• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرطان سے جنگ آسان نہیں، مگر جیتی ضرور جاسکتی ہے

ہر سال دنیا بَھر میں ماہِ ستمبر’’بچّوں کے سرطان سے آگہی ماہ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے، تاکہ ہر سطح، بالخصوص والدین تک اس مرض سے متعلق چیدہ چیدہ معلومات عام کی جاسکیں۔ یاد رہے، سرطان کےضمن میں ایک انتہائی اہم بات یہ ہے کہ یہ مرض جس قدرجلد تشخیص ہو جائے، علاج میں کام یابی کی شرح اُتنی ہی بڑھ جاتی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں زیادہ تر والدین شعور و آگہی نہ ہونے کے سبب ابتدائی علامات نظرانداز کردیتے ہیں اور عموماً معالج سے تب ہی رجوع کیا جاتا ہے، جب مرض خاصا پیچیدہ ہوچُکا ہوتا ہے۔ 

سو، بچّوں میں سرطان سے آگہی ماہ کی مناسبت سے ہم نےاس مرض سے متعلق تفصیلاًجاننے کے لیے آغاخان یونی وَرسٹی اسپتال کے شعبہ پیڈیاٹرک انکولوجی کی سربراہ، بچّوں کےسرطان اور برین ٹیومرزکی ماہر اورپاکستان کی پہلی تربیت یافتہ پیڈیاٹرک نیوروانکولوجسٹ، ڈاکٹر نورین مشتاق سے تفصیلی بات چیت کی۔

ڈاکٹر نورین مشتاق نے سندھ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد آغا خان یونی ورسٹی اسپتال سےہاؤس جاب، ریذیڈینسی اوربچّوں کے سرطان میں فیلو شِپ مکمل کی۔ بعدازاں، بچّوں میں برین ٹیومر کی فیلڈ میں اسپیشلائزیشن کے لیے کینیڈا چلی گئیں، جہاں ’’دی ہاسپٹل فار سِک چلڈرن، ٹورنٹو‘‘ سے اسپیشلائزیشن کیا۔ 

یوں تو ڈاکٹر نورین 2010ء سے آغا خان یونی وَرسٹی، اسپتال سے بطور فیکلٹی ممبر وابستہ ہیں، لیکن 2014ء میں کینیڈا سے واپسی کے بعد انہوں نے یہاں نیوروسرجنز، انکولوجسٹس، پیتھالوجسٹس، ریڈیالوجسٹس، فزیو تھراپسٹس وغیرہ پر مشتمل باقاعدہ ایک ٹیم بنائی، جو بطور ٹیم بچّوں میں برین ٹیومرز کاعلاج کررہی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ جہاں 2014ء سے قبل تک برین ٹیومر سےمتاثرہ بچّوں کے بچاؤ کی شرح دس فی صد تھی، اب گزشتہ9 برسوں میں جو چار سو سے زائد بچّے (نومولود تا اٹھارہ برس تک) لائے گئے، اُن میں Survival Rate قریباً 55 فی صد تک رہا۔ 

اس حوالے سے ڈاکٹر نورین مشتاق کا کہنا ہے کہ ’’اس وقت پوری دنیا میں برین ٹیومرز سےشفایاب ہونے والے بچّوں کی شرح 70 فی صد تک ہے، تو اس لحاظ سے ہم ابھی خاصے پیچھے ہیں، لیکن بہرحال ہم نےکم وقت میں بڑا ٹارگٹ حاصل کیا ہے اور اُمید ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ ویسے برین ٹیومر کےعلاج کےنتائج زیادہ اچھےنہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اس بیماری کے علاج کے صرف چند ہی سینٹرز ہیں، وہ بھی صرف بڑے شہروں میں، تو بیش ترمتاثرہ بچّوں کےوالدین علاج معالجےکے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچ ہی نہیں پاتے یا اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ 

پھر اس مرض سے متعلق آگہی نہ ہونا بھی علاج میں تاخیر کا سبب بنتا ہے۔ پھرکئی مرتبہ والدین مکمل شعوروآگہی نہ ہونے کی وجہ سے ابتدائی علامات سےسمجھ نہیں پاتے کہ بچّے کو ٹیومر ہے۔ اور چوں کہ سینٹرزصرف بڑے شہروں ہی میں قائم ہیں، تو چھوٹے شہروں کے بچّے وہاں تک پہنچ نہیں پاتے یا جب تک پہنچتے ہیں، اُن کامرض خاصا پیچیدہ ہوچُکا ہوتا ہے۔ نیز، ہمارے یہاں تو برین ٹیومر کے 60فی صد مریض سرجری ہی نہیں کرواتے۔ یاد رکھیں، سرطان کی بروقت تشخیص اور مکمل علاج ہی کے ذریعے آپ کا بچّہ صحت یاب ہوسکتا ہے۔‘‘ڈاکٹر نورین سے ہونے والی مکمل گفتگو سوالاً جواباً پیشِ خدمت ہے۔

نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے… (عکّاسی: اسرائیل انصاری)
نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے… (عکّاسی: اسرائیل انصاری)

س: بچّوں کو لاحق ہونے والے سرطان، بڑوں کے کینسرز سے کس حد تک مختلف ہیں اور عموماً بچّوں میں کون سے سرطان زیادہ عام ہیں؟

ج: یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے کہ لوگوں کو یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ بچّوں کو لاحق سرطان، بڑوں کے سرطان سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ بچّوں کو لاحق کینسرز، ان کا طریقۂ علاج، شرحِ کام یابی اورشرحِ اموات میں بھی واضح فرق ہے۔ بچّوں میں سب سے زیادہ خون کا سرطان (Acute Leukemia) پایا جاتاہے، جس کی سب سےعام قسم ’’Acute Lymphoblastic Leukemia‘‘ ہے، جو کینسر کے شکار ہر 100 میں سے ایک بچّے میں پایا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر برین ٹیومرز، غدود کےکینسرز،کڈنی ٹیومرز، آنکھوں کے ٹیومرز(جو صرف بچّوں ہی کو لاحق ہوتے ہیں)ہڈّیوں کے کینسرز نیورو بلاسٹوما (neuroblastoma) وغیرہ ہیں۔ 

یاد رہے، یہ تمام ٹیومرز، کینسرز بڑوں میں پائے جانے والے کینسرز سے یک سر مختلف بھی ہوتے ہیں اور ان کا طریقۂ علاج بھی الگ ہوتا ہے۔ پھر والدین کی اکثریت یہ سوال بھی کرتی ہے کہ ’’ہمارے ہی بچّے کوکینسر کیوں ہوا، ہم تو اس کی صفائی ستھرائی، خوراک وغیرہ کا بےحد خیال رکھتے ہیں‘‘ تو یاد رہےکہ ہمیں زیادہ تر کیسز میں سرطان لاحق ہونے کے اسباب کا علم نہیں ہوتا، کیوں کہ کچھ جینیاتی وجوہ بھی ہیں، جن سے وہ کینسرز کا شکار ہوتے ہیں، جب کہ بڑوں میں سرطان کی وجوہ یک سرمختلف ہوتی ہیں۔

س: دنیا بَھر اور پاکستان میں کینسر کے شکار بچّوں کی شرح کیا ہے اور کیا ترقّی پذیر اور ترقّی یافتہ ممالک میں اس حوالے سے کوئی تفریق موجود ہے؟

ج: پوری دنیا میں ہرسال جتنے بچّے کینسر کا شکار ہوتے ہیں، اُن میں سے80 فی صد کا تعلق لو مڈل انکم کنٹریز(LMIC)، یعنی ہم جیسے ممالک(پاکستان بھارت، بنگلا دیش، نیپال، افریقا وغیرہ)سے ہوتا ہے، جب کہ 20 فی صد کا تعلق ترقّی یافتہ ممالک سے ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ بچّوں کے کینسرز کا علاج کرنے والے سینٹرزکی کمی، بنیادی سہولتوں اور وسائل کا فقدان ہے۔

س : ’’بچّوں کے کینسر سے آگہی کا مہینہ‘‘ منانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور ہر سال ایک الگ تھیم کے ساتھ یہ دن منانے کا مقصد کیا ہے، نیز امسال یہ ماہ ’’Better Survival Is Achievable ‘‘ کے تھیم سے منایا جا رہا ہے، تو اس حوالے سے کچھ بتائیں۔

ج: یہ اس لیے بہت ضروری ہے کہ عوام، بالخصوص والدین میں اِس مرض سے متعلق شعور و آگہی پیدا ہو۔ کئی سال پہلے تک بچّوں میں سرطان، بالخصوص خون کے سرطان، آنکھوں، ہڈیوں کے ٹیومرز وغیرہ سے متعلق شعور و آگہی بہت کم تھی، لیکن جیسے جیسے دنیا ترقّی کررہی ہے اور کینسر کے شکار بچّے رپورٹ ہونا شروع ہوئے ہیں، تو اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ تو بچّوں میں پائی جانے والی انتہائی سنجیدہ اور خطرناک بیماری ہے اور اِس سے متاثرہ بچّوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا تعلق ترقّی پذیر ممالک سے ہے، جب کہ ہمارے یہاں ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ سرطان میں مبتلا بچّوں کی بڑی تعداد اسپتالوں تک پہنچ ہی نہیں پاتی، کیوں کہ پورے پاکستان میں بچّوں کے کینسرز کےعلاج کے لیے صرف 13 سینٹرز (آغا خان اسپتال، این آئی سی ایچ، انڈس، چلڈرن اسپتال، ملتان، پیپلزمیڈیکل کالج، نواب شاہ، شوکت خانم، لاہور،چلڈرن ہاسپٹل، لاہور، پمز، سی ایم ایچ، پنڈی، لیڈی ریڈنگ اسپتال، پشاور اور فیصل آباد اسپتال وغیرہ) ہیں۔ 

باقی اسپتالوں میں کینسر کے علاج معالجے کی سہولتیں تو ہیں، لیکن بچّوں کے کینسرز کےعلاج کے لیے باقاعدہ الگ سے یونٹ یا وارڈ نہیں۔ تو کم وسائل میں عوام کی جتنی خدمت کی جا سکتی ہے، وہ کی جا رہی ہے، مگر اس حوالے سے حکومتی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر چھوٹے، بڑے شہر میں یونٹس قائم کیے جائیں، تاکہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہر بچّے کا علاج ممکن ہو سکے۔ اس لیے نہ صرف پاکستان، بلکہ پوری دنیا ہی میں بچّوں کے سرطان سے متعلق آگہی کی اشد ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ یہ بھی کوئی بیماری ہے، جس کی بروقت تشخیص، علاج معالجہ ان کے بچّوں کی زندگیاں بچا سکتا ہے۔ 

جس طرح پہلے بریسٹ کینسر سے متعلق شعورو آگہی نہیں تھی، تو اکثر خواتین ڈاکٹرز کے پاس تاخیر سے پہنچتی تھیں، لیکن اب آگہی کی وجہ سے اس مرض کی بروقت تشخیص اورعلاج ہو رہا ہے، تو بہت سی قیمتی جانیں بھی بچ جاتی ہیں۔ اِسی طرح کینسر سے متاثرہ ہر بچّے کا حق ہے کہ اُسے اچھا، معیاری علاج فراہم کیا جائے اور اس ضمن میں ہم سب ہی کوششیں کر رہے ہیں۔ ہماری دوآرگنائزیشنزہیں۔ ایک ’’پاکستان سوسائٹی آف نیورو انکولوجی (PASNO)‘‘ اور دوسری ’’پاکستان سوسائٹی آف پیڈزانکولوجی(PSPO)‘‘، تو ان کے تحت ہم نے کئی پروٹوکولزمرتّب کیے ہیں، تاکہ ہراسپتال میں اُن پرعمل درآمد کے ساتھ بچّوں کا علاج معالجہ ہوسکے۔ ان پروٹوکولز کی مدد سے جن اسپتالوں یاسینٹرزمیں بچّوں کےکینسرز کا علاج کیاجارہا ہے، وہاں اچھے نتائج برآمد ہورہے ہیں اور اُمید ہے کہ مستقبل میں مزید بہتری آئے گی۔

س: کیا دَورِ حاضر میں بچّوں کے سرطان کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، اگر ہاں، توکیوں؟ جب کہ سائنس کی روزافزوں ترقی کے بعد تو تشخیص و علاج کی سہولتیں کہیں زیادہ بڑھی ہیں؟

ج: بات یہ ہے کہ پہلے بھی کینسرز سے ہلاکتیں ہوتی تھیں، لیکن شعور و آگہی نہ ہونے کے سبب اندازہ نہیں ہوپاتا تھا کہ فلاں شخص کا انتقال کینسر سے ہوا ہے، جب کہ آج کا دَور اس اعتبار سے بالکل مختلف ہے کہ آج اس مرض کی تشخیص بھی ممکن ہے اور علاج بھی۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیےکہ کینسر سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ صرف پاکستان میں نہیں، پوری دنیامیں ہوا ہے۔ نیز، صرف بچّوں میں نہیں، بڑوں میں بھی ہوا ہے۔ جیسے آج کل بچّے لیوکیمیا، دماغ، آنکھوں اورپیٹ کے ٹیومرزمیں زیادہ مبتلا ہورہے ہیں۔اور ایسا کیوں ہورہا ہے، اس کی ایک بنیادی وجہ ماحولیاتی تبدیلی اورجینیات ہیں،تو جیسے جیسے یہ تبدیلیاں آتی رہیں گی، دیگر معاملات کی طرح صحت بھی متاثر ہوتی رہےگی۔ 

پھر کئی مرتبہ والدین ہم سےآکر پوچھتے ہیں کہ ’’ہم سےایسی کیا غلطی ہوگئی، جس کی وجہ سے بچّےکو یہ بیماری ہوگئی، کیا مائکروویو کے استعمال سے ایساہوایا انٹرنیٹ ڈیوائس وجہ بنی یا موبائل ٹاور کے پاس گھرہونےسے ایسا ہوا‘‘، تو یاد رکھیں، ایسا کچھ نہیں ہے۔ ہاں، کئی عوامل جیسے جینیاتی، ماحولیاتی تبدیلی، طرزِ زندگی وغیرہ سب مل کربیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔ پھر پہلے کیسز رپورٹ نہیں ہوتے تھے، اب ہوتے ہیں، تواس لیے بھی ایسا لگتا ہے کہ کینسرکی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ 

ایک سروے رپورٹ کے مطابق پورے پاکستان میں قریباً سات، آٹھ ہزار بچّے سالانہ کینسر کا شکار ہوتےہیں، مگر یہ وہ ڈیٹا ہے،جو بچّوں کے کینسر کے علاج کے لیے مخصوص سینٹرز سے جمع کیا گیا ہے، جب کہ یقیناً ایسے لاتعداد کیسز بھی ہوں گے، جن کا کوئی ریکارڈ، کوئی ڈیٹا مرتّب نہیں ہوتا۔ اوراس بڑھتی ہوئی شرح کی ایک وجہ علاج معالجے کی مناسب سہولتوں کا نہ ہونابھی ہے،کیوں کہ بہت سےوالدین اتنا منہگا علاج افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔ دوم، مراکز کی کم تعداد کے سبب، علاج کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر بھی نہیں کر سکتے۔

س: کس ایج گروپ کے بچّے سرطان سے زیادہ متاثرہوتےہیں اوروجوہ کیاہوتی ہیں، بچوں کےکون کون سے سرطان قابلِ علاج ہیں اور کس اسٹیج پر؟

ج: عموماً 3 سے 8 سال کے بچّوں میں یہ خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اسی ایج بریکٹ کے بچّے بلڈ کینسر سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اگر دیگر کینسرز کی بات کی جائے، تو غدود کا کینسر 5 سے 13 سال کے بچّوں میں، ٹانگ یا ہڈّیوں کا کینسر عموماً 10 سال سےبڑے بچّوں میں پایا جاتا ہے۔ برین ٹیومر کی بات کریں، تو کہنے کو تو دماغ ایک چھوٹا سا عضو ہے، لیکن اس میں چالیس سے پچاس اقسام کے کینسرز ہوتے ہیں اور ہر کینسر، الگ ایج گروپ کو متاثر کرتا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ اس کی فیلو شِپ بھی الگ ہی ہوتی ہے، جس میں صرف برین ٹیومر ہی سے متعلق پڑھایا جاتاہے۔ برین ٹیومر اور ہڈیوں کے سرطان کا طریقۂ علاج شعائیں، سرجری، کیموتھراپی ہے، خون کے سرطان کا علاج کیمو تھراپی سے کیا جاتا ہے۔ یعنی عام الفاظ میں بات کریں، تو کیمو تھراپی اور شعاؤں سے علاج تو کیا ہی جاتا ہے، مگر اعضاء کے کینسر میں سرجری بھی کی جاتی ہے۔ نیز، سائنس کی روز افزوں ترقّی کے ساتھ طریقۂ علاج میں بھی تبدیلیاں آرہی ہیں، جیسے اب کچھ کینسرز میں ٹارگٹڈ تھراپی کی جاتی ہے۔ خون کے سرطان میں مبتلا مریض کا مخصوص ادویہ کےذریعےعلاج کیاجاتا ہے۔ 

گرچہ یہ ادویہ ہمارے یہاں عام نہیں، لیکن بیرونِ ممالک بآسانی دست یاب ہیں۔ جہاں تک بات ہے، کون کون سے کینسرز قابلِ علاج ہیں، تو بچّوں کے زیادہ تر کینسرز قابلِ علاج ہی ہیں۔ جیسےاگر لیوکیمیا کی بروقت تشخیص ہوجائے، تو 70 سے 80 فی صد بچّے مکمل طور پر صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ یعنی علاج کروانا بےحد ضروری ہے،کئی مرتبہ بچّوں کےمُوڈ سوینگز، تکلیف، مسلسل دوا دارو دیکھ کر والدین علاج ادھورا چھوڑ دیتے ہیں، ہمّت ہار جاتے ہیں، تو میری اُن سے دست بستہ درخواست ہے کہ براہِ مہربانی، علاج مکمل کروائیں، آپ کا بچّہ ٹھیک ہو جائے گا، بس تھوڑی ہمّت سے کام لیں۔‘‘ 

اسی طرح آنکھوں کےکینسرمیں مبتلا80 سے90 فی صد بچّے اور کڈنی ٹیومر میں مبتلا 80 فی صد تک بچّے بالکل صحت یاب ہوجاتے ہیں، بس ضرورت صرف بروقت تشخیص وعلاج کی ہے۔ ہاں، البتہ برین ٹیومر کے نتائج سب سے خراب ہیں۔ اگر وقت پرتشخیص و علاج ہوجائے، تو کام یابی کی شرح 50 سے60 فی صدتک ہوتی ہے، جب کہ اگر کوئی سخت قسم کا ٹیومر ہو، تو پھر یہ شرح 10 فی صد تک ہی رہ جاتی ہے۔

س: بچّوں کو لاحق ہونے والے سرطان میں موروثیت کا کس قدرعمل دخل ہے اور کن اقسام میں موروثی عُنصرغالب ہوتا ہے؟

ج: یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ پاکستان میں موروثیت بے حد عام، یعنی قریباً 60 فی صد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف کینسر ہی نہیں، یہاں ہر موروثی بیماری عام ہے۔ اب چاہے وہ تھیلیسیمیا ہو، میٹابولک ڈِس آرڈر، کوئی دماغی بیماری ہو یا کینسرز۔ عموماً کینسرز، ٹیومرز جینزمیں پائےجاتے ہیں۔ جیسے اگر کسی خاندان کےایک بچّے کو کینسر ہے، تو دوسرے کو بھی ہو سکتا ہے اور بہت سے خاندان ایسے ہیں کہ جن کے یہاں شادیاں صرف خاندان ہی میں ہوتی ہیں، تو اُن کے بڑوں اور بچّوں دونوں میں کینسرز کی شرح زیادہ پائی گئی ہے۔ 

اگر ہم آنکھ کے ٹیومر کی بات کریں، تو میاں، بیوی میں سے کسی کو بچپن میں یہ کینسر ہو، تو ہر اگلے حمل میں بچّوں کے اس مرض میں مبتلا ہونے کا خطرہ کئی گُنا بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح غدود کے کچھ کینسرز، برین ٹیومرز (کچھ اقسام) تک میں موروثیت کا عمل دخل دیکھا گیا ہے۔ یوں کہیے،30 سے 50 فی صد برین ٹیومرز میں موروثیت کا عُنصر پایا جاتا ہے۔

س: کینسر کی ابتدائی علامات اور عوامل کے حوالے سے بھی کچھ بتایئے۔

ج: لیوکیمیا کی بات کریں، توزیادہ تر بچّوں کی علامات تیز بخار سےظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں۔ عموماً والدین سمجھتے ہیں کہ بڑوں کی طرح بچّوں کا بخار بھی طویل عرصہ چلتا ہے، لیکن بچّوں کا بخار ایک آدھ دن میں اُتر جانا چاہیے۔ نہ اُترے، تو ڈاکٹر سے فوری رابطہ کیا جائے، پھر بچّے کا سفید پڑجانا، پیٹ پھول جانا، غدود، جگر، تلّی کا بڑھ جانا، وہ علامات ہیں، جو بلڈ کینسرزکی ہوسکتی ہیں، جب کہ آنکھوں کا کینسرپیدائشی طورپربھی پایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں بچّوں کے ڈاکٹرز کو پیدائش کے وقت ہی بچّے کی آنکھ میں ریڈ ریفلیکس دیکھنے کی عادت اپنانی چاہیے۔ 

یعنی بچّے کی آنکھ میں روشنی ڈال کردیکھیں اوراگر سُرخی کے بجائے سفیدی ملے، تو مطلب آنکھ میں گڑبڑ ہے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب بچّے ذرا بڑے ہوتے ہیں، یعنی آنکھیں کھولنے لگتے ہیں اور اُن کی تصویریں کھینچی جاتی ہیں، تو تصویروں میں آنکھ کا ریڈ ریفلیکس نظر آجاتا ہے، لیکن موتیا یا ٹیومر میں مبتلا بچّوں کی آنکھیں سفید دکھائی دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس کچھ والدین تصاویر لے کرآتے ہیں کہ دیکھیں اس کی آنکھ سفید نظر آرہی ہے، پھر ہم ٹیسٹس کرواتے ہیں، تو تشخیص ہوجاتی ہے۔

کڈنی کینسر میں پیٹ کے اندر کوئی چیز محسوس ہوتی ہے، جیسے کچھ مائیں نہلاتے ہوئے بچّوں کے پیٹ پر ہاتھ پھیرتی ہیں، تو اُنہیں محسوس ہوتا ہے کہ اس جگہ کچھ ہے، تو وہ ڈاکٹر سے رابطہ کرتی ہیں، ہڈیوں کےکینسرز میں ناقابلِ برداشت درد ہوتا ہے، زخم یا دانہ بھی ہو سکتا ہے اور برین ٹیومر کی بات کریں، تو دماغ کے جس حصّے میں ٹیومر ہوگا، وہاں کی علامت ظاہر ہوں گی، جیسے پچھلی طرف ٹیومر ہوا، تو یہ حصّہ چوں کہ توازن کنٹرول کرتا ہے، لہٰذا جن بچّوں کو اس حصّےمیں ٹیومر ہوگا، اُن کا بیلنس بگڑجائےگا۔ اسی طرح اگرکسی بچّے کو اسپائنل کارڈ (حرام مغز) میں ٹیومر ہو، تو وہ بےحد کم زور ہوجائے گا، جب کہ بہت مرتبہ فالج جیسی کیفیت بھی ہوجاتی ہے۔

س: پاکستان میں بچّوں میں سرطان کی روک تھام کے حوالے سے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

ج: پاکستان سوسائٹی آف نیورو انکولوجی (PASNO) برین ٹیومر کے حوالے سے بہت کام کررہی ہے،جب کہ ہماری آرگنائزیشن (PSPO) بھی بچّوں کے کینسرز کے حوالے سے خاصی ایکٹیو ہے، تو یہ دونوں ادارےمل کر بڑے لیول پر کام کر رہے ہیں۔ 

پھر اِن اداروں کے تحت ہماری ٹیمز نے ایسے پروٹوکولز بنائے ہیں، جن کے تحت تمام سینٹرزمیں بچّوں کے عمومی کینسرزسے متعلق رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ اور ان گائیڈلائنز ہی کے تحت تقریباً تمام سینٹرز میں معیاری علاج معالجہ فراہم کیا جا رہا ہے۔ نیز، اگرحکومت اس حوالے سے کچھ مدد کرے، تو یہ کام مزید تیزی سے اور موثر انداز میں ہو سکے گا۔

س : بچّوں کے طرزِ زندگی میں کون سی مثبت تبدیلیاں کینسرسےبچاؤ میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں؟

ج: صحت مند طرزِ زندگی بیماریوں کی روک تھام میں بڑا کردارادا کرتی ہے۔ ہربچّےکو گوشت (گائے، بکرے، مرغی، مچھلی)سے دالوں، سبزیوں، پھلوں تک سب کچھ کھانا چاہیے، جسمانی ورزش، کھیل کود میں حصّہ لینا چاہیے، ہر وقت بیٹھے رہنے، ویڈیو گیمز وغیرہ کھیلنے سے بھی صحت متاثر ہوتی ہے۔

س: کیا پاکستان میں پیڈیاٹرک انکولوجسٹس کی تعداد تسلّی بخش ہے، نیز تشخیص اور علاج کے حوالے سے بھی کچھ بتائیں۔

ج: ہرگز نہیں کہ ہم بائیس، تئیس کروڑ آبادی کا مُلک ہیں، جس میں پیڈیا ٹرک انکولوجسٹ کی تعداد صرف 23 سے 25 ہے۔ اوراِن میں سے بھی زیادہ تر کراچی اور لاہور ہی میں ہیں۔

س: حال ہی میں ایک رپورٹ آئی ہے، جس کے مطابق بچوں میں اموات کا دوسرا بڑا سبب سرطان ہے، تو جب بچّوں میں سرطان کا علاج بہت حد تک کام یاب تصوّر کیا جاتا ہے، تو پھر اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی وجہ؟

ج: اس پہ مَیں پاکستان کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گی کہ یہاں اتنی بڑی آبادی کے لیے صرف گِنے چُنے سینٹرز اور معالجین، محدود وسائل ہیں، تو جب کوئی سہولت ہی نہیں ہے، انفرااسٹرکچر نہیں ہے، مختلف وجوہ کی بنا پر کینسرز کے علاج میں استعمال ہونے والی ادویہ پاکستان نہیں آرہیں، تو علاج کیسے ممکن ہوگا۔ چھوٹےشہروں کےلوگ علاج معالجے کے لیے بڑے شہروں میں کیسے آئیں گے، آبھی جاتے ہیں، توطبیعت ذرا بہتر ہونےپرآدھا ادھورا علاج کروا کے چلے جاتے ہیں، اس طرح کینسر جڑ سےختم نہیں ہوپاتا بلکہ حالت مزید خراب ہو جاتی ہے۔

س: عوام النّاس اور خصوصاً والدین کے لیے اس مہینے کی مناسبت سےکوئی پیغام دینا چاہیں گی؟

ج: جوعلامات بتائی گئی ہیں، اُن پرنظر رکھیں۔ بچّہ سفید پڑنے لگے، چال میں لڑکھڑاہٹ، کم زوری ہو، غدود، پیٹ پر سوجن ظاہر ہو تو وقت ضایع کیے بغیر فوری معالج کو دکھائیں۔ کوئی ڈاکٹرکسی خدشے کا اظہار کرے، تو ڈرنے کے بجائے ٹیسٹس کروائیں، ماہرین کو دکھائیں، کیوں کہ بروقت تشخیص ہی کامیاب علاج میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

نیز، علاج ادھوراکبھی نہ چھوڑیں اور یہ علاج عام طور پر بہت طویل ہوتا بھی نہیں ہے، بس لیوکیمیا کا علاج ذرا لمبا ہوتا ہے، مگر اُس میں بھی بچّہ سات، آٹھ ماہ بعد اسکول جانے کے قابل ہوجاتا ہے۔ مانا کہ کینسر سے جنگ آسان نہیں، مگر دوا اوردُعا دونوں کے ذریعے یہ جنگ بہرحال جیتی جا سکتی ہے۔