• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر آسی خرم جہانگیری

اللہ تعالیٰ نے انسان کو معاشرتی زندگی بسر کرنے کے لیے پڑوسیوں کی نعمت سے نوازا ہے۔ آپ ﷺنے ان کے حقوق کی بہت اہمیت ذکر فرمائی ہے۔ امّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: پڑوسیوں کے(حقوق) کے بارے میرے پاس جبرائیل امین ؑاتنی بار تشریف لائے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ ایک پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کی میراث میں وارث(حقدار)قرار دیا جائے گا۔(صحیح بخاری،)حدیث مبارک سے اندازہ کیجیے کہ شریعت میں پڑوسی کی قدر ومنزلت اور اس کا احترام کس قدر ہے؟ اگر معاشرتی طور پر ہم پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا شروع کر دیں تو ہمارا معاشرہ جنت کا نمونہ بن جائے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو شخص اللہ رب العزت اور قیامت کے دن(یعنی تمام ایمانیات کو صدق دل سے)تسلیم کرنے والا ہے، اسے چاہیے کہ وہ پڑوسیوں کی عزت کرے۔(صحیح مسلم)حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ مومن کی شان یہی ہے کہ وہ پڑوسیوں کی عزت کرنے اور ان کی عزت کی رکھوالی کرنے والا ہوتا ہے۔

حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اے ابوذر!جب شوربہ( والا سالن)بناؤ توپڑوسیوں کو اس میں سے دینے کے لیے کچھ پانی بڑھا لو۔(صحیح مسلم)حدیث مبارک کا مقصد یہ ہے کہ پڑوسیوں کے حقوق ادا کرتے وقت معمولی چیزیں دینے میں بھی کوتاہی سے کام نہ لو، بلکہ اگر سالن بنانا ہے تو اس کی کچھ مقدار اضافہ کر لو، تاکہ پڑوسیوں کو بھیجا جا سکے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کوئی شخص اپنے پڑوسی کو دیوار پر لکڑی وغیرہ گاڑنے یعنی اسے استعمال کرنے سے نہ روکے ۔(صحیح مسلم)یہ تب ہے جب دیوار مضبوط ہو اور پڑوسی کے استعمال کرنے سے نقصان کا اندیشہ بھی نہ ہو۔ اگر دیوار مضبوط نہ ہو یا پڑوسی کے استعمال سے نقصان کا اندیشہ ہے تو محبت کے ساتھ روکا جا سکتا ہے۔

شعب الایمان للبیہقی میں ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کیا تمہیں پڑوسیوں کے حقوق کا پتا ہے؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا:

پہلا حق: پڑوسیوں کا پہلا بنیادی حق یہ ہے کہ جب وہ آپ سے جانی یا مالی مدد مانگیں تو (اپنی استطاعت اور اس کی ضرورت دونوں کو ملحوظ رکھ کر) ان کی مدد کریں۔ 

دوسرا حق: پڑوسیوں کا دوسرا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر (ضرورت کے پیش نظر)وہ قرض مانگیں تو انہیں قرض دیا جائے۔ یہاں بھی یہ مسئلہ یاد رکھیں کہ اگر پڑوسی ایسا ہو جو قرض لے کر واپس نہ کرتا ہو تو ایسے پڑوسی کو قرض دینے سے انکار کیا جا سکتا ہے ،ہاں اگر پڑوسی معاملات کا اچھا ہو تو قرض دیا جائے، ورنہ قرض کے بجائے جہاں تک ہو سکے تعاون کر دیا جائے۔ 

تیسرا حق:پڑوسیوں کا تیسرا بنیادی حق یہ ہے کہ جب فقر اور محتاجی کی حالت کو پہنچ جائے (پھر وہ مدد نہ بھی مانگے اور قرض نہ بھی مانگے، تب بھی اپنی حیثیت کے پیش نظر) تو اس کے فقر و تنگدستی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ 

چوتھا حق: پڑوسیوں کا چوتھا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت اور بیمارپُرسی کی جائے۔ اور اس موقع پر بھی کچھ پھل فروٹ وغیرہ ساتھ لے جایا جائے یا کچھ رقم اسے دی جائے، لیکن اس دینے کو ضروری نہ سمجھا جائے ،ہاں اس کی ضرورت کو سمجھا جائے۔ 

پانچواں حق: پڑوسیوں کا پانچواں بنیادی حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں کوئی خوشی کا موقع آئے(مثلاً: ان کے ہاں اولاد ہونا، امتحانوں میں پاس ہونا، روزگار کا مل جانا، شادی بیاہ وغیرہ)توانہیں مبارک باد دینا۔ 

یہاں بھی یہ بات یاد رکھیں کہ اگر وہ پڑوسی خوشی کے موقع پر غیر شرعی یا غیر اخلاقی پروگرام کرتا ہے تو اس میں بالکل شرکت نہ کی جائے اور نہ ہی اس موقع پر مبارک باد دی جائے، تاکہ اسے اپنی غلطی کا احساس ہو۔ 

چھٹا حق: پڑوسیوں کا چھٹا بنیادی حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں کوئی غمی کا موقع آئے(مثلا فوتگی ہو جائے، ان کے ہاں چوری ہو جائے، ایکسیڈنٹ ہو جائے یا گھر میں کسی چیز کا نقصان ہو جائے وغیرہ)تو ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنا۔ 

ساتواں حق:پڑوسیوں کا ساتواں بنیادی حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں فوتگی ہو جائے تو( بشرط صحت عقائد )اس کے جنازے میں شرکت کی جائے۔

آٹھواں حق: پڑوسیوں کا آٹھواں بنیادی حق یہ ہے کہ اپنے گھر کی دیوار اس کی اجازت کے بغیر اتنی اونچی نہ کی جائے کہ اس کے گھر کی ہوا رک جائے۔یا اس صورت میں ہے جب عام آبادیوں میں گھر بنایا جائے ،اگر کسی مجبوری کی وجہ سے رہائشی یا دفاتر وغیرہ کے پلازے بنانا ناگزیر ہوں تو بھی اخلاقی طور پر پڑوسی سے اس کی اجازت لی جائے اور پڑوسی کو بھی اخلاقی طور پر اجازت دے دینا چاہیے۔ 

اس کے ساتھ ساتھ بے پردگی کے پیش نظر پڑوسیوں کو اطلاع کیے بغیر اپنے گھر کی چھت پر چڑھنا جائز نہیں۔ 

نواں حق: پڑوسیوں کا نواں بنیادی حق یہ ہے کہ گھر میں کھانا تیار کرتے وقت اس بات کا خیال کیا جائے کہ کھانوں کی تیاری کے وقت پیدا ہونے والی خوشبو سے پڑوسی کو تکلیف نہ دی جائے۔ یہ نہ ہو ایک گھر سے روزانہ قسماقسمی کھانوں کی خوشبوئیں مہکتی رہیں اور ساتھ والا پڑوسی بھوکا رہے، ہاں اگر کھانا تیار کرنے کے بعد کچھ انہیں بھی اخلاقی طور پر بھیج دیا جائے، تب ٹھیک ہے۔ 

دسواں حق: پڑوسیوں کا دسواں بنیادی حق یہ ہے کہ اگر آپ اپنے لیے پھل وغیرہ خریدیں تو ان میں سے کچھ پڑوسیوں کو بھی ہدیے کے طور پر بھیج دیں۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے یا آپ کے لیے ایسا کرنا فی الوقت ممکن نہیں تو پھر اپنے گھر میں پھل وغیرہ چپکے سے لائیں ،تاکہ پڑوسی دیکھ کر دکھ بھری آہیں نہ بھریں اور اپنے بچوں کو پھل دے کر باہر نہ بھیجیں کیونکہ اس کی وجہ سے پڑوسیوں اور ان کے بچوں کو رنج و ملال اور غربت کا احساس ہوگا۔

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: پڑوسیوں کو تکلیف دینے والا شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ (صحیح مسلم)حدیث مبارک کا مطلب یہ ہے:اولاً جنت میں داخل نہیں ہوگا ہاں پڑوسیوں کو دی گئی تکلیف والے جرم کی سزا بھگت کر یا پڑوسیوں کے معاف کرنے کی وجہ سے بالآخر جنت میں جائے گا۔ کافروں کی طرح ہمیشہ کے لیے جہنمی نہیں ہے۔

مذکورہ بالا احادیث سے جہاں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پڑوسیوں کے اتنے حقوق ہیں تو خود اپنے گھر والوں کے کتنے حقوق ہوں گے۔ جب پڑوسیوں کو تکلیف دینا، ان کا دل دکھانا جائز نہیں تو خود اپنے گھر والوں سے بول چال چھوڑنا، مارنا پیٹنا اور غیر اخلاقی برتاؤ کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ آج ہمارے معاشرے میں بہت سے خود کو دین دار کہلانے والوں کا اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں، اگر گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک ہو تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دیا جاتا ہے، ہر جائز اور ناجائز خوشیاں دینا شروع کر دی جاتی ہیں۔ اسلام وہ اعتدال والا دین ہے کہ یہاں خوشی بھی دینی ہے اور جائز خوشی دینی ہے۔ اللہ کریم ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین)

اقراء سے مزید