وفاقی اردو یونیورسٹی (عبدالحق کیمپس) نےاپنے قائم مقام وائس چانسلر سے اعلیٰ سطحی اداروں کے ساتھ تنازعات میں الجھے بغیر یونیورسٹی کو درپیش مسائل حل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
انجمن اساتذہ، وفاقی اردو یونیورسٹی (عبدالحق کیمپس) نے اردو یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وفاقی وزارت تعلیم، ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور دیگر اعلیٰ سطحی اداروں کے ساتھ تنازعات میں الجھے بغیر یونیورسٹی کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کریں۔
اساتذہ کی تنخواہیں، پینشن، میڈیکل کی ادائیگیاں نہ ہونے سے یونیورسٹی کے اساتذہ شدید ذہنی کرب کا شکار ہیں۔
یونیورسٹی میں نئے سیمسٹر کا آغاز ہوئے دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن جزوقتی اساتذہ کے تقرر نامے تاحال جاری نہیں ہوسکے۔
اس کے علاوہ شام کے پروگرام میں طویل عرصے سے ادائیگیاں نہیں کی گئیں اور رواں سیمسٹر کے تقرر نامے بھی تاحال جاری نہیں ہوئے۔
یونیورسٹی میں نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ کی تنخواہوں کے بقایاجات کی ادائیگی نہ ہونے سے بھی اساتذہ کو مسائل کا سامنا ہے۔
موجودہ قائم مقام وائس چانسلر کے دور میں یونیورسٹی، ہائر ایجوکیشن کمیشن اور وفاقی وزارت تعلیم کے درمیاں کشیدگی سے اضافہ ہوا اور گزشتہ ماہ سینیٹ کا اجلاس بھی مقررہ تاریخ پر منعقد نہیں ہوسکا جس کی وجہ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ چانسلر آفس بھی ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔
انجمن اساتذہ نے قائم مقام وائس چانسلر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سینیٹ کی قرارداد کے مطابق روزمرہ ذمہ داریوں کی ادائیگی تک محدود رہیں اور یونیورسٹی کے اخراجات میں اضافے کا سبب بننے والے اقدامات سے اجتناب کریں۔
انجمن اساتذہ کا کہنا کہ ہے کہ قائم مقام وائس چانسلر وفاقی اداروں کے ساتھ تعاون کریں تاکہ یونیورسٹی میں طویل عرصے سے جاری تعلیمی، انتظامی اور مالی بحران کا خاتمہ ممکن ہو۔
واضح رہے کہ وفاقی اردو یونیورسٹی زبوں حالی اور تعلیمی انحطاط کا شکار ہے، وفاقی اداروں کے ساتھ عدم تعاون اور تنازعات کی وجہ سے یونیورسٹی اپنے مقصد سے انتہائی دور ہوچکی ہے۔
یونیورسٹی کی قائم مقام انتظامیہ کی جانب سے قواعد و ضوابط کی شدید خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے کے لئےوفاقی وزیر تعلیم نے کمیٹی قائم کی تھی۔
انتظامیہ کو چاہیئے کہ وہ وزارت تعلیم کی جانب سے قائم کی گئی کمیٹی کو مطمئن کرے تاکہ یونیورسٹی کے مسائل حل ہوں۔
اس سے قبل بھی اداروں کو ریکارڈ فراہم نہ کرنے اور طلب کرنے کے باوجود حاضر نہ ہونے سے یونیورسٹی کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔