• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’زملستری سینیا‘‘.....خوف ناک زلزلے کی اطلاع

؎ اے شیخ! بہت اچھی مکتب کی فضا، لیکن.....بنتی ہے بیاباں میں فاروقی و سلمانی۔ ہمیں الماتا پہنچے دو ماہ گزر چکے تھے، لیکن مختلف مشکلات، پریشانیاں ہنوز برقرار تھیں۔ جن ابتدائی مشکلات کا ذکر ہم آغاز میں کرچُکے ہیں، اُن کے علاوہ ایک بہت بڑی مشکل، باقی دنیا سے مکمل انقطاع کا تھا، یعنی ایک طرح سے ہم پوری دنیا سے کٹ کر رہ گئے تھے، کیوں کہ جہاں ہماری رہائش تھی، وہاں کیبل کے ذریعے صرف روسی زبان کے چینلز آتے تھے اور زبان آشنا نہ ہونے کی بِنا پر ہم ٹیلی ویژن نہیں دیکھتے تھے، اس لیے اکثر بند ہی رہتا۔ ہفتے اور اتوار کے دن روز مرّہ کی ضروری اشیاء کی خریداری اور گھر کے کام کاج میں گزر جاتے تھے- 8 اکتوبر2005ء کو حسبِ معمول گھر سے باہر نکل کر ٹیکسی پر بیٹھا۔ 

علیک سلیک کے بعد ٹیکسی ڈرائیور کو جب پتا چلا کہ ہمارا تعلق پاکستان سے ہے، تو یک دَم ایک لفظ کہا ’’زملستری سینیا‘‘ یہ ہمارے لیے ایک نیا لفظ تھا، لیکن پھر جب کئی لوگوں نے پاکستان سے تعلق کی بِنا پر ہمیں دیکھ کر یہی لفظ دہرایا، تو ہم پریشان ہوگئے، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہمیں دیکھتے ہی یہ لوگ ’’زملستری سینیا‘‘ کیوں کہہ رہے ہیں۔ 

روزانہ ٹیکسی میں سفر کے دوران ڈرائیورز غیر ضروری باتیں کرتے ہیں، ہم جس کے عادی ہوچکے تھے۔ لہٰذا گھر واپسی پر بھی ایک ٹیکسی ڈرائیور نے یہی الفاظ دہرائے، تو نظر انداز کرکے گھر چلے آئے۔ پھر10اکتوبر، بروز پیر دفتر گیا اور اپنی ایک کولیگ، زوریا سے ’’زملستری سینیا‘‘ کا مطلب پوچھا، تو اس نے برملا کہا، ’’زلزلہ‘‘ اور ساتھ ہی مختصراً بتایا کہ ’’پاکستان میں بہت شدید زلزلہ آیا ہے۔‘‘

یہ سن کر خاصی پریشانی لاحق ہوئی، لیکن دفتری کاموں میں الجھنے کی وجہ سے پاکستان فون نہ کرسکا۔ ظہر کے بعد میرے چھوٹے بھائی، عُمر کی جانب سے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا کہ ’’ہم سب خیریت سے ہیں۔‘‘ پھر فوراً گھر فون کیا، تو قیامت خیز زلزلے کی حقیقت کا اندازہ ہوا۔ ساتھ ہی تمام ٹیکسی ڈرائیورز کے استفسار کی وجہ بھی سمجھ میں آگئی۔ پاکستان میں موجود گھر والوں اور دیگر رشتے داروں نے بتایا کہ سب خیرخیریت سے ہیں، تو اللہ کا شُکر ادا کیا۔ 

زلزلے کے باعث مارگلہ ٹاور کے منہدم ہونے کی اطلاع خاصی پریشان کُن تھی، کیوں کہ اُس وقت تک کشمیر میں ہونے والی تباہی کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ عُمر سے بڑے بھائی صابر نے بتایا کہ وہ مارگلہ ٹاور پر امدادی سرگرمیوں میں شامل ہے، لیکن رات اُس وقت بہت خوف محسوس ہوا، جب آمنہ (اہلیہ) سے بات ہوئی۔ اُس نے بتایا کہ ’’ابھی کچھ دیر قبل دوبارہ زلزلے کا ایک خوف ناک جھٹکا محسوس ہوا ہے، سب لوگ کُھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں، ہمارے لیے دُعا کیجیے۔‘‘ وہ رات بہت مشکل گزری۔ 

بار بار سب سے رابطہ کرکے خیریت معلوم کرتا رہا۔ پاکستان، کشمیر اور ملحقہ علاقوں کے جن لوگوں نے اُن قیامت خیز لمحات کا خود مشاہدہ کیا، اُن کے لیے تو وہ وقت واقعی انتہائی دردناک تھا، لیکن ساتھ ہی دیارِغیر میں مقیم اُن پاکستانی بھائیوں کا غم بھی کچھ کم نہ تھا، جن کے پیارے اُن سے بچھڑ چکے تھے یا زخمی تھے۔

ایک اور مشکل رات

ایک روز تقریباً نصف شب مَیں نیند کی آغوش میں تھا کہ میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ گھر کے نمبر سے کسی نے فون کیا تھا، ریسیو کیا، تو معلوم ہوا کہ والدہ کو اچانک دل کا دورہ پڑنے پر AFICمیں داخل کروایا گیا ہے۔ سُنتے ہی ہڑبڑا کر اٹھا بیٹھا۔ وطن سے ہزاروں میل دُور جب ایسی خبر ملے، تو دل و دماغ کی کیا کیفیت ہوتی ہے، یہ وہی جانتے ہیں، جو اس قسم کی صورتِ حال سے دوچار ہوتے ہیں۔ مَیں اپنی ماں سے کوسوں دُور، بے بسی اور بےچارگی کے عالم میں تھا، فوری طور پر اُن کے پاس پہنچنا ممکن نہیں تھا، لہٰذا نم ناک آنکھوں اور اُداس دل کے ساتھ والدہ کی صحت و سلامتی کے لیے اپنے ربّ کے حضور گڑگڑا گڑگڑا کر دُعائیں کرنے لگا۔ 

دراصل ابّاجان کی وفات کے بعد والدہ کے لیے دل میں حسّاسیت بہت بڑھ گئی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد گھر فون کرکے اپنے بھائیوں سے والدہ کی حالت پوچھتا رہا، لیکن والدہ سے بات نہ ہوسکی۔ نہ جانے کس طرح رات گزری، کچھ معلوم نہیں۔ اُس وقت بے بسی کی جو کیفیت مجھ پر طاری تھی، مَیں اب تک محسوس کرتا ہوں۔ 

پھر صبح جب یہ اطلاع ملی کہ اُن کی طبیعت کافی حد تک سنبھل گئی ہے، تو دل کو کچھ سُکون ملا۔ فوراً سجدے میں گر گیا اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شُکر ادا کیا کہ اس نے امّی جان کو صحت عطا کی۔ انسان کس قدر بے بس ہے، اس بات کااحساس زندگی میں قدم قدم پر ہوتا ہے، لیکن اُس رات کی بے چینی اور بے بسی بہت شدید تھی، جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔

اہلیہ کے ساتھ خُوب سردی کا لُطف اُٹھاتے ہوئے
اہلیہ کے ساتھ خُوب سردی کا لُطف اُٹھاتے ہوئے

راتوں کو مطالعے کی عادت

الماتا میں قیام کے ابتدائی دنوں میں مجھے ایک اچھی عادت اپنانے کا بھرپور موقع ملا اور وہ تھا، شام کو گھر کے کام کاج سے فارغ ہوکر پڑھنا لکھنا۔ اگرچہ طالب علمی کے زمانے میں درسی کتب سے اکتساب اور امتحان کی تیاری کے دوران مخصوص انداز میں مطالعے کی عادت تو تھی ہی، لیکن حالات و واقعات کے تفصیلی جائزے کے لیے تحقیقی مطالعے کی عادت الماتا سے پڑی۔ کسی نے کیا خُوب کہا ہے کہ ’’انسان کی سب سے بہترین دوست کتاب ہے۔‘‘ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اچھی کتاب اپنے قاری کے لیے ایسے دوست کی حیثیت رکھتی ہے، جو اُسے کبھی تنہائی کا احساس ہونے دیتی ہے، نہ ہی اُکتاہٹ اُس کے قریب پھٹکنے دیتی ہے۔ 

یہ ایک ایسے ہم سفر کی مانند ہے، جو اپنے ساتھی کو دُوردراز کے علاقوں، شہروں کی سیر کروادیتی ہے، تو اس کے طفیل ایسی شخصیات سے مصاحبت کا شرف بھی حاصل ہوتا ہے، جن سے ملاقات کی خاطر طول طویل سفر طے کرنے پریں یا جو راہیِ عدم بھی ہوچکے ہوں۔ اگر کسی کو کتابوں سے وابستگی کی نعمت کا صحیح ادراک ہو جائے، تو اُس کے لیے بغیر مطالعے کے زندگی گزارنا دشوار ہوجاتا ہے۔ 

یہاں تک کہ رنج و بے چینی کی حالت میں کتاب ہی غم خواری کا سامان بھی فراہم کرتی ہے۔ پھر رات کی خاموشی میں شاید انسانی تجزیاتی صلاحیتیں بہتر کام کرتی ہیں، یک سوئی برقرار رہتی ہے، لہٰذا مجھے الماتا میں قیام کے دوران راتوں کو پڑھنے لکھنے کی پختہ عادت ہوگئی اور اس کی ایک وجہ شاید میری ملازمت کی نوعیت بھی تھی کہ دن میں دفتری مصروفیات کی وجہ سے پڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ سو، شام کو گھر لوٹنے،کچھ دیر آرام کرنے اور کھانے پینے کے بعدرات گئے مطالعہ ہی میرا بہترین مشغلہ تھا اور بلاشبہ اسی مطالعے کی عادت نے زندگی میں تعمیری کام کرنے کا ڈھنگ سکھایا، شکریہ الماتا۔

ترکش ریستوران، ایک نعمت

دن تو دفتر کے کاموں میں گزر جاتا، مگر شام ہوتے ہی سب اپنے اپنے گھروں کو سدھارتے اور میں سنجاک کی جانب- سنجاک ایک ترکش ریستوران ہے۔ الماتا میں قیام کے دوران ہمارے لیے ترکش ریسٹورنٹس کسی نعمت سے کم نہ تھے۔ کیوں کہ حلال گوشت کی ضمانت صرف ترکش ریسٹورنٹس ہی میں ملتی تھی۔ قازقستان روانگی سے پانچ ماہ قبل ابا جان کا انتقال ہوگیا تھا۔ اُن کی وفات کے بعد ہمیں شدت سے عدم تحفّظ کا احساس ہوا۔ اُن کی زندگی علم دوستی اور ہمہ وقت اس کے حصول کی جدوجہد سے عبارت تھی۔

اُنھوں نے ہماری تربیت کے دوران عصرِحاضر کی خوبیوں اور کم زوریوں سے اس غیر محسوس انداز میں آگاہی کروائی کہ اس کا اندازہ ہمیں بعدازاں اہلِ علم کی متعدد محافل میں ہوا۔ یوں تو کوئی دن ایسا نہ گزرتا، جب اُن کی یاد نہ آتی ہو، لیکن ایک روز جب سنجاک سے اپنی رہائش کی طرف جارہا تھا، تو وہ بہت شّدت سے یاد آئے اور اُن کے ساتھ بیتے لمحات یاد کرکے بہت رونا آیا۔

ابّا جان بہت اچھے شاعر بھی تھے اور میری شادی پر اُن کا لکھا ہوا سہرا ؎ ’’اتنا مشکل بھی نہیں ہے تیرا سہرا لکھنا .....دل کے ٹکڑوں کو پرونا، تیرا سہرا لکھنا .....تیرے بچپن کے، لڑکپن کے، جوانی کے .....سوئے سپنوں کو جگانا، تیرا سہرا لکھنا۔‘‘ میرے لیے ایک قیمتی تحفے کی مانند ہے، جسے مَیں کبھی نہیں بھول سکتا۔ آج بھی سنجاک کا ذکر ہوتا، تو وہ رات آنکھوں میں گھوم جاتی ہے۔

ایک ڈگر پر چلتی زندگی.....

ہمیں قازقستان بھیجنے کا فیصلہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے کیا تھا۔ کمپنی کی انٹرنیشنل بزنس ڈویژن کی طرف سے ہمارا انٹرویو لیا گیا۔ انٹرویو میں تمام معاملات بہ حُسن و خوبی طے پاگئے، مگر آخر میں جب ہم نے اہلیہ کو بھی ساتھ لے جانے کی بات کی، تو انٹرنیشنل بزنس ڈویژن نے اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی کہ ہم اہلیہ کو ساتھ نہ لے جائیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’’قازقستان میں ایسی خواتین مل جاتی ہیں، جو بہت خوش اسلوبی سے گھر کا کام کاج کرتی اور کھانا وغیرہ پکالیتی ہیں۔‘‘ مزید یہ بھی کہا کہ ’’اگر اہلیہ کو ساتھ لے جانا چاہتے ہیں، تو بہت ممکن ہے کہ آپ کو وہاں بھیجا ہی نہ جائے۔‘‘ مَیں نے اس صورت میں قازقستان جانے سے صاف انکار کردیا۔ 

بہرحال، کچھ توقف کے بعد انہوں نے کہا کہ ’’ٹھیک ہے، آپ پہلے خود چلے جائیں، چند ماہ بعد فیملی کو بھی بلوالیجیے گا۔‘‘ لہٰذا مَیں اکیلے ہی قازقستان کے لیے عازمِ سفر ہوگیا اور چند ماہ وہاں گزارنے کے بعد معاہدے کے مطابق پاکستان آگیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اُن دنوں نومبر کے آخری عشرے میں عیدالاضحی تھی اور اُن ہی دنوں یونی ورسٹی نے سائنوپسس کے لیے بھی ہمیں بلوایا تھا۔ اس طرح یہ پاکستان آنے کا بہت اچھا موقع تھا۔ سائنوپسس منظور ہوا اور مجھے تھیسز کے لیے موضوع دے دیا گیا۔ 

اُس کے بعد عیدالاضحی گھر والوں کے ساتھ گزاری اور اگلے ماہ یعنی دسمبر میں اہلیہ، آمنہ کو ساتھ لے کر قازقستان روانہ ہوگیا۔ ہمارے اس سفر میں اچھا خاصا ایڈونچررہا۔ آمنہ کے آجانے کے بعد زندگی ایک خُوب صُورت ڈگر پر چل پڑی، پھر وہی لذیذ کھانے، وہی وقت کی پابندی اور وہی کبھی کبھی تلخی و شیرینی۔ بلاشبہ، آمنہ نے میری زندگی میں بہت مفید و مثبت کردار ادا کیا۔ تعلیم، ملازمت، خاندان اور خود میرے مزاج کے کئی پہلو ایسے ہیں، جنھیں آمنہ نے بڑی خوش اسلوبی سے سنبھالا۔

قازاقوں کے ساتھ قدرِ مشترک

قازاقوں کی تاریخ اور ہماری زندگی میں ایک قدرِ مشترک تھی کہ قازاق بھی تاریخی طور پر ایک خانہ بدوش قوم کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور ہم بھی یعنی مَیں اور آمنہ بھی خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزارتے آئے تھے۔ ہم نے کتنے ملک اور کتنے گھر تبدیل کیے، اب تو یاد کرنا بھی دشوار ہے، لیکن ایک بات بہت اچھی ہوئی کہ اس خانہ بدوشی نے آمنہ کو سازو سامان پیک کرنے میں طاق کردیا۔ وہ ہفتہ واری تعطیل کا ایک دن تھا، ہم الماتا میں اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے بیٹھے بور ہوگئے، تو شہر گھومنے کا ارادہ کیا۔ مَیں آمنہ کو لے کر ستپائیوا میرا آگیا، جہاں میرا دفتر تھا۔ پہلے اُسے دفتر کا تفصیلی دورہ کروایا۔ 

پھر دفتر کے سامنے موجود پارلیمنٹ ہاؤس کے چبوترے سے ہوتے ہوئے رام اسٹور کی طرف چل پڑے۔ رام اسٹور پر کچھ ہی فاصلے پر قائم، میوزیم میں بہت چہل پہل نظر آئی۔ چھٹّی والے دن بھی میوزیم کے باہر رونق دیکھ کر سوچا، ضرور کوئی تقریب ہوگی۔ میوزیم میں داخل ہوئے، تو دائیں جانب ایک خُوب صُورت اور مضبوط خیمہ نظر آیا۔ خیمہ کیا تھا، اچھا خاصا شان دار کمرا تھا، جس کی ساخت موسم کے لحاظ سے بہت اچھی اور مضبوط تھی۔ وہاں عملے کی ایک خاتون نے بڑی تفصیل سے قازقستان کی خانہ بدوشی کی تاریخ بتائی۔ وہاں کے قدیم ملبوسات سے متعلق بتایا، جو واضح طور پر اسلامی تاریخ سے وابستگی کا اظہار کررہے تھے۔ 

خواتین کے گرم، کُھلے ڈلے، لمبے دل کش ملبوسات اور مَردوں کے گرم اور لمبے چوغے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ قازقستان کے اُس وقت کے لباس اور آج کے پہناوے میں خاصی تبدیلی آچکی ہے۔ میوزیم کے مختلف گوشے دیکھ کر باہر نکلنے لگے، تو ایک جوڑے کو اپنی طرف متوجّہ پایا۔ آمنہ نے کہا ’’یہ پاکستانی لگتے ہیں۔‘‘ لیکن مرد کی چھوٹی سی داڑھی دیکھی، تو میں نے آمنہ کی بات رد کرتے ہوئے کہا، ’’نہیں، یہ ایرانی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ بہرحال، وہ قریب آئے اور نستعلیق انداز میں سلام کے بعد اردو زبان میں حال احوال پوچھا، تو ہم بھی اُسی انداز میں سلام کا جواب دینے کے بعد گرم جوشی کا اظہار کیا۔ وہ صداقت سید بھائی اور ان کی اہلیہ تھیں، جن کے ساتھ ہمارا دوستی کا سلسلہ اُسی میوزیم سے شروع ہوا۔ (جاری ہے)