وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہماری اپوزیشن کچھ سبق نہیں سیکھ رہی، اپوزیشن کی سیاست کا انداز اور طریقہ کار آج بھی وہی ہے۔
اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے دوران خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں آتے ہوئے مجھے فخر محسوس ہو رہا تھا، فخر کے ساتھ ایک بھاری ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اس ہاؤس میں کبھی کوئی گالی نہیں دی، ہم گالم گلوچ پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم نے اس ہاؤس کے سامنے اپنا نکتہ نظر رکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تقریر میں سلیکٹڈ سرکار کو سلیکٹڈ کا نام دلوایا، ہمیشہ کوشش کی کہ اپنے اسلاف کے نظریے پر عمل پیرا رہوں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے ہمیشہ مہذب انداز میں اپنا نکتہ نظر پیش کیا، گالم گلوچ اور بدتہذیبی ہماری سیاست نہیں، ہم اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی جمہوری دائرے میں رہنے کی کوشش کرتے تھے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنا چاہ رہے تھے، جو حکومت ہم پر مسلط کی گئی اس کو بےنقاب کرنا چاہ رہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری ہر وقت سوچ یہی تھی ہم سے ایسا کام نہ ہو جس سے نظام اور جمہوریت کو نقصان ہو۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ میں بھی ہمارا مؤقف ہوتا تھا کہ آپ احتجاج کریں، دھرنا نہ دیں، کسی کو موقع نہ دیں کہ وہ فائدہ اٹھائیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے اس بات پر زور دیا کہ عدم اعتماد سے سلیکٹڈ وزیراعظم کو نکالنا ہے، تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، ہم سب کی محنت اور تمام جماعتوں کے اتحاد کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔
چیئرمین پی پی کا کہنا تھا کہ ہم نے تاریخ رقم کی، ایک وزیراعظم کو پارلیمنٹ کے ووٹ کے ذریعے گھر بھیجا، یہ ایک تاریخی لمحہ تھا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم سب کا یہی ارادہ تھا جو غلطیاں ہم سے پہلے ہوئی تھیں، انہیں درست کرنے کی کوشش کریں۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سب کی یہی سوچ تھی سویلین اداروں کو مضبوط بنائیں، پارلیمان کے وقار کو بحال کیا جائے۔ سب کا یہی ارادہ تھا کہ جمہوریت کو مضبوط کیا جائے، تاریخ فیصلہ کرے گی کہ ہم اس کوشش میں کامیاب رہے یا نہیں رہے۔
اپنے خطاب کے دوران وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ حالات کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں، حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ آئینی دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن مخالفت کرے، زور و شور سے کوشش کرے، حکومتی غلط پالیسیوں کی نشاندہی کرے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اپوزیشن دائرے میں رہ کر جمہوری انداز میں اپنی آئینی ذمہ داری نبھائے۔
انہوں نے کہا کہ جب حکومت سنبھالی تو اپوزیشن کی ایسی جماعت ملی جن کو جمہوریت، آئین و پارلیمان کی فکر نہیں تھی۔ ایسی اپوزیشن ملی جس کو ملک، جماعت اور کارکنوں کی فکر نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی سیاست کرتے ہوئے وہ ریڈ لائنز کراس کیں جو تاریخ میں کبھی کراس نہیں ہوئیں۔
چیئرمین پی پی نے کہا کہ ماضی میں وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکایا گیا، شہید کیا گیا، تب بھی ایسی سیاست نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو جب جلا وطن کیا گیا تب بھی ایسی کوئی ریڈ لائن کراس نہیں ہوئی، جب ہم آمروں، مشرف کی آمریت کیخلاف اپوزیشن کرتے تھے تب بھی ایسی ریڈلائن کراس نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ بینظیر کو شہید کیا گیا تب بھی پی پی قیادت نے "پاکستان کھپے" اور "جمہوریت سب سے بہترین انتقام ہے" کا نعرہ دیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسی اپوزیشن ملی جس نے تاریخ میں پہلی بار جناح ہاؤس اور فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔
بلاول نے کہا کہ ہمیں نظر آرہا ہے کہ ہماری اپوزیشن کچھ سبق نہیں سیکھ رہی، اپوزیشن کی سیاست کا انداز اور طریقہ کار آج بھی وہی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن کی سیاست کا طریقہ کار وہی ہے کہ میں کھیلوں گا یا کسی کو کھیلنے نہیں دوں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب آپ سیاست کو ذاتی دشمنی تک لے جاتے ہیں تو اس کا نقصان ریاست، جمہوریت اور سیاست کو ہوتا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم الیکشن کی طرف بڑھ رہے ہیں، کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم اس صورتحال کو مفاہمت کی طرف کیسے لے کر جائیں گے؟ ہم کیسے آخر یہ نظام کو چلنے دیں گے؟
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پی پی کا مؤقف اور رائے ہے نیا میثاق جمہوریت نہ صحیح پرانا میثاق جمہوریت ہی صحیح۔ پرانے میثاق جمہوریت پر تمام سیاسی جماعتوں، اداروں کو بھی ماننا پڑے گا یا اس ڈائیلاگ کا حصہ ہونا پڑے گا جس میں ہم بیٹھ کر فیصلہ کریں کیا واپڈا کو وفاقی وزیر چلائے گا یا سپریم کورٹ کا جج چلائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں آخر کار وہ رولز آف دی گیم آپس میں طے کرنا ہے۔