نواب محمد بہادر یار جنگ خُلق (1905ء۔ 1944ء) اپنی جرأت مندانہ قیادت اور دلیرانہ خدمات کے حوالے سے حیدرآباد دکن اور برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ایک ہمہ جہت اور آفاقی شخصیت کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ جدوجہد آزادی اور تحریکِ پاکستان میں اُن کی جرأت مندانہ دینی، سیاسی، ملّی اور فکری صلاحیتوں کا اعتراف نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں نے بھی کیا۔ وہ ایک عظیم مفکّر، سیاست دان، ماہرِ ِاقبالیات، قائدِاعظم کے دستِ راست، خطیب، ادیب اور دانش ور تھے۔ اُن کی سحر انگیز اور فکر آمیز شخصیت نے برصغیر کے مسلمانوں کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا۔ وہ ایک اچھے شاعر بھی تھےاور علامہ اقبال سے بےحد عقیدت رکھتے تھے۔
اُنھیں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کی شاعری سے نہ صرف گہرا شغف تھا، بلکہ اُن کی فکر اور پیام سے بھی بے حد متاثر تھے۔ اقبال کے کلام و پیام سے اُن کے والہانہ لگائو کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی کوٹھی (بیت الامّت) میں ہر ہفتے ’’درسِ اقبال،، کا سلسلہ شروع کیا، جو اُن کی وفات تک جاری رہا۔ نواب بہادر یار کے فنِ خطابت کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے حیدرآباد کی ممتاز شخصیت مسز سروجنی نائیڈو نے (جنھیں کانگریس اور دیگر جماعتوں نے ’’بلبلِ ہند‘‘ کا خطاب دیا اور اُن کی انگریزی خطابت کا دُور دُور تک چرچا تھا)کہا تھا کہ ’’میں نے ایسے بہت سے مقرر سُنے، جو مجمعے میں آگ لگادیتے ہیں اور افراد کو مشتعل کرکے فساد برپا کرواتے ہیں، مگر صرف ایک مقرر ایسا سُنا اور دیکھا، جس نے مشتعل اور شدید بے قابو ہجوم کو اپنی تقریر سے ممکنہ تشدّد اور بلوے کو روک کر عوام کو پُرامن طور پر منتشر ہونے پر مائل کردیا اور وہ شخصیت ہے، نواب بہادر یار جنگ کی۔‘‘
لاہور کے منٹو پارک میں قراردادِ پاکستان کے حوالے سے 23؍مارچ 1940ء کومنعقدہ تاریخ ساز اجلاس میں نواب بہادر یار جنگ نے جو فصیح و بلیغ اور پُرجوش تقریر کی، اس کا نقش آج بھی دلوں پر تازہ ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کے ممتاز رہنما، مولانا عبدالحامد بدایونی بھی، جو خود بھی ایک بلند پایہ مقرر اور خطیب تھے، لاہور کے اس تاریخ ساز جلسے میں موجود تھے، تو بعدازاں انھوں نے کہا کہ ’’اجلاسِ لاہور کی دو باتیں ایسی ہیں، جنہوں نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ اوّل، مسلم اقلیتی صوبوں کے راہ نمائوں کا جذبۂ ایثار و قربانی، دوم نواب بہادر یار جنگ کی یادگار تقریرکہ جس نے خاص و عام میں جدوجہدِ آزادی کے حوالے سے ایسا جذبہ ابھارا کہ چند ہی مہینوں میں بھارت کا گوشہ گوشہ پاکستان کے مطالبے سے گونج اُٹھا۔‘‘
نواب بہادر یار جنگ کا سب سے عظیم کارنامہ ریاستی مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے ان میں سیاسی وحدتِ فکر کو اجاگر کرنا تھا۔ وہ مسلمانوں میں کسی بھی قسم کی گروہ بندی، فرقہ بندی پسند نہیں کرتے تھے اور انہوں نے اُس وقت بھارت کے دس کروڑ مسلمانوں کو ایک مرکز اور ایک قائد سے وابستہ کرکے یہ ثابت کر دکھایا کہ مسلمان ایک قوم ہیں۔ اسلام اور پاکستان کے داعی کی حیثیت سے ان کا مرتبہ انتہائی بلند ہے کہ انہوں نے اپنی تبلیغ سے ہزاروں غیرمسلموں کو مشرف بہ اسلام کیا اور تحریکِ پاکستان کے حوالے سے مسلمانوں کے دلوں میں بے پناہ جوش و خروش پیدا کیا۔ 1938ء میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تو قائداعظم محمد علی جناح نے اس موقعے پر انھیں شان دار خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ’’مسلم لیگ اب تک بے زبان تھی، بہادر یار جنگ کے شامل ہوجانے سے اسے زبان مل گئی۔‘‘
اسی طرح سابق کمشنر کراچی، سیّد ہاشم رضا کہتے ہیں کہ ’’مَیں نے اُنہیں صرف ایک بار دیکھا، جب وہ مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت کے لیے دسمبر 1943ء میں کراچی آئے تھے۔ یوں تو وہاں آل انڈیا مسلم لیگ کے سارے زعماء جمع تھے، لیکن مجمعے کی نگاہیں صرف دو رہنمائوں پر جمی تھیں، ایک قائداعظم محمد علی جناح اور دوسرے نواب بہادر یار جنگ۔‘‘ اس جلسے میں نواب مرحوم نے قائدِاعظم کی تقریر کا ایسا سلیس ترجمہ پیش کیا کہ کیا کہنے۔ اور جب انہوں نے اپنی تقریر شروع کی، تو ایسا معلوم ہورہا تھا کہ ایک آب شار ہے، جس سے موتی برس رہے ہیں۔ اور جب وہ اپنی تقریر کے اختتامی کلمات کہنے لگے، تو قائدِاعظم نے مجمعے کا جوش و خروش دیکھ کر اُن سے کہا کہ ’’آپ کی تقریر کے لیے وقت کی قید نہیں ہے۔
آپ تقریر جاری رکھیے۔‘‘ نواب بہادر یار جنگ قائدِ اعظم سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے۔ انھوں نےاپنے ایک مضمون میں قائدِاعظم محمد علی جناح کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’’مجھے قائداعظم محمد علی جناح کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے اور میں اپنے قلب و ضمیر کے مکمل اطمینان کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اُن میں ایک ایسے سپہ سالار کی کامل صفات موجود ہیں، جو عقل و تدبّر کی اس جنگ میں عساکرِ اسلامیہ کو لڑا سکے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ اُن کے اطراف جمع ہوجائیں۔ اپنے باہمی اختلافات کو رفع کریں اور ان کے احکام و ہدایات کی تعمیل کرکے ان کے ہاتھ مضبوط کریں، منزل کو قریب تر لائیں اور یاد رکھیں کہ ؎ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے.....بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا۔‘‘
نواب بہادر یار سے متعلق معروف محقّق، پروفیسر محمد اسلم اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’مسلم لیگی راہ نمائوں کی صف میں نواب بہادر یار جنگ اپنی سیرت و کردار کے اعتبار سے بڑی قدآور شخصیت کے مالک تھے، اُن کی دین داری اُن کی چال ڈھال سے ظاہر ہوتی تھی۔ ان کا چہرہ نور علیٰ نور تھا، وہ اللہ کے ولی تھے۔ انہوں نے اپنی جاگیر اور خطاب حکومتِ وقت کو واپس کردیئے، لیکن انگریز استعمار کے آگے سر نہیں جھکایا۔ سرورِکائنات حضرت محمد مصطفیٰﷺ سے اُنہیں خاص عقیدت تھی۔ سیرت کے جلسے میں تقریر کرتے وقت خود بھی روتے اور سامعین کو بھی رُلاتے۔ اُن کا شمار برعظیم کے گِنے چُنے مقررین میں ہوتا تھا۔
جس نے ایک بار اُن کی تقریر سُن لی، پھر وہ کسی اور مقرر کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔‘‘ اور سابق میرِ مجلس ’’بہادر یار جنگ اکادمی‘‘ محمد احمد خان، ایک جگہ نواب بہادر یار کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’خطابت کا فن تو ایک آلہ تھا، مقصد کچھ اور تھا، وہ مقصد تھا، غافلوں کو بیدار کرنا، مُردہ دلوں کو جِلانا اورغلامانِ محمدﷺ کا پیغام سُنانا۔ وہ خطیب سے زیادہ ’’پیامی‘‘ تھے۔ ایک صاحبِ دل مسلمان ہونے کے ناتے وہ خود سے مخاطب ہونے میں جو لذت محسوس کرتے، یا بارگاہ ِرسالتِ مآبﷺ میں نذرانۂ عقیدت پیش کرنے میں جو سکون محسوس کرتے، وہ روایتی عشقیہ کلام میں اُنہیں نہیں ملتا تھا۔‘‘
نواب بہادر یار جنگ ایک بھرپور سماجی شخصیت کے مالک تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی تمام زندگی سماجی و فلاحی خدمات کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ قوم کی خدمت اور فلاحی ذمّے داریوں کی ادائی ان کی اوّلین ترجیحات میں شامل رہی۔ محض 22سال کی عمر میں انھوں نے 1927ء میں مجلسِ تبلیغِ اسلام کی بنیاد رکھی، یعنی اُن کی عوامی خدمت گزاری کا آغاز مبلغِ اسلام کی حیثیت سے ہوا۔
پھر 1927ء ہی میں اپنی ذاتی جاگیر میں بمقام کنڈور ایک باغ قائم کیا اور اس کا نام ’’بہادر باغ‘‘ رکھا۔ وہ ہر کام پوری منصوبہ بندی، سلیقہ مندی سے کرتے تھے اور بہادر باغ بھی ان کی سلیقہ مندی ہی کا آئینہ دار تھا۔ جب کہ حیدرآباددکن میں تعلیمی ترقی اور سماجی راہ نمائی کے لیے ’’حیدرآباد ایجوکیشنل سوسائٹی‘‘ کا قیام بھی اُن کے رفقائے کار کی کوششوں ہی سے عمل میں آیا تھا، جسے ابتدا ہی سے ممتاز شخصیتوں کی سرپرستی حاصل رہی، جن میں مسز سروجنی نائیڈو، ملا عبدالقیوم، ناظر یار جنگ، سجاد مرزا اور سالار جنگ جیسی شخصیات شامل تھیں۔ اُن ہی کی وساطت سے نواب بہادر یار جنگ، حیدرآباد ایجوکیشنل سوسائٹی سے قریب ہوئے اور 1928ء میں ارکانِ مجلس انتظامی کی کمیٹی کے لیے ان کا انتخاب عمل میں آیا۔
معروف دانش وَر، مختار مسعود اپنے ایک مضمون میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’بہادر یار جنگ کو لوگ مقرر کی حیثیت سے جانتے تھے اور عام خیال یہی تھا کہ مقرر محنت اور عمل کی جو تلقین اپنی تقاریر میں کرتے ہیں، وہ خود اس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ لیکن بہادر یار جنگ گفتار کے نہیں، کردار کے بھی غازی ہیں۔ انہیں جب ایک بار عہدے کی پیش کش ہوئی تو کہا ’’مجھے کرسی ِوزارت پر بیٹھ کر امورِ مملکت پر غور کرنے کے لیے نہیں، بلکہ گردِ کوچہ و بازار بن کر قلوب کی دنیا میں طوفان برپا کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے، مَیں نے یہ طوفان اپنی تقریروں سے اُٹھایا تھا اور آج اتنے سال گزرنے کے باوجود اس طوفان کی لہر میرے دل میں موج زن ہے۔‘‘
ایک جگہ نواب بہادر یار جنگ نے یوں لب کشائی کرتے ہیں کہ ’’رسوائی سرِ بازار چاہتی ہے، ہنگامۂ دارو رسن چاہتی ہے۔ شورشِ طوق و سلاسل چاہتی ہے اور وہ ہم سے ہماری جان طلب کرتی ہے۔ اگر کمیونزم کی اشاعت کا منشا دنیا سے غربت، استحصال کا خاتمہ اور ہر انسان کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی ہے، تو مَیں خود کو سب سے بڑا اشتراکی تصوّر کرتا ہوں اور اگر اس کے پیچھے کارل مارکس کا وہ فلسفہ کام کررہا ہے، جس کی بنیاد انکارِ خدا ہے، تو مَیں کمیونزم سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
’’ لسان الامّت، برِصغیر پاک و ہند اور عالمِ اسلام کے اس بطلِ جلیل نے 25جون 1944ء، بروز اتوار، نمازِ فجر کے بعد درسِ تفسیر میں سورۂ روم کے آٹھویں رکوع کی ابتدائی چار آیات کی تفسیر بیان کی۔ معمول کے مطابق آنے والے خطوط کے جوابات ساڑھے دس بجے تک لکھوائے اور آخری خط شیخ عبدالقدوس صدیقی کے نام لکھوایا۔ ساڑھے گیارہ بجے اپنی اہلیہ کے ساتھ ’’مدرسۂ عربیہ نسواں‘‘ کا معائنہ کیا اور اپنی آخری تاریخی تقریر میں بچّیوں کو حصولِ تعلیم اور ان کی تربیت کے فوائد سے متعلق ارشادات سے نوازا۔
شام کو بیت الامّت میں درسِ اقبال کی محفل میں ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کی مثنوی ’’پس چہ باید کرد اے اقوامِ مشرق‘‘ کی نظم ’’حکمتِ کلیمی‘‘ کے اس شعر ؎مردِ حق، افسوں ایں دیرِ کہن.....از دو حرفِ رَبیَ الاَعلیٰ شکن۔ پر رک گئے اور کہا ’’یہ مقامات جلد گزرنے والے نہیں، آج یہیں ٹھہر جائیں۔‘‘ شام کو جسٹس ہاشم علی خان کے گھر دعوت تھی۔ مغرب کی نماز بیت الامّت میں پڑھ کر جسٹس ہاشم علی خان کے گھر واقع، بنجارہ ہل تشریف لے گئے۔ ان کے ساتھ آل پاکستان مسلم لیگ کے راہ نما، لیاقت علی قریشی ایڈووکیٹ بھی تھے۔
ہاشم علی خان کے گھر علامہ اقبال کے کلام کے محاسن پر گفتگو ہونے لگی۔ کھانے میں دیر تھی، چناں چہ ان کے سامنے حقّہ پیش کیا گیا، ابھی انہوں نے حقّے کی نَے تھام کر ایک کش بھی پورا نہ لیا تھا کہ تشنج کا دورہ پڑگیا، اور پھر چند ہی لمحوں میں روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ آپ کا جسد خاکی بنجارہ ہل سے بیت الامت لایا گیا۔ دارالسلام کے وسیع میدان میں نماز جنازہ پڑھی گئی اور شہر سے چار میل دور مشیر آباد کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ بیت الامت سے جنازہ نکلا۔ نماز جنازہ مولانا عبدالقدیر بدایونی نے پڑھائی۔ واللہ، دو لاکھ سے زائد چاہنے والوں کا ہجوم اشک بار تھا اور رات ساڑھے دس بجے حضرت شاہ قاسم کے مزار کی مغربی جانب مدفون ہوئے۔
نواب بہادر یار جنگ کی سرورکونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت میں کہی گئی مشہور نعت
اے کہ تِرے وجود پر خالقِ دو جہاں کو ناز
اے کہ تِرا وجود ہے، وجہِ وجودِ کائنات
اے کہ تِرا سرِ نیاز، حدِّ کمالِ بندگی
اے کہ تِرا مقامِ عشق قُربِ تمام عینِ ذات
خُوگرِ بندگی جو تھے تیرے طفیل میں ہُوئے
مالکِ مصر و کاشغر، وارثِ دجلہ و فرات
اے کہ تِرے وجود پر خالقِ دو جہاں کو ناز
تِرے بیاں سے کھُل گئیں، تِرے عمل سے حل ہوئیں
منطقیوں کی اُلجھنیں، فلسفیوں کی مشکلات
مدحتِ شاہ دُوسراؐ، مجھ سے بیاں ہو کِس طرح
تنگ میرے تصوّرات، پست میرے تخیّلات
اے کہ تِرے وجود پر خالقِ دو جہاں کو ناز