آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں قیدیوں کے فن پاروں پر مبنی تین روزہ آرٹ اینڈ کرافٹس نمائش اختتام پذیر ہوگئی، اختتامی تقریب کا انعقاد احمد پرویز آرٹ گیلری میں کیا گیا۔
تقریب میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، آئی جی جیل خانہ جات احمد مصطفیٰ، سپرنٹنڈنٹ جیل خانہ جات حسن سہتو، سابق آئی جی سندھ غلام نبی میمن، انور مقصود، سابق صوبائی وزیر سعید غنی، امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن، پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما تاج حیدر، اداکار ساجد حسن، نسرین جلیل، قیدی فنکاروں میں محمد اعجاز، اللّٰہ ودایو اور محکمہ پولیس کے اعلیٰ افسران سمیت معروف سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔
بطور مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہا کہ 2007ء میں نصرت منگن نے جیل میں آرٹ اسکول قائم کیا، یہ پاکستان کی پہلی جیل ہے جس کی سب تعریف کرتے ہیں، جیل کا کھانا شہر کے اچھے ریسٹورنٹس سے کم نہیں۔
انھوں نے کہا سینٹرل جیل ایک تاریخی جیل ہے، جہاں فیض احمد فیض، مولانا محمد علی جوہر، ولی خان سمیت بڑی شخصیات رہ چکی ہیں۔ اس جیل کو میوزیم کا درجہ دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا محمد علی جوہر اور فیض احمد فیض کی کوٹھریوں کو ان کے نام سے منسوب کیا جائے، جیل کا اپنا میوزیم ہونا چاہیے، جیل سے ہنر سیکھ کر باہر آنے والے اب دوسروں کو سکھا رہے ہیں، آرٹس کونسل کی آرٹ فیکلٹی ہر ہفتے جیل کا وزٹ کرے گی، یہ تین دن کی شاندار نمائش تھی، ہم پوری کوشش کریں گے کہ اس نمائش کو پورے پاکستان میں لے کر جائیں۔
معروف ادیب و دانشور انور مقصود نے کہا کہ میں نے نمائش دیکھی بہت خوبصورت کام ہے، بہت دنوں بعد اچھی نمائش دیکھ کر دل خوش ہوا، میرا دل چاہ رہا ہے کہ ان قیدیوں سے ملوں، سب کی خطاطی بہت اچھی ہے، میں ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ان قیدیوں میں بہت سے فنکار ایسے ہیں جنہیں عمر قید اور کچھ کو سزائے موت ہوچکی ہے، میں اعلیٰ افسران سے درخواست کروں گا کہ ان کی سزا میں کمی کی جائے۔
آئی جی سندھ جیل خانہ جات سید انور مصطفیٰ نے کہا کہ اصل محنت اس کام کو اجاگر کرنا ہے، حسن سہتو نے یہ بیڑا اٹھایا، احمد شاہ کا بہت شکریہ کہ انہوں نے ہمیں موقع دیا۔
سپرنٹنڈنٹ جیل خانہ جات حسن سہتو نے کہا کہ میں کوشش کرتا ہوں معاشرے کی جو امانتیں میرے پاس ہیں انہیں بہتر طریقے سے واپس لوٹا سکوں، قیدی جیل میں بیٹھ کر کار آمد شہری بنیں، جیل میں آنے والوں کے خاندان متاثر ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا جیل میں آنے والے قیدی اپنے گھروں کی کفالت کر سکیں، میرا مقصد تھا کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ قیدیوں کو کارآمد شہری بنا کر واپس بھیجتے ہیں، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمارا ساتھ دیا۔
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما تاج حیدر نے کہا کہ یہ نمائش اس بات کا ثبوت ہے کہ جیل کی دیواریں انسان کے تخلیقی ذہن کو قید نہیں کر سکتیں، قوموں کو اُمید آگے بڑھاتی ہے، جیل کے باہر تو نا امیدی ہے لیکن جیل کے اندر امید ہے، برے حالات میں آگے بڑھنے کا جذبہ ہی انسان کو مضبوط بناتا ہے، اس نمائش کو پورے پاکستان لیکر جانا چاہیے تاکہ وہاں کے لوگوں کو بھی معلوم ہو کہ قیدی بھی کسی سے کم نہیں۔
سابق صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ قیدیوں نے بہت منفرد کام کیا ہے، مجھے بہت خوشی اور حیرت ہے کہ سزائے موت کے قیدیوں نے جیل میں رہتے ہوئے یہ کام سیکھا، جو جیلوں میں نہیں ہیں انہیں بھی چاہیے کہ اس طرح کے فن سیکھیں، ہماری کوشش رہی ہے کہ جیل کے اندر لوگوں کی ایسی تربیت کی جائے کہ وہ جرائم سے دور ہو جائیں۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ بہت ہی خوبصورت اور دیدہ زیب نمائش ہے جو فن کے اعتبار سے لاجواب ہے، حیرت ہے کہ جیل میں رہتے ہوئے یہ افراد ایسے فن کے اظہار کر رہے ہیں، بد قستی سے ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ جیل میں لوگ بگڑتے ہیں، جیل ایک بہتر انسان بنانے کی جگہ ہونی چاہیے اس کی کامیابی کا سہرا احمد شاہ اور حسن سہتو کو جاتا ہے جنہوں نے اس نمائش کا انعقاد کیا۔
سابق آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ اس زبردست اقدام پر جیل انتظامیہ اور آرٹس کونسل کو مبارکباد دیتا ہوں، یہ ایک ڈسپلے نہیں بلکہ احساس ہے جسے حسن سہتو نے محسوس کیا، یہ احساس میرے دل کے بہت قریب ہے، کرمنل کا صحیح نظریہ دنیا کو دکھایا جانا بھی ضروری ہے، معاشرے کو منفرد چہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
نسرین جلیل نے کہا کہ یہ بہت اعلیٰ کام ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے مجھے اندازہ ہے کہ جیل میں کیا ذہنی دباﺅ ہو تا ہے، بہت عمدہ عکاسی کی گئی ہے، میں نے آج تک صرف پینٹ کلرز کا کام دیکھا لیکن انہوں نے اپنی تخلیق میں سلائی اور موتیوں سے کام کیا ہے، اس سے قیدیوں کی آمدنی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، جس سے ان کے گھر والوں کی مدد ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا احمد شاہ کی محنت ہے انہوں نے آرٹس کونسل کو اس مقام پر پہنچایا ہے، جو پاکستان کا سب سے بڑا ثقافتی مرکز ہے، آرٹس کونسل میں پاکستان تھیٹر فیسٹیول بھی ہو رہا ہے جس میں دنیا بھر سے لوگ آر ہے ہیں، احمد شاہ نے اپنی محنت اور لگن سے ثابت کیا کہ انسان اگر کچھ کرنا چاہے تو وہ کرسکتا ہے۔
اداکار ساجد حسن نے کہا کہ آج بہت زبردست کام دیکھنے کو ملا ہے، قیدیوں نے بڑی مہارت سے فن پارے اور آرٹ کا کام کیا ہے، اس طرح کے اقدام سے قیدیوں کے رویوں اور سوچ میں تبدیلی آئے گی، میں سمجھتا ہوں کہ آج جو کام دیکھا اس سے جرائم کی شرح میں کمی آئے گی۔
میں سپرنٹنڈنٹ جیل خانہ جات حسن سہتو اور محمد احمد شاہ کو اتنی شاندار نمائش پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی احمد شاہ کی سربراہی میں فن و ثقافت کی فروغ کے لیے بڑا کام کررہا ہے۔
قیدی فنکار محمد اعجاز نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں عمر قید کا قیدی ہوں، 2014 سے جیل میں ہوں اور 2017 سے آرٹ کا کام کر رہا ہوں، آج آپ لوگوں کے درمیان آ کر بہت خوشی ہو رہی ہے، میں نے پہلے سادہ پینٹنگز سے آغاز کیا پھر تھری ڈی پینٹنگز پر کام کیا، اپنے استاد کی وجہ سے آج میں اس مقام پر ہوں، اپنی کیفیت بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
قیدی فنکار اللّٰہ ودایو نے کہاکہ جیل میں رہتے ہوئے شوق پیدا ہوا کہ فائن آرٹس کی طرف آئیں اور شوق ہی شوق میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل گیا، جیل میں وقت گزارنے کے لیے یہ بہت اچھا مشغلہ ہے۔
آخر میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ کو محکمہ پولیس کی جانب سے تعریفی اسناد سے نوازا گیا جبکہ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے سپرنٹنڈنٹ جیل حسن سہتو اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور جیل کے فائن آرٹ اسکول کے استاد حسنین رضا کو ایوارڈ پیش کیا، آرٹس کونسل کے آرٹ اسکول کے کوآرڈینیٹر عاصم نقوی کو بھی سرٹیفکیٹ دیاگیا۔