• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنی اسرائیل کی شان دار فتح: بنی اسرائیل کی مسلسل نافرمانی، سرکشی اور جہاد سے انکار کی بِنا پر اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو چالیس سال تک صحرائے تیہ میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔ ابھی اُن کی اَسیری کی مدّت پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ حضرت موسیٰ و ہارون علیہم السلام انتقال فرماگئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خادمِ خاص، یوشع بن نون علیہ السلام کو حکم دیا کہ ’’بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر جائو، قومِ عمالقہ و دیگر سے جہاد کرو اور اپنے آباؤ اجداد کی سرزمین ارضِ مقدّس کو آزاد کرواؤ۔‘‘ وادئ تیہ میں قید کے چالیس سال مکمل ہوچُکے تھے، چناں چہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت یوشع علیہ السلام بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کے چھے لاکھ سے زائد افراد کو لے کر جہاد کے لیے نکلے۔

طویل اور سخت ترین جنگ کے بعد اُنھیں شان دار کام یابی نصیب ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ، آیت 12 میں کیے گئے اپنے وعدے کے مطابق کنعان، فلسطین اور شام تک کا پورا علاقہ بنی اسرائیل کے حوالے کردیا۔ علّامہ عمادالدین ابنِ کثیرؒ نے لکھا ہےکہ ’’اس جنگ میں بے شمار دولت، مال و متاع اور ہیرے جواہرات بنی اسرائیل کے ہاتھ آئے۔ قومِ عمالقہ کے بارہ ہزار مرد و خواتین کو تہ تیغ کیا گیا۔ بہت سے بادشاہوں سے مقابلہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت یوشع بن نون نے شام کے اکتیس بادشاہوں پر غلبہ پایا تھا۔‘‘ (قصص الانبیاء ابن کثیرؒ، 489)۔

پُرانی ڈگر پر واپسی: مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ لکھتے ہیں کہ ’’یوشع علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے تمام مفتوحہ علاقے بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کے درمیان تقسیم کردیئے، تاکہ وہ امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کریں اور دینِ حق کے لیے سرگرم رہیں۔ حضرت یوشع علیہ السلام آخری عُمر تک ان بارہ قبیلوں کی نگرانی اور اصلاحِ حال میں مصروف رہے۔ آپ نے خاندانوں اور قبیلوں میں سردار مقرر کیے اور ہر قبیلے میں معاملات و مناقشات کے فیصلوں کے لیے قاضیوں کو نام زد کیا۔ حضرت موسیٰ ؑکے بعد حضرت یوشع علیہ السلام27سال تک حیات رہے اور127سال کی عُمر میں اُن کا انتقال ہوگیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے انتقال کے بعد تقریباً ساڑھے تین سو سال تک یہ نظام یُوں ہی چلتا رہا۔ 

اس تمام عرصے میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر بہت سے انبیاء مبعوث فرمائے، جو اُنھیں وعظ و نصیحت کرتے رہے، لیکن وہ بتدریج اپنی پُرانی ڈگر پر آگئے۔ دُنیا بھر کی برائیوں کو اپنانے کی شوقین اس بدنصیب قوم کی مسخ فطرت، تباہ ذہنیت اور دین سے بے زاری سب پر عیاں تھی، قدم قدم پر ناشُکری، نافرمانی، حجّت، سرکشی اور غرور و تکبّر اُن کی فطرت کا حصّہ تھے۔ پھر بارہ ٹکڑوں میں بٹی اس قوم میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے ہمسائے کے اکثر قبائل اُن پر حملہ آور ہوتے رہتے۔ کبھی عمالقہ چڑھ دوڑتے، کبھی فلسطینی، کبھی مدیانی تو کبھی آرامی، جب کہ آئے دن لُوٹ مار اور شب خون مارناان کا معمول تھا۔ (قصص القرآن، جلد 2،صفحہ57)۔

جالوت کا خوف ناک حملہ:چوتھی صدی عیسوی کے آخر میں غزہ کے فلسطینی ان پر حملہ آور ہوئے اور اُن کا متبرک صندوق ’’تابوتِ سکینہ‘‘ چھین کر لے گئے۔ اس میں توریت کا اصل نسخہ، موسیٰ و ہارون علیہم السلام کے عصاء، پیرہن اور من کا مرتبان محفوظ تھے۔ بعض آثار میں مذکور ہے کہ حضرت الیسع علیہ السلام کے انتقال کے بعد مصر و فلسطین کے درمیان بحرِ روم کے کناروں پر آباد قوم عمالقہ کا جابر و ظالم حکم ران ’’جالوت‘‘ اسرائیل کی آبادیوں پر قبضہ کرکے اُن کے سرداروں اور نام وَر افراد کو قیدی بناکر اپنے ساتھ لے گیا، باقی کو مقہور و مغلوب کرکے ان پر خراج مقرر کردیا اور توریت بھی ضایع کردیا۔ 

بنی اسرائیل کے لیے یہ بڑا نازک دَور تھا۔ قوم میں نہ کوئی نبی تھا، نہ سردار و امیر۔ خاندانِ نبوت میں سے ایک حاملہ خاتون بچی تھیں، جنہوں نے ایک بچّے کو جنم دیا، توبچّے کا نام شمویل رکھاگیا۔شمویل ذرا بڑے ہوئے، تو والدہ نے بنی اسرائیل کے ایک بزرگ اور صالح شخص کے پاس تعلیم و تربیت کے لیے بھیج دیا۔ آپؑ جلد ہی توریت کے ایک بڑے عالم و فاضل کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے۔ بنی اسرائیل کے لیے ایک طویل عرصے بعد حضرت شمویل ؑ کی شکل میں ایک دینی و مذہبی شخصیت کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اُنہیں منصبِ نبوّت سے سرفراز فرما کر بنی اسرائیل کی ہدایت پر مامور فرما دیا۔ (روح المعانی، جلد2، صفحہ142)۔

بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست: شمویل علیہ السلام کے زمانے میں بھی جالوت اور اس کی قوم کی شر انگیزیاں، ظالمانہ شرارتیں، لُوٹ مارکا سلسلہ جاری و ساری تھا۔ حضرت شمویلؑ کے درس و تبلیغ سے اُن کے اندر کچھ غیرتِ ایمانی جاگی، تو وہ حضرت شمویلؑ کے پاس آئے اور درخواست کی کہ ہم پر ایک بادشاہ مقرر کردیں۔اس حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’جب انھوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ بنادیجیے، تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔‘‘پیغمبر نے کہا کہ ’’اگر تمہیں جہاد کا حکم دیا جائے، تو عجب نہیں کہ تم لڑنے سے پہلو تہی کرو۔‘‘ 

انھوں نے کہا، ’’بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہیں کریں گے؟ ہم تو اپنے گھروں سے اُجاڑے گئے ہیں اور بچّوں سے دُور کردیئے گئے ہیں۔‘‘ (سورۃ البقرہ، 246)۔حضرت شمویل علیہ السلام بنی اسرائیل کی نافرمانی اور سرکشی سے بخوبی واقف تھے، اس لیے آپؑ نے کہا کہ ’’اگر مَیں نے کسی کو بادشاہ مقرر کردیا اور اُس نے جہاد کا حکم دیا، تو تم بھی اپنے بزرگوں کی طرح اُس کا حکم ماننے سے انکار کردوگے۔‘‘ حضرت شمویلؑ کی بات سُن کر بنی اسرائیل کے لوگوں نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔ ’’اے اللہ کے نبی! اب ایسا نہیں ہوگا۔ ہم بہت زیادہ ذلیل و رُسوا اور تباہ و برباد ہوچکے ہیں، اگر بادشاہ نے جہاد کا حکم دیا، تو ہم دُشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔‘‘

طالوت بادشاہ بنادیئے گئے: بنی اسرائیل کے اصرار پر حضرت شمویل علیہ السلام نے دُعا فرمائی۔ اس حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ’’اور اُن کے نبی ؑ نے اُن سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ’’طالوت‘‘ کو تمہارا بادشاہ بنادیا ہے۔‘‘ یہ سُن کر وہ بولے ’’بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے تو بہت زیادہ بادشاہت کے حق دار ہم ہیں اور اس کے پاس تو بہت سی دولت بھی نہیں ہے۔‘‘ نبی ؑ نے فرمایا، ’’سُنو! اللہ تعالیٰ نے اُنھیں تم پر برگزیدہ کیا ہے اور اُنھیں علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے۔ بات یہ ہے کہ اللہ جسے چاہے، اپنا مُلک دے۔ وہ بڑا کشادگی والا اور عِلم والا ہے۔‘‘ 

نبی ؑنے اُن سے مزیدکہا ’’ان کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئے گا، جسے فرشتے اُٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسلّی بخشنے والی چیز ہوگی اور کچھ اور چیزیں بھی ہوں گی، جوموسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کا ترکہ ہے۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو، تو اس میں تمہارے لیے ایک بڑی نشانی ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ،247، 248)۔دراصل، حضرت طالوت بنی اسرائیل کے بادشاہوں کی نسل سے نہیں تھے۔ وہ غریب اور ایک عام فوجی تھے، جس پر انہیں اعتراض تھا، لیکن نبی ؑ نے انہیں بتایا کہ ’’یہ میرا انتخاب نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔ علاوہ ازیں، قیادت و سیادت کے لیے مال سے زیادہ علم و عقل اور جسمانی قوت و طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اور طالوت ان سب میں تم سب میں ممتاز ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس منصب پر سرفراز فرمایا ہے وہ جسے چاہتا ہے، اپنی رحمت و عنایت سے نوازتا ہے۔وہ علیم ہے، جانتا ہے کہ بادشاہت کا مستحق کون ہے اور کون نہیں۔ 

معلوم یُوں ہوتا ہے کہ جب نبی ؑ نے انہیں یہ بتایا کہ یہ تقرری اللہ کی طرف سے ہے، تو انھوں نے اپنے اطمینان کے لیے مزید کسی نشانی کا مطالبہ کیا۔ چناں چہ اگلی آیت میں تابوتِ سکینہ کا ذکر ہے، جو اُن کے لیے نہایت متبرک تھااور جسے اُن کے دُشمن اُن سے چھین کر لے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر وہ تابوت فرشتوں کے ذریعے حضرت طالوت کے دروازے پر پہنچادیا، جسے دیکھ کر بنی اسرائیل خوشی سے نہال ہوگئے اور انہوں نے طالوت کی بادشاہت قبول کرلی۔ تابوت کی واپسی ان کے لیے فتح و سکینت کی علامت تھی۔ (تفسیر، مولانا صلاح الدین یوسف،صفحہ 105)۔

طالوت کون تھے؟: حضرت عکرمہؓ اور حضرت سعدیؒ فرماتے ہیں کہ ’’طالوت سقّہ تھے، یعنی پانی پلایا کرتے تھے۔ حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ ’’وہ کھالوں کو خشک کرکے چمڑا بنانے کا کام کرتے تھے۔‘‘ اسی وجہ سے بنی اسرائیل نے اعتراض کیا تھا کہ وہ نہایت غریب ہیں۔ گھٹیا اور نیچ کام کرتے ہیں۔ بنی اسرائیل کے اعتراض کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ابھی تک جتنے بھی نبی آئے، وہ ’’آلِ لاوی‘‘ سے تھے۔ جب کہ بادشاہ ’’آلِ یہودا‘‘ سے ہوتے تھے اور طالوت کا تعلق آلِ بنیامین سے تھا۔ (قصص الانبیاء، ابن کثیرؒ،صفحہ531)۔

بنی اسرائیل کی بزدلی: حضرت طالوت نے بعد میں قومِ عمالقہ کے سخت گیر بادشاہ جالوت سے جنگ کا اعلان کردیا۔ حضرت طالوت کو بنی اسرائیل کے قول و فعل کے تضاد کا علم تھا، چناں چہ اُنھوں نے میدانِ جنگ میں جانے سے پہلے اُن کی ثابت قدمی آزمانا چاہی۔ اس واقعے کو اللہ نے قرآن میں یُوں بیان فرمایا ہے، ترجمہ،’’جب طالوت لشکروں کو لے کر نکلے، تو کہا سُنو! اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے، جس نے اس میں سے پانی پی لیا، وہ میرا نہیں اور جو اسے نہ چکھے، وہ میرا ہے۔ 

ہاں، یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلّو بھر لے۔ لیکن سوائے چند کے، باقی سب نے وہ پانی پی لیا، پھر جب طالوت مومن لوگوں سمیت نہر سے گزر گئے، تو وہ کہنے لگے، آج تو ہم میں طاقت نہیں ہے کہ جالوت اور اس کی فوج سے لڑیں۔‘‘ (سورۃ البقرہ، 249)۔ اکثر مفسّرین کی رائے ہے کہ جس نہر کا اس واقعے میں تذکرہ ہے، وہ نہرِ اردن ہے (البدایہ والنہایہ، جلد2،صفحہ15)۔

حضرت طالوت کی دُعا: مجاہدین کا لشکر آگے بڑھا اور دُشمن کی فوج کے مقابل صف آرا ہوا۔ کہاں ایک طرف اسلحے سے لیس ہزاروں کی تعداد میں قومِ عمالقہ کے جنگجو اور کہاں صرف تین سو دس مجاہدین۔ یہ وہ لمحہ تھا کہ جب سامنے دُشمنوں کی فوج ظفر موج کو دیکھا، تو خود کو تعداد میں کم سمجھ کر کم زوری اور بزدلی کی وجہ سے احساسِ کم تری کا شکار ہوگئے۔ طالوت نے اُنھیں تسلّی دی اور اُن کی ہمّت بڑھائی۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر یقین رکھتے ہیں، تو بسااوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی سے بڑی جماعتوں پر غلبہ پا لیتی ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ،249)۔ دُشمن فوج کا سفّاک سردار، جالوت ایک دیوہیکل شخص تھا، جس نے اپنے بھاری بھرکم جسم کو لوہے کی زرّہ میں چُھپایا ہوا تھا۔ اس نے جب اپنے سامنے مٹّھی بھر مجاہدین دیکھے، تو غرور و تکبّر اور طاقت کے نشے میں چُور، چمکتی تلوار لیے مقابلے کے لیے للکارتا ہوا آگے بڑھا۔ اس کی ہیبت اور رُعب کا یہ عالم تھا کہ کسی مجاہد میں آگے بڑھنے کی ہمّت نہ تھی۔ 

ایسے میں طالوت نے بارگاہِ خداوندی میں دُعا کی۔ ’’اے ہمارے رَبّ! ہمیں صبر دے، ثابت قدمی دے اور قومِ کفار پر ہماری مدد فرما۔‘‘ (سورۃ البقرہ،250)۔ بعض اسرائیلی روایات میں ہے کہ جالوت کی زبردست طاقت اور بنی اسرائیل کے اس کے مقابل ہونے میں جھجک کو دیکھ کر طالوت نے اعلان کر دیا تھا کہ جو شخص جالوت کو قتل کرے گا، اُس سے مَیں نہ صرف اپنی بیٹی کی شادی کردوں گا، بلکہ اُسے حکومت میں حصّہ داربھی بنائوں گا۔ (البدائیہ والنہائیہ، جلد2 صفحہ، 16)۔

دائودؑ کے ہاتھوں جالوت کا قتل: بنی اسرائیل کے اس لشکر میں ایک نوجوان دائود بھی تھا، جو بظاہر نمایاں شخصیت کا مالک تھا، نہ ہی شجاعت و بہادری میں اس کی کوئی شہرت تھی۔ وہ اپنے والد کے تیرہ بیٹوں میں سب سے چھوٹا تھا ،جسے گھر والوں نے میدان ِجنگ کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا تھا، لیکن جب اس نوجوان نے جالوت کی شجاعانہ مبارز طلبی اور اسرائیلیوں کی پس و پیش کو دیکھا، تو اس کے خون نے جوش مارا۔ اس نےطالوت سے آگے جانے کی اجازت چاہی، لیکن طالوت نے کہا کہ ابھی تم ناتجربہ کار اور نوعُمر ہو اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ مگر جب دائود کا اصرار بہت بڑھ گیا، تو طالوت کو اجازت دینی پڑی۔ 

دائود ؑ آگے بڑھے اور جالوت کو للکارا۔ جالوت نے ایک نوجوان کو مقابل پایا تو حقیر سمجھ کر اس پر توجّہ نہیں دی، لیکن کچھ دیر بعد ہی جالوت کو اندازہ ہوگیا کہ یہ کوئی عام نوجوان نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نبردآزما تھے اور کوئی عجب نہ تھا کہ جالوت، دائود کو زیر کر لیتا کہ اچانک دائود نے لڑتے لڑتے اپنی گوپھن (غلیل نما ہتھیار) نکالی اور تاک کر پے در پے تین پتّھر اُس کے سر پر مارے اور جالوت کا سر پاش پاش ہوگیا، پھر آگے بڑھ کر اس کی گردن کاٹ لی۔ جالوت کے قتل کے بعد جنگ کا پانسا پلٹ گیا اور طاغوتی طاقت کو عبرت ناک شکست ہوئی۔اس حوالے سے قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’طالوت کی فوج نے اللہ کے حُکم سے اُنھیں ہزیمت دی اور دائودؑ نے جالوت کو قتل کر ڈالا اور اللہ نے اُنھیں بادشاہی، دانائی اور جو کچھ چاہا سکھایا۔‘‘ (سورۃ البقرہ: 251)۔

طالوت نے وفا ئےعہد کے پیش ِنظر داؤد ؑ کی ذہانت و شجاعت سے متاثر ہوکر اپنی بیٹی ’’میکال‘‘ کی شادی اُن سے کردی اور حکومت میں حصّے دار بھی بنالیا۔ توریت کے صحیفہ سمویل میں طالوت اور حضرت دائود ؑ سے متعلق ایک طویل داستان موجود ہے، جس میں طالوت کے دل میں حضرت دائود علیہ السلام کے لیے آتشِ بغض و حسد کا تذکرہ ہے۔ ہمارے بعض اربابِ سیر و راویانِ تفسیر نے بھی کسی تحقیق کے بغیر ہی اپنی کتب میں مِن و عن تحریر کردیا ہے اور یہ توجّہ نہیں فرمائی کہ جس ہستی، یعنی طالوت کو قرآن کریم عزیز مامور من اللہ قرار دے رہا ہے، جس کی برکت سے تابوتِ سکینہ بنی اسرائیل کو دوبارہ مل رہا ہے، جس کے علم و شجاعت کو پُرشوکت الفاظ سے سراہا ہے، ہم ایسی شخصیت کو قابلِ نفرت حرکات کا حامل قرار دے کر کس طرح موردِ لعن طعن بنا سکتے ہیں؟ قرآنِ کریم نے اس واقعے کو طالوت کی سربراہی میں حضرت دائود ؑ کے ہاتھوں جالوت کے قتل پر ختم کردیا ہے۔ چناں چہ طالوت و جالوت کا یہ واقعہ یہاں تک ہی مستند ہے۔ باقی سب اسرائیلی روایات ہیں۔ (قصص الانبیاء مفتی محمد شفیع ، ص 509)۔