• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوسروں کی زندگی جہنم بنا کر سجدوں میں جنتیں تلاش کرتے مسلمانوں سے‘ دلوں کو توڑ کر مسجدیں آباد کرتے مومنو ں تک ‘ اپنی اولادوں کو سینوں سے لگا کر دوسروں کے بچوں میں شہادتیں بانٹتے روحانی باپوں سے ‘ماں باپ کو بھُلا کر ڈالر نگری میں گم ہو چکے بچوں تک ‘ بے آس رشتہ داروں‘ مجبور دوستوں اور بہنوں بیٹیوں کو ننگے سر چھوڑ کر عمرے اور حج کرتے کلمہ گوؤں سے‘ اسلام سے اپنی مرضی کے اسلام نکالتے حرم کے پاسبانوں تک ‘ مخلوق کی پوجا کر کے خدا کو ایک مانتے بندوں سے‘ یہود ونصار یٰ کی زندگی بسر کر کے آخرت میں نبی ؐ کی شفاعت کے خواہشمندوں تک اور ہر قسم کی ذخیرہ اندوزی اور ہر طرح کی مہنگائی کرکے رکوع و سجود میں روتے تہجد گزاروں سے‘ آنکھ ‘ کان ‘زبان اور دل کوکُھلا چھوڑ کر صرف چند گھنٹے کی ’’منہ بندی‘‘ کو رمضان سمجھتے روزہ داروں تک جب میں یہ دیکھوں کبھی کسی نے نبیؐ کی زندگی پر توجہ ہی نہ دی ‘ کبھی کسی نے رسولؐ کے 63سالوں پر دھیان ہی نہ دیا اور جب میں یہ دیکھوں کہ دین کی کوئی ایسی بات نہ رہ جائے کہ جو نبی ؐ نے بتا نہ دی ہو اور زندگی کی کوئی ایسی شے نہ بچے جو نبی ؐ نے سمجھا نہ دی ہو‘ تو پھر میرا دل کرے کہ آج رسول ؐ خدا کی روشن زندگی کے چند روشن پہلو اپنے اُن ہم وطنوں کی نذر کروں کہ جن کا ظاہر اور باطن اب ایسا ہو چکا کہ ان کا آئیڈیل تو عبدالستار ایدھی مگر منزل نواز شریف۔
آپﷺ کو اپنے چچا ابو لہب کی کنیز ثوبیہ نے چند دن دودھ پلایا‘مگر رسولؐ خدا کو یہ چند دن زندگی بھر یاد رہے ‘ گوکہ بعد میں ابولہب سب سے بڑا دشمنِ اسلام نکلا اور ثوبیہ اسکی کنیز‘ مگر پھر بھی آپؐ ثوبیہ کو’’ میری ماں میری ماں ‘‘کہہ کر پکاراکرتے اور مدینہ ہجر ت کر جانے کے بعد بھی آپؐ ثوبیہ کو کپڑے ‘ رقم اور تحائف بھجوایا کرتے ‘ایک بار آپ ؐ کی رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ ملنے آئیں تو انہیں دیکھتے ہی آپؐ بے اختیار اُٹھے اور اپنے سر سے چادر اتار کر زمین پر بچھا کر انہیں اوپر بٹھادیا ‘ ان کی سب باتیں بڑی توجہ اور غور سے سنیں اور ان کی تمام حاجتیں پوری فرمائیں‘یہاں یہ یاد رہے کہ حلیمہ سعدیہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔
سہیل بن عمرو وہ شاعر تھا کہ جو ہر وقت نبی ؐ کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں اور توہین آمیز شعر کہا کرتااور جس سے ہرمسلمان تنگ تھااسے جب جنگِ بدر کے دوران گرفتار کر کے بارگاہِ رسالت میں لایا گیااور اسے دیکھتے ہی جب حضرت عمرؓ نے انتہائی غصے سے یہ کہا ’’ اللہ کے رسول ؐ اجازت دیں کہ میں اس کی زبان کاٹ کر اس کے دو نچلے دانت نکال دو ں تا کہ یہ زندگی بھر پھر کبھی شعر نہ پڑھ سکے‘‘تو آپؐ نے تڑپ کر فرمایا ’’ نہیںنہیں‘ میرااللہ مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں اس کے اعضاء بگاڑدوں ‘‘۔ حضورؐ کا یہ نرم رویہ دیکھ کر موت کے خوف میں ڈوبے سہیل بن عمرو کو بھی حوصلہ مِلااور وہ بولا ’’اے اللہ کے رسولؐ میری 5بیٹیاں ہیں اور میرے علاوہ ان کا کوئی سہارا نہیں ‘آج جب میں ایسابے بس کہ اپنی رہائی کیلئے فدیہ بھی نہیں دے سکتاآپ ؐمجھے میری بیٹیوں کے صدقے ہی چھوڑ دیں ‘ آپؐ نے اسے اسی وقت رہا کر دیا۔
حضرت حذیفہؓ بن یمان سفر میں تھے کہ جنگ بدر کیلئے نکلے کفار ِ مکہ کی فوج کے ہتھے چڑھ گئے ‘کفار نے آپؓ سے پوچھا کہ’’ کہاں جا رہے ہو‘‘ حذیفہؓبولے ’’مدینہ‘‘ کفار نے کہا ’’ ہم تمہیںاس شرط پر چھوڑسکتے ہیں کہ اگر تم وعدہ کرو کہ ہمارے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہو گے ‘‘ حضرت حذیفہؓ یہ وعدہ کرکے وہاں سے چھوٹے اور سیدھے مسلمانوں کے لشکر میں پہنچے اور جب مسلمانوں کو ایک ایک مجاہد اور ایک ایک ہتھیار کی اشد ضرورت تھی ان لمحوں میں ساری بات معلوم ہونے پر آپؐ نے حذیفہ ؓ کو یہ کہہ کر واپس مدینہ بھجوا دیاکہ ’’ہم کافروں سے معاہدے پورے کرتے ہیں اور ان کے مقابلے میں صرف اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہیں‘‘۔
غزوہ خندق جاری‘ مسلمانوں اور کفار میں ایک زور دار جھڑپ ہوئی اور اس جھڑپ میں مسلمانوں کاجانی دشمن عمرو بن عبدود ماراگیا ‘ اب کفار کیلئے خندق میں پڑی اس کی لاش اُٹھانا اِک مسئلہ ‘ کیونکہ انہیں یہ خدشہ کہ جونہی کوئی لاش اُٹھانے گیا تو مسلمان اسے بھی تیروں سے بھون ڈالیں گے ‘خیر طویل صلاح مشور ے کے بعد کفار نے اپنا ایک سفیر نبی ؐ کے پاس اس پیشکش کے ساتھ بھجوایا کہ ’’اگر آ پؐ ہمیں لاش لے جانے کی اجازت دیدیں تو ہم 10ہزار دینار دینے کو تیار ہیں ‘‘ رحمت اللعالمین ؐ نے یہ فرما کر کہ ’’ ہم لاشوں کا سودانہیں کرتے‘‘ کافروں کو عمرو بن عبدود کی لاش اٹھانے کی اجازت دے دی ۔ایک دفعہ نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ آیا‘ رسول اللہ نے عیسائی پادریوں کو نہ صرف ان کے روایتی لباس میں قبول فرمایا ‘ انہیں مسجد نبویؐ میں ٹھہرایا اور انہیں ان کے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دی بلکہ یہ عیسائی وفد جتنا عرصہ مسجد نبوی ؐ میںمقیم رہا مشرق کی طرف منہ کر کے عبادت کرتا رہا۔ پھر وہ مکہ والے جو آپؐ کی جان کے دشمن تھے جب یہ قحط سالی کا شکار ہوئے تو آپ ؐ نے نہ صرف مدینہ سے خوراک اور کپڑے اکٹھے کر کے انہیں بھجوائے بلکہ اپنے اتحادی قبائل کو بھی یہ ہدایت کردی کہ ’’جب تک اہلِ مکہ پر برا وقت ہے آپ ان سے تجارت ختم نہ کریں‘‘۔
فتح مکہ کا دن ‘ حضرت سعد بن عبادہؓ جنہوں نے مدنی ریاست کا جھنڈا اٹھا رکھا تھا‘ مکہ میں داخل ہوتے ہوئے ابوسفیان کو دیکھ کر جذباتی ہو کر جب یہ کہہ بیٹھتے ہیں کہ ’’ آج لڑائی کا دن ہے اور آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا‘‘تو رحمت اللعالمین ؐ فوراً ان سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے قیس ؓ کے سپرد کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ نہیں آج لڑائی نہیں‘ رحمت اور معاف کرنے کا دن ہے‘‘۔ ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓنے آپؐ سے پوچھا ’’ آپ ؐ کی زندگی کا مشکل ترین دن کون سا تھا‘‘ فرمایا’’ وہ دن جب طائف میں عبدیالیل نے شہر کے بچے جمع کر کے مجھ پر پتھر برسائے‘ میں اس دن کی سختی کبھی نہیں بھلا سکتا‘‘ ، یہی عبد یالیل جب طائف کے لوگوں کا وفد لے کر مدینہ منورہ آیاتو رسول ؐ اللہ نے نہ صرف اسکا خیمہ مسجد نبوی ؐمیں لگوایابلکہ جتنے دن وہ مدینہ میں رہا‘آپؐ ہر روز نمازِ عشاء کے بعد اس سے ملتے اور اس کا حال احوال پوچھتے۔
ایک مرتبہ بیٹھے بیٹھے جب آپؐ نے 3مرتبہ یہ فرمادیا کہ ’’ جنت لوٹ لی ‘جنت لوٹ لی اور جنت لوٹ لی ‘ ‘تو پاس بیٹھی حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا’’ کس نے جنت لوٹ لی ‘‘آپ ؐ کا جواب تھا ’’ اچھے اخلاق والوں نے ‘‘ ایک روز آپؐ نے صحابہ ؓ سے کہا ’’ جنت تم سے دو قدموں کے فاصلے پر ‘‘ پوچھا گیا وہ کیسے ‘ آپ ؐ نے فرمایا ’’ پہلا قدم اپنے نفس پر رکھو گے تو دوسرا قدم جنت میں ہوگا‘‘ اور پھر یہ فرمان بھی آپؐ کا ہی کہ ’’مذہب نام اعتدال کا اور اعتدال (میانہ روی) اختیار کرنے والوں کیلئے دونوں جہانوں میں بھلائی ‘‘۔ دوستو یہ تو اسوۂ حسنہ کے چند نمونے اور چند جھلکیاں ‘ یقین جانئے روشن زندگی کے ایسے لاکھوں ‘کروڑوں روشن پہلو اور بھی مگر جیسے یہ سب کچھ سچ ویسے ہی یہ بھی سچ کہ یہ سچ وہاں بتانے کا کیا فائدہ کہ جہاں رسولؐ سے محبتیں ایسیں کہ سنتیں بھی ٹوٹیں اور میلاد بھی ہوں اور اسوۂ حسنہ پر عمل بھی کوئی نہ کرے اور درود کو بخشش کا ذریعہ بھی سب سمجھیں ‘مجھے تو یہ سوچ کر ہی شرمند گی ہو کہ وہ نبی ؐ جو رو رو کراپنی اُمت کیلئے دعائیں مانگا کرتے ‘ جنہوں نے اپنی اُمت کی خاطر پیٹ پر پتھر باندھے اور اُمت کی آخرت کیلئے جن کے قیام اتنے لمبے ہوتے کہ پاؤں سوج جاتے ‘ جب اسی نبی ؐ کے اُمتی پیٹ پر دنیا باندھے حلال حرام سے بھری شکمیں لئے ’’ میں میں ‘‘ کے طواف کرتے کرتے حساب والے دن آپؐ کے سامنے پہنچیں گے تو آپؐ کیا سوچیں گے ‘ آج ’اللہ غفور ورحیم ہے ‘‘ کہہ کر دین کی ہانڈی کو من پسند تڑکے لگانے والوجب کبھی فرصت ملے تو اُس دن کے بارے میں ضرور سوچنا کہ جس دن نبی ؐ سامنے ہوں گے ۔
تازہ ترین