مصنّف: مولانا سیّد اسماعیل گیلانی طوروی
ترجمہ: سیّد محمّد ظہورالحق
تدوینِ نو و تحقیق جدید: پروفیسر سیّد راشد علی
صفحات: 195، قیمت: 500 روپے
ملنے کا پتا: مکتبۃ الاحرار، چارسدّہ روڈ، مردان۔
فون نمبرز: 9872067 - 0313، 5798956 - 0300
صاحبِ سوات، مولانا عبد الغفور آخوندؒ (پیدائش: 1794ء)کا شمار تصوّف کے قادری سلسلے کے نمایاں بزرگوں میں ہوتا ہے۔ اُن کے مریدین و عقیدت مند دُور دُور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اُن کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اُنھوں نے انگریز سام راج کے خلاف بھرپور مسلّح جدوجہد کی اور اُس میں کام یاب بھی رہے۔ پھر یہ کہ اُنھوں نے جدید ریاستِ سوات کی بنیاد رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔1877ء میں اُن کا وصال ہوا اور سیدو شریف میں اُن کی آخری آرام گاہ ہے، جہاں ہم بھی ایک بار فاتحہ خوانی کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ مولانا سیّد محمّد اسماعیلؒ کو حضرت صاحبِ سواتؒ کی صحبت حاصل رہی تھی۔ اُنھوں نے فارسی میں لکھی گئی ایک قلمی بیاض میں اپنے شیخ و مرشدؒ کے حالات و اقوال قلم بند کیے، زیرِ نظر کتاب اُسی بیاض کا اردو ترجمہ ہے۔
مترجّم، ظہورالحق طوروی( وفات: 1995ء)، مصنّف کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں،اُن کا کہنا ہے کہ’’ اخوند صاحب کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں تھا، جس پر ہمارے بزرگ وقتاً فوقتاً تبصرہ نہ فرماتے ہوں۔‘‘ مشتاق الرحمٰن شفق کا کہنا ہے کہ’’ مترجّم محمّد ظہور الحق طوروی سخن فہم بھیا، چھوٹے بڑوں سب کے ہر دل عزیز لالہ، جیّد عالم اور بزرگووں کی نشانی تھے۔اُنھوں نے اصل کتاب میں خُوب صُورت اضافے کیے اور1953 ء میں اسے منظرِ عام پر لے آئے۔
اِس کتاب کی افادیت کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پشتو اکیڈمی، پشاور یونی ورسٹی کے مجلّے’’ پشتو‘‘ کے مارچ1982 ء کے’’سوات نمبر‘‘ میں بیش تر مضامین اِسی کتاب سے لیے گئے۔نام وَر مذہبی علماء شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ اور مولانا سیاح الدّینؒ نے بھی کتاب کی توصیف کی ہے۔‘‘ پروفیسر سیّد راشد علی نے اِسی افادیت کے پیشِ نظر کتاب کو ضروری اضافوں کے ساتھ شایع کیا ہے۔
پروفیسر طیب اللہ کی رائے ہے کہ ’’راشد علی نے ’’صاحبِ سوات ؒ ‘‘ کی ستّر سال بعد دوبارہ اشاعت، معلوماتی حواشی، علمی تشریحات، کتابیات اور چند تصاویر فراہم کر کے کتاب کے وقار اور نکھار میں شان دار اضافہ کیا ہے۔ یہ کتاب ہندوستان کی عموماً اور پشتونوں کی خصوصاً انیسویں صدی کے علمی، سیاسی اور جہادی فضا کی مکمل تصویر کشی کرتی ہے، جو بیک وقت دینِ متین کے علماء و صوفیاء کرام، تاریخ، سیاسیات و عمرانیات کے طلبہ اور اردو ادب کے رفقاء کے لیے مفید ثابت ہو گی۔‘‘