• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتہائی شریف النفس، منکسر المزاج انسان، مگر باغی، انقلابی شاعر... حفیظ میرٹھی

اپریل1981ء کی بات ہے، متحدہ عرب امارات میں وسیم احمد اور اُن کے رفقائے کار نے پہلا بین الاقوامی مشاعرہ منعقدکیا۔ اس کام یاب مشاعرے کے بعد وہ کئی برس تک لگاتار بین الاقوامی مشاعروں کا انعقاد کرتے رہے۔ پھر 1986ء سے سلیم جعفری نے ان بین الاقوامی مشاعروں کا بیڑہ اٹھایا اور دس گیارہ سال (اس جہانِ فانی سے گزرجانے تک) اپنی نگرانی میں یہ سلسلہ متواتر چلاتے رہے۔ پہلے مشاعرے میں بھارت سے جگن ناتھ آزاد، فناکان پوری، کلیم عاجز اورحفیظ میرٹھی نے شرکت کی، جب کہ پاکستان سے احمدندیم قاسمی، اقبال عظیم، اعجاز رحمانی، اقبال صفی پوری، شاعرلکھنوی، ، کلیم عثمانی اور دیگرشامل تھے۔ 

ہماری کم علمی کہ ہم حفیظ میرٹھی کے نام تک سے واقف نہ تھے۔ حالاں کہ مارچ 1973ء میں حفیظ ہوشیار پوری کے سانحۂ ارتحال پر ماہرالقادری نے اپنے تعزیتی مضمون میں اردو ادب میں حفیظ نامی چار بڑے شعراء کا ذکرکیا تھا۔ ’’(1)حضرت امیرمینائی کے شاگرد،حفیظ جون پوری:جن کی غزل کا یہ مطلع مشہور و مقبول، بلکہ زبان زدِخواص وعام ہے۔ ؎ بیٹھ جاتاہوں جہاں چھائوں گھنی ہوتی ہے .....ہائے! کیا چیز، غریب الوطنی ہوتی ہے۔ (2)ابو الاثرحفیظ جالندھری:؎ سوچ کرغم دیجیے ایسانہ ہو.....آپ کوکرنی پڑیں غم خواریاں۔ (3)حفیظ میرٹھی:؎ شیشہ ٹوٹے، غل مچ جائے.....دل ٹوٹے آوازنہ آئے.....ہائے!وہ نغمہ جس کا مغنی .....روتا جائے، گاتا جائے۔ (4)حفیظ ہوشیارپوری :؎ یادل گرفتہ ہم تری محفل سے آئے ہیں.....آنکھوںمیںاشک بھی بڑی مشکل سے آئے ہیں‘‘

ماہر صاحب نے اس مضمون میں حفیظ ہوشیارپوری کی شاعری پر بھرپور تعریفی الفاظ استعمال کیے۔بہرحال، ذکر ہورہا تھا دبئی میں منعقدہ عالمی مشاعرے کا۔ اس وقت ہماراقیام دبئی میں تھا اور اعجاز رحمانی سے دوستی کو ایک دہائی سے زائد عرصہ بیت چکا تھا۔ سو، ہم نے کھوج لگایا کہ وہ کس ہوٹل میں مقیم ہیں۔ معلومات کرنے پر وہاں پہنچے اور پھرصبح وہیں، شام وہیں۔ اس دوران تمام شاعروں سے سلام دُعا کی سعادت ملی، لیکن حفیظ میرٹھی سے سب سے زیادہ اکتسابِ فیض ہوا۔ پورے پانچ دن اُن کا ساتھ رہا۔ اس دوران اُن کی شخصیت کے کئی خوش گوار پہلوئوں سے آشنائی ہوئی۔

حفیظ صاحب بھارت کے شہر، میرٹھ کے قصبہ فیض آبادمیں ایک کالج سے وابستہ تھے۔( یہ یوپی کاوہی قصبہ فیض آباد ہے، جس کاافسانوی کردار ’’امرائوجان ادا‘‘ ادب اور فلموں میں بہت مقبول ہے)۔ دو مشاعروں اور ایک خصوصی نشست میں اُن کا کلام سُنا، حیرت ہوئی کہ اتنے منکسرالکلام، عاجزی اور انکساری کے پیکرکا کلام اس قدر باغیانہ اور انقلابی بھی ہوسکتا ہے۔ پھر تقریباً 22سال بعد2003ء کو دبئی میں منعقدہ ایک مشاعرے میں شرکت کا موقع ملا۔ مشاعرے کے اگلے دن عنایت علی خان سے ملنے گیا، تو وہاں ناشتے کی میزپرچند اورشعرا بھی موجود تھے۔ 

بات شاعری کی چلی، تو کہیں سے حفیظ میرٹھی کا ذکر چِھڑ گیا۔ ہم نے اپنی یادداشت کوآواز دی اور چنداشعار، جو1981ء کے مشاعرے میں سنے تھے، دُہرادیئے ؎ کون رکھتا ہمیں موتیوں کی طرح.....مِل گئے خاک میں آنسوئوں کی طرح.....روشنی کب تھی اتنی مِرے شہر میں.....جل رہے ہیں مکاں مشعلوں کی طرح.....داد دیجیے کہ ہم جی رہے ہیں وہاں.....ہیں محافظ جہاں قاتلوں کی طرح۔ اشعار سُنا کر ہم جیسے ہی رُکے، امجد اسلام امجد نے فوراً فرمایا ’’حفیظ میرٹھی کا ایک شعرمیرے سینے میں گڑگیا ہے۔ اوروہ شعر ہے ؎ ہمارے آنسوئوں کو، التجا کو.....ترستا رہ گیا قاتل ہمارا۔‘‘کسی شعر کی تعریف کا یہ ڈھنگ نرالا اور پورے ایک صفحے کی تعریف پر بھاری تھا۔ عام طورپر اسٹیج پر موجود شعرا گم صُم بیٹھے ہوتے ہیں۔ 

کسی شریک کو داد دینا گویا اُن کے لیے شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن امجد اسلام امجد کے یہ تعریفی کلمات، بلاشبہ مستحق داد و تحسین تھے۔ دبئی کے قیام کے دوران ہم نے یہ محسوس کیا کہ بھارت کے شعراآپس میں ایک گروپ کی شکل میں اسٹیج پرجلوہ گرہوتے ہیں اوران اشعار پر بھی، جو دبئی کے مشاعروں میں بارہار سامعین سُن چکے ہوتے ہیں، بڑھ چڑھ کر داد دیتے ہیں۔ اتنی داد سامعین نہیں دیتے، جتنی اسٹیج سے دی جاتی ہے۔ بعض اوقات کسی شعر پر شاعر کو متوقع داد نہ ملے، تو فرماتے ہیں ’’افسوس کی بات ہے، آپ تک یہ شعرنہ پہنچ سکا‘‘ بالفاظِ دیگر انہیں کم فہم قرار دیتے ہیں۔ 

اسی طرح عام طور پر ہرشاعر اپناکلام سنانے مائیک کے سامنے آتاہے، تو چار مصرعے، جسے ہم قطعہ بھی کہہ سکتے ہیں، نذر کرنے کے بعد اپنی غزل یانظم پیش کرتا ہے۔ بعض دو قطعے بھی سنا دیتے ہیں، لیکن اب کچھ عرصے سے بھارتی شاعروں کی یہ ’’بدعت‘‘ پاکستانی شاعروں نے بھی اپنالی ہے کہ اپنی ہی مختلف غزلوں کے ایک ایک یا دودو اشعارسنانے کے بعد پانچ یا چھے اشعارکی غزل سامعین کی نذر کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال پر ہمارے بزرگ دوست مرحوم اعجازرحمانی کہتے تھے کہ ’’یہ ’’کٹ پیس‘‘ سناتے ہیں۔‘‘ یہ اور بات کہ تبصرہ کرتے ہوئے ایک ایسا لفظ بھی شامل کردیتے، جو ناقابلِ تحریر ہے۔

بہرحال، اعجاز رحمانی اور کچھ دوسرے شعراء کے توسّط سے ہم حفیظ میرٹھی کی شخصیت سے مزید متعارف ہوئے، تو یہ بھی معلوم ہوا کہ اُس وقت کی بھارتی وزیراعظم، اندرا گاندھی کی 1975ء میں عائد کی گئی ایمرجینسی (ہنگامی حالات) کے دوران حفیظ میرٹھی کی سیاسی غزلوں نے پورے بھارت میں ہلچل مچادی تھی۔ یاد رہے کہ اس قانون کے تحت ساری حزبِ اختلاف کو گرفتارکیا گیا اور اندراگاندھی کے صاحب زادے، سنجے گاندھی نے مَردوں کی نس بندی کا سلسلہ شروع کیا۔ نس بندی کی یہ تحریک طویل عرصے چلی اور اس نے بڑی شہرت پائی۔ نتیجتاً اندراگاندھی اگلا الیکشن ہارگئیں۔ 

اسی قانون کے بِنا پر ان کی جماعت کانگریس کو تیس سال بعد شکست کامزہ چکھنا پڑا۔ تاہم، اس کے باوجود حفیظ صاحب کا ایک کے بعد ایک باغیانہ کلام شایع ہوتا رہا۔ لیکن آخرکب تک۔ شورش کاشمیری اپنی تقریروں میں اکثر کہا کرتے تھے ’’نازک مزاجِ شاہاں، تابِ سخن نہ دارد‘‘ وہی ہوا، ان کاکلام طبعِ نازک کو گراں گزرا، نتیجے میں وہ گرفتار ہوگئے۔

دبئی میں قیام کے دوران پانچ دن کی رفاقت میں بارہا ان سے گفتگو ہوئی۔ قید کی تفصیل پوچھنے پر ہمیشہ مُسکرادیتے۔ اصرار کرنے پر صرف اتنا کہتے، ’’بھئی، پانچ چھے سال پرانی بات ہے۔‘‘ حیرت ہوتی کہ اس قدر انقلابی فکرکا یہ شاعر تقریباً ساٹھ سال کی عُمر میں اتنا سادہ، ملن سار ہے اور تمام تکالیف کوفراموش کرکے کتنا مطمئن بیٹھا ہے۔ نہ کہیں جِلاوطنی اختیارکی اور نہ رُوپوش ہوا۔ (حالاں کہ جلاوطنی اختیارکرنے والے پاکستانی ادیبوں، شاعروں کی ایک طویل فہرست ہے، جو1977ء کے مارشل لا کے دوران فرار ہوگئے تھے اور انہیں سب سے سکون بخش جگہ دشمن ملک ہی میں میسّر آئی)۔ 

یہ خیال بھی دل میں آیاکہ ہمارے ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں بنایا گیا، لیکن پھر یہ سوچ کر ذہن سے نکال دیا کہ یہاں مارشل لا لگادیا جاتا ہے اور ہماری عدلیہ کبھی نظریۂ ضرورت کے تحت جائز قرار دیتی ہے اور کبھی کہتی ہے کہ کام یاب بغاوت ایک انقلاب ہوتی ہے۔ مزید ستم یہ کہ مارشل لا حکم رانوں کوآئین میں ترمیم کا اختیاربھی دیتا ہے۔

حفیظ میرٹھی، متناسب جسم اور ایک عام سی قدوقامت کے فرد تھے، مگر عزم و شجاعت، حوصلہ مندی اور استقامت کے پیکر تھے، جب کہ ذاتی حالات کے اعتبار سے اُن کا تعلق نچلے متوسّط طبقے سے تھا، مگر وہ جو قمرجلالوی کہہ گئے ہیں ؎ حوصلے دیکھیے بے سروسامانوں کے۔ کچھ عرصے بعد سننے میں آیاکہ اُن کی اہلیہ کو قتل کردیا گیا۔ تحقیقات میں اُسے خودکُشی قرار دے کر کیس داخلِ دفتر کردیا گیا۔ 

عام طور پر اس عُمر میں شریکِ حیات کی جدائی پر انسان ٹوٹ جاتا ہے اوراگروہ قتل ہوجائے، تو صدمہ اور بھی گہرا ہوجاتا ہے، مگر پھربھی وہ حوصلہ نہیں ہارے، اپنی روش پرقائم رہے اوراس سانحے کو بھی کو اشعارمیں ڈھال کرذہنی مایوسی اور خلفشار کا سامنا کیا۔ دیکھیں، کس قدر کرب و اذیت کااظہار ہے ؎ عجیب لوگ ہیں کیا خُوب منصفی کی ہے.....ہمارے قتل کو کہتے ہیں خودکُشی کی ہے.....یہ بانکپن تھا ہمارا کہ ظلم پرہم نے .....بجائے نالہ و فریاد، شاعری کی ہے۔ ؎ اُداسیوں کوحفیظ آپ اپنے گھر رکھیں..... کہ انجمن کو ضرورت شگفتگی کی ہے۔

حفیظ میرٹھی کے مجموعۂ کلام ’’متاعِ آخرِ شب‘‘ کے پیش لفظ میں نعیم صدیقی اُن کی شاعری کاتجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں،’’اپنے صحیح فرائض سے اہلِ فن کی بغاوت کے خلاف آج بہت سے دانش وَر علَم بغاوت بلندکررہے ہیں، اُن میں بزرگ شاعر، حفیظ میرٹھی کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ بھارت کے علاوہ پاکستان کے مشاعروں اور شعری مجلسوں میں وہ اپنے فن کی تازہ روشنی بکھیر کر داد پاچکے ہیں۔ 

حفیظ صاحب زندگی کے روزمرّہ واقعات اور عمومی تجربوں سے شعریت کا جو رس نچوڑ کے پیش کرتے ہیں، اس کا ہر قطرہ قارئین اور سامعین کے ذہنوں میں تارے جگمگا دیتا اور موتی اچھال دیتاہے۔‘‘ پٹنہ یونی ورسٹی، بہار کے پروفیسر عبدالغنی فرماتے ہیں، ’’مَیں حفیظ کو اُن شاعروں میں سمجھتا ہوں، جن کی تربیت خواہ کسی مخصوص حلقے میں ہوئی ہو، مگر اپنے حُسنِ کلام کی بدولت وہ دائرئہ عام میں اپنے لیے جگہ بنالیتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بات شاعر کی ممکنہ عظمت کی دلیل ہے۔ 

اس لیے کہ جب تک فکرِخاص فکرِعام نہ حاصل کرلے فن کے دائرے میں اُس کا اعتبار قائم نہیں ہوتا۔‘‘ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ کے اخترانصاری، حفیظ میرٹھی کی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں،’’غزل کی طرف حفیظ صاحب کا رویّہ ایک تخلیقی اورمتحرک رویّہ ہے۔ اُن کے یہاں غزل کی روایت کی پاس داری بھی ہے اور اُس کے فنی لوازم کااحترام بھی۔ غزل کے رموز و علائم کو انہوں نے سلیقے سے برتاہے اورتقریباً ہرجگہ تخیّل اورجذبے کی خلّاقانہ قوت سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔‘‘

بلاشبہ، موت ایک اٹل حقیقت ہے، اس سے انحراف ممکن نہیں۔ سو،حفیظ میرٹھی بھی داغِ مفارقت دے گئے اور یوں میرٹھ کی فضائوں میں روشنی کا جو چراغ 10جنوری1922ء کو طلوع ہوا تھا،7جنوری2000ء کو غروب ہوگیا۔

سنڈے میگزین سے مزید