نے صنعت کے ساتھ مل کر کام کیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ تحقیق صنعت کی ضروریات کے مطابق ہو۔ حکومت نے تحقیق اور ترقی کے لئے فنڈز فراہم کئے اور نجی صنعت نے نئی ٹیکنالوجیوںکو تجارتی بنیادوں پر لانے کیلئے ضروری مہارت اور وسائل فراہم کئے۔ پاکستان کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے اقدامات میں یہ پہلو مکمل طور پر غائب ہے۔

ٹیکنالوجی کے شعبے میں جنوبی کوریا کی کامیابی کی مثال کوسیم سنگ کے عروج سے سمجھا جا سکتا ہے، جو 1960 ءکی دہائی میں ایک چھوٹی برقی مصنوعات کی کمپنی کے طور پر قائم ہوئی تھی ، اس کے بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی اور کامیاب ترین ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سے ایک بن گئی ہے۔ سیم سنگ کی کامیابی کی بنیاد جدید ترین تحقیق اور ترقی تھی، جس میں نئی ٹیکنالوجیوں اور اطلاقیات کی تیاری پر توجہ دی گئی تھی جن کا تیزی سے تجارتی فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے۔ سیم سنگ کی کامیابی کا جنوبی کوریا کی معیشت پر گہرا اثر پڑا ہے۔ ایک اہم طریقہ جس میں حکومت نے تحقیق اور صنعتی ترقی کے درمیان روابط کو فروغ دیا وہ سائنس پارکوں کا قیام تھا۔ سائنس پارک وہ مرکز ہو تا ہے جہاں جامعات ، تحقیقی ادارے، اور نجی صنعت نئی ٹیکنالوجیوں کو تجارتی مصنوعات بنانے کےلئے تحقیق اور ترقی کو فروغ دینے کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ کوریا کی حکومت نے سائنس پارکوں کیلئے فنڈز فراہم کئے اور نجی صنعت کو راغب کرنے کیلئے ان میں اپنےتحقیق و ترقی کے مراکز قائم کرنے کیلئے مراعات دیں ، جیسے کہ ٹیکس میں چھوٹ اور دیگر مالی مراعات فراہم کیں ۔ڈائی جیو ن میں واقع ڈائی ڈیوک سائنس ٹاؤن، 1970ءکی دہائی میں بنایا گیا تھا، جس کا مقصد سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تحقیق اور ترقی کو فروغ دینا تھا۔ یہ جنوبی کوریا کے سب سے کامیاب سائنس پارکوں میں سے ایک ہے اور اس میں سیم سنگ، ایل جی اور ہنڈائی سمیت 250 سے زیادہ تحقیقی ادارے اور کمپنیاں قائم ہیں۔

سائنس پارکس کے علاوہ، کوریا کی حکومت نے تحقیق اور صنعتی ترقی کے درمیان روابط کو فروغ دینے کیلئےبہت سے دوسرے پروگرام اور اقدامات بھی کئے ہیں۔ ایسا ہی ایک قدم’’ ٹیکنالوجی ترقیاتی پروگرام ‘‘ تھا، جو 1980ءکی دہائی کے اوائل میں شروع کیا گیا تھا۔ ٹی ڈی پی یعنی ’’ٹیکنالوجی فروغ کا پروگرام‘‘ نے تجارتی صلاحیت رکھنے والے تحقیق اور ترقیاتی منصوبوں کے لئےرقوم فراہم کیں اور دیگر تحقیقی کمپنیوں کو مماثل رقوم فراہم کیں ۔ ٹی ڈی پی انتہائی کامیاب ادارہ رہا اس نے نئی ٹیکنالوجیوں کوترقی کرنے میں مدد کی۔ اسی طرح کی ایک پہل میری طرف سے 2001ءمیں کی گئی تھی جب میں پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا وفاقی وزیر تھا۔ ’’سائنس و ٹیکنالوجی برائے اقتصادی ترقی‘‘ کے نام سے ہم نےایک اہم منصوبہ شروع کیا تھا ، اس نے بہت سی تحقیقی تنظیموں اور صنعتوں کے درمیان روابط قائم کئے۔ بدقسمتی سے، میرے سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت چھوڑنے کے بعد اسے برقرار نہیں رکھا گیا۔

کوریا کا قائم کردہ ایک اور اہم ادارہ ’’کوریا ادارہ برائے صنعتی ٹیکنالوجی‘‘ تھا، جو 1980ءکی دہائی کے اوائل میں قائم کیا گیا تھا۔اس ادارےنےجدید ٹیکنالوجی اور مصنوعات سازی کے عمل کو تیزکرنے پر توجہ مرکوز کی، جنہیں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروںکے ذریعے استعمال کیا جا سکتا تھا ، اس قدم نےمسابقت کو بہتر بنانے اور معاشی ترقی کو آگے بڑھانے میں مدد کی ،ا ب یہ ادارے جنوبی کوریا کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ۔1990ءکی دہائی میں، حکومت نے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے کوریا کے طلباء کی تعداد بڑھانے کیلئے ایک اہم پروگرام شروع کیا۔ اس سے کوریا میں بہت بڑی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت تیارہو گئی ،جو کہ صنعت اور تعلیمی اداروں کو اپنی خدمات فراہم کرنے کیلئے دستیاب تھی ۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کی طرح کوریا نے بھی حکومت سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے بہت سے اقدامات کئے تاکہ عوامی رقوم کو بڑے پیمانے پر لوٹ مار کا نشانہ بننے سے بچایا جا سکے۔

اگر پاکستان کو موجودہ گہرے اقتصادی دلدل سے نکلنا ہے ، تو اسے اعلیٰ ٹیکنالوجی کے سامان کی تیاری اور برآمد پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کوریا اور چین کی تقلید میں اعلی تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی پر مرکوز بہت سے پروگرام جلد شروع کرنےہوں گے۔ ایشیا کے دیگر ممالک کی طرح، ہمیں بھی بڑے پیمانے پر بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے بد عنوانوں کیلئے سخت سزائیں متعارف کرانا چاہئے، کیونکہ ایک طاقتور، اور منصفانہ عدالتی نظام سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے بے حد ضروری ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین