• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین ،بنگلہ دیش کا سب سے طویل پل بننا تھا،ورلڈ بینک نے 1.2 ارب ڈالر کا وعدہ کیا تھا،مگر پھر الزام لگا دیا گیا کہ بنگلہ دیشی کرپٹ ہیں اور قرضہ کینسل کر دیا۔حسینہ واجد کی حکومت نے اپنے ذرائع سے پیسہ اکٹھا کر کے6 کلومیٹر سے زیادہ طویل پل دریائے پدما پر بنایا۔یہ 6.15کلومیٹر طویل پل تقریبا 3.6 بلین امریکی ڈالر کے برابر لاگت سے تعمیر کیا گیا۔ اتوار کی صبح 6 بجے سے عام ٹریفک کیلئے کھولے جانے کے بعد سے پدما پل پر پہلے8گھنٹوں میں کل 82,19,050 روپے جمع کئے گئے ہیں۔ اگلے8 گھنٹوں میں پل کے زجیرہ پوائنٹ پر 35,29,500روپے اور ماوا پوائنٹ سے 46,89,550 روپے جمع ہوئے۔ ایک ہی وقت میں 15,200 گاڑیاں دونوں سروں سے گزریں اور آج صرف یہ ایک منصوبہ ہی بنگلہ دیشی معیشت میں سالانہ 1.3 فیصد منافع کا حامل ہے۔گزشتہ سال اس کا افتتاح ہونے کے بعد جب حسینہ واجد کی ورلڈ بینک کے سربراہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پدما پل کی ایک فریم شدہ تصویر تحفے میں پیش کی۔ شاید یہی حقیقی آزادی کی ایک جھلک تھی اور قومیں اسی طرح بنتی ہیں۔در در کشکول لیکر بھیک مانگنے سے ترقی نہیں ہوتی ہم ’’دشمن‘‘ہندوستان سے تو نہیں سیکھ پا رہے کم از کم اپنے پرانے حصے اور ’’بھائی‘‘ بنگلہ دیش سے تو سبق حاصل کرسکتے ہیں ۔میرے بچپن میں یہ کہانی سنائی جاتی تھی کہ بھوکے ننگے بنگالیوں کو سوائے اپنی زندگی پر رونے دھونے کے کوئی کام نہیں تھا اور ہم ہی ان کو پال رہے تھے، بنگلہ دیش کی ہم سے علیحدگی کے بعد بھی کئی برس عوام کو یہی داستان سنائی جاتی رہی۔آج 50 سال بعد بنگلہ دیش ہم سےکہیں آگے نکل گیا اور ہم 75 سال بعد بھی ایک سے دوسری دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔بنگلہ دیش کی علیحدگی کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی ساڑھے 7کروڑ اور مغربی پاکستان کی آبادی ساڑھے 4کروڑ تھی۔آج بنگلہ دیش کی آبادی ساڑھے 15کروڑ اور ہماری 24کروڑ سے زائدہے۔20 برس پہلے پاکستانی روپے کے پونے 2 ٹکے ملتے تھے۔ آج پاکستانی روپیہ آدھے ٹکے سے بھی کم ہے۔بنگلہ دیش کے خزانے میں 38 بلین ڈالر اور ہمارے خزانے میں 9 بلین ڈالر ہیں۔

اب میں اپنے ملک پاکستان کی طرف آتا ہوں ۔اس وقت دنیا میں 207کے لگ بھگ ممالک ہیں ان میں پاکستان ایسا ملک ہے جس کا نہری نظام روس کے نہری نظام سے بھی 3گنا بڑا ہے ۔ہمارا ملک دنیا میں مٹر کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر۔ خوبانی، کپاس،گنے کی پیداوار میں چوتھے نمبر پر ۔پیاز ،دودھ پانچویں نمبر پر۔کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر۔ آم، گندم اورچاول کی پیداوار میں ساتویں نمبر پر ۔مالٹے ،کینو کی پیداوار میں دسویں نمبر پر ہے ۔گندم کی پیداوار پورے براعظم جنوبی افریقہ کی پیداوار سے زیادہ ہے ۔کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر۔تانبے کے ذخائرکے اعتبار سے ساتویں نمبر پراور سی این جی کے استعمال میں پہلے نمبر پر ۔گیس کے ذخائر میں ایشیا میں چھٹے نمبر پر۔کوئی سبزی، کوئی اناج ایسانہیں جو ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہوتا۔اس کے مقابلے میں خلیجی ،فارسٹ اور یورپ میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جو تمام اناج پیدا کر سکتا ہو ۔یعنی اگر چاول پیدا کررہا ہے تو گیہوں پیدا نہیں کرتا اور اگر گیہوں پیدا کر رہا ہے تو مکئی ،جوار پیدا نہیں کر سکتا ،دالیں پیدا نہیں کرسکتا۔ یہی حال سبزیوں اور پھلوں کا ہے ۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں زمین کے اندر انمول پتھر اور کوئلہ، پیٹرول، گیس کے ذخائر کے ساتھ ساتھ، سیب، بادام، خوبانی، انجیر، شہتوت، اخروٹ، اسٹرابری اور کھجوریں وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہیں۔ بہترین جھینگے اور مچھلیاں اپنا جواب نہیں رکھتیں۔ پیٹرول کے بھاری ذخائر موجود ہیں مگر ہم نے منصوبہ بندی نہیں کی۔ ہماری سرزمین سے پیٹرول گزر کر ایران جا رہا ہے، اسی طرح گیس کے ذخائر بھی وافر مقدار میں ہیں مگر ہمیں اس کی قدر نہیں۔ ہم پاکستانی عوام کسی نیک، ایماندار اور صالح قیادت کو منتخب کرنے کے بجائے بار بار کرپٹ اور دھوکے باز سیاستدانوں کو ہی ووٹ ڈالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے کہ ہم آئندہ الیکشن میں دیانتدار اہل قیادت کو منتخب کر سکیں۔

ہم اپنا 76واں یوم جشن آزادی منا چکے ہیں۔ آزادی رب ذوالجلال کی وہ خوبصورت ترین نعمت ہے جس کے سامنے مال و دولت کے بلند و بالا پہاڑ بھی بے کار ہیں۔ برسوں پہلے مسلمانان ہند بھی قید و قفس کی ایسی ہی بے رحم زندگی گزار رہے تھے، جہاں نہ مذہبی آزادی تھی نہ اپنی چاہت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت تھی، جہاں مسلمانان ہند ایک ایسی غلامانہ زندگی بسر کر رہے تھے جس کا ایک ایک دن کسی عذاب سے کم نہیں تھا۔ بالآ خر شاعر مشرق علامہ اقبال نے آزادی کا ایک حسین خواب دیکھا جسے علمائے کرام ،اکابر امت اور قائد اعظم محمد علی جناح نے عملی جامہ پہنایا اور 14اگست 1947کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک خوبصورت ملک بن کر وجود میں آگیا۔آزادی کی اس جدوجہد میں لاکھوں مائوں نے اپنے لخت جگر قربان کئے ،بیویوں نے اپنے سہاگ ملک پر وار دئیے ،لاکھوں بچےیتیم ہوئے،پھر جاکر میراد یس وجود میں آیا۔آج چوک چوراہوں میں لہرانے والے سبز ہلالی پرچم میں لاکھوں مسلمانوں کا سرخ لہو شامل ہے ۔اس میں دورائے نہیں کہ ہم حقیقی آزادی سے کوسوں دور ہیں لیکن پھر بھی اپنے علیحدہ وطن کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں ۔آئیے عہد کریں کہ اپنی اس دھرتی کو علم وہنر،تعلیم و ترقی،امن و آشتی،کرپشن سے پاک اسلام کا مرکز بنائیں گے اور اپنے ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کریں گے۔

تازہ ترین