• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حریم اور ندا چچا زاد بہنیں تھیں۔ بچپن ایک ہی گھر میں گزرا تھا، سو آپس میں دوستانہ بھی تھا اوربہناپا بھی۔ اب گزشتہ برس سےایک ہی یونی ورسٹی میں پڑھ رہی تھیں۔ اگرچہ شعبہ جات مختلف تھے۔ یہ لاہور کی ایک پرائیویٹ یونی ورسٹی تھی، جس میں بھانت بھانت کے طلباء وطالبات زیرِ تعلیم تھے۔ کوئی مضافاتی علاقوں سے آتا تھا، تو کوئی پنجاب کے دیگر چھوٹے شہروں سے اورکوئی دیہات کے پس منظر سے تھا۔ یوں ماحول میں بھی ایک رنگا رنگی سی تھی۔ لباس، بول چال، لب ولہجے سب متنوّع تھے۔ ندا اورحریم حجاب اوڑھتی تھیں۔ ندا انگلش لٹریچر میں بی ایس کر رہی تھی اور حریم سوشیالوجی میں۔ جب کبھی دونوں فری ہوتیں، تو کسی لائبریری یا کیفے میں مل بیٹھتیں اور گپ شپ لگاتیں۔ 

ندا کافی چنچل، مَن موجی اور لاپروا سی تھی، جب کہ حریم کافی سنجیدہ اور بردبار سی۔ جب بھی وہ یونی ورسٹی میں ملتیں توندا آس پاس بیٹھے طلباء وطالبات پر تبصرے شروع کر دیتی اور بلاوجہ قیافے لگاتی رہتی۔ حریم اکثر اُسے ایسا کرنے سے منع کرتی، مگر وہ کہاں بازآتی تھی۔ ایک روز حریم لائبریری میں کچھ نوٹس بنانے میں مصروف تھی کہ ندا آ دھمکی اوربس شروع ہوگئی۔ ’’یہ لائبریری ہے ندا! آس پاس کے لوگ ڈسٹرب ہورہے ہیں۔‘‘ حریم نے آہستگی سےکہا۔ ’’تو پھر اُٹھو، باہرچلو، تمہیں ایک مزے کی بات بتانی ہے۔‘‘ ندا کے اصرار پرحریم لائبریری سے باہر آگئی۔ لیکن ندا چُھوٹتے ہی بولی۔ ’’یہ جو تمہاری کلاس فیلو فاریہ ہے ناں، بڑی تیز لڑکی ہے، اُس کا ہماری کلاس کے اویس کے ساتھ چکر چل رہا ہے۔

مَیں نے دونوں کو کئی بارساتھ دیکھا ہے۔ یہ ماڈرن لڑکیاں بھی ناں،بس ایسی ہی ہوتی ہیں۔‘‘ ’’ندا بہت غلط بات ہے، یوں بلاتحقیق کسی کے بارے میں رائے زنی نہیں کرتے۔ اگر ہم حجاب لیتی ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم باقیوں پرفتوے لگاتی رہیں۔ فاریہ بڑی ڈیسنٹ لڑکی ہے ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی ٹاپر ہےاور اُس کا لباس بھی بہت مہذّبانہ ہوتا ہے۔اور جہاں تک اویس کا تعلق ہے، تو مَیں جانتی ہوں کہ دونوں کسی این جی او کے لیے والنٹیئرکر رہے ہیں، تو اِسی لیے ساتھ بیٹھتے بھی ہوں گے۔‘‘ حریم نے بڑی دھیرج سے سمجھایا۔ ’’نہ مانو، مگرایک نہ ایک روز تم ضرور تسلیم کروگی۔‘‘ ندا اپنے موقف پر قائم تھی۔

کچھ ہی عرصے بعد امتحانات شروع ہوگئے، تو سب بےحد مصروف ہوگئے۔ اِس دوران حریم اورندا کی آپس میں ملاقات بھی نہ ہوسکی، تو امتحانات کے بعد، ایک دن حریم خُود ندا کے شعبے کی طرف چلی گئی۔ ندا کچھ کلاس فیلوز کےساتھ کیفے میں گپ شپ لگانے میں مصروف تھی۔ اُس کے بلند و بالا قہقہوں ہی نے حریم کو اپنی جانب متوجّہ کیا۔ حریم اُسے مصروف دیکھ کرپلٹنے ہی لگی تھی کہ ندااُس کی طرف بھاگی آئی۔ ’’کہاں واپس جارہی ہوتم... آؤ، بیٹھو ناں۔‘‘ نہیں، پھر کبھی سہی۔ تم مصروف ہو۔‘‘ حریم نے آہستگی سے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں، تم بھی آجاؤ۔ وہ ہمارے کلاس فیلو سرمد کی سال گرہ ہے، تو آج وہ ٹریٹ دے رہا ہے، اِسی لیے سب اکٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ ندا نے پھرکہا۔ ’’نہیں اچھا نہیں لگتا۔ مَیں چلتی ہوں، پھر ملیں گے۔‘‘حریم یہ کہہ کر واپس چلی آئی۔

امتحانات کے نتائج آئے، تو حسبِ معمول حریم کے بہت اچھے گریڈز آئے، جب کہ ندا کے ہمیشہ کی طرح پاسنگ مارکس ہی تھے۔ ندا نے حریم سے وعدہ لیا کہ وہ اُسے اِس خوشی میں ٹریٹ دے گی۔ حریم نے وعدہ کرلیا، مگر پھر بہت دن تک دونوں کی ملاقات نہ ہو سکی، تو ایک روز ندا گھر ہی چلی آئی۔ ’’شُکر ہے، تم گھر بھی آئیں۔ امّی بھی آج تمہارا پوچھ رہی تھیں۔‘‘ حریم خُوش ہوکر بولی۔ دونوں کافی دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہیں۔ اچانک بارش شروع ہوگئی، تو دونوں ٹیرس پرآ بیٹھیں۔ 

چائے پیتے ہوئےحریم نے محسوس کیا کہ ندا جیسے کچھ اور بھی کہنا چاہتی ہے، مگر کہتے کہتے رُک جاتی ہے۔ حریم منتظر رہی کہ وہ خُود ہی بتا دے گی۔‘‘ اورآخر ندا بول ہی پڑی۔ ’’حریم! تم ٹھیک کہتی تھیں، فاریہ بہت اچھی لڑکی ہے۔ کل مَیں نے نیوز چینل پر دیکھا کہ اُس نے کس طرح کتنی ہی لڑکیوں کو ہراسمینٹ سے بچایا اور اُنہیں جراتِ اظہار بھی دی۔ وہ اور اویس اس حوالے سے بہت اچھا اور جرات مندانہ کام کر رہے ہیں۔‘‘ ’’جی جناب! اچھی بات ہے، فاریہ کے حوالے سے تمہاری غلط فہمی دُور ہوگئی۔‘‘ حریم نے مُسکراتے ہوئے کہا۔ ’’اور… حریم! مجھے دوسروں کے بارے میں غلط گمان کرنے کی سزا بھی مل گئی۔‘‘ 

ندا نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا۔’’کیا ہوا آخر۔ مجھے کچھ بتاؤ تو سہی۔‘‘ حریم بہت پریشان ہوگئی۔ آخر وہ اُس کی فرسٹ کزن، بچپن کی سہیلی تھی۔ ’’بس کیا بتاؤں... میری عادت تو تمہیں شروع سے پتا ہےکہ سب کے ساتھ جلدی دوستی کرلیتی ہوں اور ہروقت ہنستی ہنساتی رہتی ہوں، پھر کچھ لاپروا بھی ہوں۔ آج مَیں نے اتفاق سے اپنے دو کلاس فیلوز کی باتیں سُن لیں، جن کا لبِ لباب یہ تھا کہ مَیں حجاب تو لیتی ہوں، مگر محض نام کا۔ حقیقتاً بڑی آزاد خیال اور بے باک ہوں۔ سب سے فِری ہو جاتی ہوں اور…‘‘ ندا کا گلارندھ گیا اور آنکھیں نم ہو گئیں۔ 

حریم نےساری بات سُنی اور پھر بڑی محبّت اور نرمی سے ندا سے مخاطب ہوئی۔ ’’ندا! یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم ہر ایک کو اُس کے ظاہرہی سے پرکھتے اور جانچتے ہیں، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اگر ہم حجاب اوڑھتی ہیں، تو اس کے تقدّس وپاکیزگی کا خیال رکھنا بھی ہمارا فرض ہے، کیوں کہ حجاب نام ہی پردے، اوٹ اور آڑ کا ہے۔ 

جو دراصل حیا اور بے حیائی کے درمیان ہے۔ ہم اگر حجاب لیتی ہیں تو ہمیں اپنے رویے، اپنے کردار اور اخلاق سے بھی اس کا پاس رکھنا چاہیے۔ حجاب کا تقاضا ہی یہ ہے کہ یہ ہماری شخصیت کا مکمل آئینہ دار ہو۔ وگرنہ اِس کی وقعت محض کپڑے کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں رہے گی۔‘‘ ندا اپنی نم آنکھیں صاف کرتے کرتے مُسکرا دی۔ اور حریم کا ہاتھ تھام کر بولی۔ ’’تم صحیح کہتی ہو حریم... مَیں تمہاری شُکر گزار ہوں کہ تم ہمیشہ مجھے صحیح راہ دکھاتی ہواور مَیں یقیناً بہت خُوش نصیب بھی ہوں کہ میرے پاس تم جیسی بہن اور دوست ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید