معاشی مسائل یا امریکی دباؤ کی وجہ سے یوکرین کو ہتھیاروں کی فروخت پر جاری ہونے والی’’انٹر سپٹ ‘‘ (Intercept) کی رپورٹ کے حوالے سے اٹھنے والا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک اور کشمکش، اس مرتبہ یوکرین، میں خود کو الجھا بیٹھے ہیں؟اس سوال کا اثبات میں جواب مہیب تباہی کی کہانی سناتا ہے ۔
ہم نے ماضی میں اس سے کہیں زیادہ جنگیں لڑیں جتنی ہمیں لڑنی چاہئے تھیں ۔ ان میں سے کچھ پاکستان کے کسی مقصد کے حصول کیلئےتھیں ،کچھ جنگیں دیگر ممالک کے شراکت دار بن کر لڑی گئیں ۔ پہلے سابق سوویت یونین کے خلاف، اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگیں جوہم نے امریکی ایما پر لڑیں ،جن کی وجہ سے پاکستان کو تباہ کن نتائج کا سامناکرنا پڑا۔ ہم ابھی تک ان کے مضمرات سے نہیں نکل پائے ۔ عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کی حکومت ہٹانے کے بعد آئی ایم ایف سے ایک ’’اسٹینڈ بائی معاہدے‘‘ کی بجائے یوکرین کو ہتھیاروںکی فروخت ، جیسا کہ ’’انٹر سپٹ ‘‘ کی رپورٹ میں نتیجہ نکلاگیا ہے ، ہمیں ایک اور کشمکش کا شراکت دار، یا سہولت کار بنا سکتی ہے ۔ دونوں صورتوں میں اقتصادی طور پر نحیف وناتواں ملک کیلئےمزید مصائب سراٹھائیں گے جو پہلے ہی کشکول لئےدنیا میں سرگرداں ہے۔
’’انٹر سپٹ ‘‘ کا دعویٰ ہے کہ اسے ہتھیاروں کی فروخت کی تفصیل ’’رواں برس کے آغاز میں ایک عسکری ذریعے ‘‘ نے بتائی تھی۔ دستاویز کے مطابق ، ’’ہتھیاروں کی فروخت کا معاہدہ 2022 ء کے موسم گرما سے لے کر 2023 کے موسم بہار میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان طے پایا تھا ۔ ان میں سے کچھ دستاویزات تصدیق شدہ تھیں ۔ ان پرایک امریکی بریگیڈئیر جنرل کے دستخط تھے جو امریکہ میں مورگیج کے ریکارڈ پر عوامی طور پر دستیاب تھے ۔ یہی دستخط ان دستاویزات پر بھی موجود ہیں جن کے مطابق پاکستان نے امریکہ کے ساتھ ہتھیاروںکی فروخت کا معاہدہ کیا ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی ہتھیاروں کی فروخت ظاہر کی تھی لیکن پہلے اسے رپورٹ نہیں کیا گیا تھا ۔ ‘‘
یہ رپورٹ آگے چل کر دعویٰ کرتی ہے کہ ’’دستاویزات امریکی افسران اور پاکستانی معاہدے کا ذکر کرتی ہیں ، جن میں یوکرین کو پاکستانی ہتھیاروں کی فروخت کا کنٹریکٹ اور لائسنس دیا گیا ، اوریہ معاہدہ امریکی حمایت سے طے پایا ۔ ‘‘رپورٹ وضاحت کرتی ہے کہ معاہدے کا علم رکھنے والے ذرائع کے مطابق ، جن کی تصدیق دستاویزات کرتی ہیں ، ’’خفیہ ڈیل کے ذریعے ہتھیاروں کی اس فروخت سے حاصل ہونے والے معاشی سرمائے اور سیاسی ساکھ نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ذریعے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ‘‘ رپورٹ مزید بیان کرتی ہے کہ ’’اس قرض نے معاشی دباؤ کو کم کرتے ہوئے فوجی حکومت کو انتخابات کو التوا میں ڈالنے ،اور خان کے حامیوں اور دیگر ناقدین کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے قابل بنایا ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں غیر معمولی پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود امریکہ نے خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ اس چیز نے پاکستان میں ڈگمگاتی ہوئی جمہوریت کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ ‘‘
اس معمے کی گمشدہ کڑیاں آہستہ آہستہ مل کر تصویر مکمل کررہی ہیں ۔ گرچہ ابھی بہت کچھ سامنے آنا باقی ہے ، لیکن ابھی تک بننے والی تصویر سے ظاہر ہورہا ہے کہ امریکہ نے اپنے تزویراتی مقاصد کیلئے معاشی محکومی کے شکار ملک کی کمزوری سے ایک بار پھر فائدہ اٹھایا ہے۔
اس پیش رفت کے آنے والے دنوں میں پاکستان کےلئے کیا مضمرات ہوں گے ؟ کیا یہ ملک پر آنے والے دباؤ کو کم کرنے کے لئےصرف ایک مرتبہ کا اٹھایا گیا قدم ہے یا مستقبل میں ایسے معاہدوں کا سلسلہ جاری رہے گاجس میںفعال کردار کا آپشن ہو گا؟ ۔
ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جب مختصر اور طویل مدت کیلئےپالیسی اہداف کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس کے نتیجے میں وضع کردہ حکمت عملی مطلوبہ اہداف کے حصول پر مرکوز ہونی چاہئے۔ ایک مرتبہ پھر جنگ میں کودنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، لیکن کسی دوسرے ملک کی طرف سے منظم جنگ کا حصہ بننا اس سے بھی زیادہ تباہ کن ہوگا۔ اس وقت ضروری ہے کہ نہ صرف مالی وسائل کی ترغیب کا انکار کیا جائے بلکہ اس سے بھی اہم یہ ہے کہ ماضی کے ساتھی کو حرف انکار کہنے کیلئے ہمت اور حوصلہ بھی ہونا چاہئے۔پاکستان کو اپنی بنیادی پالیسی کی خرابیوں کی وجہ سے کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے جس کے نتائج اس کے عوام کو برداشت کرنا پڑ رہے ہیں ۔ وہ امید اور بہتر مستقبل کے وعدے کے ساتھ زندگی میں آگے بڑھنے سے محروم ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پسماندگی اور رجائیت سے محرومی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے ہیں۔ ماضی میں اپنی غلطیوں کے اسیر رہے ، لیکن آج بیگانی توپوں کا ایندھن بننے سے بچنے کیلئے اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ دفتر خارجہ کے ترجمان کی طرف سے انٹرسپٹ کہانی کو محض مسترد کر دینا کافی نہیں ہو گا، خاص طور پر جب ماضی میں ایسی کوششیں بے کار ثابت ہوئی تھیں۔ موجودہ نگراں حکومت کو عوام کو قائل کرنا چاہئے کہ ایسا کوئی انتظام نہ تو موجود ہے اور نہ ہی اس کا تصور کیا گیا ہے۔ اس سے کم پر عوام مطمئن نہیں ہوں گے۔