• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنے شہر لاہور میں چار ہفتے گزار کر ابھی ابھی واپس پلٹا ہوں۔ ایمسٹر ڈیم پہنچتے ہی سب سے پہلے میں نے صاف ستھری ہوا کا ذخیرہ جوکہ آکسیجن سے مالا مال تھی اپنے سینے میں اتارا کہ ابھی میرے سینے میںبہت سے سوال زندہ ہیں جنہیں مزید زندہ رہنا ہے کہ ابھی ہماری منزل نہیں آئی۔ مجھے پاکستان میں صاف ستھری ہوا نہیں مل رہی تھی صاف شفاف پانی تو بہت دور کی بات ہے۔ ماضی میں روٹی کپڑا اور مکان کی فراہمی کا وعدہ کرنے والی پیپلز پارٹی چار بار برسراقتدار آنے کے باوجود بس کبھی کبھار اس وعدہ کو دہراتی رہی اور بس… لیکن آج کچھ ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ اب روٹی کپڑا اور مکان ان تینوں اشیاء کی فراہمی کے وعدے پر گزارا نہیں ہوگا اب جو بھی پارٹی سیاسی نعرہ دے یا انتخابی منشور بنائے اس میں روٹی کپڑا او مکان کے ساتھ ساتھ پینے کیلئے محفوظ اور صاف وشفاف پانی اور سانس لینے کیلئے صاف ستھری ہوا وفضا فراہم کرنے کا وعدہ بھی شامل کرناہوگا میں نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران دیکھا کہ وہاں عام آدمی فضائی آلودگی کے علاوہ فلورائیڈ آمیز پانی استعمال کرنے سے مختلف امراض کا شکار بنتا جارہا ہے۔ میرا ایک اعلیٰ حکومتی عہدہ دار اور باخبر دوست شعیب بن عزیز بتا رہاتھا کہ ابھی تک مملکت خداداد کے تیس سے پچاس ہزار تک گاؤں پینے کے پانی کی سہولت سے محروم ہیں جبکہ ہزاروں گاؤں ادویات ملاپانی پینے پر مجبور کردیئے گئے ہیں۔ شعیب نے مجھے تجویز پیش کی کہ تم کیوں نہیں یہاں ’’ آکسیجن کلب‘‘ کھول لیتے اس سے کم از کم متمول طبقہ صاف ستھری ہوا کے حصول کیلئے تمہارے آکسیجن کلب پہنچ جائے گا۔ اس نے بتایا کہ متمول طبقہ دیگر ضرویات زندگی کی مانند ہوا اور پانی بھی خریدنے کوتیار ہے یہی وجہ ہے کہ ہرماہ صرف لاہور میں کروڑوں روپے کی منرل واٹر کی تجارت ہورہی ہے۔میں چونکہ اپنے ’’ نظریات کا غلام‘‘ اس لئےمیری دلچسپی اور تمام تر ہمدردی عوام کیلئے روٹی کپڑا اور مکان کے ساتھ ساتھ صاف ستھری آب وہوا اور صاف شفاف پانی کی فراہمی کے ساتھ ہے جس میں بدقسمتی سے غیر معمولی کمی ہوتی جارہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم اور حکومت وہ مرکزی ہویا صوبائی اس وقت ہوش میں آتے ہیں جب کوئی مسئلہ عوامی زندگی کیلئے جان لیوا بن جاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر پانی کا ذکر کیا ہے پاکستان میں پانی کی قلت ایک بڑے مسئلے کی صورت میں ابھر رہی ہے۔جس کے تدارک کی فوری ضرورت ہے ورنہ ناقابل تصور مسائل پیدا ہوجائیں گے اس وقت پاکستان میں بڑی کمپنیاں ہمارا ہی پانی ہمیں ہی بیچ کرہم سے دودھ کی قیمت میں پیسہ وصول کررہی ہیں یوں یہ کمپنیاںپاکستانیوں کولوٹ رہی ہیں ۔ ہم نیو کلیائی طاقت بن چکے ہیں لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہزاروں دیہات، قصبوں اور شہروں میں پانی اور بجلی کل بھی نہیں تھی آج بھی نہیں ہے اور مستقبل میں اسکا امکان بھی نظر نہیں آتا ۔ مجھے ڈر ہے کہ آج بہت سے لوگ جو منرل واٹر کی بوتل خرید کرپانی پیتے ہیں اور اسے اپنا لائف اسٹائل قرار دیتے ہیں لیکن کل جب بوند بوند پانی کو ترسیں گے تو کوئی اسٹائل کام نہ آئے گا۔ کیا اس وقت کے تصور سے کسی کو کوئی خوف نہیں آتا ؟
میں یہی کچھ سوچتا ہوا واپس ایمسڑڈیم آگیا ہوِں، دوستوں، یاروں،تقریبوں اورمحفلوں کا تذکرہ کرنا ابھی باقی ہے۔ پاکستان (لاہور) سے دبئی اور دبئی سے ایمسٹر ڈیم کی سات گھنٹے کی پرواز میں جہاں میرا دھیان اور بہت سی باتوں کی طرف گیا وہاں میں نے سوچا کہ مغربی دنیا کی ماڈرن ٹیکنالوجی کاکیا عجب احسان ہے کہ اس نے انسان کے قابو میں ایسی سواری دیدی ہے جس کی راہ میں پہاڑ اور سمندر حائل نہیں ہوتے، ہوائی جہاز زمین کا سہارا لئے بغیر ہو اکے دوش پر ادھر سے ادھر اڑتا اور تمام سواریوں کو زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ منزل تک پہنچا دیتا ہے تاہم میرے لئے ہوائی جہاز کوئی پسندیدہ سواری نہیں جب بھی میںہوائی جہاز میں سفر کرتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ’’ اڑن جیل‘‘ میں بند ہوگیا ہوں کہ میری طبیعت میں آزادی پسندی بہت زیادہ ہے۔ زندگی بھر ’’دھکے کھانے‘‘ کے بعد آج بھی خوش قسمتی یابدنصیبی سے میں ذہنی کشادگی، روشن خیال اور آزادی فکر کی جانب ہی رہنا پسند کروں گا۔ ہوائی جہاز کی ایک خوبی اور ہوائی سفر کی ایک خوبصورت بات جس کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں یہ ہے کہ ہوائی جہاز میں مسافروں کیلئے فلم، گانے اور موسیقی کا انتظام ہوتا ہے مگر یہ سب کام ہیڈسیٹ کے خاموش انتظام کے تحت ہوتا ہے جس سے آپ کے آرام وسکون میںذرا سا خلل بھی نہیں پڑتا اور جو نہیں سننا چاہتا اس کے کان اس طرح سے محفوظ رہتے ہیں گویا یہاں گانے اور موسیقی کاکوئی وجود ہی نہیں۔ یہاں مجھے اپنے سری لنکا کے دورے کی یاد آرہی ہے مسلمانوں کوسری لنکا میں ہرقسم کی مذہبی آزادی حاصل ہے لیکن یہ دیکھ کرمجھے حیرت ہوئی کہ وہاں اذان لاڈو اسپیکر پر نہیں دی جاتی میں نے وجہ پوچھی توبتایا گیا کہ اگر ہم چاہیں تواجازت مل جائے گی لیکن ہم نے خود اس کا مطالبہ اس لئے نہیں کیا کہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اس کا مطالبہ کریں گے ہماری پانچوں اذانیں تودس منٹوں میں ختم ہوجائیں گی لیکن دوسرے مذہب کی مناجاتیں ۔ گیت، بھجن اور کیرتن تو گھنٹوں چلیں گے جس سے گھنٹوں نیندیں حرام ہوں گی ۔ میرے حساب سے ہوائی جہاز ہویا دھرتی۔ جدید تہذیب نے جس قسم کے آداب کودنیا میں رواج دیا ہے یہ آداب دو اصولوں پر قائم ہیں اپنی ذات کی تکمیل اور وہ اس طرح کے دوسرے کی ذات کو کوئی گزند نہ پہنچے اور یہی مہذب مغربی معاشرہ کا بنیادی اصول ہے۔ پاکستان سے آتے ہوئے میں نے چار گھنٹے ’’حاصل‘‘ کئے پاکستان جاتے ہوئے ’’ کھو‘‘ دیئے چونکہ میں حسابی کتابی آدمی نہیں ہوں اس لئے نہیں جانتا کہ نفع رہا یا نقصان میں؟ میرا ایک شعر ہے
اگر پیدا کیا ہے یہ جہاں میرے لئے اس نے
تو پھر کیوں مجھ کو اپنے طور پر جینے نہیں دیتا؟
تازہ ترین