تحریر: نرجس ملک
ماڈلز: دُعا، مہرین، احمد ڈار، ذوہیب بٹ
بچّے: وردہ اویس، اذان پاشا، قمروش راشد
ملبوسات: فائزہ امجد اسٹوڈیو ( ڈی ایچ اے، لاہور)
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
نوجوان شاعرہ، سبیلہ انعام صدیقی کی وطن کی چاہت و محبّت میں ڈوبی، دل کی گہرائیوں سے نکلی بہت اُلفت آمیز سی ایک دُعائیہ نظم (ملّی نغمہ) ہے۔ ؎ ’’پاک پرچم فضاؤں میں سَجتے رہیں، دِن چمکتا رہے، شب دمکتی رہے…ایک مِلّت بنیں، آگے بڑھتے رہیں، دِن چمکتا رہے، شب دمکتی رہے…میرے دریا، سمندر، پرندے، ہوا، خوش نصیبی پہ رہتے ہیں نازاں سدا… میرے پیڑوں پر پَھل پُھول کِھلتے رہیں، دِن چمکتا رہے، شب دمکتی رہے…ہر گلی، ہر نگرمیں یہاں جا بجا، شادمانی کے ڈھولک بجیں اِس طرح…سب مکینِ وطن مُسکراتے رہیں، دِن چمکتا رہے، شب دمکتی رہے …اِس پہ سایہ کسی بد نظر کا نہ ہو…کوئی رنج و الم کا بسیرا نہ ہو…اِس کے کھیتوں میں دہقاں بھی ہنستےرہیں، دِن چمکتا رہے، شب دمکتی رہے…اِس کی عظمت کی دنیا بھی ہو معترف، اِس پہ ہو یہ زمیں، آسماں منکشف…بابِ علم و ہُنراِس پہ کُھلتے رہیں، دِن چمکتا رہے، شب دمکتی رہے…روحِ اجداد کو بھی تسلّی رہے، اِس پہ رحمت خدا کی برستی رہے…کاروانِ چمن ایسے چلتے رہیں، دن چمکتا رہے، شب دمکتی رہے…مثلِ بادِبہاراں سُکوں ہو یہاں، وہ نشہ، خوشبوؤں کا فسوں ہو یہاں…حُسن پرشعراِس کےبھی ہوتے رہیں…دِن چمکتا رہے، شب دمکتی رہے۔‘‘ بلاشبہ مادرِ وطن کے عشق میں مخمور دِلوں کی آوازیں کچھ ایسی ہی ہوتی ہیں اور دھرتی ماں سے اُنس، لگاوٹ کوئی ایسی عجب، انوکھی بات بھی نہیں کہ یہ ایک ایسا فطری، قدرتی جذبہ، احساس ہے، جو ہرذی رُوح میں پیدائشی طور پر موجزن ہوتا ہے۔ انسان تو انسان، جانور، چرند پرند بھی اپنے مسکن، ٹھکانے، رین بسیرے سے دلی قرب، لگاؤ رکھتے ہیں۔
بقول راشد نور ؎ وطن کو ماں کی عقیدت سے یوں کیا تعبیر … محبّتوں کے سفر میں ہے بس یہی تصویر۔ غالباً ’’سلف صالحین‘‘ میں سے کسی کا قول ہے ’’حُبُّ الوَطَنِ مِنَ الایمان‘‘ یعنی وطن کی محبّت، ایمان کاحصّہ ہے۔ گرچہ اس قول کی کوئی مستند روایت موجود نہیں، لیکن بہرحال یہ طے ہے کہ احکاماتِ الٰہی اورسنتِ رسولؐ میں بھی اُلفتِ وطن کی نفی نہیں فرمائی گئی۔ حضرت ابراہیم ؑ کی مکّہ کو امن کا گہوارہ بنانے کی دُعا، نبی کریم ﷺ کا ہجرتِ مدینہ کے وقت شہرِ مکّہ کومخاطب کرکے کہنا کہ ’’تُو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے، اگر میری قوم مجھے یہاں سے نکلنے پر مجبورنہ کرتی،تو مَیں تیرے سوا کہیں سکونت اختیار نہ کرتا‘‘۔ (سنن الترمذی)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کہ’’ایک مرتبہ ایک شخص مکّہ مکرمہ سے آیا اور بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوا، تو مَیں نے اُس سے مکّہ کے حالات پوچھے۔
جواباً اُس نے مکّہ کے فضائل بیان کرنے شروع کردیئے، تو نبی کریم ﷺ کی آنکھیں، آنسوؤں سے تر ہوگئیں‘‘۔ اِسی طرح حضرت انسؓ کی روایت کہ حضور اکرم ﷺ جب سفر سے واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ منوّرہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے اور اگر کسی دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو شہرِ مدینہ کی محبّت میں اُسے ایڑ لگا کر تیز بھگاتے۔‘‘ (صحیح البخاری، مسند احمد بن حنبل، سنن الترمذی) اور پھر نبی کریم ﷺ کا یہ دُعا کرنا کہ ’’اے اللہ! ابراہیم ؑ تیرے بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور مَیں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکّہ مکرمہ کے لیے دُعا کی تھی، مَیں اُن کی دعاؤں کے برابر اور اُس سے ایک مثل زائد مدینہ کے لیے دُعا کرتا ہوں‘‘۔ (صحیح مسلم) یہ سب ارضِ وطن ہی سے محبّت و الفت کے واضح دلائل نہیں، تو کیا ہیں۔
باوجود اس کے کہ اُمّتِ مسلمہ کو ’’جسدِ واحد‘‘ قراردیا گیا ہے، دین میں حبّ الوطنی کی قطعاً ممانعت نہیں۔ (ہاں، اس جذبے کو اللہ اور رسول ﷺ کی محبّت پر غالب نہیں آنا چاہیے) کیوں کہ اپنے آبائی وطن سے دلی لگاؤ عین فطرتِ انسانی ہے اور ’’پاکستان‘‘ سے محبّت تو یوں بھی لازم ٹھہری کہ یہ دنیا کا وہ واحد مُلک ہے، جو دینِ اسلام کے نام پرحاصل کیا گیا۔ جس کی بنیاد ہی دو قومی نظریے اور مسلمانوں کی علیحدہ دینی و دنیاوی شناخت و تشخّص پر رکھی گئی۔ جس تحریکِ آزادی کا مقبول ترین نعرہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ‘‘ ہو، جس آزادی کی قیمت تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت اور لاکھوں انسانی جانوں کا نذرانہ پیش کرکےچُکائی گئی ہو، جس مُلک کی خاطر بسے بسائےگھر، بستیاں، عُمر بھر کی کمائیاں، مال ودولت،رشتےناتے، دوست احباب، آباؤ اجداد کی ساری میراث ایک پَل میں چھوڑدینےکے فیصلے میں کوئی تساہل و تامل نہ برتا گیا ہو۔
جس کی خاک چُومنے کی خاطر آگ کے دشت، لہو کے دریا پار کرنےکوعبادت کا درجہ دیا گیا ہو۔ وہ کیا ہے کہ ؎ اِس لیے بھی اے وطن تجھ سے محبّت کی ہے…میرے اجداد نے تیرے لیے ہجرت کی ہے۔ اور ؎ ہمارے خواب ذرا سے جو معتبر ٹھہرے … تو اے نگارِ وطن تیرے نام پر ٹھہرے۔ تو بلاشبہ ایسی مادرِ وطن سےجُنوں خیزمحبّت، عشق قطعاً کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یوں بھی بقول اجمل سراج ؎ پاکستان کا اِک مقصد تھا…مقصد پاکستان نہیں تھا۔ جب کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم عمومی طورپرگفتارہی کےغازی ہیں، کردار کے نہیں۔ تب ہی تواقبال نےکہا تھا ؎ اقبالؔ بڑا اُپدیشک ہے، مَن باتوں میں موہ لیتا ہے… گفتارکا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا۔
مانا کہ طِفل کو پیروں پرکھڑے ہونے، قدم جمانے میں وقت لگتا ہے، ہم نے نہ صرف کڑی آزمائشوں، قربانیوں، کٹھنائیوں کے بعد یہ وطن حاصل کیا، بلکہ آغازِسفر بھی صفر سے ہوا، لیکن بہرحال 76 برس( پون صدی) کچھ کم عرصہ نہیں۔ اصولی طور پر تو اب تک ہمیں ترقی یافتہ نہ سہی، تو کم از کم ترقی کی راہ پرگام زن ریاستوں میں تو ضرور شامل ہوناچاہیے تھا، مگر صد افسوس پچھلےکچھ عرصےسے تو ہم ترقیٔ معکوس کے رستے پر چل پڑے ہیں۔ سو،ارضِ وطن سے زبانی و عملی اظہارِ محبّت کی جس قدر ضرورت آج ہے، شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ وہ ہےناں ؎ وفا کا اقرار چاہتی ہے…زمین اظہار چاہتی ہے…ہماری خاطر بِچھی ہوئی ہے…سو ہم سے ایثار چاہتی ہے۔ تو اس بار جشنِ آزادی پورے جوش وخروش، دل و جاں، خشوع و خضوع سے ضرور منائیں، لیکن اس عہدِ پختہ کے ساتھ کہ ہم میں سے ہرایک اپنی اپنی جگہ اِس ماں مٹّی کا قرض اتارنے،حق اداکرنےکی پوری پوری کوشش ضرورکرے گا، خواہ وہ کوشش راہ سے ایک کانٹا، پتّھر ہٹا دینے کی صُورت ہی کیوں نہ ہو۔ کیوں کہ بہرکیف بقول عنبریں حسیب عنبر ؎ کوئی شکوہ ہو، شکایت ہو، مگراپنا ہے…تپتے صحرا میں یہی ایک شجراپنا ہے … بے گھری جن کا مقدر ہے، اُنھیں دیکھ ذرا…اور پھر شُکر بجالا کہ یہ گھر اپنا ہے۔ اور ؎ مِرا وطن ہے، مِرے شجرۂ نسب کی طرح…بغیراِس کے تھی ممکن کہاں شناخت مِری۔ توآئیے، آج کے دن ’’بزمِ ِجشنِ آزادی‘‘ کےاِس چھوٹےسےتحفےکو وصولتے ہوئے آپ بھی ہمارے ساتھ ماہم حیاصفدر کی اس دُعامیں شریک ہوجائیے۔ ؎ خُوش نُما پھولوں کا خُوش رنگ چمن، پاکستان… پاک لوگوں کی جگہ ہےیہ وطن، پاکستان…مہرباں تجھ پہ رہیں میرے وطن سب افلاک…شاد وآباد رہیں تیرے یہ بَن، پاکستان…تیری گلیوں میں بہاروں کی قبائیں اُتریں… ہیں تِرے شہر سبھی رشکِ عدن، پاکستان…تیری پیشانی پہ روشن رہیں تارے ہردَم…روشنی میں ہیں تِرے کوچے مگن، پاکستان…چاند تاروں کے مقابل ہو یہ مٹی تیری… چمکے ہر ذرّہ تِرا بَن کے کرن، پاکستان…تیری قسمت میں بلندی لکھی ایسی رب نے…دیکھتا ہےتجھے جُھک جُھک کے گگن، پاکستان…تیری حُرمت پہ کوئی حرف نہ آنے دُوں کبھی…وار دوں نام پہ تیرے مَیں یہ تَن، پاکستان…سرحدیں تیری تو محفوظ رہیں گی دائم…لاکھ کرتا رہے دشمن گو جتن، پاکستان…میری اللّٰہ سے دُعا ہےکہ سزاپائےوہ…زندگی میں جوکرےتجھ سے غبن، پاکستان۔