• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قصص القرآن: قصہ حضرت موسیٰ و حضرت خضر علیہما السلام

حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں : خدائی کے دعوے دار، دنیا کا سب سے ظالم و جابر بادشاہ، فرعونِ مصر ’’منفتاح دوم‘‘ کے عالی شان محل میں پرورش پانے والے اللہ کے جلیل القدر پیغمبر، حضرت موسیٰ بن عمران ؑ، بنی اسرائیل میں مبعوث ہونے والے وہ عظیم المرتبت نبی ہیں، جنہیں ربِ ذُوالجلال سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا اورکتابِ مقدّس کے علاوہ نو معجزات بھی عطا فرمائے گئے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے۔ ترجمہ:’’اور ہم نے موسیٰ کو نومعجزے عطا فرمائے۔‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل، آیت 101) قرآنِ کریم کی سورۂ کہف میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضرؑ کے ایک سبق آموز سفر کا احوال بیان فرمایاہے، جس کی مزید تفصیل نبی آخرالزماں، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ نے احادیثِ مبارکہ میں بیان فرمائی۔

حضرت خضر علیہ السلام کا عِلم: ایک دن حضرت ابنِ عباس ؓ اور حضرت حُر بن قیس فزاری حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھی کے حوالے سے بحث کررہے تھے۔ حضرت ابنِ عباس ؓ کا کہنا تھا کہ وہ حضرت خضرؑ تھے۔ اتنے میں اُن کے پاس سے حضرت ابی بن کعب کا گزر ہوا، تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے انہیں روکا اور کہا کہ ’’مَیں اورمیرے یہ رفیق حضرت موسیٰ ؑکے اُن ساتھی کے حوالے سے بحث کر رہے ہیں، جن سے انہوں نے ملاقات چاہی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے ان سے متعلق کچھ ذکر سُنا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ہاں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ ایک دن حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے آپ ؑ سے پوچھا، کیا آپ جانتے ہیں کہ (دنیا میں) کوئی آپ سے بھی بڑھ کرعالم موجود ہے؟

حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا ’’نہیں۔‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کے پاس وحی بھیجی کہ ’’ہاں ہمارا بندہ خضر ہے۔ (جس کا عِلم تم سے زیادہ ہے)۔‘‘ حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ سے دریافت کیا کہ ’’خضر ؑ سےملنے کی کیا صُورت ہے؟‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو اُن سے ملاقات کی علامت قرار دیا اور اُن سے کہہ دیا کہ ’’جب تم اس مچھلی کو گم کردو، تو (واپس) لوٹ جائو۔ تب خضرؑ سے تمہاری ملاقات ہوگی۔‘‘ تب حضرت موسیٰ ؑؑ چلے اور دریا میں مچھلی کی علامت تلاش کرتے رہے۔ اُس وقت اُن کے ساتھی نے کہا، ’’جب ہم پتّھر کے پاس تھے۔ کیا آپ نے دیکھا تھا کہ میں اُس وقت مچھلی کا کہنا بھول گیا تھا اور شیطان ہی نے مجھے اس کا ذکر بُھلا دیا تھا۔‘‘حضرت موسیٰ ؑنے کہا کہ ’’اُسی مقام کی تو ہمیں تلاش ہے۔‘‘ تب وہ اپنے پچھلے قدموں کے نشانات پر باتیں کرتےہوئے لوٹے۔ وہاں انہوں نے حضرت خضر ؑ کو پایا، پھر اُن کا وہی قصّہ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب، قرآنِ مجید میں بیان فرمایا۔ (صحیح بخاری، 7478، صحیح مسلم، 6168)۔

حضرت خضر علیہ السلام کی تلاش: حضرت موسیٰ ؑ پر وحی آئی کہ’’ (اے موسیٰ !) ہمارا ایک بندہ مجمع البحرین پر ہے، وہ آپؑ سے زیادہ باعلم ہے‘‘۔ حضرت موسیٰ ؑ کو جب یہ معلوم ہوا، تو اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ ’’جب وہ مجھ سے زیادہ باعلم ہیں تو مجھے ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔‘‘ چناں چہ عرض کیا، ’’یااللہ! مجھے اُن کا پتا، نشان بتادیجیے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ’’ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لو اور مجمع البحرین (دو دریائوں کے ملنے کی جگہ) کی طرف سفر کرو۔ راستے میں جس جگہ مچھلی تمہاری زنبیل سے نکل کر گُم ہوجائے، بس وہی جگہ ہمارے اس بندے کے ملنے کی ہے۔‘‘ حضرت موسیٰ ؑ نے حکمِ خداوندی کے مطابق ایک مچھلی زنبیل میں رکھی اور اپنے خادم کے (حضرت یوشع بن نونؑ جو حضرت موسیٰ ؑ کے بعد اُن کے جانشین بنے اور نبوت سے سرفراز ہوئے) ساتھ سفر پر روزانہ ہوگئے۔ 

دورانِ سفر ایک پتھر کے پاس پہنچ کر اُس پر سر رکھ کر لیٹ گئے۔ اچانک مچھلی حرکت میں آئی اور زنبیل سےنکل کر دریا میں چلی گئی۔ مچھلی کے زندہ ہوکر دریا میں چلے جانے کے ساتھ ایک دوسرا معجزہ یہ ہوا کہ جس راستے سے مچھلی دریا میں گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے وہاں پانی کا بہائو روک دیا اور اس جگہ ایک سرنگ وجود میں آگئی۔ حضرت یوشع بن نونؑ اس عجیب واقعے کو دیکھ رہے تھے، لیکن جب حضرت موسیٰ ؑ بیدار ہوئے، تو حضرت یوشع بن نونؑ مچھلی کا یہ عجب واقعہ انہیں بتانا بھول گئے اور اُس جگہ سے آگے روانہ ہوگئے۔ پورے ایک دن، ایک رات کا مزید سفر کیا اور دوسری صبح حضرت موسیٰ ؑؑ نے اپنے رفیق سے کہا ’’ہمارا ناشتا لائو‘‘ اس پر اُن کے خادم کو مچھلی کا واقعہ یاد آیا اور کہا کہ ’’مجھے شیطان نے بُھلادیا تھا۔‘‘ پھر بتایا کہ وہ ’’مچھلی تو زندہ ہوکر دریا کے اندر چلی گئی۔‘‘ اس پر حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا ’’وہی ہماری منزل تھی، جہاں مچھلی زندہ ہوکر گُم ہوئی۔‘‘ (صحیح بخاری122)۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام سفر پر:دونوں اپنے قدموں کے نشان پر چلتے ہوئے واپس اُس جگہ پہنچے، جہاں مچھلی غائب ہوئی تھی۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ سمندر کے کنارے سبز چبوترے پر اللہ کا ایک بندہ کپڑا اوڑھے لیٹا ہوا ہے۔ کپڑے کے دونوں سرے سر اور قدموں کے نیچے ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ سمجھ گئے کہ ہو نہ ہو، یہی اللہ کے وہ نیک بندے ہیں، جن کی تلاش میں یہاں تک کا سفر کیا ہے۔ جیساکہ قرآنِ کریم میں ارشادِ الٰہی ہے ’’پس، انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا، جسے ہم نے اپنی طرف سے رحمت دی تھی اور انہیں اپنے پاس سے علم سِکھایا تھا۔‘‘ (سورۂ کہف55) حضرت موسیٰ ؑنے سلام کیا تو چہرے سے کپڑا ہٹایا، سلام کا جواب دیا اور پوچھا کہ یہاں سلام کرنے والا کون آیا؟ پھر کہا ’’کیا آپ موسیٰ ؑ ہیں؟‘‘ فرمایا ’’ہاں۔‘‘ پھر پوچھا ’’کیا بنی اسرائیل کے پیغمبر ہیں؟‘‘ 

آپ نے فرمایا ’’جی۔‘‘ حضرت موسیٰ ؑ نے اُن سے (جن کا نام خضر تھا) کہا کہ ’’جو علم آپ کو (اللہ کی طرف سے) سِکھایا گیا ہے، اگر آپ اُس میں سے کچھ مجھے بھی سِکھادیں تو مَیں آپ کے ساتھ ہو جائوں۔‘‘ کہا کہ ’’تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کر سکو گے، اورجس بات کی تم کو خبر ہی نہیں اُس پر صبر کیسے کرسکتےہو؟‘‘ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا ’’خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے اور مَیں آپ کے ارشاد کے خلاف نہ کروں گا۔‘‘ پھر مزید کہا کہ ’’اگر تم میرے ساتھ رہنا چاہو، تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا، جب تک مَیں خود اُس کا ذکر تم سے نہ کر دوں۔‘‘ چناں چہ دونوں چل پڑے۔ یہاں تک کہ ایک کشتی میں سوار ہوئے۔ 

حضرت خضرؑاس کے تختے توڑ دیے۔ حضرت موسیٰ ؑ ؑ نے کہا ’’کیا آپ اسے توڑ رہے ہیں کہ کشتی والوں کو ڈبودیں گے؟ یہ تو آپ نے بڑی خطرناک بات کردی۔‘‘ حضرت خضر ؑ نے جواب دیا کہ ’’مَیں نے تو پہلے ہی تم سے کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کرسکو گے۔‘‘ حضرت موسیٰ ؑؑ نے جواب دیا کہ ’’میری بُھول پر میرا مواخذہ نہ کیجیے اور میرے معاملے میں مجھ پر مشکل نہ ڈالیے۔‘‘ یعنی سختی نہ کریں اور درگزر کا معاملہ کریں۔ پھر دونوں چلے، یہاں تک کہ راستے میں ایک لڑکا ملا تو حضرت خضر ؑنے اسے مار ڈالا۔حضرت موسیٰ ؑ نے کہا کہ ’’آپ نے ایک بے گناہ شخص کو ناحق بغیر کسی قصاص کے مار ڈالا؟ بے شک آپ نے تو بڑی ناپسندیدہ بات کی۔‘‘

حضرت خضرؑ نے کہا ’’کیا مَیں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہیں کرسکتے؟‘‘ حضرت موسیٰ ؑنے کہا کہ ’’اگر اب اس کے بعد مَیں آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں، تو بے شک آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا۔ اس لیے کہ اب آپ کے پاس معقول عذر ہوگا۔‘‘ پھر دونوں چلے۔ یہاں تک کہ ایک گائوں والوں کے پاس پہنچے اور اُن سے کھانا طلب کیا، تو انہوں نے اُن کی مہمان نوازی سے صاف انکار کردیا۔ پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی، جو جُھک کر گرنے والی تھی۔ حضرت خضرؑ نے اُسے سیدھا کردیا۔حضرت موسیٰ ؑنے کہا ’’اگر آپ چاہتے، تو اُن سے اس کا معاوضہ لیتے۔ (تاکہ کھانا وغیرہ کھالیتے)۔‘‘ حضرت خضر ؑ نے کہا کہ ’’اب میرے اور تمہارے درمیان جدائی ہے۔ اب میں تمہیں ان باتوں کی اصلیت بھی بتادوں گا، جن پر تم سے صبر نہ ہوسکا۔‘‘ (سورۂ کہف، آیات 64تا 78) ۔ (صحیح بخاری حدیث 3401)۔

تینوں واقعات کی اصل حقیقت: اب جدائی کا وقت تھا۔ اس لیے حضرت خضر ؑ نے ضروری خیال کیا کہ حضرت موسیٰ ؑ کو تینوں منفرد واقعات کی حقیقت سے آگاہ اور باخبر کر دیا جائے، تاکہ حضرت موسیٰ ؑ کسی مغالطے کا شکار نہ رہیں اور یہ سمجھ لیں کہ علمِ نبوت اور ہے، جس سے انہیں نوازا گیا ہے اور بعض تکوینی امور کا علم اور ہے، جو اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت کے تحت حضرت خضر ؑ کو دیا گیا۔ اور اللہ تعالیٰ کے تفویض کردہ اس علم کے مطابق انہوں نے ایسے کام کیے، جو علمِ شریعت کی رُو سے جائز نہیں تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ حضرت موسیٰ ؑ باوجود وعدے کے خاموش نہ رہ سکے تھے۔ دراصل، انہی تکوینی امور کی انجام دہی کی وجہ سے اہلِ علم کی اکثریت کی رائے ہے کہ حضرت خضرؑ انسانوں میں سے نہیں تھے۔ 

اب حضرت خضرؑنے تینوں واقعات کی وجہ بتانی شروع کی، جسے سورۂ کہف میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ (ترجمہ) ’’کشتی چند مسکینوں کی تھی، جو دریا میں کام کاج کرتے تھے۔ مَیں نے اُس میں توڑ پھوڑ کرنے کا ارادہ کر لیا، کیوں کہ اُن کے آگے ایک بادشاہ تھا، جو ہر ایک صحیح سالم کشتی کو جبراً ضبط کرلیتا تھا۔ اور اس لڑکے کے ماں باپ ایمان والے تھے۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ (وہ بڑا ہوکر بدکردار ہوگا) کہیں یہ اپنی سرکشی اور کُفر سے انہیں عاجز و پریشان نہ کردے۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ اُنہیں اُن کا پروردگار اس کے بدلے اس سے بہتر پاکیزگی والا اور اس سے زیادہ محبّت و الفت والا بچّہ عنایت فرمائے۔ دیوار کا قصّہ یہ ہے کہ اس شہر میں دو یتیم بچّے ہیں، جن کا خزانہ اُن کی اس دیوار کے نیچے دفن ہے۔ان کا باپ بڑا نیک شخص تھا، تو تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ بچّے اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور اپنا یہ خزانہ نکال لیں۔ یہ تمہارے پروردگار کی مہربانی ہے اور یہ کام میں نے اپنی طرف سے نہیں کیے، اور یہ تھی اصل حقیقت ان واقعات کی، جن پر تم سے صبر نہ ہوسکا۔‘‘ (سورۂ کہف 79 تا 82)۔

اللہ کے علم و فضل کی کوئی انتہا نہیں: حضرت ابی بن کعب سے مروی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ جب حضرت خضرؑ سے ملے اور علم سیکھنے کے لیے ساتھ سفر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، تو حضرت خضرؑ بولے کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکوگے۔ ’’اے موسیٰ ! مجھے اللہ نے ایسا علم دیا ہے، جسے تم نہیں جانتے اور تمہیں جو علم دیا ہے، اُسے میں نہیں جانتا۔‘‘ اس پرحضرت موسیٰ ؑؑ نے کہا کہ ’’خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے اور مَیں کسی بات میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔‘‘ پھر دونوں دریا کے کنارے پیدل چلے اور ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ 

اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی۔ پھر سمندر میں اس نے ایک یا دو چونچیں ماریں۔ اُسے دیکھ کر حضرت خضرؑ بولے کہ ’’اے موسیٰ ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم لیا ہوگا، جتنا اس چڑیانے سمندر کے پانی سے۔‘‘ (صحیح بخاری حدیث 122) حدیثِ مبارکہ میں حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضرؑ کے قصّے کے اختتام پر اللہ کے نبیؐ نے فرمایا۔ ’’اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ پر رحم فرمائے، ہم چاہتے تھے کہ کاش، حضرت موسیٰ ؑ ؑ صبرکرتے تو اُن کے مزید حالات بھی ہم سے بیان کیے جاتے۔‘‘ (صحیح بخاری 3401)۔

خضر ؑ کے معنی سرسبز: حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’حضرت خضرؑ کا یہ نام اس وجہ سے ہوا کہ وہ ایک سوکھی زمین (جہاں سبزے کا نام و نشان بھی نہ تھا یعنی بنجر زمین تھی) پربیٹھے تھے، لیکن جوں ہی وہ وہاں سے اُٹھے، تو وہ جگہ سرسبز ہوکر لہلہانے لگی۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث3402) خضرؑ کے لغوی معنی سرسبز کے ہیں۔

حاصلِ مطالعہ: حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضر ؑ کے سفرکے اس قصّے میں اہلِ ایمان کے لیے کئی سبق پنہاں ہیں۔ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ ایک جلیل القدر نبی کو اللہ تعالیٰ نے عملی طور پر یہ بتادیا کہ دیکھو، تم نہیں جانتے کہ اللہ نے کس کو کیا کیا عطا کیا ہے؟ حالاں کہ اللہ چاہتا تو صرف وحی کے ذریعے ہی مطلع فرما دیتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ضروری سمجھا کہ آنے والی نسلوں کے لیے اس بات کا عملی مظاہرہ ہو۔ 

اللہ رب العزت کا کارخانۂ مشیت جن مصلحتوں اور حکمتوں پر چل رہا ہے، وہ چوں کہ بنی نوع انسان کی نظروں سے اوجھل ہیں، چناں چہ انسان ہر بات پر حیران و پریشان ہو جاتا ہے اور بعض اوقات تو ناشکری و شکایات کے الفاظ ادا کر ڈالتا ہے۔ بظاہر جس چیز میں اُسے برائی نظر آتی ہے، اُسے وہ اپنے لیے غلط سمجھتا ہے، لیکن اگر اُس کی حقیقت عیاں کردی جائے، تو اسے احساس ہوگا کہ میرے رب نے جو میری بہتری کے لیے مناسب سمجھا، وہ کیا۔ چناں چہ اللہ کے فیصلوں پر تنقید و ناشکری اور بے صبری اہلِ ایمان کا شیوہ نہیں ہے۔ 

بعض اوقات جو کچھ ہمیں جیسا نظر آتا ہے، ویسا ہوتا نہیں۔ اسی لیے حکم ہے کہ ہر حال میں اللہ کا شُکر ادا کیا جائے۔ ایک اور اہم سبق استاد و شاگرد کی وہ تعظیم ہے، جس نے ایک جلیل القدر نبی کو پابند کردیا کہ وہ اپنے استاد کی نہ صرف عزّت و تکریم کریں، بلکہ اُن کا اتباع لازم ہے۔ اللہ کے دو عظیم بندوں کا یہ سفر، امّتِ مسلمہ کے لیے ایک پیغام بھی ہے کہ شاگرد اپنے استاد سے افضل و اعلیٰ ہی کیوں نہ ہو، استاد کا مقام و مرتبہ بہرحال اُس سے بلند ہے۔