کہتے ہیں، ’’زندگی کی قدرو قیمت جاننی ہو یا بےبسی، لاچارگی دیکھنی ہو توایک چکّر کسی اسپتال کا لگا لینا چاہیےکہ وہاں رنج و الم، یاسیت، بے بسی و بےکسی، مایوسی و نااُمیدی کی ہزارہا داستانیں آہیں، سِسکیاں بَھررہی ہوتی ہیں۔‘‘ یقین نہ آئے، تو کبھی کسی سرکاری اسپتال کے باہرہی سے گزر کر دیکھ لیں، اندازہ ہوجائے گا کہ درحقیقت بے بسی ہوتی کیا ہے۔ جیسا کہ کراچی شہر کے تین بڑے سرکاری اسپتالوں کے باہر عموماً مُلک بھر اور خصوصا اندرونِ سندھ اور بلوچستان سے اپنے پیاروں کے علاج کی خاطر آئے، لاتعدادغریب، فُٹ پاتھ اور مرکزی دروازوں کے ارد گرد بیٹھے، بے چارگی کی مُورت بنے نظرآتے ہیں۔
یہ افراد بظاہر متمّول نہیں، لیکن دل کے اس قدرامیر ہیں کہ اپنے مریضوں کی شفایابی کے بعد معالجین کو تاعُمر دُعائیں دیتے نہیں تھکتے، تو کچھ معصوم تو فالو اَپ چیک اَپس میں بطورِخاص متعلقہ ڈاکٹرکےلیے اپنے گاؤں، علاقے کی کوئی خاص سوغات لانا بھی نہیں بھولتے۔ یوں بھی ہمارے یہاں ڈاکٹرز کا مقام، رُتبہ ہی الگ ہے، انہیں ’’مسیحا‘‘ کہاجاتا ہے کہ وہ اپناسُکھ چین، آرام وسُکون، فیملی لائف سب بھول بھال کر ہمہ وقت مریضوں کی خدمت پرمامور رہتے ہیں۔ لیکن، سکّے کے دو رُخوں کی طرح اس انتہائی مقدّس شعبے کے بھی دو رُخ ہیں۔
ایک تو وہ، جس کا ابھی ذکر کیاگیا، لیکن دوسرا چہرہ بہت حد تک بد نُما ہے، جو مریضوں کے لیے مسیحا نہیں، قسائی کا سا کردار ادا کرتا ہے۔ جسے صرف اپنا بینک بیلنس بڑھانے سے غرض ہوتی ہے، جسے اپنا ’’حلف نامہ‘‘ یاد ہوتا ہےاور نہ ہی کبھی ضمیر کی آواز بےچین کرتی ہے۔ ایسے ہی معالجین کبھی معمولی پیٹ درد کی شکایت پر کسی کا اپینڈیکس، پتّا نکال دیتے ہیں، تو کبھی متاثرہ عضو کےبجائے دوسرے عضو کی سرجری کردیتے ہیں۔ نارمل ڈیلیوریز کی بجائے جلد بازی میں سی سیکشنز کیے جاتے ہیں، تو غلط انجیو پلاسٹی یا دل میں اسٹنٹ ڈالنے کی شکایات تو بہت ہی عام ہیں۔
مسیحائی کے لبادے میں موجود کچھ ایسے ہی بےضمیروں کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ طِب کا پورا شعبہ بدنام ہوتا ہے بلکہ اہل اور دیانت دار معالجین کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔ خیر، اطمینان کی بات یہ ہے کہ اپنے شعبے میں موجود اِن ’’کالی بھیڑوں‘‘سے خود طِب کے ماہرین بھی ازحد پریشان ہیں اور اس حوالے سے عوام میں شعور و آگہی اُجاگر کرنے کے خواہش مند بھی ہیں۔ سو، گزشتہ دنوں ہم نے ’’غیرضروری سرجریز‘‘ کی بڑھتی ہوئی شرح، اُن کی وجوہ، روک تھام، شعبۂ طب میں ہونے والی جعل سازیوں اور غیرمستند ڈاکٹرز وغیرہ کے حوالے سے طِب کے مختلف شعبہ جات(امراضِ نسواں، قلب،معدہ، چشم، ہڈّی وجوڑ) کے ماہرین سے تفصیلی بات چیت کی، جو نذرِ قارئین ہے۔
……٭٭……٭٭……
معروف ماہرِامراضِ نسواں، شعبۂ گائنی، سوبھراج اسپتال کی سربراہ، کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سے بحیثیت پروفیسر اور میمن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اسپتال اور ایف ایم جے ہیلتھ کیئر سے بطور کنسلٹنٹ وابستہ ، ڈاکٹر زبیدہ مسعود نے ہمارے پہلے سوال ’’غیر ضروری سرجریز سے کیا مُراد ہے اور کیا ہمارے یہاں غیر ضروری سرجریز کی جارہی ہیں، نیز، اُن کی شرح کیا ہے؟‘‘ پر تفصیلاً اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’سب سے پہلے تو مَیں یہ کہنا چاہوں گی کہ مَیں بطور ڈاکٹر ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کی بےحد ممنون ہوں کہ اُس نے ایک انتہائی اہم مسئلے کو اجاگر کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے، جو ڈاکٹرز/سرجنز کی بدنامی، مریضوں کی پریشانی ہی کا سبب نہیں بن رہا، بےحد توجّہ کا بھی متقاضی ہے۔ خود ہمارے، یعنی ’’ڈاکٹرز سرکل‘‘ میں بھی غیرضروری سرجریز پر بےحد تشویش پائی جاتی ہے اور یہ ہر فورم پر ڈسکس ہورہی ہیں۔
جہاں تک بات ہے، غیرضروری سرجریز کے معنی و مفہوم کی، تو یہ وہ سرجریز ہوتی ہیں، جو مریض کےلیے ضروری نہیں ہوتیں یا وہ سرجریز، جوناگزیر نہ ہوں، مطلب ادویہ یا کسی اور طریقۂ علاج سے بھی مرض سےافاقہ ممکن ہو یا ایسی سرجریز، جو مریض کے بہترین مفاد میں نہ ہوں۔ اب اگر سوال کے دوسرے حصّے پر بات کریں، تو ہمارے مُلک میں توخیراعداد و شمار پراتنا زیادہ کام نہیں ہوتا اورجوتھوڑا بہت ہوتا بھی ہے، وہ زیادہ قابلِ اعتماد نہیں، لیکن چوں کہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں، پوری دنیا کا ہے، تو باہر سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار خوف ناک حد تک زیادہ ہیں۔
یعنی، دنیا بھرمیں ہر دس میں سےایک سرجری غیرضروری طور پر کی جاتی ہے۔ اگر صرف امریکا کی بات کریں، تو وہاں اموات کی تیسری بڑی وجہ طبّی غلطیاں (Medical Errors) ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب پوری دنیا بلکہ پاکستان میں بھی میڈیکل کے طلبہ کو تھیراپیوٹک میڈیسن (Therapeutic Medicine) سے پریوینٹیو میڈیسن (Preventive Medicine) کی طرف لایا جا رہا ہے، مطلب تعلیم دی جا رہی ہے۔ یعنی کسی کو ایک مرض ہونے دینا اور اُس کے بعداس کا علاج کرنا،(مثلاً پہلے کسی کوٹھنڈی، کھٹّی چیزیں کھانے دوں کہ اُسے نمونیا ہوجائے، پھر اُس کا علاج کروں کہ مَیں نمونیا کی اسپیشلسٹ ہوں) غیراخلاقی حرکت ہے، اصل بات تو یہ ہے کہ مریض کو نمونیا ہونے ہی نہ دیا جائے، اُسے پہلے ہی بتا دیا جائے کہ ٹھنڈی اور کھٹی چیزیں کھانے سے گلا خراب ہوتا ہے، تو یہ روک تھام کا طریقۂ علاج (Preventive Medicine)کہلاتا ہے۔
یاد رکھیں، ہم لگ بھگ ہر مرض کے معاملے میں روک تھام کی طرف جاسکتے ہیں، چاہے وہ انفیکشنز ہوں، کینسرز ہوں یا امراضِ قلب، بس بات صرف نیّت کی ہے۔ اعداد وشمار کی روشنی میں بات کروں، تو کہا جا سکتا ہے کہ اِس وقت ہر ایک سو میں سے دس سرجریز غیر ضروری طور پر کی جا رہی ہیں۔‘‘ ’’عموماً کون سی سرجریزغیر ضروری طورپرکی جا سکتی ہیں یا کی جا رہی ہیں؟‘‘ ہمارا اگلا سوال تھا۔ ’’نہ تو مَیں یہ کہوں گی کہ ہر سرجری ناگزیر ہوتی ہےاور نہ ہی یہ کہ ہرسرجری ہی غیرضروری ہوتی ہےکہ اس بات کا فیصلہ مریض کی حالت اور مرض کی نوعیت دیکھ کر کیا جاتا ہے اور یہ فیصلہ معالج کا ہوتا ہے، تو اگر معالج واقعتاً میڈیکل کالج سےایم بی بی ایس ڈگری یافتہ، انسانیت کی خدمت سے لیس اور تجربہ کار ہے، تو وہ ہرگز کوئی غلط مشورہ نہیں دے گا۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ عام طور پر معالجین دیانت داراور مخلص ہی ہوتے ہیں، جو اپنےمریضوں کے ساتھ بد دیانتی نہیں کرتے، مگر ضمیر فروش بھی ہر جگہ، ہر شعبے میں موجود ہیں، تو شعبۂ طب ان سے کیسے محفوظ ہو سکتاہے۔ پھر یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ کچھ معالجین سے مرض کی تشخیص میں غلطی بھی ہو جاتی ہے، یعنی اُن کی نیّت خراب نہیں ہوتی، بس تشخیص درست نہیں ہوپاتی۔ اگر بات کریں کہ کن اعضاء کی غیر ضروری سرجریز کی جا سکتی ہیں، تو جیسے ٹانسلیکٹومی (Tonsillectomy) ہے، اکثر اوقات دوا کے ذریعے بھی ٹانسلز کا علاج کیا جا سکتا ہے، لیکن کچھ معالجین اِس کی سرجری کرکے ٹانسلز ہی نکال دیتے ہیں۔
یہی حال پتّےاور اپینڈیکس کا بھی ہے، جن کے لیے ادویہ یا کنزرویٹیو مینجمینٹ کا (علاج کی ایک قسم، جسے سرجری سے اجتناب کے لیے اپنایا جاتا ہے) طریقۂ علاج اختیار کرنے کے بجائے فی الفور نکال دیا جاتا ہے۔ یا اگراپنے شعبے، گائناکالوجی کی بات کروں، تو سب سے عام سی سیکشن ہےاور صرف پاکستان ہی میں نہیں، پوری دنیا میں سی سیکشن کی شرح میں بےانتہا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اور یہاں مَیں خاص طور پراس حوالے سےیہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ ہمارے معاشرے میں سی سیکشن کا ذمّےدار بھی صرف ڈاکٹرزہی کو ٹھہرایاجاتا ہے، جب کہ یہ تصویر کا بس ایک رُخ ہے۔
ہاں، مَیں مانتی ہوں کہ اِس میں معالجین بھی قصوروار ہیں، لیکن صرف انہیں قصوروار کہنا ناانصافی ہے کہ اس میں مریض اور اُن کے اٹینڈینٹس کا بھی بڑا ہاتھ ہے، جو اسپتال آکر شور شرابا کرتے، ڈاکٹرز پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ پہلے زمانے میں، جب سی سیکشن خال خال ہی کیے جاتے تھے، تو اُس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُس وقت کی خواتین صحت مند، مضبوط ہونےکے ساتھ ایکٹیو بھی ہوتی تھیں۔
خواتین خوب محنت و مشقّت، زمین پر بیٹھ کر گھر کی صفائی ستھرائی اور بھاگ دَوڑ کرتی تھیں، جس سے ان کی ہڈّی کُھلتی تھی اور نارمل ڈیلیوریز بآسانی ہوجاتی تھیں، جب کہ موجودہ دَور کے انداز ہی نرالے ہیں۔ زیادہ ترخواتین پورے نو ماہ آرام کرتے گزار دیتی ہیں، اُنہیں بستروں پہ بٹھا دیا جاتا ہے کہ ہلناجلنا نہیں، جُھکنا نہیں، کام نہیں کرنا، یہاں تک کہ نماز تک بیٹھ کر پڑھ رہی ہوتی ہیں، جوکہ معالج کے مشورے سےآخر وقت تک کھڑے ہوکر، خاص طریقے سے پڑھی جا سکتی ہے، جب کہ بہت سی لڑکیاں تو پہلے، دوسرے مہینے ہی سے نماز بیٹھ کر پڑھنا شروع کر دیتی ہیں۔
یعنی آپ باقی دنیا کے سامنے تو کھڑی ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے بیٹھی رہتی ہیں اور مجھے گائناکالوجسٹ ہونے کے باوجود اس کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ خیر، پھر ایک وجہ سی ٹی جی مشین (Cardiotocography) بھی ہے، جو خراب رزلٹ دے دے، تو اٹینڈینٹس کی طرف سے ڈاکٹرپر پریشر آجاتا ہے کہ جب بچّے کی دھڑکن خراب تھی، تو آپ نے آپریشن کیوں نہیں کیا، بچّہ نرسری کیوں گیا وغیرہ وغیرہ۔ یہاں مَیں مریض کے ساتھ آنے والے افراد سے بھی کہنا چاہوں گی کہ وہ جو ذرا سی دیر میں اس قدر درشت رویّہ اپنا لیتے ہیں، ڈاکٹرز پردباؤ ڈالنا، دھمکیاں دینا شروع کردیتے ہیں، تو اِس پریشانی سے بچنے کے لیے بھی کچھ ڈاکٹرز مجبوراًسی سیکشن کردیتے ہیں۔
سو، جب تک یہ تمام فریق(ڈاکٹرز، مریض اور اٹینڈینٹس)اپنا اپنا قبلہ درست نہیں کریں گے، سی سیکشن کی شرح میں بھی کمی نہیں آسکے گی۔ اسی طرح ’’Ovarian Cyst‘‘ کا بھی معاملہ ہے۔ یعنی، گائناکالوجی میں سی سیکشن ہی کی طرح بیضہ دانی میں گِلٹی کی سرجری کی شرح بھی خاصی زیادہ ہے۔ اور عام طور پر یہ وہ ڈاکٹرز رِی موو کررہے ہیں، جنہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ کن کیسز اور کس اسٹیج پر گلٹی نکالنا ناگزیر ہوجاتا ہے، تو مَیں’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کے پلیٹ فارم سے تمام خواتین کو بتانا چاہتی ہوں کہ بیضہ دانی میں گلٹی کا مطلب یہ نہیں کہ فی الفور ہی اس کا آپریشن کروالیا جائے بلکہ اگر معالج آپ سے ایسا کرنے کو کہے، تو کوئی جذباتی فیصلہ کرنے سے قبل کسی دوسرے ڈاکٹر سےبھی ضرور مشورہ لیں۔ اور یہاں اس بات کاذکربھی انتہائی ضروری ہے کہ اکثر کیسز بِنا سرجری کیے باقاعدہ علاج یاکنزویٹیو مینجمنٹ سے بآسانی ٹھیک ہوجاتےہیں۔
یاد رکھیں، اگر گلٹی کا سائزپانچ سینٹی میٹر یا اس سے کم ہے، تو یہ فنکشنل گلٹی کہلاتی ہے، جس کے لیےکسی بھی قسم کی سرجری کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہاں، اگر الٹرا ساؤنڈ کی رپورٹس یا ٹیسٹ وغیرہ سے یہ پتا چلے کہ گلٹی میں کسی قسم کا پانی یا کوئی مواد موجود ہے، جو یہ ظاہر کر رہا ہےکہ یہ خطرناک ہو سکتی ہے، تو اس کا طریقۂ علاج مختلف ہے، لیکن عام طور پر پانچ سے آٹھ سینٹی میٹر کی گلٹیاں بےضرر ہی ہوتی ہیں۔ اور… سب سے اہم بات یہ کہ ایک مریضہ بلکہ مَیں تو کہتی ہوں ہرایک (مَردوزن) کو معلوم ہونا چاہیے کہ گلٹی نکالنے کا مطلب بیضہ دانی نکالنا ہرگزنہیں ہوتا۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں بہت سے جنرل سرجنز یہ بےایمانی بھی کر دیتے ہیں کہ گلٹی نکالنے کے نام پربیضہ دانی ہی نکال دیتے ہیں۔ اس طرح ایک عورت اپنےایک بہت بڑے اثاثے سے محروم ہو جاتی ہے، اسی لیے اس طرح کےفعل کی ہرفورم پرحوصلہ شکنی اوراس حوالےسےعوام میں شعور و آگہی عام ہونی چاہیے۔ اس حوالے سےمَیں پھر یہ کہوں گی کہ جنگ گروپ شعبۂ صحت پر معیاری کام کرکے، غیرضروری سرجریز جیسے مسائل پر روشنی ڈال کر ایک صدقۂ جاریہ کر رہا ہے۔ ‘‘
’’غیرضروری سرجریز عموماً کیوں کی جاتی ہیں، محض کمائی کےلیےیاپھر واقعتاً ان سے مریضوں کی بھی کوئی بھلائی مشروط ہے؟‘‘ ہم نے ڈاکٹر زبیدہ سےپوچھا۔ ’’پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہیے کہ ایک ایسا ڈاکٹر، جس نے واقعتاً ڈگری لی، اسپیشلائزیشن کیا، کسی اچھےاسپتال، تجربہ کارسُپروائزرز کے ماتحت تربیت حاصل کی، وہ غیرضروری سرجری کر ہی نہیں سکتا یا ایسےمعالجین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی، کیوں کہ جب ہم اسپیشلائزیشن کا امتحان پاس کرتے ہیں، وہ سی پی ایس پی کے ذریعے ہوتا ہے اور اس امتحان میں ایک ایک چیز، ایک ایک جواب کی وضاحت کرنی ہوتی ہے کہ اگر آپ کوئی ٹیسٹ بھجوا رہے ہیں، تو وضاحت کریں کہ ایسا کیوں کر رہے ہیں(اُس کے نمبرز ہوتے ہیں)،اسی طرح کوئی سرجری کررہے ہیں، تو اس کی وضاحت کریں کہ کیوں کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ اور اگر کوئی ڈاکٹر وضاحت نہ کرسکے، تواُسے فیل کردیا جاتا ہے۔ یعنی ایساکوئی بھی ڈاکٹر، جو اسپیشلائز کر کے باہر نکلتا ہے، وہ شعوری طور پر کوئی غیرضروری سرجری کرہی نہیں کر سکتا۔
ایسی سرجریز کا تناسب درحقیقت اتائیوں کی وجہ سے زیادہ ہے، جن کے پاس مریض دھوکا کھا کر جاتے اور پھر نقصان اُٹھاتے ہیں۔ اسی لیے مَیں عوام النّاس سے بھی درخواست کروں گی کہ کسی بھی ڈاکٹر کا انتخاب ہمیشہ بہت سوچ سمجھ کر کریں۔ آپ چاہیں، تواپنےمعالج کی طبّی اسناد دیکھ سکتے ہیں، اُن کی تعلیمی وعملی قابلیت سے متعلق کسی سے رائےلے سکتے ہیں۔ یہی نہیں، اپنے مرض اور سرجری کے متعلق بھی ضرور جانیے، معالج سے پوچھیے کہ ’’مجھے، جو مرض لاحق ہے، اُس کی سرجری ناگزیر کیوں ہے؟ اوراگر ہے، تو اس کی کیا وجہ ہے، اس آپریشن سے میرے کون کون سے اعضاء متاثر ہوں گے، کوئی عضو نکالا بھی جائے گا، بعد از آپریشن کس طرح کی پیچیدگیاں آئیں گی اور جس مسئلے کے لیے میرا آپریشن کیا جا رہا ہے، بعد از سرجری وہ مکمل طور پر ٹھیک ہوجائے گا وغیرہ وغیرہ۔
پھر آج کل تو ٹیکنالوجی کا دَور ہے، گوگل پر ڈاکٹرز کی ریٹنگز، ری ویوز موجود ہوتے ہیں، تو اُن سے اندازہ لگائیں۔ کبھی کسی ایک ڈاکٹر کے کہنے پر سرجری مت کروالیں، دوسرا مشورہ ضرور لیں اوراپنے معالج کو بھی اس بات سے آگاہ کردیں اوراس حوالے سے کسی بھی ڈاکٹر کو ہرگز بُرا بھی نہیں ماننا چاہے کہ یہ ایک مریض کا حق ہے۔ یقین کریں، ایک اچھا ڈاکٹر خُوداپنے مریض سے دوسرا، تیسرا مشورہ لینے کو کہتا ہے۔‘‘ ’’آپ تو کہہ رہی ہیں کہ اپنے معالج سے سوال پوچھیں، مطمئن ہوکر کوئی قدم اُٹھائیں، لیکن کچھ ڈاکٹرز اس قدر تنک مزاج ہوتے ہیں کہ ایک سے دوسراسوال انہیں ناگوار گزرتا ہے، ایسے میں مریض کچھ پوچھنے کی ہمّت کیسے کرے گا؟‘‘
ہم نے سوال کیا۔ ’’جی بالکل، اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے، جب پیک آورز ہوتے ہیں، باہر پچاس، پچاس مریض بیٹھے ہوتے ہیں، 11، 12 بجے تک او پی ڈی بھی ختم کرنی ہوتی ہے، تو معالج کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ ہر ایک کے تمام سوالات کا جواب دے سکے۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ آپ نرمی سے اُن سے کہیں کہ ’’سر/میڈم! مجھے اپنی تسلّی کے لیے، سرجری سے متعلق کچھ ضروری سوالات آپ سے پوچھنے ہیں، تو آپ مجھے کوئی ایسا وقت بتا دیں، جب مَیں آپ سے تفصیلاً اس موضوع پربات کرسکوں کہ اپنے سوالات کے جوابات جانے بغیر میرے لیے سرجری کروانا ممکن نہ ہوگا۔
ایسی صورتِ حال میں وہ ضرور مریض کی پریشانی سمجھیں گے اوراُنہیں وقت دیں گے اور اگر کوئی ڈاکٹر کسی بھی صُورت جواب، وقت دینے پر راضی نہ ہو، تو میرے خیال میں وہ سرجری کے لیے بھی موزوں نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر زبیدہ نے دوٹوک جواب دیا۔ ’’کیا ایسا کوئی قانون ہے، جس کےتحت غیر ضروری سرجریز کرنے والے ڈاکٹرز/ اسپتالوں کے خلاف کارروائی ممکن ہوسکے اور اس کارروائی کی نوعیت کیا ہوسکتی ہے؟‘‘ ہمارا اگلا سوال تھا۔ ’’ہمارے یہاں قانون تو موجود ہے، مگر اس پرعمل درآمد نہیں ہوتا، اوراِسی وجہ سے ہم مار کھاتے ہیں۔
البتہ، آج کل ’’سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن‘‘ بہت ایکٹیو ہے، جو مریضوں کے حقوق کی ضمن میں آواز اُٹھا رہا اور قانون پر عمل در آمد بھی کروا رہا ہے۔ اس سے قبل مریض ’’اسلام آباد ہیلتھ کیئراتھارٹی‘‘ کو رپورٹ کیا کرتے تھے۔تو اگر سندھ میں رہنےوالےکسی مریض کو لگتا ہے کہ اس کی سرجری غیر ضروری طور پرکی گئی ہے، تو تیس دن کے اندر اسپتال انتظامیہ کےنام ایک درخواست لکھیں (یہ درخواست مریض خُود بھی لکھ سکتا ہے، اس کےوالدین، شوہر/بیوی یا سرپرست بھی لکھ سکتا ہے) اور اسپتال انتظامیہ تیس دن کے اندر جواب دینے کی پابند ہے، اگر مریض اس جواب سے مطمئن ہوجاتا ہے، تو ٹھیک، وگرنہ ساٹھ دن کے اندرسندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کی ویب سائٹ سے فارمز(ایف ای ڈیوٹ اور شکایتی) ڈاؤن لوڈ کرکے پُر کریں، ایف ای ڈیوٹ پر ایک سو روپے کی مہر، اپنے انگوٹھے کا نشان اور ضروری دستاویزات لگا کر ارسال کردیں۔
اس ضمن میں اگر معالج (جس کے پاس ڈگری بھی ہو اورمتعلقہ شعبے کا ماہر بھی)قصور وار پایا جاتا ہے، تو اُس پر غیر ذمّے داری کامقدمہ بنے گا، جب کہ اگر کوئی ایسا ڈاکٹر، جو متعلقہ سرجری کا اہل یا سندیافتہ ہی نہیں تھا، تو اُس پرغیر ذمّے داری کے ساتھ غیر قانونی کام کا مقدمہ بھی بنےگا۔ یاد رہے، ایک جنرل سرجن تک کو بیضہ دانی کی سرجری کی اجازت نہیں کہ یہ گائنا کالوجسٹ کا کام ہے۔
اِس ضمن میں کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ ایسا کرنے والے ڈاکٹر کا لائسینس منسوخ کردینا چاہیے، لیکن میرا خیال ہے کہ ایسا کرنا مسئلے کا حل نہیں کہ اسے سرکار/والدین نے دس ملین روپے دے کر ڈاکٹر بنایا ہے، تو اس سے بہتر ہے کہ ایسے ڈاکٹر کو کسی اتھارٹی یا بہت اچھے معالج کے ماتحت دے دیں، جو اگلے چھے ماہ کے لیے اس پر کڑی نظر رکھے۔‘‘ ’’کچھ معالجین نومولود کو فوراً ہی ٹاپ فیڈ تجویز کردیتے ہیں، کیا یہ بھی طبّی اخلاقیات کےخلاف بات نہیں؟‘‘ ہم نے پوچھا۔ ’’کم از کم ابتدائی چھے ماہ تک تو بچّے کو صرف اور صرف ماں کا دودھ ہی دینا چاہیےکہ یہی ماں اور بچّے دونوں کے لیے بہتر ہے۔ اس حوالے سے ایک گائنا کولوجسٹ کو دورانِ حمل ہی ماں کی تربیت شروع کردینی چاہیے، اُسے آگہی فراہم کرنی چاہیے کہ اُس کے دودھ سے بہتر بچّے کے لیے کچھ نہیں، تو وہ کچھ اور ہرگز نہیں پلائے گی۔ ویسے دَورِ حاضر کی مائیں سی سیکشن کے بعد یہ بہانہ بھی بناتی ہیں کہ ہم دودھ نہیں پلا سکتیں، حالاں کہ آج کل سارے سیزرز اسپائنل ہوتے ہیں، ماں دورانِ سرجری ہوش میں ہوتی، باتیں کر رہی ہوتی ہے، تو اُسے بآسانی کروٹ دِلوا کر بچّے کودودھ پلایا جا سکتا ہے۔‘‘
گزشتہ بیس برسوں سے شعبۂ ہڈی و جوڑ سے وابستہ،ضیاءالدّین یونی وَرسٹی اسپتال، کلفٹن میں آرتھوپیڈک اینڈ اسپائن سرجری کے فرائض سرانجام دینے والے، ڈاکٹر سہیل رفیع نے غیرضروری سرجریز اور عمومی طور پر آرتھوپیڈک میں کی جانے والی غیرضروری سرجریزکے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’غیر ضروری سرجری کچھ اس طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ ایک مریض پیٹ کے ارد گرد درد کی تکلیف کی شکایت لیے ایک ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے، پھر کچھ ضروری ٹیسٹس کروانے کے بعد ڈاکٹر کو یہ تومعلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اپینڈیکس کا درد نہیں ہے، لیکن وہ پھر بھی اس کی سرجری کر دیتا ہے، تو یہ غیر ضروری سرجری کی عام مثال ہے۔
اسی طرح آرتھوپیڈک میں ایسے بہت سے کیسز آتے ہیں کہ کچھ مریضوں کی ہڈّی تو ٹوٹی ہوئی ہوتی ہے، لیکن اپنی جگہ سے ہِلی نہیں ہوتی، جسے پلاسٹر لگا کربآسانی جوڑا جا سکتا ہے، لیکن کچھ سرجنز محض خود کواوراسپتال والوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے بلاضرورت سرجری کردیتے ہیں۔ ریڑھ کی ہڈّی کا بھی یہی حال ہےکہ ہمارے ہاں کمر کا درد ایک عام بات ہے، مجھ سمیت سب ہی کوہوتاہے، توجب کچھ مریض مسلسل کمردرد کی شکایت لےکرکسی آرتھو سرجن کے پاس جاتے ہیں، تو وہ ایم آر آئی وغیرہ کروانے کے بعد ذرا سی خرابی دیکھ کر، جوکچھ دنوں کےآرام سے بآسانی ٹھیک ہوسکتی ہے، فی الفور آپریشن کردیتے ہیں۔
ایسے میں، جو ذہین مریض ہوتے ہیں، وہ تو کسی دوسرے ڈاکٹر سے مشورہ لے کر بچ جاتے ہیں اور کچھ ڈرکےمارے سرجری نہیں کرواتے، مگرکچھ عرصے بعد خُود ہی ٹھیک ہوجاتے ہیں اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اُنہیں سرجری کی نہیں، آرام کی ضرورت تھی۔ اسی طرح کسی مریض کے گُھٹنے میں تکلیف ہوتی ہے، وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے، ایم آر آئی کروانے پر ڈاکٹر کو پتا چلتا ہے کہ اس کا گُھٹنا تو ٹھیک ہے، مگر کئی سال پہلے کا کارٹیلیج (Cartilage) پھٹا ہواہے، جس کا اس درد سے کوئی تعلق نہیں، لیکن وہ صرف پیسا بنانے کے لیے مریض سے کہتا ہے کہ ’’مَیں چھوٹی سی سرجری کرکے کارٹیلیج نکال دوں گا، تو آپ کادردٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
اب ایک مریض، جو پہلے ہی درد سے بےحال ہوتا ہے، وہ معصومیت میں ایسے سرجن کا شکار بن جاتا ہے۔ اس سے سرجن کو دو فوائد حاصل ہوتے ہیں، ایک تواُس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے، دوسرا یہ کہ وہ جس اسپتال میں کلینک کرتا یا بیٹھتا ہے، اُس کی انتظامیہ بھی اُس سے خوش ہوجاتی ہے کہ مریض کے داخل ہونے سے وہ بھی خوب پیسا بناتی ہے۔ یہاں یہ بتانا انتہائی ضروری ہے کہ ایسا صرف ہمارے مُلک میں نہیں، پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں پیسا مریض کی جیب سے جاتا ہے اور وہاں ہیلتھ انشورنس ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا میں تو بعد ازسرجری جانچ پڑتال کرنے کے بعد کئی ڈاکٹرز کے خلاف تادیبی کارروائیاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں اور ڈاکٹرز کے لائسینس بھی منسوخ کیے گئے ہیں۔ جب کہ ہمارے یہاں حال یہ ہے کہ اگر صرف کراچی کی بات کریں، تو کلفٹن سے قائد آباد تک کئی کئی ایسے اسپتال قائم ہیں، جن کا کوئی ریکارڈ، کوئی اعداد و شمارہی موجود نہیں، جہاں ڈاکٹرز کم، اتائی زیادہ پائے جاتے ہیں۔
اب بےچارہ غریب مریض سستے علاج کے چکّر میں اَتائیوں کو ڈاکٹر سمجھ کراُن کے ہتھےچڑھ جاتا ہے اور بعد میں پچھتاتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ سند یافتہ، ماہر ڈاکٹرز/ سرجنز بھی جان بوجھ کر صرف اپنے فائدے کے لیے ایسا کرتے ہیں، مگر میرا خیال ہے کہ رزق تو اللہ پاک نے سب کا لکھ دیا ہے، تو کیوں نہ اسے حلال طریقے ہی سے کمایا جائے، اس میں ایک بوند بھی حرام کمائی کی شامل کرکے ساری روزی ناپاک کردینا بےوقوفی کے سوا کچھ نہیں۔ پھر بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں صحت کے حوالے سے قانون موجود نہیں، تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔
قانون تو ہر مسئلےکےلیےموجودہے،بس ضرورت اس پر عمل درآمد کروانے کی ہے۔‘‘غیر ضروری سرجریز کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔ ’’اس ضمن میں مریض کوخود عقل سےکام لینا چاہیے۔ اپنے معالج، مرض سے متعلق مکمل معلومات حاصل کرنی چاہئیں، پھر ایک ہی ڈاکٹر کی رائے پراکتفا کرنے کے بجائے دوسرے، تیسرے سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے۔‘‘
قریباً 33برس سے شعبۂ طِب سے وابستہ، عبّاسی شہید اسپتال اور کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے شعبۂ امراضِ چشم کی سربراہ، ڈاکٹر عظمیٰ فصیح نے غیر ضروری سرجریز کے حوالے سے بات کا آغاز کچھ اس طرح کیا کہ ’’سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ طِب کے ہر شعبے ہی میں کچھ کالی بھیڑیں، تو کچھ نام نہاد ڈاکٹرز، درحقیقت اتائی ایسی جرّاحیاں کر رہےہیں، جن کی قطعاًضرورت نہیں ہوتی۔ یعنی کوئی بھی ایسا مرض، جو کسی بھی دوا یا دیگر طریقۂ علاج سے ٹھیک ہو سکتا ہو، لیکن صرف پیسے کی لالچ میں ایک سرجن، بلاضرورت آپریشن کردے، تو وہ غیرضروری آپریشن کہلاتا ہے اور آج کل ایسا بہت ہو رہا ہے۔
اگر شعبۂ امراضِ چشم کی بات کروں، تو ایک اندازے کے مطابق ہمارے یہاں اوسطاً تیس سے چالیس فی صد آپریشنز غیرضروری طور پرکیے جاتے ہیں۔ جیسے ہمارے یہاں کئی آئی سرجنزصرف پیسا بنانے کے لیے بلاضرورت موتیے (Cataract) کا آپریشن کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ جب موتیا ابتدائی مراحل میں ہوتاہے یا طبّی زبان میں میچورنہیں ہوتا، تو چشمے کےذریعے بھی اس کا علاج ممکن ہے، لیکن کچھ ڈاکٹرز، مریض اور اس کے اہلِ خانہ کو اس قدر ڈرا دیتے ہیں کہ ’’آپ کا موتیا بہت پھیل چُکا ہے، کسی بھی وقت لینس پھٹ جائے گا وغیرہ وغیرہ‘‘ تو وہ فوری طور پر آپریشن کروانے کو تیار ہو جاتا ہے۔
پھر کالا موتیا ایک ایسی بیماری ہے، جس پر ایک لمبی بحث ہو سکتی ہےکہ اس کا علاج دو، تین طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال، فوری علاج تو ادویہ ہی سے کرتے ہیں۔ ہاں، کچھ کیسز میں فوری سرجری بھی ضروری ہوتی ہے، لیکن ادویہ اور لیزر کے ذریعے بھی علاج ممکن ہے، بعض سرجنز جلد بازی میں پہلے ہی سرجری کردیتے ہیں، جو کہ قطعاً درست نہیں۔ ‘‘ ’’آج کل کئی افراد چشمے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے لیسک سرجری بھی کروا رہے ہیں، اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ ہمارا اگلا سوال تھا۔ ’’ہاں، ویسے تو یہ ایک محفوط طریقۂ علاج ہے، لیکن بہرحال یہ ایک سرجیکل طریقہ ہے، تو اس میں خطرات بھی ہوتے ہیں۔
جیسے اگر کسی کو ڈرائی آئی کا مسئلہ ہو، یا پُتلیاں پتلی ہوں، آئی انفیکشن ہویاایک ہی آنکھ کام کررہی ہو، تو ایسے افراد کے لیے لیسک کروانا درست نہیں۔ پھر اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ گوکہ لیسک یا اس طرح کے دیگر طریقۂ علاج محفوظ بھی ہیں اور اُن سے لوگوں کو فائدہ بھی ہو رہا ہے، لیکن ان کی وجہ سے پُتلی پَتلی ہوجاتی ہے، اُس میں عام آنکھ کی نسبت چوٹ برداشت کرنے کی طاقت کم اور آنکھ کی قوتِ مدافعت بھی کم زور ہوجاتی ہے۔‘‘ ’’جس طرح کچھ جنرل فزیشنز مخصوص لیبارٹریز ہی سے ٹیسٹ کروانے کا کہتے ہیں، اسی طرح کچھ آئی سرجنز بھی موتیا وغیرہ کی سرجری میں مخصوص کمپنی کے لینسز لگوانے، بعداز سرجری مخصوص کمپنی کےآئی ڈراپس ڈالنے پراصرار کرتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘ہم نے پوچھا۔ ’’سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ انٹرا اوکیولر(Intraocular) لینس، یعنی وہ لینس، جو موتیا کی سرجری کے بعد لگائے جاتے ہیں، وہ پاکستان میں نہیں بنتے، امپورٹ کیےجاتے ہیں۔
ان میں مختلف برانڈز (انڈین، کورین، امریکن، برطانوی)شامل ہیں۔ بھارتی لینس دیگر ممالک کی نسبت سستے اور کم معیاری ہوتےہیں، تو عام طور پر سرجنز، مریض کو تمام برانڈز کے حوالے سے بتا دیتے ہیں اور پھر ان کی مالی حیثیت کے مطابق لینس لگاتے ہیں۔ اب جہاں تک بات ہے، آئی ڈراپس کی، تو اچھا سرجن کسی ملٹی نیشنل کمپنی کی دوا ہی تجویز کرتا ہے، جو قیمت میں ذرا زیادہ ہوتی ہےاور اس کے پیچھے خیال یہ ہوتا ہے کہ آنکھ کی سرجری تو ایک ہی بار کروانی ہے، لینس بھی بار بارنہیں پڑتا، تو معیاری ادویہ ہی استعمال کی جائیں، جن سے انفیکشن ہونے کا خطرہ بھی کم ہوجائےاورآنکھ کی سوزش بھی جلد ٹھیک ہوجائے۔
ویسے مَیں ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کے پلیٹ فارم سے قارئین سے بھی کہنا چاہوں گی کہ دیگر اعضاء کی طرح آنکھ کی بھی بھرپور حفاظت کیا کریں۔ کمپیوٹر استعمال کرتے وقت بیچ بیچ میں شارٹ بریکس لیں، ورنہ ڈرائی آئی کا مسئلہ ہوجاتا ہے، کسی بھی ماہرِ امراضِ چشم کے پاس جانے سے قبل تسلّی کرلیں کہ وہ واقعتاً آئی سرجن ہی ہے، کوئی اتائی تو نہیں، کیوں کہ سب سے زیادہ بیڑہ غرق تو اتائیوں نے کیا ہوا ہے، جو سرجریز ہم کرتے ہوئے سو بار سوچتے ہیں، وہ یہ لوگ نتائج کی پروا کیے بغیربے دھڑک کر دیتے ہیں۔ اسی لیے پچھلے دنوں پی ایم ڈی سی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ تمام ڈاکٹرز اپنی اسناد وغیرہ کلینکس پر نمایاں جگہ پر لگائیں، جومریض بھی دیکھ سکیں اور اُنہیں معلوم ہو کہ وہ جس ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں، وہ واقعی سند یافتہ ہےیا نہیں۔‘‘
قریباً اٹھارہ سال سے شعبۂ طِب سے وابستہ، اسلام آباد کےایک سرکاری اسپتال کے شعبۂ امراضِ قلب کی سربراہ، ڈاکٹر طاہرہ علی کا غیرضروری سرجریز کے حوالےسےکہنا ہےکہ ’’اگر مَیں اپنے شعبے کی بات کروں، تو میرے پاس کچھ مریض اپنی رپورٹس اور سی ڈیز (انجیوگرافی کی) وغیرہ لے کر آتے ہیں، تو یہ اصول ہے کہ دل کی شریانوں کی ستّر فی صد سےکم رکاوٹ (Blockage) میں اسٹنٹ نہیں ڈالا جاتا، اُسے ادویہ ہی سےٹریٹ کیا جاتا ہے، لیکن بہت سےڈاکٹرز چالیس فی صد رکاوٹ پر بھی ڈال دیتے ہیں، جو انتہائی غیر ذمّے دارانہ حرکت اور طِب کے اصولوں کے صریحاً خلاف بات ہے۔
اِس کی مثال ہیلتھ کارڈ سے لی جا سکتی ہے، جس پر جانے والےکئی مریضوں کے بلاضرورت اسٹنٹس ڈال دیئےگئے، یعنی اُن کی بیماری بِنا انجیو پلاسٹی کے بھی ٹھیک ہو سکتی تھی، لیکن پھر بھی اسٹنٹس ڈالےگئے۔‘‘ ’’صحت کارڈ کااستعمال توعموماً غریب غرباء کرتے ہیں، تواُن کے اسٹنٹ ڈال کر کسی ہارٹ سرجن کو کیا فائدہ ہوسکتاہے؟‘‘ہم نے پوچھا۔ ’’یہی تو سمجھنے کی بات ہے کہ کچھ چھوٹے موٹے نجی اسپتالوں میں ایک ایک سرجری کرنے پر ڈاکٹرز کا بھی شیئر ہوتا ہے، یعنی جتنی سرجریز پرفارم کریں، شیئر بڑھتا جاتا ہے۔
اب جیسےایمرجینسی میں کوئی مریض آیا اوراس کی انجیوگرافی کے لیے کسی ڈاکٹر کوگھر سے بلوایا گیا اور بعد از انجیو گرافی پتا چلا کہ صرف پچاس فی صد ہی بلاکیج ہے، توڈاکٹرکو انجیو گرافی کرنے کے معمولی پیسے ملیں گے، لیکن اگر ڈاکٹر نے اسٹنٹ ڈال دیا، تو شیئر بڑھ کر ہزاروں روپے ہوجائے گا۔ جو ویسے تو ڈاکٹر کے ساتھ ٹھیک ہے کہ وہ محنت کرتا ہے، تو اُسے اس کی محنت کا صلہ ملنا چاہیے، لیکن ایسے بددیانتی بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحت کارڈز پر بلا ضرورت سرجریز ہوئیں اوراسٹنٹس ڈالے گئے۔
اس حوالے سےاسلام آباد سے ایسے ایسے اسپتالوں کے نام سامنے آئے، جن کا مَیں نے کبھی نام تک نہیں سُنا۔ لیکن دوسری جانب صحت کارڈ سے بہت لوگوں کو فائدہ بھی ہوا، جو علاج معالجہ افورڈ نہیں کرسکتے تھے، اُن کا اچھا علاج ہوگیا۔ اب جہاں تک بات ہے، غیرضروری سرجریز کی روک تھام کی، تو اس حوالے سے مریضوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ذمّے داری کا ثبوت دینا ہوگا۔ یعنی اگر مَیں اپنے شعبے کی بات کروں، تو دل ایک انتہائی نازک عضو ہے، تو کسی بھی تکلیف کی صورت میں کسی غیر مستند ڈاکٹر، اتائی کے پاس جانے کے بجائے فوری طور پر ایک ماہر ہارٹ سرجن کے پاس جائیں، اپنی بیماری سے متعلق جانیں، ڈاکٹر سے پوچھیں اور اگر کوئی سرجری تجویز کرے، توپھر کسی دوسرے سرجن سے بھی لازماًمشورہ لیں۔‘‘
ایک طویل عرصے سے شعبۂ طِب سے وابستہ، خدمتِ خلق میں مصروف، معروف گیسٹرو انٹرولوجسٹ، بیگم حاجی یوسف اسپتال(بی ایچ وائی) کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ اورانکل سریا اسپتال میں بطور کنسلٹنٹ خدمات سرانجام دینے والے، پروفیسر ڈاکٹر غلام علی مندرہ والا نے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’عموماً سرجریز دو، تین اقسام کی ہوتی ہیں۔ جیسے ایک تو وہ سرجری، جس کی فی الفور کوئی ضرورت نہیں، دوم وہ، جو فوری طورپرکی جائے اور تیسری وہ، جس کی کسی صورت ضرورت نہیں تھی، مگر صرف اور صرف ذاتی مفاد کے لیے کی گئی۔
ایسی سرجریز کرنے والے زیادہ تر ڈاکٹرز پرائیویٹ کلینکس چلاتے ہیں اوراُن کے لیے مریض کی حیثیت کسی کسٹمر سے زیادہ نہیں ہوتی، حالاں کہ سرجری کرنا قطعاً آسان نہیں کہ اس میں کئی رِسکس شامل ہوتےہیں، پھر بھی کچھ نام نہاد ڈاکٹرز غیر ذمّےداری کا ثبوت دیتے ہوئے بلا ضرورت سرجریز کرتے ہیں۔
دراصل اُن کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ مریض ہمارے پاس سے کسی اور جگہ نہ چلا جائے، تو بس ہم ہی جلدی سےاس کا آپریشن کردیں۔ اور ایسے لوگوں کے لیے ڈاکٹری، مسیحائی نہیں، بزنس ہے۔‘‘ ’’سرجریز کے علاوہ غیر ضروری ٹیسٹس کروانے کا رویّہ بھی بہت ہی عام ہے، اس کی وجہ معالجین کی تشخیصی صلاحیت میں کمی ہے، لیبارٹریز سے لیا جانے والا کمیشن ہے یا کچھ اور؟‘‘ ہمارا اگلا سوال تھا۔ ’’میرے خیال میں تو کمیشن ہی ہے، کیوں کہ ڈاکٹر امتحانات دے دےکراس قدر تو منجھ ہی جاتا ہے کہ علامات، کیفیت سُننے کے بعد مرض کا اندازہ لگا لے، تو اگر وہ صرف اپنی تسلّی کے لیے ٹیسٹ کروانا چاہے، تو اس میں کوئی قباحت نہیں، پھر عام طور پر ڈاکٹرز کسی اچھی، قابلِ اعتماد لیبارٹری سے ٹیسٹ کا مشورہ دیتا ہے تاکہ رزلٹ درست آئے، البتہ اگر کوئی صرف ایک ہی لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانے پر زور دے، تو سمجھ جائیں کہ معاملہ گڑبڑ ہے۔ اِسی طرح جب کوئی سرجن، سرجری تجویز کرے، تو فوراً ہامی نہیں بھرنی چاہیے بلکہ لازماً کسی دوسرے ڈاکٹر سے مشورہ لینا چاہیےاور یاد رکھیں کہ ایک اچھا معالج ہمیشہ خُود ہی دوسرے کسی ڈاکٹر سے مشورے کی تجویز بھی دیتا ہے۔‘‘
قریباً 27 برس سے شعبۂ طِب سے وابستہ، دو دہائیوں سے اشفاق میموریل اسپتال، کراچی سے بطور آرتھو پیڈک کنسلٹنٹ اور بقائی میڈیکل یونی وَرسٹی سے بحیثیت پروفیسرمنسلک، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ قائم خانی کا اپنے شعبےمیں کی جانے والی غیر ضروری سرجریز کے حوالے سے کہنا ہے کہ ’’مَیں اپنے شعبے یعنی آرتھوپیڈک ہی سے متعلق بات کروں گا۔ میرے خیال میں تو کسی بھی سرجری کو غیر ضروری کہنا درست نہیں کہ ہر معالج کی اپنی سوچ، نظریہ، تشخیص اور صلاحیت ہوتی ہے۔ جس سے اختلاف ضرور کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص کورنگی سے ٹاور جانا چاہتا ہےاور تین، چار لوگوں سے بہتر سواری کا پوچھتا ہے، تو ہرایک اپنے انداز سے جواب دے گا۔
ممکن ہے کہ پہلا شخص بذریعہ رکشا جانے کا مشورہ دے، دوسرا بذریعہ بس اور تیسرا گاڑی کے ذریعے، تو مشورہ تو تینوں ہی نے صحیح دیا کہ رکشا، بس، گاڑی ذرائع نقل وحمل ہی ہیں، لہٰذا اب یہ پوچھنے والے پرمنحصر ہے کہ وہ کون سی سواری منتخب کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگرکوئی فریکچر کا مریض کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے، تو ہو سکتا ہے وہ سرجری کا مشورہ دے، جب کہ دوسرا ڈاکٹر پلاسٹر لگا کر ہڈّی بٹھا دے، تو بات ساری تجزیے، تجربے اور لیاقت و اہلیت کی ہے۔ ‘‘ ’’سرجری یا علاج کا فیصلہ مریض کے بہترین مفاد کو سامنے رکھ کر ہونا چاہیے یا معالج کی تشخیصی صلاحیت پر کہ بالفرض اگر ایک ہڈّی بِنا سرجری کے ٹھیک ہوسکتی ہے، تو صرف اِس لیے کہ معالج کو لگتا ہے کہ اسے آپریٹ کرنا چاہیے، درست ہے؟ جب کہ دیکھا جائے، تو آپریشن میں دس طرح کے اخراجات بھی ہوتے ہیں اور رسک کا عنصر تو رہتا ہی ہے؟‘‘ ہمارا اگلا سوال تھا۔ ’’دیکھیں، کوئی بھی ڈاکٹر، مریض کا بُرا نہیں چاہتا، ہوسکتا ہے کہ معالج ، سرجری کرکے مریض کودو ڈھائی ماہ تک پلاسٹر کی اُلجھن، تکلیف سے بچانا چاہ رہا ہو یا سوچ رہا ہو کہ اگر پلاسٹر کے بعد بھی ہڈّی نہ جُڑی یا صحیح جگہ پر نہ بیٹھی، تو بعد میں آپریشن کرنے سے بہتر ہے کہ پہلے ہی کردیا جائے۔‘‘
ڈاکٹر قائم خانی نے فوراًوضاحت کی۔ ’’بہت سے معالجین مخصوص لیبارٹریز ہی سے ٹیسٹ کروانےاورمخصوص کمپنی کی ادویہ لینےکی بھی ہدایات دیتے ہیں، اِس کی کیا وجہ ہے؟‘‘ ہم نے ایک اورچُبھتا ہوا سوال کیا۔ ’’ہاں، مَیں نے بھی ایسا سُنا ہے، اِس بات کےبھی دو پہلو ہیں، یعنی مجھے معلوم ہے کہ ڈاؤ اورآغا خان لیبارٹری کے ٹیسٹس قابلِ اعتماد ہوتے ہیں، تو مَیں اپنے مریضوں کو وہاں سے ٹیسٹ کروانے ہی کا مشورہ دیتا ہوں، لیکن اگر کوئی معالج گلی محلّے کی یاغیرمستند لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانے کا کہے، تو سمجھ جائیں کہ اِس میں آپ کا نہیں، ڈاکٹر کا مفاد ہے۔
ویسے، بات ساری ضمیر کی ہے، اگر مَیں یہ سوچ لوں کہ مجھے اللہ کے سامنے جواب، اپنے اعمال کا حساب دینا ہے، توقطعاً اپنے بچّوں کو حرام کا ایک لقمہ بھی نہیں کھلاؤں گا، لیکن اگر ضمیر ہی مرجائے، توپھر کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بالآخر تسلیم کر ہی لیا کہ مسیحائی جیسے نوبل پروفیشن میں بھی کچھ کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ ’’کیا واقعی آرتھو آرتھرائٹس (اے او)کا علاج اسٹیم سیل تھراپی(ایساطریقۂ کار،جس میں مریض کے کم زور یا ناکارہ اسٹیم سیلز (خون بنانے والے خلیات) تبدیل کرکے اُسی کے صحت مند اسٹیم سیلز ٹرانس پلانٹ کیے جاتے ہیں)کے ذریعے ممکن ہے اور یہ طریقۂ علاج کس قدر محفوظ اور سُودمند ہے؟‘‘ ہمارا آخری سوال تھا۔ ’’ مَیں نےقریباً آٹھ ماہ قبل ہی اس حوالے سے ایک امریکی تحقیقی جرنل میں شایع شُدہ ایک مضمون پڑھا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی زیادہ پرانی نہیں، پانچ، چھے سال قبل ہی متعارف کروائی گئی ہے، لیکن تاحال اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔
نیز، یہ انتہائی منہگا طریقۂ علاج ہے، سُنا ہے کہ کراچی میں کچھ ڈاکٹرز یہ تھراپی پرفارم کر رہے ہیں، جو دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہمارے کئی مریضوں کو اس سے فائدہ بھی ہوا ہے، لیکن یاد رکھیں کہ اگر حقیقتاً ایسا ہوتا، تو کوئی بھی ڈاکٹر زبانی دعویٰ کرنے کے بجائے، سب سے پہلے کسی مستند تحقیقی جرنل میں اس حوالے سے کوئی مضمون یا رپورٹ شایع کرواتا اور ایسی کوئی رپورٹ کم ازکم میری نظر سے تو نہیں گزری۔ اِسی لیے مَیں اپنے کسی بھی مریض کو اس علاج کا مشورہ نہیں دیتا۔‘‘