پاکستانی قوم اس وقت شدید مایوسی، بداعتمادی اور افراتفری کا شکار ہے۔ بے یقینی نے پوری قوم کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں پاکستان معاشی، سیاسی اور اخلاقی دلدل میں جا گرا ہے جس سے رستگاری کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ جو ''ماہرینِ'' معیشت ٹھیک کرنے آئے تھے وہ اسکا بیڑا غرق کر کے برطانیہ پہنچ چکے ہیں۔ تقریبا ڈیڑھ سال تک وزارت عظمی کا لطف اٹھانے کے بعد جناب شہباز شریف بھی اپنے ''آبائی وطن'' میں قیام پذیر ہو چکے ہیں پیپلز پارٹی کے جناب آصف علی زرداری کے دبئی منتقل ہونے کی اطلاعات ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کے ملک سے فرار نے سیاسی قیادت کے طرزِ عمل پر سوالیہ نشان ثبت کر دیئے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان جو مجموعی آبادی کا تقریبا 64فیصد ہیں اور جن کی عمریں 30 سال سے کم ہیں وہ اپنے مستقبل سے مایوس نظر آتے ہیں۔ ان کیلئے کاروبار کے مواقع ہیں اور نہ ہی ملازمتیں دستیاب ہیں جسکا قدرتی نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ایک طرف تو لاکھوں ہنرمند اور غیر ہنرمند نوجوان ملک چھوڑ رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں اسٹریٹ کرائم کی تعداد میں شدید اضافہ ہو چکا ہے۔ عام آدمی کی مایوسی تو سمجھ میں آتی تھی لیکن اس وقت اعلیٰ تعلیمیافتہ لوگ بھی شدید پریشانی سے دوچار ہیں۔ بعض پڑھے لکھے لوگ جو وطن کی محبت میں بیرون ملک پرکشش ملازمتیں ترک کر کے پاکستان میں قیام پذیر ہوئے تھے آج وہ اپنے فیصلوں پر تاسف کا اظہار کر رہے ہیں۔ بجلی کا بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ 2008ء میں پیپلزپارٹی نے ''رینٹل بجلی'' کا سہارا لیا۔ 2013ء کی ''شریف حکومت'' نے اس مقصد کیلئے مختلف چینی اور غیر چینی کمپنیوں کیلئے دروازے کھول دیئے۔ مناسب منصوبہ بندی کے بغیر مہنگے پلانٹ لگائے جسکا نتیجہ یہ ہے کہ آج 41ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ بجلی کی کل کھپت 28ہزار میگا واٹ کے لگ بھگ ہے۔ استعمال نہ ہونیوالی بجلی کا بل بھی پاکستانی قوم کی جیبوں سے نکالا جا رہا ہے، گردشی قرضہ اس وقت پونے تین ٹریلین سے تجاوز کر چکا ہے۔ آئی پی پیز بینکوں کے 31ارب روپے کے نادہندہ ہیں۔ لائن لاسز کے یونٹ عام صارفین برداشت کر رہے ہیں۔
سالانہ 380ارب روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں روپے 100فیصد گراوٹ نے بحران مزید سنگین کردیا ہے۔ پاک فوج اور پاکستانی قوم کی عظیم قربانیوں کے بعد دہشت گردی کا جن بوتل میں بند کر دیا گیا تھا۔ لیکن نومبر 2014ء کے بعد ماہ اگست 2023ء میں سب سے زیادہ دہشت گرد حملے رپورٹ ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق صرف ایک ماہ میں 99دہشت گرد حملے ہوئے۔گزشتہ 8ماہ کے دوران 22خود کش حملے ہوئے جن میں 227سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ اس صورتحال میں موجودہ نگران حکومت بے بس نظر آرہی ہے۔ جناب نگران وزیراعظم کے بیانات سے یوں لگ رہا ہے جیسے وہ زمینی حقائق سے بے خبر ہیں۔ پورا ملک مہنگائی کی آگ میں جل رہا ہے لیکن موصوف کے نزدیک یہ کوئی ''بڑا'' بحران نہیں۔ فراست سے عاری طرز عمل سے عوام کے غصے کو مزید جلا مل رہی ہے۔ ملک میں اس وقت سیاسی قیادت کا خلا پیدا ہو چکا ہے۔ کسی بھی سطح پر عوامی نمائندگی موجود نہیں۔بلدیاتی ادارے کب کے ابدی نیند سلائے جا چکے ہیں پورا ملک غیر منتخب افراد اور نااہل افسرشاہی کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔یہ صورتحال از حد تشویش ناک ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی اور گروہی مفادات سے بلند ہو کر پاکستان کیلئے اکٹھے ہوں۔ موجودہ صورتحال سے نکالنے کیلئے اجتماعی دانش بروئے کار لائی جائے۔ ملک کے مقتدر اداروں کو اب یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ موجودہ صورتحال کو سنبھالا دینے کے لیے سیاسی عمل کا احیا ضروری ہے۔ پاکستان کو اس ٹریک پر واپس لانے کیلئے عمران خان کو جیل سے نکالنا پڑے تو نکال لیجئے، میاں نوازشریف کی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرنی پڑے تو کرنے دیجئے، آصف علی زرداری کی سیاسی فراست سے بھی استفادہ کرنے میں حرج نہیں، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق اور دیگر علاقائی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو بھی اس اکٹھ میں شامل رکھنا چاہئے،میثاق جمہوریت کی طرح ایک وسیع البنیاد نئے عمرانی معاہدے کی اشد ضرورت ہے، نئے رولز آف گیم طے کرنے کا وقت آگیا ہے،ہر سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کے احترام کو یقینی بنایا جائے، غیرحقیقی سیاسی انجینئرنگ سے ہاتھ اٹھایا جائے، عوام کو اپنی مرضی کے نمائندے منتخب کرنے کا موقع فراہم کیا جائے، معاشی فیصلوں کیلئے طویل المدت منصوبہ بندی کی جائے،آئین پاکستان کی بے توقیری بند کی جائے۔ عدلیہ اور دیگر مقتدر ادارے بھی اس معاہدے کا حصہ بنیں تاکہ قوم کا اعتماد بحال کیا جاسکے۔ اشرافیہ بھی اپنی طرز زندگی میں نمایاں تبدیلی لائے، پاکستانی قوم گزشتہ 70سالوں سے قربانیاں دے رہی ہے، اب اشرافیہ کی قربانیوں کا وقت ہے۔خدارا اپنے ذاتی اناؤں کے بت توڑیں۔
معمولی ذاتی مفاد کی خاطر ملک کو قربان کرنا چھوڑیں۔اگر یہاں حکمرانی کرنی ہے تو یہاں پر قیام بھی کریں۔بھوک اور پیاس آہنی قوم کیساتھ برداشت کریں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہی ملک کو اکٹھا رکھ سکتی ہیں۔ لیکن اس کیلئے ''رہنماؤں'' کو یہیں پر دکھ سکھ برداشت کرنا ہوں گے۔اگر کوئی رہنما اس خوش فہمی کا شکار ہے اب ''آیا آیا کون آیا''زندہ ہے لیڈر زندہ ہے'' کے نعروں سے قوم کا دل لبھا لیں گے تو وہ لکھ لیں اب لوگ انکا گریبان پکڑیں گے۔ اس سے پہلے کہ یہ لاوہ پھٹ جائے،ہر سیاسی جماعت لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے مواقع فراہم کرے ورنہ نئے ''میثاق'' کا وقت بھی نہیں مل سکے گا۔