• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تین سال کا عرصہ گزرنے کے باوصف مسلم لیگی حکومت کے جوہر اگرچہ تاحال کھل کر سامنے نہیں آسکے ہیں بلکہ غریب کش بجٹ سے اس حکومت کے خدوخال عوامی سے زیادہ سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ واضح ہونے لگے ہیں لیکن بعض میدانوں میں وہ قابل تحسین فیصلے بھی کررہی ہے، ایسے ہی قابل تحسین فیصلوں میں یہ فیصلہ بلاشبہ تاریخی ہے کہ اسکولوں و کالجوں میں قرآن عظیم ترجمے سے پڑھایا جائے گا۔ اس سلسلے میںوزیر تعلیم بلیغ الرحمان نے کہا ہے کہ حکومت نے قرآن پاک کی تعلیمات نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، پہلی سے بارہویں جماعت تک 15منٹ کا خصوصی پیریڈ مختص کیا جائے گا، پہلی سے پانچویں جماعت تک تمام بچوں کو قرآن پاک ناظرہ پڑھایا جائے گا، چھٹی سے بارہویں جماعت تک طلبہ کو قرآن پاک کی ترجمہ کے ساتھ تعلیم دی جائے گی، ساتویں سے دسویں جماعت تک قرآن مجید میں بیان کیے گئے واقعات پڑھائے جائیں گے، دسویں سے بارہویں جماعت تک مسلمانوں کو دیئے گئے احکامات پر مشتمل سورتیں ترجمے کے ساتھ پڑھائی جائیں گی۔ راقم نے اس فیصلے کو اس لئے تاریخی قرار دیا کہ قیام پاکستان تا امروز کسی بھی حکومت کو اس حوالے سے قدم اٹھانے کی توفیق نصیب نہ ہوسکی، کہنے کو تو پاکستان اسلام کے مقدس نام پر معرض وجود میں آیا ہے لیکن برسرزمین حقائق ایسے شواہد لانے سے قاصر ہیں۔ ایک طالب علم اس وقت عجیب مخمصے سےدوچار ہوجاتا ہے جب اس کی نظر پاکستان کی پہلی مرکزی کابینہ پر پڑتی ہے، سادہ سی بات ہے کہ جو مملکت اسلامی نظریئے کا نقیب کہلائے، اس میں قانون بھی قرآن وسنت کی روشنی میں اسلامی اصولوں سے مزین ہوگا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون جگندر ناتھ منڈل تھے، اسلامی اصطلاح میں یعنی قاضی القضا کا منصب ایک ہریجن غیر مسلم کے پاس تھا۔ اس کابینہ میں دو قابلِ توصیف نام جسٹس کارنیلئس اور جناب ایس ایم برق کے بھی ہیں جو بہر صورت عیسائی تھے، سر ظفر اللہ خان اور ان کے عقیدے سے تو ایک جہاں آگاہ ہے، یہاں مجھ جیسا کم علم اور کج فہم انسان کسی نظریاتی مباحث کا توان نہیں رکھتا، عرض محض یہ ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے یا نہیں، لیکن اس ملک میں چونکہ 98فیصد مسلمان بستے ہیں اس لئے انہیں ایک ایسی کتاب سے بہرہ مند کرنا جسے یہ 98فیصد راہنما مانتے ہیں مملکت کے خشتِ ائول سے ہی ناگزیر تھا۔ آج پاکستان میں انتشار یا نظریاتی حوالے سے یکسوئی کا فقدان اس لئے بھی ہے کہ ہم نے اس سلسلے میں اساسی کام کیا ہی نہیں۔ مجھ جیسا عام سوچ رکھنے والا تو اس کا مطلب یہی لےگا کہ یا تو ہمارے نعرے اخلاص سے عاری و کھوکھلے ہیں یا پھر ہم اس قابل ہی نہیں ہیں کہ یہ بار اٹھا سکیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستانی معاشرہ جہاں متعدد انتہائوں کی مدارج طے کرتے ہوئے گامزن ہے وہاںدو انتہائوںمیں تو خلیج مشرق و مغرب کے مانند وسیع ہے ، یہ باہم متصادم اور ایک دوسرے کو قبول بلکہ برداشت کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ دو انتہائیں انسان کے دنیا میں بھیجے جانے کے مقصد کو سرے سے ہی فراموش کرچکی ہیں اور یا پھر اس کا مشاہدہ اپنی اپنی عینک سے کررہی ہیں۔
ایک وہ طبقہ ہے جو یہ سمجھتا یہ کہ دنیا ہی کُل ہے، وہ مذہب سے بیگانہ بلکہ مذہب ان کے لئے چڑ بن چکا ہے، یہ انگریزی میڈیم کے پڑھے لکھے وہ لوگ ہیں جو خود کو لبرل و سیکولر کہلواتے ہیں، حالاں کہ اگر یہ قرآن عظیم سے رجوع کرلیں یا اگر قرآن عظیم کو جانتے ہوں اور اس پر عمل کرلیں تو انہیں ادراک ہوکہ قرآن عظیم کا منشا دنیا کی نفی نہیں ہے تاہم دین و دنیا میں میزان، عدل اور توازن ضروری ہے۔ دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو دنیا کو خاطر میں ہی لانے کا روادار نہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اگرچہ اس طبقے کے اکثر داعیان اپنے آپ کے لئے تو دنیا سے بھرپور لطف کو’ ہذامن فضلِ ربی‘ سمجھتے ہیں لیکن مقلدین کےلئے ناروا!! چنانچہ معاشرہ رہبانیت کی بھی تصویر لئے ہوئے ہے۔ اس سے بھی تاہم خوفناک وہ مظاہر ہیں جو ہم دین ہی کے نام پر بالخصوص نام نہاد افغان جہاد کے بعددیکھتے آئے ہیں۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ اگر قرآن عظیم کا مطالعہ کیا جائے تو وہ برو بحر یہاں تک کہ کائنات کی تسخیر کی بات کرتا ہے، جو ظاہر ہے سائنس کے بغیر ممکن نہیں۔ اب اگر جدید تعلیم اور سائنس کو کفر مان لیا جائے تو پھر قرآن عظیم کا منشا کس طرح پورا ہو پائے گا!خلاصہ یہ ہے کہ قرآن عظیم ترجمے کے ساتھ نہ پڑھنے سے جہاں ہم اندھی تقلید کے اسیر ہوگئے ہیں وہاں ہم اس سے بھی فرار چاہتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی زندگی ہے۔ قرآن عظیم کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دین و دنیا ایک دوسرے کے حریف نہیں، معاون و ممدود ہیں، اگر ہم قرآن مجید کو سمجھ کر تدبر و تفکر سے پڑھیں جیسا کہ خود قرآن عظیم کی دعوت ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہو یا نہ بنا ہو لیکن اس ملک کے 98 فیصد مسلمان یہ نہ جان سکیں کہ دین و دنیا میں کامیابی کے لوازمات کیا ہیں۔ یہاں یہ امر بھی تکلیف دہ ہے کہ اکثردینی مبلغین بھی قرآن مجید کے ترجمے کو عام کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے، استدلال یہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید بہت مشکل ہے اور اس کے سیکھنے کیلئے 8 علوم پر دسترس ضروری ہے ،حالاں کہ 55آیات پر مشتمل صرف ایک سورت’ قمر‘ میں چار مرتبہ اس جانب توجہ دلاتے ہوئے رب العزت واضح طور پر فرماتے ہیں۔ ’’اور بے شک ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا، پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے۔‘‘ سورہ یونس آیت 57 میں عام خطاب ہے، اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے (قرآن مجید) جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لئے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے۔تفاسیر میں لکھا ہے کہ جو قرآن پاک کو دل کی توجہ سےپڑھے اور اس کے معانی و مطالب پر غور کرے اس کے لئے قرآن نصیحت ہے۔مختصر یہ کہ قرآن عظیم کی 6666 آیات کا مرکزی نکتہ یہی دعوت ہے۔ شومئی قسمت مگر ہمارے ہاں جو اصحاب دعوت پر جاتے ہیں اور سال بھر گزار کر آتے ہیں تو ذرا ان سے استفسار کیجئے کہ آپ نے کتنی آیتوں کا ترجمہ سیکھا ،یا دوسروں کو سکھلایا! ہمارے تو اکثر حافظ قرآن بھی قرآن مجید کے ترجمے سے نابلد ہوتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ قرآن عظیم کا مخاطب مومن اور ہر انسان ہے، قرآن مجید میں ربِ کائنات 89 مرتبہ اے ایمان والو، فرماتے ہوئے مخاطب ہیں، اب یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ مولائے کائنات نے ایک ایسی کتاب نازل کی ہو، جس میں جن کو مخاطب کیا گیا ہو انہیں اس کے سمجھنے کی استطاعت ہی نہ دی ہو۔ قرآن مجید نے اپنے آپ کو نور (روشنی) کہا ہے اور روشنی اپنے وجود کی دلیل آپ ہوتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے، قرآن کی وضاحت خود ہمارے ذمے ہے، اور اسی بناء پر مختلف آیات میں قرآن کریم کے متعلق فرمایا ہے (یہ قرآن) ہر بات کی وضاحت کرنے والا ، اس میں کوئی پیچ و خم نہیں، کوئی تضاد نہیں، اختلاف نہیں، ابہام نہیں، التباس نہیں، صاف، نکھری، واضح، روشن کتاب… قرآن کریم میں رب العزت نے تدبر فی القرآن کا جو حکم دیا ہے وہ نہ تو کسی خاص فرد کے لئے ہے، نہ کسی خاص زمانے کے لئے، وہ تمام افراد کے لئے ہے اور ہر زمانے کے لئے ہے۔ یوں وزیر موصوف سمیت وہ تمام اکابر جنہوں نے تدبر فی القرآن کی ضرورت کو محسوس کرلیا ہےمبارکباد کے مستحق ہیں ۔
تازہ ترین