’’ انسان کا یہ چھوٹا سا قدم انسانیت کے لیے ایک غیر معمولی جست ہے‘‘ چاند کی سرزمین پر پہلا قدم رکھنے والے انسان نے جب یہ الفاظ ادا کیے تھے، تو شاید اُسے بھی علم نہیں تھا کہ جسے وہ انسانیت کی جست کہہ رہا ہے، وہ صرف علامتی نہیں، بلکہ انسانی زندگی کے ہر شعبے میں اپنے نقش ثبت کرے گی۔آج اسپیس سائنس یا اسپیس ٹیکنالوجی زندگی کے ہر شعبے پر نہ صرف اثر انداز ہو رہی ہے، بلکہ اس کے اثرات ٹیکنالوجی اور اس سے وابستہ معیشت پر بھی غیر معمولی ہیں۔ دنیا بدل گئی اور مزید بدل رہی ہے۔ آج ہر بڑی طاقت چاند کی طرف دوڑ رہی ہے۔اس ضمن میں ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ انٹرنیٹ اور آر ٹی فیشیل انٹیلی جینس انسان کے ساتھ قدم بہ قدم ساتھ چل رہی ہیں اور اُس کی معاونت ہی نہیں، رہ نُمائی کر رہی ہیں۔
اِسی لیے اب اسپیس یا خلائی تسخیر پر صرف بڑی طاقتوں کی اجارہ داری نہیں رہی۔اِس دوڑ میں جہاں امریکا، چین اور روس نظر آتے ہیں، وہیں بھارت، یورپی ممالک اور عرب ممالک بھی اِس کا حصّہ بن چُکے ہیں۔ ساٹھ کے عشرے میں جب یہ خلائی دوڑ شروع ہوئی، تو اُس وقت اس کا واحد مقصد اپنی غیر معمولی سائنسی برتری کا رُعب جمانا تھا، لیکن آج یہ ٹیکنالوجی کے شعبوں سے مل کر ایک کمرشل وینچر بن چُکی ہے۔اِسی لیے اکثر ممالک نے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی ہے تاکہ وہ اس میں نہ صرف سرمایہ کاری کرے، بلکہ نئی نئی تحقیقات اور جہتیں سامنے لانے میں مدد کرے۔
اس کے تین مقاصد ہیں۔ اوّل، نئی سرمایہ کاری سے حکومتوں کا بوجھ کم ہو رہا ہے، دوسرا یہ کہ تخلیقی مواقع صرف حکومتی پسند، نا پسند تک محدود نہ رہیں اور نجی شراکت داری کا تیسرا مقصد روزگار کے نئے مواقع تلاش کرنا ہے۔بھارت نے چندریان-3 کی چاند کے جنوبی حصّے پر سافٹ لینڈنگ کے ذریعے چاند پر پہنچنے والے ممالک میں چوتھے مُلک کا درجہ حاصل کر لیا، جب کہ سیّارے کے جنوبی حصّے پہ لینڈ کرنے والا وہ پہلا مُلک ہے اور چاند کا یہی وہ حصّہ ہے، جہاں برف کی شکل میں پانی کے موجودگی کے امکانات ہیں۔اِس سے تین روز قبل روسی اسپیس شپ، لونا-5چاند کے جنوبی حصّے پر لینڈنگ میں ناکام ہوئی اور تباہ ہو گئی۔
آگے بڑھنے سے پہلے روس اور بھارت کی موجودہ خلائی کاوشوں پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔بھارت کا خلائی جہاز، چندریان۔3 اس کا چاند پر جانے والا تیسرا مشن ہے، جسے اُس کی اسپیس ایجینسی، اسرو(انڈین اسپیس اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن: ISRO)نے سیرہری کوٹوتا اسپیس اسٹیشن سے14 جولائی کو لانچ کیا۔اس میں کوئی انسان نہیں تھا اور اس کے دو حصّے ہیں، ایک آربیٹر اور دوسرا لینڈر۔آربیٹر چاند کے گرد چکر لگاتا رہے گا، جب کہ چاند کی زمین پر لینڈر اُترا۔واضح رہے، بھارت کا گزشتہ مشن عین اُس وقت ناکام ہوا تھا، جب اس کا لینڈر سافٹ لینڈنگ میں ناکام ہوا اور تباہ ہوگیا۔ اسرو کا کہنا ہے کہ اُس نے گزشتہ ناکامی کی روشنی میں اِس مرتبہ ایسے ایڈوانس آلات نصب کیے، جس سے کام یابی کے امکانات بڑھ گئے۔
بھارت نے اپنا چاند مشن2008ء میں شروع کیا تھا اور چندریان۔3کا مشن بھی بالکل وہی ہے، جو اس کے پیش رو کا تھا، یعنی چاند کے جنوبی حصّے پر لینڈ کرنا، جہاں ابھی تک کوئی انسانی مشن کام یاب نہیں ہوا۔سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ چاند کے اِس حصّے پر پانی کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور یہ دریافت آئندہ انسانی اسپیس مشنز اور تحقیق کے لیے بہت سود مند ثابت ہوگی۔ روس کے لونا مشن کا بھی، جو 21اگست کو لینڈنگ کے وقت تباہ ہوا، یہی ہدف تھا، گو، وہ بھارتی چندریان کے بعد لانچ ہوا، لیکن ٹیکنالوجی کی برتری کے باعث چاند تک پہلے پہنچ گیا، لیکن ناکام رہا۔چندریان زمین کا مدار چھوڑنے کے بعد کام یابی سے چاند کے مدار کے گرد چکر لگاتا رہا۔ اس نے اگست کی پندرہ تاریخ کے بعد چاند کی تصاویر بھیجنا شروع کیں، جن میں چاند کی چٹانیں اور وادیاں صاف نظر آرہی ہیں، جب کہ چاند گاڑی تصاویر اور ڈیٹا بھیج رہی ہے۔لینڈر کا نام’’ وکرم‘‘ ہے، جب کہ روور کا نام’’ پرگیان‘‘ ہے، جس کا سنسکرت میں مطلب دانش ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ آج صرف چاند پر جانا کوئی بڑا کارنامہ نہیں رہا، کیوں کہ چاند تو ہمارے سولر سسٹم کا سب سے نزدیکی سیّارہ ہے، جس کا تعلق خود زمین سے ہے۔اب انسان خلا میں بہت آگے بڑھ چُکا ہے، زہرہ پر اسپیس شپس اتار چُکا ہے۔ایک عرصے سے، بلکہ آج بھی یہ بات انسان کے لیے بے حد کشش کا باعث ہے کہ اگر زمین کی آبادی اُس کے حجم سے بڑھ جائے، تو وہ خلائی ستاروں اور سیّاروں میں جا بسے۔یہ باتیں ایک زمانے میں سائنس فِکشن کا انتہائی دل چسپ اور پسندیدہ موضوع تھا۔بعد میں یہ نظریہ ہالی وُڈ کی فلمز میں بہت مقبول ہوا اور خلائی مخلوق سے متعلق کئی فلمز اور ٹی وی سیریلز بے حد مقبول ہوئے۔
دراصل، انسان کے لیے خلا ایک نئی دنیا ہے، جس کے اَسرار اُسے حیرت زدہ کرتے ہیں اور اس کی تسخیر سائنسی پیش رفت کے لیے چیلنج کی شکل اختیار کر چُکی ہے۔اسپیس میں قدم جمانے کا پہلا ذریعہ وہ مواصلاتی سیّارے یا اسپیس سیٹیلائیٹس ہیں، جنہوں نے دنیا کے مواصلاتی اور باہمی رابطوں میں انقلاب برپا کیا۔ یہ بات عام ہے کہ امریکا اور مغرب نے سوویت یونین کو ہتھیاروں یا ایٹم بم سے شکست نہیں دی، بلکہ اُسے اُس پراپیگنڈے سے ہرایا، جو اِن مواصلاتی سیاروں کے ذریعے نشر ہونے والے پروگرامز کی صُورت مشرقی یورپ پر اثر انداز ہوئے اور وہاں کے باسیوں کے ذہن بدلنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔دیوارِ برلن کا گرنا یا پولینڈ، وارسا جنگ میں کوئی گولی چلائے بغیر سوویت یونین کی شکست اس کی اہم مثالیں ہیں۔
یہ دونوں ممالک انسانی آزادی اور اُس معیارِ زندگی کے سحر میں گرفتار ہوئے، جو اُنہیں مغرب روز ٹی وی اسکرینز پر دِکھاتا تھا۔بہرکیف، مواصلاتی سیّاروں نے اسپیس میں جانا اور وہاں قیام کرنا ممکن بنا دیا۔بڑے بڑے راکٹ تیار ہوئے، جو زمین کے مدار سے باہر اسپیس شپس لانچ کرنے کے قابل ہوئے۔ سائنس دانوں کے لیے ان کی اسپیڈ بڑھانا ایک چیلنج تھا، جس میں انھیں نہایت تیزی سے، مسلسل تحقیق کے ذریعے کام یابی حاصل ہونا شروع ہوگئی ہے۔ امریکا اور اس کے ممتاز ادارے، ناسا نے، جو اس خلائی تحقیق کا قائد ہے، جلد ہی جان لیا کہ یہ محض حکومتوں کے بس کا کام نہیں۔
لہٰذا اس پر سرکاری اجارہ داری ختم کی گئی اور نجی شعبے کو دعوت دی گئی کہ وہ اس میں سرمایہ کاری کرے، ساتھ ہی دوسرے ممالک نے اس کے اسپیس پروگرامز میں تعاون کیا اور اس سے فائدہ اٹھایا۔جب امریکا نے نجی شعبے کو آگے آنے کی پیش کش کی، تو مشہور بزنس مین، ایلون مسک نے نہ صرف اس میں پہل کی، بلکہ اسپیس ٹیکسی کے تصوّر کو عملی شکل بھی دی، جس سے لاکھوں ڈالرز کے ٹکٹ کے عوض لوگوں کو خلا کی سیر کا موقع ملا۔ یہ اسپیس میں عام آدمی کی پہلی پیش قدمی ہے۔ ہم جو اپنی دنیا اور سیاست ہی میں کھوئے رہتے ہیں، ہمیں تو اِس پیش قدمی کے اثرات کی بھنک تک نہیں پڑی۔کاش! ہمیں بھی عقل کا کچھ حصّہ مل جائے اور ادراک ہو کہ دنیا اب سیاست سے بہت آگے نکل کر’’ اسپیس ایج‘‘ میں داخل ہو چُکی ہے۔
مسک کے’’ اسپیس ایکس‘‘ نامی ادارے نے لانچنگ راکٹ بھی بنا لیا، جسے ناسا نے بھی استعمال کیا۔اِس طرح اسپیس یا خلائی تسخیر اب باقاعدہ انڈسٹری بن چُکی ہے۔ ویسے بتاتے چلیں کہ دوسرے صنعتی شعبوں، جیسے طیارہ سازی یا گاڑیاں بنانے کی طرح اسپیس راکٹ اور اس کے دوسرے اجزا نہ صرف امریکی کمپنیز میں بنتے ہیں، بلکہ جاپان اور دوسرے مغربی ممالک کی نجی کمپنیز بھی ان کی پروڈکشن میں شریک ہیں۔اِس طرح وسیع بنیادوں پر اسپیس کمرشلائزنگ کی ابتدا ہوچُکی ہے۔ متحدہ امارات جیسا چھوٹا، مگر امیر مُلک بھی اِس اسپیس پروگرام میں شریک ہے اور اس کے شہری اسپیس اسٹیشن تک جاچُکے ہیں۔
ہمارے پڑوس میں بھارت کے اسپیس پروگرام میں بھی نجی شعبے کی شمولیت ہوچُکی ہے۔ دو نوجوانوں نے، جنہوں نے ناسا میں ٹریننگ لی تھی، اس کی بنیاد رکھی۔ویسے یہ بھی علم میں رہے کہ بھارتی تارکینِ وطن نے اپنے مُلک کے اسپیس پروگرام میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔اُن کے سائنس دان یا ٹیکنالوجی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ناسا اور دیگر ایسے اداروں میں گئے، جہاں سے ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کی جاسکتی تھی اور پھر وہاں کی غیر معمولی مراعات اور سہولتیں چھوڑیں، اپنے مُلک آئے اور اسپیس پروگرام کو اُس بلندی تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا کہ آج بھارت کا اسپیس کرافٹ چاند پر اُتر چُکا ہے۔
اس میں ہم جیسے ممالک کے نوجوانوں کے لیے بہت بڑا سبق پنہاں ہے، جو بیرون مُلکِ جاتے تو ہیں، لیکن وہاں اپنے مُلک کے لیے کوئی ٹھوس کام کرنے کی بجائے اندرونی سیاست ہی میں الجھے رہتے ہیں، جگہ جگہ جھنڈے لیے کھڑے رہتے ہیں، بدتمیزی اور بداخلاقی کی ایسی مثال بنتے ہیں کہ نئے مُلک والے بھی اُنھیں خوف اور نفرت سے دیکھتے ہیں کہ کہیں اُن کے مُلک کو بھی آلودہ نہ کردیں۔ یہ لوگ بس یہی رٹتے رہتے ہیں کہ زرِ مبادلہ بھیج رہے ہیں، کوئی اُنھیں سمجھائے کہ پاکستان کو اُن کے زرِمبادلہ کی نہیں، مغرب کی ٹیکنالوجی، دیگر علوم کی مہارت اور سب سے بڑھ کر اُن کی تہذیب اور اعلیٰ رویّوں کی ضرورت ہے۔ ایسے تعلیم یافتہ تارکینِ وطن کے لیے سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ اگر وہ واقعی اپنے مُلک کو خود مختار بنانے کا جذبہ رکھتے ہیں، تو پھر ہر وقت اس میں کیڑے نکالنے کی بجائے ٹیکنالوجی اور اس سے جُڑی معیشت کے میدانوں میں ٹھوس حصّہ ڈالیں۔
اب وہ وقت نہیں رہا کہ مُلک میں آکے کوئی این جی او بنا لیں، اسپتال، کالج یا کوئی اسکول کھول کر خوش ہولیں۔ اگر اُنہوں نے واقعی کسی بڑی یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے، تو کوئی کارنامہ سرانجام دیں، کچھ ایسا کر دِکھائیں، جیسا بھارتی سائنس دانوں نے چندریان کی صُورت کر دِکھایا۔بھارت کا انسانی حقوق کا ریکارڈ قابلِ رشک نہیں ہے، لیکن اگر وہ چاند پر مِشن اُتارنے میں کام یاب ہوتا ہے، تو پھر کون سا مُلک ہے، جو اس سے دوستی کرنا پسند نہیں کرے گا، کون سا مُلک ہوگا، جہاں بھارتی پاسپورٹ کی قدر نہیں ہوگی، اور کون سا مُلک ہوگا، جہاں بھارتی باشندوں کو خوش آمدید نہیں کہا جائے گا؟
جب انٹرنیٹ ٹیکنالوجی نے دنیا میں قدم جمائے، تو روزگار کے مواقع عام ہوئے۔اب ٹیکنالوجی ایک اور چھلانگ لگا چُکی ہے اور اسپیس ٹیکنالوجی صنعتی شعبے میں داخل ہوچُکی ہے۔بھارت میں نجی کمپنیز نے اسرو کی شراکت سے اسپیس ٹیکنالوجی پر کام شروع کر دیا ہے، جس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کا خلائی تحقیق کا بجٹ2019 ء میں7 بلین ڈالرز تھا، جو رواں برس50بلین ڈالرز تک پہنچ جائے گا۔ ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے کے مواقع لامحدود ہیں، بس صرف ان میں داخل ہو کر محنت اور لگن سے کام کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو اِدھر اُدھر بھاگے بھاگے پِھرنے کی ضرورت نہیں اور نہ مایوس ہو کے یہ سوچنا پڑے گا کہ’’ اِس مُلک میں کیا رکھا ہے۔‘‘
اگر وہ بیرونِ ممالک گئے، تو اُنھیں وہاں چھوٹے موٹے کام ضرور مل جائیں گے، لیکن پاکستان میں تو ابھی ٹیکنالوجی کے میدان خالی پڑے ہیں، اگر نوجوان آگے بڑھیں، تو ترقّی کے بے شمار مواقع اُن کے منتظر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، بھارت میں خلائی صنعت سے وابستہ دس سے زاید نجی کمپنیز نے ایسے پس ماندہ علاقوں میں کام شروع کیا ہے، جن کا نام شاید خود بھارت میں بھی کم افراد ہی نے سُنا ہوگا اور ان میں سے ایک قصبہ بنگلور کی یاد دِلاتا ہے، جس نے آئی ٹی کے شعبے میں پوری دنیا میں دھوم مچا رکھی ہے۔
یاد رہے، بنگلور، جنوبی بھارت سے تعلق رکھتا ہے، جس کے باشندے پست قد اور سیاہ رنگت کی وجہ سے حقیر سمجھے جاتے رہے، لیکن آئی ٹی میں مہارت کے بعد اب وہ بھارت تو کیا، دنیا بھر میں انتہائی باعزّت مقام رکھتے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیز اُنہیں لینے کے لیے خوشامدیں کرتی ہیں۔ ان پس ماندہ علاقوں میں کام کرنے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ پراڈکٹس کم لاگت میں تیار ہو رہی ہے، اِسی لیے بھارتی اسپیس ایجینسی اپنے کم لاگت کے خلائی منصوبوں کے لیے شہرت حاصل کر رہی ہے۔
چندریان پر صرف چھے ارب روپے لاگت آئی۔ اسپیس پروگرام کا عالمی سیاست میں کیا مقام ہے، اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ساٹھ کی دہائی میں سوویت یونین نے اپنا پہلا راکٹ خلا میں بھیجا، تو اُس وقت کے امریکی صدر نے ناسا سے کہا کہ’’ کچھ بھی کرو، پانچ سال میں چاند پر امریکی اُتار دو۔‘‘ ناسا نے چیلنج قبول کیا اور جولائی1967ء میں اپالو- گیارہ میں پہلا انسان چاند پر اُتار دیا۔ اسپیس یا خلا کے اسٹار وار پروگرام کا نام تو سیاست میں عام ہے کہ اس نے کس طرح طاقت کا توازن امریکا کے حق میں کیے رکھا۔
علاوہ ازیں، جیسے بیسویں صدی میں ایٹمی طاقت ہونا طاقت وَر ہونے کی علامت تھی، اکیسویں صدی میں خلائی فتوحات ہی کسی مُلک کی مضبوطی، ٹیکنالوجی اور معیشت کی برتری منوانے میں اہم ہیں۔ جنگوں کا زمانہ گزر چکا، اب مقابلہ ٹیکنالوجی اور اس سے حاصل ہونے والی معیشت کے میدان میں ہے، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مُلک کی آبادی کتنی ہے، کتنا بڑا رقبہ ہے، جیو اسٹریٹیجک پوزیشن کیا ہے، اہم یہ ہے کہ وہ ٹیکنالوجی میں کہاں کھڑا ہے۔وہ اہلِ دانش، جو ابھی تک ماضی کی داستانیں سُنا کر قوم کو برتری کے نادر نسخے بتا رہے ہیں، اُنہیں بھی اب جاگ جانا چاہیے، وگرنہ وہ تاریخ اور جغرافیے ہی میں بھٹکتے رہ جائیں گے اور ٹیکنالوجی اُن کے دائیں، بائیں سے گزر کر دنیا کو کہاں سے کہاں پہنچا دے گی۔